Connect with us
Monday,04-August-2025
تازہ خبریں

سیاست

مالیگاؤں پاورلوم ادیوگ وکاس سمیتی اور بھیونڈی کے مشترکہ وفد کی بجلی سبسیڈی کے لئے لازمی رجسٹریشن کی شرط پر کامیاب نمائندگی

Published

on

mallegaon-iuhigyfcgtuyiui9j

مالیگاؤں (خیال اثر )
آج مالیگاؤں اور بھیونڈی کےبنکروں پر مشتمل ایک مشترکہ وفد نے ریاستی وزیر ٹیکسٹائل اسلم شیخ سے ملاقات کی ودھان سبھا کا اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کی وجہ سے میٹنگ کافی تاخیر سے منعقد ہوئی. ودھان سبھا میں جانے کے لئے کویڈ ٹیسٹ لازمی ہونے کی وجہ سے میٹنگ وزیر ٹیکسٹائل اسلم شیخ کے بنگلے پر منعقد ہوئی جس میں شرکاء میٹنگ نے بجلی بلوں میں سبسیڈی جاری رکھنے کے لئے رجسٹریشن کو لازمی قرار دئے جانے سے متعلق بنکروں کی بے چینی سے وزیر موصوف کو آگاہ کیا اور رجسٹریشن میں ہونے والی دشواریوں مثلاً پاور بل کسی نام پر ہے لیکن پلاٹ مشترکہ خاندان کے سبھی لوگوں کے نام پر ہے یا بجلی بل پہلے سے کسی کے نام پر ہے اور وہ انتقال کر چکا ہے لیکن بجلی بل پر اب تک وہی نام چل رہا ہے یا پلاٹ اور بجلی بل ایک ہی نام پر ہے مگر جی ایس ٹی رجسٹریشن خاندان کے کسی اور فرد کے نام ہے یہ باتیں مشترکہ خاندان ہونے کی وجہ سے مالیگاؤں اور بھیونڈی میں عام ہے بلکہ مشترکہ خاندان کی روایت تو سارے ہندوستان میں ہی عام ہے اسی وجہ سے انکم ٹیکس ایکٹ میں Undivided Family کے نام سے مستقل چیپٹر موجود ہے کتنے ہی بنکر کرائے پر کارخانے لیکر چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے بجلی بل پر موجود نام اور جی ایس ٹی رجسٹریشن کے نام الگ الگ ہیں بونافائیڈ بنکروں میں زیادہ تر بنکر اپنے موروثی کارخانوں میں کپڑے بننے کا کام کررہے ہیں جسکی پروجیکٹ ویلیو نکالنا آسان نہیں وزرات نے جن چیزوں کی تفصیل طلب کی ہے اسے صرف وہی لوگ مہیا کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنے کارخانوں کی بنیاد مختلف ریاستی اور مرکزی اسکیموں کے تحت رکھی ہے تمام پاورلوم کارخانوں کے ریکارڈ اور منظور شدہ لوڈ کا ریکارڈ بجلی سپلائی کمپنی کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے مہاراشٹر کی پاورلوم صنعت کے تعلق سے بتاتے ہوتے ہوئے شرکاء میٹنگ نے وزیر موصوف کو بتلایا کہ مہاراشٹر میں پاورلوم کی تعداد دوسری کسی بھی ریاست سے زیادہ ہے اور ہندوستان کی صنعت پارچہ بافی میں اسکا حصہ 65 فی صد ہے جو ریاست کے لیے روزگار کا بہترین ذریعہ ہے جی ایس ٹی کے ذریعے پاورلوم صنعت سے ریاست کو اچھا محصول بھی حاصل ہوتا ہے ساتھ ہی ریاست کے لاکھوں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے ایک ایسے وقت میں جب مختلف ریاستیں روزگار کے زرائع پیدا کرنے پر لاکھوں کروڑ خرچ کررہی ہیں اور Ease of Doing Business کی پالیسی کے تحت کاروبار کرنے میں حائل مشکلات کو دور کررہی ہیں وزرات کا رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ انسپکٹر راج کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے بنکر گزشتہ کچھ سالوں سے شدید مشکلات کا شکار ہیں جی ایس ٹی اور اسکی غیر مستقل پالیسی سے بنکروں کو مصائب کا سامنا ہے سوتی و مصنوعی دھاگوں کی مہنگائی اور انکے نر خوں میں اتار چڑھاو سے بنکر حراساں ہے بین الاقوامی سطح پر چین بنگلہ دیش پاکستان سے سخت حریفائی کا سامنا ہے ان مشکل حالات میں وزارت کو چاہیے کہ رجسٹریشن کی لازمی شرط کو فوراً واپس لے اور پاورلوم کارخانوں کے کم از کم تین مہینے کے بجلی بلوں کو معاف کرے اور ریاست کے پاورلوم سینٹروں سے نمائندہ تنظیموں کی ایک مشترکہ میٹنگ منعقد کرکے صنعت کی ترقی کے لئے تجاویز طلب کرے اور اس پر عمل بجاونی کرکے صنعت کو استحکام دے
وزیر ٹیکسٹائل نے وفد کی باتوں کو بغور سننے کے بعد کہا کہ میں آپ کی پریشانیوں کو سمجھ رہا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ 27 ہارس پاور سے کم لوڈ والوں کا مسئلہ حل کردوں گا اور اس طریقے ہر کہ آگے سرکار بدلی بھی ہوجائے وزارت کسی دوسرے وزیر کے پاس چلے جائے لیکن یہ تب بھی یہ مسئلہ نا اٹھے لیکن اسکے لئے مجھے ضروری ڈرافٹس کی ضرورت ہوگی جسکو مہییا کرنے کی ذمہ داری پاور لوم ادیوگ وکاس سمیتی کے صدر ساجد انصاری اور بھیونڈی کے رشید طاہر مومن نے لی ساجد انصاری اور رشید طاہر مومن نے 27 ہارس پاور سے اوپر والوں کابھی مسئلہ حل ہونے تک اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے
آج کے اس وفد میں مالیگاؤں پاورلوم ادیوگ وکاس سمیتی کے صدر ساجد آزاد انصاری، نہال دانے والے آصف انور عزیز سدا علی بھیونڈی کے رشید طاہر مومن اور انکے رفقاء موجود تھے

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی مدنپورہ مخدوش عمارت تاش کے پتوں کی طرح گر گئی

Published

on

Madanpura..

ممبئی کے مدنپورہ میں ایک مخدوش و خستہ حال عمارت تاش کے پتوں کی طرح منہدم ہوگئی یہ عمارت خستہ حالی کا شکار تھا۔ عمارت خالی تھی جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ یہ عمارت مدنپورہ پوسٹ آفس بلڈنگ بائیکلہ ویسٹ پر واقع تھی اور گراؤنڈ فلور سمیت تین منزلہ تھی۔ عمارت منہدم ہونے کے ساتھ ہی یہاں افراتفری مچ گئی۔ فائر بریگیڈ عملہ بی ایم سی و متعلقہ عملہ جائے وقوع پر پہنچ گیا اور اب ملبہ ہٹانے کا کام بھی جاری ہے۔ عمارت کے منہدم ہونے کے ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا اور دھواں دھواں فضا میں پھیل گیا۔ عمارت کے منہدم ہونے کے بعد یہاں لوگوں کا مجمع جمع ہوگیا, جس کی وجہ سے ٹریفک نظام میں خلل پیدا ہوگئی اور ٹریفک جام ہوگیا, جس وقت یہ حادثہ پیش آیا عمارت کے اطراف کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر عمارت کے منہدم ہونے کی ویڈیو وائرل ہے, انتظامیہ نے حادثہ کے بعد سڑک سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔ اس عمارت کے انہدام کے سبب عوام خوفزدہ ہوگئے۔ عمارت گرنے کے فورا بعد مقامی عوام جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کی جس کے سبب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگیا۔ جس میں چند لمحوں میں ہی پوری عمارت تاش کے پتوں کے طرح گر گئی۔

ممبئی پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر شہریوں کو یہاں سے منتقل کیا, اس کے ساتھ ہی سڑک کے ٹریفک کو زائل کرنے کیلئے کوشش شروع کر دی۔ فی الوقت مدنپورہ میں عمارت کا ملبہ ہٹانے کا کام جنگی پیمانے پر جاری ہے اور خوش قسمتی سے اس حادثہ میں کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس عمارت کو بی ایم سی نے سی ون زمرے میں رکھا تھا اور اسے مخدوش قرار دیدیا گیا تھا۔ پولیس نے جائے حادثہ پر سخت سیکورٹی لگا دی ہے۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

بھارت نے ٹرمپ کی ٹیرف کی شرط ناکام بنا دی، چین نے بھی روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کے فیصلے کی حمایت کر دی، امریکا کو بڑا جھٹکا لگے گا

Published

on

trump, modi & putin

نئی دہلی : کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو دھمکی دے کر کوئی غلطی کی ہے؟ جس طرح ٹرمپ نے ہندوستان کو روس کے ساتھ تجارت پر 25 فیصد ٹیرف اور اضافی جرمانے کی تنبیہ کی اس پر ہندوستان نے سخت موقف اختیار کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کی ٹیرف دھمکیوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ انہوں نے ہندوستانیوں سے مقامی مصنوعات خریدنے اور ‘میک ان انڈیا’ کو فروغ دینے پر زور دیا۔ یہی نہیں ٹرمپ کی دھمکی کے باوجود مودی حکومت نے روس سے خام تیل خریدنا بند نہیں کیا۔ ہندوستان روسی سمندری خام تیل کی برآمدات کا ایک بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر کو اس وقت بڑا جھٹکا لگا جب چین نے بھی بھارت کے فیصلے کی حمایت کردی۔ برسوں بعد چین نے ہندوستانی خارجہ پالیسی کو آزاد قرار دے کر اس کی تعریف کی ہے۔ چین کے اس اقدام سے امریکہ کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت اور چین کی دشمنی صاف نظر آتی تھی۔ تاہم اب صورتحال بدل رہی ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات آہستہ آہستہ پٹری پر آ رہے ہیں۔

چین پہلے ہی روس کا اہم اقتصادی اور سفارتی اتحادی ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت پر ٹرمپ کا اثر محدود ہے کیونکہ بیجنگ اب بھی نایاب زمینی مقناطیس کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ امریکہ کی ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے لیے ضروری ہے۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے مقصد سے بات چیت ہوئی۔ دونوں ممالک نے اس سال کے شروع میں ایک دوسرے کی مصنوعات پر محصولات میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا تھا۔ تاہم چین کا سخت رویہ دیکھ کر فوراً ہی ٹرمپ بیک فٹ پر آگئے اور صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اب ٹرمپ نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، تاہم ان کی حکمت عملی یہاں بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

روس، چین اور بھارت کی تینوں نے جس طرح امریکی صدر کے اس اقدام پر زیادہ توجہ نہیں دی وہ ٹرمپ کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ پہلے ٹرمپ نے چین کو ٹیرف کے اقدام سے دھمکی دینے کی کوشش کی۔ تاہم وہ ناکام رہا۔ پھر امریکی صدر نے پیوٹن پر یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس سے بھی کام نہ ہوا۔ اب اس نے ٹیرف اور جرمانے کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی۔ یہاں بھی اسے ایک جھٹکا لگا۔ ہندوستان اپنے پرانے دوست روس کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔ روس سرد جنگ کے دور سے ہندوستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بھی ایک حالیہ بیان میں واضح طور پر کہا کہ یہ رشتہ ایک مستحکم اور وقت کی آزمائش کی شراکت کی نمائندگی کرتا ہے۔

جیسوال نے زور دے کر کہا کہ مختلف ممالک کے ساتھ ہندوستان کے دو طرفہ تعلقات آزاد ہیں۔ ان کا کسی دوسرے ملک کے نقطہ نظر سے جائزہ نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے مسلسل مثبت نقطہ نظر پر اعتماد کا اظہار کیا۔ درحقیقت امریکہ نے ہندوستان کے تئیں اپنا موقف بدل لیا ہے۔ صدر ٹرمپ اب یوکرین تنازعہ کے حوالے سے ولادیمیر پوٹن پر دباؤ ڈالنے کی اپنی حکمت عملی کے تحت ہندوستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی حالیہ تنقید خاص طور پر برکس میں ہندوستان کی شرکت اور روس کے ساتھ اس کے مسلسل تعلقات کے بارے میں تھی۔

Continue Reading

(جنرل (عام

سپریم کورٹ میں راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کیس کی سماعت، عدالت نے راہل کے بیان سے اتفاق نہیں کیا اور سخت ریمارکس دیے۔

Published

on

S.-Court-&-Rahul

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کیس میں بہت سخت تبصرہ کیا۔ جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے راہل کے بیان سے اختلاف ظاہر کیا۔ سینئر وکیل ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے راہول گاندھی کی جانب سے جرح شروع کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ اگر کوئی اپوزیشن لیڈر کوئی مسئلہ نہیں اٹھا سکتا تو یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہوگی۔ اگر پریس میں شائع ہونے والی باتیں بھی نہیں کہی جا سکتیں تو اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتا۔ اس پر جسٹس دتہ نے کہا کہ جو کچھ آپ (راہل) کو کہنا ہے، آپ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں کہتے؟ آپ کو سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟

راہل گاندھی کے تبصروں سے مزید اختلاف ظاہر کرتے ہوئے جسٹس دتا نے پوچھا : ڈاکٹر سنگھوی، آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ 2000 مربع کلومیٹر ہندوستانی علاقہ چینیوں کے قبضے میں ہے؟ کیا تم وہاں تھے؟ کیا آپ کے پاس کوئی معتبر مواد ہے؟ آپ بغیر کسی ثبوت کے یہ بیانات کیوں دے رہے ہیں؟ اگر آپ سچے ہندوستانی ہوتے تو یہ سب نہ کہتے۔

سنگھوی : یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی سچا ہندوستانی کہے کہ ہمارے 20 ہندوستانی فوجیوں کو مارا پیٹا گیا اور یہ تشویشناک بات ہے۔

جسٹس دتہ : کیا یہ غیرمعمولی بات ہے کہ جب تصادم ہوتا ہے تو دونوں طرف سے جانی نقصان ہوتا ہے؟

سنگھوی : راہول گاندھی صرف درست انکشاف اور معلومات کو دبانے پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔

جسٹس دتہ : کیا سوالات اٹھانے کا کوئی مناسب فورم ہے؟

سنگھوی : عرضی گزار اپنے مشاہدات کو بہتر انداز میں بیان کر سکتا تھا۔ یہ شکایت محض سوالات اٹھانے پر اسے ہراساں کرنے کی کوشش ہے۔ سوال پوچھنا اپوزیشن لیڈر کا فرض ہے۔ دفعہ 223 بی این ایس ایس کسی مجرمانہ شکایت کا نوٹس لینے سے پہلے ملزم کی پیشگی سماعت کا تقاضا کرتی ہے، جس کی اس کیس میں پیروی نہیں کی گئی ہے۔

جسٹس دتا : دفعہ 223 کا یہ مسئلہ ہائی کورٹ کے سامنے نہیں اٹھایا گیا۔

سنگھوی نے اعتراف کیا کہ اس معاملے کو اٹھانے میں غلطی ہوئی ہے۔

سنگھوی : ہائی کورٹ میں چیلنج بنیادی طور پر شکایت کنندہ کے دائرہ اختیار پر مرکوز تھا۔ سنگھوی نے ہائی کورٹ کے استدلال پر سوال اٹھایا کہ شکایت کنندہ، اگرچہ متاثرہ نہیں ہے، لیکن وہ ذلیل شخص ہے۔ بنچ نے آخر کار اس نکتے پر غور کرنے پر اتفاق کیا اور راہل کی خصوصی رخصت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا گیا جس میں کارروائی کو منسوخ کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے تین ہفتوں کی مدت کے لیے عبوری روک لگا دی ہے۔

یہ وکلاء شکایت کنندہ کی طرف سے تھے۔
شکایت کنندہ کی جانب سے سینئر وکیل گورو بھاٹیہ اس کیس میں کیویٹ پر پیش ہوئے۔ 29 مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے راہل گاندھی کی عرضی کو مسترد کر دیا۔ ہتک عزت کے کیس کے ساتھ ہی راہل نے فروری 2025 میں لکھنؤ کی ایم پی ایم ایل اے کورٹ کے ذریعہ سمن کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

راہل گاندھی نے یہ تبصرہ کب کیا؟

ہائی کورٹ کے جسٹس سبھاش ودیارتھی نے کہا تھا کہ تقریر اور اظہار رائے کی آزادی میں ہندوستانی فوج کے خلاف توہین آمیز بیانات دینے کی آزادی شامل نہیں ہے۔ بارڈر روڈ آرگنائزیشن (بی آر او) کے سابق ڈائریکٹر ادے شنکر سریواستو کی طرف سے دائر ہتک عزت کی شکایت اور فی الحال لکھنؤ کی ایک عدالت میں زیر التوا کہا گیا ہے کہ راہل نے 16 دسمبر 2022 کو اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران مبینہ توہین آمیز ریمارکس کیے تھے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں راہل گاندھی کو راحت دیتے ہوئے کارروائی پر روک لگا دی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com