Connect with us
Thursday,14-November-2024
تازہ خبریں

(جنرل (عام

نااہل عوامی نمائندوں کے مقابل متحرک نوجوانوں کی یلغار نئے انقلابوں کی آمد کا اشارہ !!!

Published

on

خیال اثر مالیگانوی
مالیگاؤں بلدیہ کو جس دن سے کارپوریشن کا درجہ دیا گیا ہے کارپوریشن یکے بعد دیگرے معاشی تنزلی کا شکار ہوتے جارہی ہے. ٹیکسوں کی وصولی کا گراف گرتا جارہا ہے وہیں تعمیری اقدامات بھی روز بروز پستی کا شکار ہوتے جارہے ہیں. شہری لیڈران نے شہریان کو تعمیر و ترقی کا خواب دکھاتے ہوئے اپنا خود کا فائدہ تو حاصل کر لیا لیکن شہر کو پستی میں ڈھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے کھنڈر میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے. اقتدار کی تبدیلی بھی شہر کے حق میں نفع بخش ثابت نہیں ہو سکی ہے. شہر کی خستہ حال سڑکیں, چوک چوراہے, گلیاں اور دیگر تعمیرات بھی آہ و فغاں کرتے ہوئے اپنی تعمیروں پر ماتم کناں ہیں. خستہ حال تعمیروں کی ہر پکار آج صدا بصحرا ثابت ہوتی جارہی ہے. یہ سب دیکھتے ہوئے شہر کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل “مالیگاؤں ڈیولپمنٹ فرنٹ “نامی تنظیم نے نیند کے شہر میں آواز کا پہلا پتھر پھنیکتے ہوئے اپنی موجودگی کا گونجدار اشارہ دیا ہے . اس تنظیم نے بےحس عوامی نمائندگان اور سرکاری آفیسران کو بے حسی کی نیند سے نکالنے کی بھرپور کوشش شروع کر دی ہے. اس تنظیم کی پہلی ہی گونجدار دستک سے کارپوریشن کی پتھریلی دیواریں, عوامی نمائندگان اور سرکاری آفیسران کے عالیشان قصر لرزہ براندام ہوئے لیکن ان کی یہ گونج دار دستک بازگشت کی صورت واپس لوٹ آئی. یہ گونج دار دستک بازگشت کی صورت شہر میں گونج ہی رہی تھی کہ مالیگاؤں کے نوجوان وکلاء کا ایک متحرک گروپ بھی شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے بے خطر میدان عمل میں اپنی موجودگی ثبت کر گیا.
نوجوان وکلاء کا یہ گروپ شہر کی تعمیر و ترقی کا مسئلہ لے کر میونسپل کمشنر دیپک کاسار سے ملنے کی کوشش کی لیکن ان کی غیر موجودگی میں ڈپٹی کمشنر نتن کاپڑنیس سے ملاقات کرکے انھیں شہر کی خستہ حالی کی جانب متوجہ کیا. اس گروپ نے مرکزی و ریاستی حکومتوں سے دستیاب شدہ فنڈ اور مالیگاؤں کے حاصل کردہ ٹیکسوں کی حصول یابی کا اوسط طلب کرتے ہوئے گفت و شنید کی. وکلاء کے اس گروپ نے نائب کمشنر کو شہر کی خستہ حال سڑکوں اور صاف صفائی کے ناقص انتظامات کی جانب بھی متوجہ کیا. مالیگاؤں ڈیولپمنٹ فرنٹ اور نوجوان وکلاء کے گروپ پر مشتمل نوجوانوں کا میدان عمل میں آنا ایک نئے انقلابوں کا اشارہ و استعارہ ثابت ہو سکتا ہے. ان نوجوانوں کے تیور یہ ثابت کرتے ہیں کہ اب یہ قافلہ کسی بھی صورت کہیں بھی رکنے والا نہیں ہے. ان بلند حوصلہ نوجوانوں کا گروپ شہر کے لئے کتنا فیض رساں ثابت ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ نئے انقلابوں کا یہ نیا اشارہ شہر کی خستہ حالی کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا کیونکہ آج شہر کے ہاتھوں میں کھونے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہا اور پانے کے لئے سب کچھ ہے.
آج شہر کو صرف اور صرف میدان عمل میں آتے ہوئے بغاوتوں کا پرچم لہرانا ہے. ساتھ ہی شہر کی خستہ حالی دور کرنے کے علاوہ تعمیر و ترقی کے نئے در “وا “کرنے کے لئے فلک شگاف ایسے نعرے لگانے کی ضرورت ہے جو پتھریلی اور اے سی آفسوں میں موجود خطیر تنخواہ حاصل کرنے والے سرکاری آفیسران اور عوامی نمائندگان کو بےحسی کی نیندوں سے جگانے کا سبب جائیں. آج شہر کو ضرورت ہے کہ ایسے بلند حوصلہ نوجوانوں کی پذیرائی کرتے ہوئے دو چار قدم ان کے ساتھ چلتے جائیں تاکہ یہ نوجوان اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کا ذریعہ بن جائیں.
دیکھئے…….. چند نوجوانوں پر مشتمل مفلوک الحال نوجوانوں کا قافلہ بلند شگاف نعرہ لگاتے ہوئے رواں دواں نظر آرہا ہے. یہ تمام نوجوان کھنڈر بنتے ہوئے مالیگاؤں کی عظمت رفتہ واپس لانے کا خواب سجائے ہوئے عملی طور پر اپنے خستہ حال مکانوں سے نکل کر جوق در جوق نئی منزلوں کی تلاش میں پا برہنہ نکل کھڑے ہوئے ہیں. ان سب کا ایک ہی خواب ہے کہ مالیگاؤں سنگا پور اور شنگھائی نہ سہی وہ مالیگاؤں بن جائے جسے ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سینچا تھا. یہ ناممکن نہیں ممکن ہو سکتا ہے اگر شہریان اپنے کشکول میں جھوٹے وعدوں کی خیرات کی بجائے عملی اقدامات کی تعبریں طلب کرنا شروع کردیں. آج کے موجودہ لیڈران سے نالاں شہریان نئے انقلابوں کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ایک نا ایک دن ایک نئے مالیگاؤں کی بنیاد رکھنے میں ضرور بہ ضرور کامیاب و کامران ہوں گے بس ضرورت ہے کہ کھلے دل سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے. یہ حقیقت ہے کہ یہ بے لوث اور بےداغ نوجوانوں کا قافلہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی خمدار زلفوں کا اسیر نہیں بلکہ یہ تمام نوجوان مختلف سیاسی پارٹیوں کا جائزہ لینے کے بعد جب پایا تو ہر سیاسی پارٹی کا مقصد صرف اور صرف اقتدار پر قابض ہو کر مالی فوائد حاصل کرنا ہے. شہر کی تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں سبھی سیاسی پارٹیاں اور لیڈران بری طرح ناکام نظر آرہے ہیں یہی سبب ہے کہ انھوں نے کسی لیڈر, پارٹی اور کسی بھی قائد و سالار,قائد نسل نو, حبیب ملت, نقیب ملت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے عزم ارادے کو میر کارواں مانتے ہوئے آواز جرس بلند کی ہے. ان کا نعرہ یہی ہے کہ
نیند کے شہر میں آواز کا پتھر پھینکوں کوئی جاگے کہ نہ جاگے میں برابر پھینکوں
اسی کے ساتھ ساتھ ذی شعور شہریان کا سیاسی لیڈران اور سرکاری آفیسران سے کہنا ہے کہ اپنی مہنگی ترین کاروں میں بیٹھ کر شہر کی شاہراؤں اور چوک چوراہوں سے گزرتے ہوئے اپنی اپنی لگژری کاروں کے شیشے اور اپنی عینکیں اپنے مہنگے ترین رومال سے صاف کرتے ہوئے ایک نظر اوبڑ کھابڑ راستوں اور گندگی و تعفن سے اٹی ہوئی گلیوں کی طرف دیکھ لیں اور اگر یہ سب دیکھ کر ذرا بھی شرم آئے تواس کا مداوا کردیں شاید یہی کچھ میدان حشر میں ان کی بخش کا سبب جائے لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ سب دیکھتے ہوئے بھی وہ اپنے عالیشان مکانوں کے نرم گداز بستروں پر محو استراحت ہو کر پریوں کی آغوش اور خواب خرگوش میں گم ہو کر اپنی زنبیل سے پھر کوئی نیا تماشہ نکالتے ہوئے شہریان کو “خوش گمانیوں” کے صحراؤں میں جلنے اور جھلسنے کے لئے چھوڑ جائیں گے-

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

(جنرل (عام

کرنی سینا کے قومی صدر راج سنگھ شیخاوت کا بڑا اعلان… لارنس گینگ کے گولڈی-انمول-روہت کو مارنے والوں کو ایک کروڑ روپے تک کا نقد انعام۔

Published

on

Karni-Sena-&-Lawrence

جے پور : کھشتریہ کرنی سینا کے قومی صدر راج سنگھ شیخاوت ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ انہوں نے بدنام زمانہ گینگسٹر لارنس بشنوئی کے بھائی انمول بشنوئی کو قتل کرنے والے شخص کے لیے ایک کروڑ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا ہے۔ یہی نہیں راج سنگھ شیخاوت نے لارنس گینگ کے حواریوں کو مارنے پر مختلف انعامات کا اعلان بھی کیا ہے۔ راج سنگھ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کرکے انعام کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل لارنس پر انعام کا اعلان کر چکے ہیں لیکن صرف لارنس ہی نہیں اس کے پورے گینگ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں گینگ کے کارندوں پر انعامی رقم کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

راج سنگھ شیخاوت کا کہنا ہے کہ دادا میرے گرو ہیں اور وہ ان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ سکھدیو سنگھ گوگامیڈی کو دادا کہہ کر مخاطب کر رہے تھے کیونکہ سماج کے بہت سے لوگ اور گوگامیڈی کے حامی انہیں دادا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ شیخاوت نے کہا کہ دادا کو گینگسٹر لارنس بشنوئی گینگ نے قتل کیا تھا۔ قتل کے بعد گینگ نے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ ایسے میں وہ صرف لارنس پر انعام کا اعلان کرنے کے بجائے اس گینگ کے تمام ارکان کو مارنے والوں کو نقد انعام دیں گے۔ انعام کی رقم کھشتریہ کرنی سینا خاندان کی طرف سے دی جائے گی۔

1… انمول بشنوئی (لارنس بشنوئی کا بھائی) – ایک کروڑ روپے
گولڈی برار پر 51 لاکھ روپے …2
3… روہت گودارا پر 51 لاکھ روپے
4… سمپت نہرا پر 21 لاکھ روپے
5… وریندر چرن پر 21 لاکھ روپے

کچھ دن پہلے بھی راج سنگھ شیخاوت نے گینگسٹر لارنس بشنوئی پر نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی پولیس والا لارنس کو مارتا ہے یا انکاونٹر کرتا ہے وہ جیل میں ہوتا ہے۔ وہ اس پولیس اہلکار کو ایک کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ روپے کا نقد انعام دیں گے۔ حال ہی میں جب راج سنگھ شیخاوت نے لارنس بشنوئی کے انکاؤنٹر پر پولیس والوں کے لیے نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔ ان دنوں سکھدیو سنگھ گوگامیڈی کی اہلیہ شیلا شیخاوت نے کہا کہ ان کے بیان کا شری راشٹریہ راجپوت کرنی سینا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک الگ تنظیم کے صدر ہیں اور ان کا گوگامیڈی کی طرف سے بنائی گئی شری راشٹریہ راجپوت کرنی سینا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی اعلان کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، ہماری تنظیم اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ شیلا شیخاوت نے یہ بھی کہا کہ گوگامیڈی سے محبت کرنے والے ہزاروں لوگ ہیں، یہ ان پر منحصر ہے کہ کون کب کیا اعلان کرتا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

کملا ہیرس امریکہ کی صدر کیوں نہ بن سکیں؟ تسلیمہ نسرین نے انٹرویو میں وجہ بتا دی، ازدواجی زیادتی پر بڑی بات کہہ دی۔

Published

on

Taslima-Nasrin

مشہور مصنفہ تسلیمہ نسرین کی دو کتابیں حال ہی میں راج کمل پرکاشن سے ریلیز ہوئیں۔ اول، عورت: حقوق اور قانون اور دوسری عورت: معاشرہ اور مذہب۔ ان کتابوں میں اس نے گھریلو تشدد، شادی اور طلاق، ہم جنس پرستی، خواتین کے جسم، خواتین کے حقوق اور قانون اور بنگلہ دیش میں ہندو خواتین کی حیثیت سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔ ان مسائل پر نیش حسن نے ان سے بات کی۔ اس گفتگو کے اہم اقتباسات پیش ہیں :

سوال: آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ خواتین کو سرخ آنکھیں دکھا رہا ہے، اسی لیے عورتیں چھپ رہی ہیں۔ لیکن امریکی معاشرے میں خواتین برابر اور آزاد ہیں، اس کے باوجود وہاں ایک بھی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ ایسا کیوں؟
جواب: کملا حارث نائب صدر تھیں، انہیں صدر بننا چاہیے تھا۔ اس کی اپنی سیاسی وجوہات ہیں۔ بائیڈن کے دور میں مہنگائی بڑھی، فلسطین میں جنگ جاری ہے، اس لیے امریکی مسلمانوں کا رخ ٹرمپ کی طرف ہوگیا، ان کا بائیڈن سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔ ڈیموکریٹس کے دور میں اتنی غلطیاں ہوئیں کہ ٹرمپ مخالف لوگ بھی ٹرمپ کی طرف متوجہ ہوگئے، ورنہ کملا حارث صدر بن سکتی تھیں۔ امریکہ میں اس وقت کچھ خواتین مخالف سوچ ہے۔ یورپ میں کوئی مسئلہ نہیں، خواتین وہاں آتی رہتی ہیں۔

امریکہ میں نہ صرف خواتین بلکہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ بھی مسئلہ تھا۔ کسی زمانے میں یہ نسل پرست ملک تھا، بعد میں قانون کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔ اوباما اسی صورت میں صدر بن سکتے ہیں جب نسل پرستی کو روکا جائے۔ یہاں تک کہ 60 کی دہائی تک کالوں کے لیے الگ اور گوروں کے لیے الگ ٹوائلٹ تھے۔ بس میں بھی کالے لوگ پیچھے، گورے سامنے بیٹھتے تھے۔ غلامی کا اثر دیرپا رہا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک سیاہ فام شخص کبھی صدر بنے گا، لیکن اس نے ایسا کیا۔ وہاں بھی کوئی خاتون صدر ضرور بنے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں جو عورتیں عورتیں بنیں وہ زیادہ تر خاندانی تعلقات کی وجہ سے تھیں۔

اندرا گاندھی بھی نہرو کی وجہ سے آئیں، سونیا گاندھی نے بھی راجیو گاندھی کی وجہ سے سیاست میں بڑا مقام حاصل کیا۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا۔ خالدہ ضیا، شیخ حسینہ، سب اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے آئیں۔ بے نظیر بھٹو بھی اپنے خاندان کی وجہ سے پاکستان آئیں۔ اس برصغیر میں سب کچھ خاندانی تعلقات کی وجہ سے ہوا۔ دوسری طرف معاشرے میں عورتیں مردوں کے برابر ہیں جو کہ یہاں نہیں ہے۔

سوال: بنگلہ دیشی ہندو خواتین کی ان دنوں زمینی صورتحال کیسی ہے؟
جواب: وہاں بھی مساوی قانون نہیں ہے۔ یکساں سول کوڈ بھی نہیں ہے۔ ہندو ہندو صحیفوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ مسلمان مسلم قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ہندو لڑکی کو جائیداد کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم وہاں ہندو قانون کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ سماج کے اندر سے مخالفت ہو رہی ہے۔ جس طرح یہاں کے مسلمان مرد یکساں سول کوڈ نہیں چاہتے، اسی طرح وہ مسلم خواتین کے لیے مساوی قوانین نہیں چاہتے۔

سوال: اگر ہم ہندوستان میں تعداد ازدواج کی بات کریں تو مسلمان زیادہ بدنام ہیں۔ لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تعداد ازدواج کی شادیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں میں ہوئی ہے، مسلمانوں میں سب سے کم۔ کیا کہیں گے؟
جواب: جی ہاں، یہ سچ ہے کہ ہندوؤں نے تعداد ازدواج زیادہ کیا ہے۔ لیکن وہاں یہ جائز نہیں ہے۔ جو بھی کرتا ہے وہ غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں میں جائز ہے، ہے نا؟ اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ایسی شادیاں زیادہ کر رہے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ڈیٹا کو سمجھتے ہیں؟ وہ کچھ نہیں جانتے، اسی لیے یہ افواہ ہے کہ مسلمان زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے تعداد ازدواج کو روکنا چاہیے۔

سوال: ہندوستانی مسلمانوں میں متعہ آج بھی جاری ہے۔ کیا یہ اس دور کی ضرورت ہے؟
جواب: عورتوں کو جنسی اشیاء کے طور پر رکھنا بہت بری بات ہے۔ ایسا کونسا رشتہ ہے جس میں محبت نہیں، عزم نہیں، یہ ایک طرح کی عصمت فروشی ہے۔ میں اس کے خلاف ہوں۔

سوال: آپ نے اپنی کتاب میں ہم جنس پرستی کی بات کی ہے۔ اس معاملے پر ہماری حکومت کی سوچ ابھی واضح نظر نہیں آتی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یورپ اور امریکہ بہت ترقی یافتہ ممالک ہیں، لیکن ہم جنس شادی کی ابھی تک ہر جگہ اجازت نہیں ہے، کچھ ممالک میں اس کی اجازت ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے ایل جی بی ٹی کیو لوگوں کو ایک ساتھ رہنے کو قبول کر لیا ہے۔ جب اس طرح کی تحریکیں تیز ہوں گی اور مطالبہ بڑھے گا تو پھر آہستہ آہستہ حکومت بھی شادی کی اجازت دے گی۔

سوال: ہندوستان میں ایک طرف خواتین کے تحفظ کے لیے نئے قوانین بنانے کی بات ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف این سی آر بی کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم بڑھ رہے ہیں۔ کیا کہیں گے؟
جواب: قانون کا ہونا اچھی بات ہے لیکن معاشرے کا نظام عورت مخالف ہے۔ برسوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس لیے قانون کا اثر ابھی نظر نہیں آ رہا۔ خواتین اب بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں، کام کرتی ہیں، کاروبار کرتی ہیں اور مالی طور پر قابل بھی ہوتی جا رہی ہیں، لیکن معاشرے کا پدرانہ نظام اب بھی خواتین مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے اور گھریلو تشدد ہوتا ہے۔

سوال: ازدواجی عصمت دری کا سوال ہندوستان میں کئی سالوں سے اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت نے اس پر قانون لانے سے انکار کر دیا۔ اس بارے میں قانون کی ضرورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: ریپ جیسی ازدواجی عصمت دری کی شکایات ابھی تک موصول نہیں ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں ازدواجی عصمت دری کو بھی عصمت دری جیسا جرم سمجھا جانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ عصمت دری کا جرم کم ہو جائے کیونکہ شادی ہوئی تھی۔ جب شوہر اپنی بیوی کو مارتا ہے اور جب کوئی نامعلوم شخص کسی لڑکی کو قتل کرتا ہے تو یہ ایک ہی جرم ہے، پھر ریپ کیوں مختلف ہو؟ عصمت دری کا مطلب ہے عصمت دری، چاہے کوئی بھی کرے۔ ازدواجی عصمت دری کو بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کی آئینی بنچ آج اہم فیصلہ سنائے گی۔

Published

on

Court-&-AMU

نئی دہلی: سپریم کورٹ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کے بارے میں آج اپنا فیصلہ سنائے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ اقلیتی ادارے کے طور پر یونیورسٹی کی حیثیت برقرار رہے گی یا نہیں۔ اس سے پہلے سی جے آئی چندر چوڑ کی صدارت والی آئینی بنچ نے اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ سی جے آئی کے علاوہ اس بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی شامل ہیں۔ پردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ایس سی شرما۔

سپریم کورٹ کی آئینی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے ایک فیصلے کے سلسلے میں سماعت کر رہی تھی۔ ہائی کورٹ کے حکم میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ سال 2019 میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے کیس کو سات ججوں کی بنچ کے حوالے کر دیا تھا۔ سات ججوں کی آئینی بنچ نے آئین ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کی اور بعد میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے آٹھ دن تک اس کیس کی سماعت کی۔

سال 1968 کا ایس۔ عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں سپریم کورٹ نے اے ایم یو کو ایک مرکزی یونیورسٹی سمجھا تھا، لیکن سال 1981 میں اے ایم یو ایکٹ 1920 میں ترمیم کرکے انسٹی ٹیوٹ کی اقلیتی حیثیت بحال کردی گئی۔ بعد میں اسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com