Connect with us
Sunday,12-October-2025

خصوصی

دہلی فساد: جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے مزید 6 افراد کی ضمانت منظور

Published

on

جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پر ماخوذ مسلم ملزمان شاداب احمد،راشد سیفی، شاہ عالم،محمد عابد،ارشد قیوم اورشاہ عالم کو کڑکڑڈوما سیشن عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی کے ساتھ مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ ان کے باعزت بری ہونے تک ہماری کوشش جاری رہے گی اور فسادات کی روک تھام کے لئے ضلعی انتظامیہ کو جواب بنانا ضروری ہے۔جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر گذشہ دو دونوں میں کڑکڑڈوما سیشن عدالت نے ملزمین شاداب احمد،راشد سیفی، شاہ عالم اور محمد عابد کو ایف آئی آر نمبر 117/20 (دیال پور پولس اسٹیشن) اور ارشدقیوم، شاہ عالم کو ایف آئی آرنمبر 98/93/2020 مقدمہ میں مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔جمعیۃ علماء کے توسط سے اب تک دہلی ہائی کورٹ اور سیشن عدالت سے16 مبینہ ملزمان کوضمانت مل چکی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فسادات میں مبینہ طور پر پھنسائے گے سیکڑوں مسلمانوں کے مقدمات لڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی خصوصی ہدایت پر ملزمین کی ضمانت پر رہائی کے لیئے سیشن عدالت سے لیکر دہلی ہائی کورٹ تک قانونی کوششیں جاری ہیں۔ملزمین شاداب احمد،راشد سیفی، شاہ عالم اور محمد عابد کو ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے پچیس ہزار روپئے کے ذاتی مچلکہ پر ضمانت پررہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے، سرکاری وکیل نے ملزمین کی ضمانت پررہائی کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی سے نسق امن میں خلل پڑسکتا ہے لیکن عدالت نے دفاعی وکلاکے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کرلی۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ملزمین کی پیروی ایڈوکیٹ ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاون وکیل ایڈوکیٹ دنیش نے کی اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں پولس کی جانب سے چارج شیٹ داخل کی جاچکی ہے اور ملزمین کے خلاف الزامات پر ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہیں لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (خطرناک ہتھیاروں سے فساد برپا کرنا،آتش گیر مادہ یا آگ زنی سے گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر جمع ہونا)اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 (عوامی املاک کوآتش گیر مادہ یا آگ زنی سے نقصان پہنچانا) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور ملزمین گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے جیل میں مقید ہیں۔صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے ان تمام لوگوں کی ضمانت عرضیوں کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محض ضمانت پررہائی ہی ہمارا مقصود نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ دہلی فسادمیں جن لوگوں کو جبراًملزم بناکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا گیا ہے ان کو قانونی طورپر انصاف ملے اور ان کی باعزت رہائی ہو۔انہوں نے کہا کہ دہلی فسادکے تعلق سے انگریزی کے بعض موقراخبارات میں تمام حقائق سامنے آچکے ہیں کہ کس طرح اس کی سازش تیار ہوئی، اس میں کون کون لوگ شامل تھے اور کس طرح ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے کو منصوبہ بند طریقہ سے ان فسادات میں نشانہ بناکر تباہ وبربادکیا گیا مگر افسوس صدافسوس دہلی پولس نے تفتیش کے نام پر یکطرفہ کارروائی کرکے انہی لوگوں کو جرم کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا جو ان فسادات کا اصل شکارتھے، انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کی قانونی مددکا حقیقی مقصدیہی ہے کہ تمام بے گناہ لوگوں کو بہرصورت قانونی مدد پہنچاکر انصاف دلایا جائے، اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کو مسلسل کامیابی حاصل ہورہی ہے ہمارے وکلاء کی جدوجہد رنگ لارہی ہے جس کے نتیجہ میں مہینوں سے جیلوں میں بند افرادکی ضمانت کی عرضیاں سرکاری وکیل کی پر زور مخالفت کے باوجود منظور ہورہی ہیں۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند پچھلے ستر برسوں سے مذہب کی بنیاد پر ہوئے تشدد، مظالم اور فسادات کے خلاف ایسا سخت قانون بنانے کا مطالبہ کررہی ہے جس میں ضلع انتظامیہ کو جوابدہ بنایا جائے۔میرا طویل تجربہ یہ ہے کہ ایس ایس پی اور ڈی ایم کو اگر یہ خطرہ لاحق رہے کہ فساد کی صورت میں خودان کی اپنی گردن میں پھندا پڑ سکتا ہے تو کسی کے چاہنے سے بھی کہیں فساد نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہاکہ انتظامیہ کو ذمہ دار بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے قانون کی بھی ضرورت ہے کہ جو راحت، ریلیف اور بازآبادکاری کے کاموں میں یکسانیت لائے اور حکام کو اس کا پابند بنائے، سردست ایسا کوئی قانون ملک میں موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے فساد زدگان کے معاوضے میں بڑے پیمانے پر تفاوت رہتا ہے۔ مولانا نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر دعوی کیا کہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جس منظم انداز میں فساد برپا کئے جاتے ہیں ٹھیک اسی منظم انداز میں پہلے ہی سے مجرموں کو بچانے کی بھی تیاری کرلی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بے گناہ جیل پہنچادیا جاتاہے اور اصل خاطی آزاد رہتے ہیں۔انہوں نے اخیرمیں کہا کہ بلا شبہ ملک کے حالات مایوس کن اور خطرناک ہیں، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ امیدافزاء بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔ہمیں ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں حالات کے رحم وکرم پر نہیں رہتیں بلکہ اپنے کردارو عمل سے حالات کا رخ پھیر دیتی ہیں۔یہ ہمارے امتحان کی سخت گھڑی ہے چنانچہ ہمیں کسی بھی موقع پر صبر، یقین امید اور استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے، وقت ہمیشہ ایک جیسانہیں رہتا قوموں پر آزمائش کی گھڑیاں اسی طرح آتی رہتی ہیں۔واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند اب تک دہلی فسادات سے متاثرین کے درمیان 55مکانات اور دومساجد کی تعمیر جدید اور مرمت کرا کر صاحب خانہ کو سپرد کرچکی ہے اور ان شاء آئندہ کچھ دنوں میں زیر تعمیر بقیہ مکانات متاثرین کے حوالے کریگی-

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

(جنرل (عام

سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

Published

on

Sonam-Wangchuck

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، “کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔

وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

Published

on

kashmir

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔

عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

Published

on

Waqf-Meeting

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ​​ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔

اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟

جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com