Connect with us
Monday,07-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

سری کرشنا کمیشن مقدمہ التواءکا شکار، عدالتی کارروائی آگے بڑھانے کا مطالبہ

Published

on

babri-masjid

ممبئی میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے دسمبر1992اور جنوری 1993میں دودور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ میں سماعت التواءشکار ہوگئی ہے اور اس درمیان ایک عرض گزار ڈاکٹر عظیم الدین نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے ،کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کو ئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے ترس گئے ہیں جن میں رفیق ماپکر بھی شامل ہے،جوکہ وڈالا کی ہری مسجد میں نمازیوںپر ہونے والی اندھادھندپولیس فائرنگ میں زخمی ہوگیا تھا۔اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔انہوںنے انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔سپریم کورٹ کے گوشورے مطابق گزشتہ 12 فروری 2019کو ہونے والی سماعت ہوئی اور جسٹس ایس اے بوبرے ،جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس دیپک گپتا کی بینچ نے سماعت کی اور آئندہ تاریخ مقررکی تھی تاکہ سماعت ہوسکے لیکن فریقین کی غیر حا ضری کے نتیجے میں یکم اگست 2019کو جسٹس بوبڑے ،جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوائی پر مشتمل بینچ کے روبروسماعت ہونا تھی لیکن پھر اس مقدمہ کو معطل کردیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی تفصیل پائی جاتی ہے۔سپریم کورٹ میں ایکشن کمیٹی فار ایمپلیمنٹ آف سری کرشنا رپورٹ نے 21اگست 1998کو رپورٹ کے نفاذ کے لیے مقدمہ دائر کیا اور ایک ماہ بعد 21ستمبر 1998کو سپریم کورٹ نے اسے سماعت کے لیے منظورکرلیا ،سول رٹ پٹیشن 527\\1998کی سماعت کاآغاز ہوا۔ دراصل مہاراشٹر حکومت نے فسادات کی تحقیقات کے لیے سری کرشنا کمیشن تشکیل کی تھی ،لیکن آج دودہائی گزر جانے کے باوجودکمیشن کی رپورٹ کو نافذ نہیں کیا گیا ہے اور متاثرین آج بھی انصاف سے محروم اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمہ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔امسال سپریم کورٹ میں گزشتہ 12 فروری 2019کو ہونے والی سماعت ہوئی اور جسٹس ایس اے بوبرے ،جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس دیپک گپتا کی بینچ نے سماعت کی اور آئندہ تاریخ مقررکی تھی ،ایڈوکیٹ انیس سہروردی کے انتقال کے بعد جناب شکیل احمد سید اور اعجاز مقبول صاحب پیروی کررہے ہیں۔جبکہ مذکورہ رٹ پٹیشن کے عرض گزار میں ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ مولانا ظہیر عباس رضوی ،فیاض احمد خان،مفتی عبدالرحمن ملی ،اور ڈاکٹر ایم عظیم الدین شامل ہیں جوکہ ممبئی کی مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔جبکہ فریق حکومت ہندکے محکمہ قانون وانصاف اور کمپنی امور کے سکریٹری اور حکومت مہاراشٹرکے چیف سکریٹری کو بنیا گیا تھا۔واضح رہے کہ پہلے شیوسینا۔بی جے پی محاذ حکومت اور پھر کانگریس۔این سی پی اتحادسرکار نے اسے نافذ کرنے میں کوتاہی برتی تھی ،جس کے بعد رپورٹ کو نافذکرنے کے لیے ممبئی میں ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تاکہ رپورٹ کی سفارشات کو نافذکرکے قصورواروںکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ،لیکن 1999میں کانگریس۔این سی پی اتحاد نے چند چیزوں کو چھوڑ کر رپورٹ کو ٹھنڈے بسہ میں ڈال دیا۔حالانکہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ رٹ پٹیشن کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مقدمہ کا اب کوئی پرسان حال نہیں ہے اور تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ فروری میں عدالت عظمیٰ نے فریقین کو چار ہفتے کا وقت دیا تھا ،مگر اس کے بعد سماعت ہر تاریخ پر آگے بڑھ جاتی ہے۔سری کرشنا کمیشن رپورٹ کو ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ کہا جاتا ہے ،جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کمےشن کے سامنے جوثبوت پےش کیے گئے ہیں۔اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان میں جوحیرانی فطرت پائی جاتی ہے۔اس کی خواہش میں وہ ہرحال میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔اختلاف کشمکش ہیجان اوررنگ ونسل اور مذہب پر بھی تنازعات پےدا ہوتے ہیں۔اس ملک سے برطانوی سامراج کو باہر نکالنے کے لیے ہندوؤ ںاور مسلمانوں نے متحد ہوکر آپسی ملنساری کے ساتھ جدوجہد کی تھی۔اس اتحاد واتفاق کو محمدعلی جناح کے ”دوقومی نظریہ “ نے تباہ وبربادکردیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی طورپرملک کی تقسیم ہوگئی اور سرحد کے دونوں جانب لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوںکا قتل عام کیا گیا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دیگر فرقے کی اکثریت اور اثرورسوخ رکھنے والے علاقوںمیں رہائش پذیر تھے۔انہوںنے ملک کی آزادی اور اس ہندوستانی آئین کو تسلیم کرلیا تھا ،جس نے اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ رعایتیں بھی دی تھیں۔ ایک وقفہ کے ساتھ اقلیتی فرقہ کو دیئے جانے والے خصوصی اختیارات نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر کرنا شروع کیا۔ہندوؤں میں یہ خوف پایا جانے لگا کہ جلد ہی وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سوچ نے صورت حال کو کافی بگاڑدیا اور ”ہم اور وہ “ کی نفسیات پنپنے لگی۔اس کا سیاسی فائدہ مفاد پرستوں نے اٹھایا اور ہندوؤں کے ایک طبقہ نے متعدد مساجد کو آزاد کرانے کے لیے مہم شروع کردی ،جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مسلم دورحکومت میںانہیں مندر سے ہی مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا ،اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔ایک بار پھر ہندووادی (ہندو?ں کی فرقہ پرست جماعتوں،تنظےموں)نے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے ہیں۔اس تنازعہ نے اس وقت سنگین ر ±خ اختیار کرلیا ،جب عدلیہ کی جانب سے مقدمہ میں کافی تاخیر ہوگئی اور سیاسی مفاد کے لیے اس معاملہ کو ایک نیار ±خ ۰۹کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیا اور اس کے سربراہ ایل اے اڈوانی نے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ پرعوامی(ہندو?ں) بیداری پیدا کرنے کے لیے رتھ یاترا نکالی اور اس دوران جگہ جگہ چھوٹے بڑے پیمانے پرفسادات ہوئے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

‎ممبئی مانخورد شیواجی نگر کا پل وزنی گاڑیوں کے لئے شروع کیا جائے : ابوعاصم اعظمی

Published

on

asim

‎ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی نے ایوان اسمبلی میں مطالبہ کیا ہے کہ مانخورد شیواجی نگر میں جان لیوا حادثات پر قدغن لگانے کے لئے فلائی اوور کو وزنی گاڑیوں کے لئے شروع کیا جائے۔ مانخورد شیواجی نگر میں ہر ماہ جان لیوا حادثات ہو رہے ہیں۔ پہلے جی ایم لنک روڈ پر تیار کئے گئے پل پر ہائی ٹینشن تاریں تھیں، پھر وزنی گاڑیوں کی وجہ سے پل کو بند کر دیا گیا۔ بعد ازاں تاریں بھی ہٹا دی گئیں اور محکمہ فلائی اوور نے وزنی گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے, تاہم اب بھی ہیوی وزنی گاڑیوں کی آمدورفت کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ آج ایوان میں اس پل پر وزنی گاڑیوں کی آمدورفت شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ابوعاصم اعظمی نے کہا کہ ابھی حال میں ایک اندوہناک حادثہ یہاں پیش آیا, جس میں تین اموات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑک حادثات پر قدغن لگانے کے لئے ضروری ہے کہ اس پل کو شروع کیا جائے, کیونکہ یہ پل وزنی گاڑیوں کی گزرنے کی استطاعت رکھتا ہے, لیکن اس کے باوجود اس پل پر وزنی گاڑیوں کے گزر پر پابندی عائد ہے, اسے فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ ٹریفک کا مسئلہ اور حادثات پر قدغن لگے۔

Continue Reading

سیاست

ممبئی راج اور ادھو ٹھاکرے اتحاد، مرد کون ہے عورت کون ہے : نتیش رانے کی تنقید

Published

on

Nitesh-Rane

ممبئی مہاراشٹر میں مراٹھی مانس کے لئے راج اور ادھو ٹھاکرے کے اتحاد پر بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے نے ادھو اور راج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ہمارے درمیان کے اختلافات ختم ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے انہیں اتحاد پر مجبور کیا, جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے وہ فڑنویس نے کیا ہے۔ اس پر نتیش رانے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی کے دور میں سپریہ سلے نہ کہا تھا کہ فڑنویس اکیلا تنہا کیا کرلیں گے, یہ اس بات کا جواب ہے انہوں نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کرسکے, وہ فڑنویس نے کیا۔ مزید طنز کرتے ہوئے رانے نے کہا کہ اختلافات ختم ہونے پر جو جملہ راج ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے مرد کون ہے, اور عورت کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے حال چال سے لگتا ہے کہ وہ کیا ہے, لیکن اس پر ادھو ٹھاکرے وضاحت کرے۔

Continue Reading

جرم

دہلی کی ایک عدالت نے اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا، بھنڈاری پر واڈرا سے تعلق کا الزام، رابرٹ واڈرا کی بڑھے گی ٹینشن

Published

on

Sanjay-Bhandari-&-Robert

نئی دہلی : دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے ہفتہ کو اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا۔ یہ فیصلہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی درخواست کے بعد آیا۔ خصوصی عدالت نے یہ حکم مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ 2018 کے تحت جاری کیا ہے۔ اس فیصلے سے بھنڈاری کی برطانیہ سے حوالگی کی ہندوستان کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ بھنڈاری 2016 میں لندن فرار ہو گیا تھا جب متعدد تفتیشی ایجنسیوں نے اس کی سرگرمیوں کی جانچ شروع کی تھی۔

اس واقعہ سے رابرٹ واڈرا کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ واڈرا پر ہتھیاروں کے ڈیلروں سے روابط رکھنے کا الزام ہے اور وہ زیر تفتیش ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل واڈرا کو منی لانڈرنگ کیس میں تازہ سمن جاری کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی بھنڈاری کے ساتھ ان کے تعلقات کا الزام ہے۔ ای ڈی نے 2023 میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔ ای ڈی کا الزام ہے کہ بھنڈاری نے 2009 میں لندن میں ایک پراپرٹی خریدی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ الزام ہے کہ یہ رقم واڈرا نے دی تھی۔ واڈرا نے کسی بھی طرح کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے ان الزامات کو ‘سیاسی انتقام’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ واڈرا نے کہا، ‘سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔’

بھنڈاری کے خلاف یہ کارروائی ای ڈی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس سے واڈرا کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔ ای ڈی اب بھنڈاری کو ہندوستان لانے کی کوشش کرے گی۔ واڈرا کو حال ہی میں ای ڈی نے سمن بھیجا تھا۔ لیکن وہ کوویڈ علامات کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوا۔ ای ڈی اس معاملے میں واڈرا سے پوچھ گچھ کرنا چاہتا ہے۔ ای ڈی جاننا چاہتا ہے کہ واڈرا کا بھنڈاری سے کیا رشتہ ہے۔ یہ معاملہ 2009 کا ہے۔ الزام ہے کہ بھنڈاری نے لندن میں جائیداد خریدی تھی۔ ای ڈی کا کہنا ہے کہ یہ جائیداد واڈرا کے پیسے سے خریدی گئی تھی۔ واڈرا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی سازش ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا ای ڈی واڈرا کے خلاف کوئی ثبوت تلاش کر پائے گی؟ کیا بھنڈاری کو بھارت لایا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والے وقت میں مل جائیں گے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com