Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

بابری مسجد کی حفاظت میں ناکام رہنے والے سابق کانگریس وزیراعظم نرسمہاراٶ کو بھارت رتن دینے کی سفارش

Published

on

(نامہ نگار)
جس طرح بابری مسجد کی شہادت کو کوٸی ایمان والا کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بابری مسجد کی شہادت کی معلومات دیں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس وقت مقتدر کانگریس پارٹی کے دوغلے رویہ کے بارے میں بھی آنے والی نسلوں کو بتانا بھی نہایت ضروری ہے ۔ یہ وہی کانگریس پارٹی ہے جس نے آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کام کیا ہے ۔ پہلے تو سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کے ہمدرد بننے کا ڈھونگ رچایا گیا ۔ بدلے میں ستر سال تک وطن عزیز بھارت میں مسند اقتدار پر قابض رہے ۔ اور ہزاروں فسادات و سینکڑوں بم بلاسٹ کا تحفہ مسلمانوں کو ملا ۔ آج امت جن سیاسی مساٸل سے دوچار ہے اسکی ذمہ دار یہی دوغلی نام نہاد سیکولر کانگریس پارٹی ہے ۔
بابری مسجد میں رات کے اندھیرے میں مورتی رکھ دی جاتی ہے ۔ اسے ہٹانے میں کانگریس ناکام رہتی ہے بلکہ الٹا مسجد کو تالا لگا دیا جاتا ہے ۔ پھر شیلا نیاس کی اجازت بھی اسی کانگریس کے وزیراعظم کی دین ہے ۔ نماز کی اداٸیگی پر پابندی اور پوجا کے لیۓ عارضی چبوترہ بھی انہی کانگریسیوں کی دین ہے ۔ مسجد کی حفاظت کے لاکھ دعوٶں و وعدوں کے باوجود انگریس کے ہی وزیراعظم نرسمہاراٶ کے دور میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی جاتی ہے ۔ جس کے قصورواروں کو آج تک سزا نہیں مل سکی ۔ شہادت کے بعد بھی مسلمانوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا وعدہ دے کر ٹہلایا گیا ۔
کانگریس کا دوغلا پن پھر سامنے آیا جب بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد جب بابری مسجد کی جگہ وہاں مندر بننے کے عمل کا آغاز ہوا تو یہی دوغلی چوگلی کانگریس کے نام نہاد سیکولروں نے مندر کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کے لیۓ بڑے بڑے دعوٶں پر مشتمل بیانات جاری کیۓ ۔ مگر کانگریس میں شامل مسلمانوں کے منہ پر نہ جانے کیوں پٹی بندھی رہی ۔ اور وہ منہ میں گھگنی بھرے بیٹھے رہے ۔ اپنے سیاسی آقاٶں کی ناراضگی کے خوف سے پورے ملک کے کسی بھی کانگریسی کی زبان تک نہیں ہلی ۔ بلکہ مقامی طور سے الگ الگ پاکھنڈ رچا کر عوام کی توجہ کو ہٹانے کی کوشش کی گٸی ۔ اس وقت بھی کل ھند مجلس اتحادالمسلمین ہی تھی جس نے ببانگ دہل مسجد کے حق میں بیانات دیۓ تھے ۔
ابھی ایک مرتبہ پھر کانگریس کا دوغلا رویہ دیکھنے کو ملا ۔ تلنگانہ اسمبلی کے جاری اجلاس میں بابری مسجد کی حفاظت میں ناکام رہنے والے کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راٶ (جو کہ اب آنجہانی ہوچکے ہیں) کو بعد از مرگ بھارت رتن دینے کی تجویز پیش کی گٸی ۔ تو ابھی پھر سے ایک مرتبہ مجلس اتحادالمسلمین کے تمام ایم ایل ایز نے ہی پوری شدت سے اسکی مخالفت کی ۔ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کانگریس کے مسلم ایم ایل اے شبیر علی نے اس تجویز کی حمایت کی ۔ اور اسکے بعد بھی اگر تنقید کی جاتی ہے تو صرف کل ھند مجلس اتحادالمسلمین پر ہی ؟
وطن عزیز بھارت کا ہر مسلمان چاہے وہ کانگریسی ہی کیوں نہ ہو جب بھی مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، و ملی مساٸل پر آفت آتی ہے تو انکے کان نیند میں بھی کل ھند مجلس اتحادالمسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کی آواز کے منتظر رہتے ہیں ۔ اور بعد میں انکو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ مسلمانان وطن کو اس بارے میں غور کرنے اور اپنے پراۓ کا فرق کرنے کی موجودہ دور میں سخت ضرورت یے ۔

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا… بری سفارت کاری، ناکام حکمت عملی، یوم آزادی پر جانیے اس کے زوال کی کہانی

Published

on

America

واشنگٹن : امریکا آج اپنا یوم آزادی منا رہا ہے۔ 4 جولائی 1976 کو امریکہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے قدیم ترین جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ آزادی کے بعد امریکہ نے دنیا کو باور کرایا کہ ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے، ایک ایسی قوم جو جمہوریت، آزادی اور عالمی قیادت کی اقدار کا پرچم اٹھائے گی۔ لیکن آج، جیسا کہ ہم 2025 میں امریکہ کے لیے اس تاریخی دن پر نظر ڈالتے ہیں، ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے : امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف بیرونی چیلنجز نہیں ہیں، بلکہ اندر سے ابھرنے والے سیاسی اور اسٹریٹجک عدم استحکام بھی اس زوال کی وجہ ہیں۔ امریکہ اب عالمی جغرافیائی سیاست کا واحد کھلاڑی نہیں رہا۔ ٹائم میگزین میں لکھتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی مشیر ڈینس راس جو کہ اب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مشیر بھی ہیں، نے لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک بہت مہنگی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس سے بہت محدود فوائد حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اس نے دنیا کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے انہدام نے جغرافیائی سیاست پر امریکہ کی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کیا۔ 1990 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے وسط تک، امریکہ نے سفارت کاری، فوجی طاقت، اقتصادی اثر و رسوخ اور تکنیکی قیادت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی شرائط پر چلایا۔ لیکن اس عرصے میں کچھ اہم غلط فیصلوں نے آہستہ آہستہ امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر 2003 میں عراق کی جنگ میں امریکہ کا داخلہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ عراق جنگ میں امریکہ بغیر کسی ٹھوس حکمت عملی کے ایک طویل اور مہنگی جنگ میں الجھ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ملکی سطح پر بھی قیادت کے تئیں عدم اعتماد بڑھ گیا۔

انہوں نے لکھا کہ روس ابھی تک ہمیں چیلنج نہیں کر رہا تھا لیکن 2007 میں میونخ سیکیورٹی فورم میں ولادیمیر پوٹن نے ایک قطبی دنیا کے خیال کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونا ہے اور کہا کہ روس اور دیگر لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس وقت ان کے دعوے نے امریکی بالادستی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن آج حقیقت بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر، ہمیں عالمی حریف کے طور پر چین اور روس کا سامنا ہے، چین کے ساتھ اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کا چیلنج ہے۔ علاقائی سطح پر ہمیں ایران اور شمالی کوریا کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ اقتصادی، تکنیکی اور عسکری طور پر اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط طاقت ہو سکتا ہے… لیکن ہمیں اب ایک کثیر قطبی دنیا میں کام کرنا چاہیے جس میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اور یہ رکاوٹیں بین الاقوامی سے لے کر ملکی سطح تک ہوں گی۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس جیسے لیڈروں کی قیادت میں ایک نئی امریکی قوم پرستی ابھری ہے، جس کی کتاب امریکہ کو عالمی رہنما کے طور پر تصور نہیں کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو صرف اپنی قومی ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے، چاہے وہ عالمی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے لکھا کہ “2006 میں میں ایک ایسے امریکہ کے بارے میں لکھ رہا تھا جو عراق میں ہمارے کردار پر بحث کر رہا تھا لیکن پھر بھی بین الاقوامی سطح پر امریکی قیادت پر یقین رکھتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے دنیا میں ہمارے کردار کی قیمت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھائے اور اس اتفاق رائے کو ختم کر دیا کہ امریکہ کو قیادت کرنی چاہیے۔”

ڈینس راس کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کی اب سب سے بڑی کمزوری اس کے بیان کردہ مقاصد اور ان کے حصول کے لیے وسائل کے درمیان عدم توازن ہے۔ افغانستان سے عجلت میں واپسی ہو، یا شام میں نیم دلانہ مداخلت، یا یوکرائن کے تنازع میں حمایت پر اٹھنے والے سوالات، ہر جگہ یہی نظر آرہا ہے کہ امریکہ نے اپنے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگر قیادت میں تبدیلی نہ لائی گئی اور حالات کو درست نہ کیا گیا تو امریکہ کی پالیسی نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تر امریکی شراکت دار دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا امریکہ پر عدم اعتماد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک مضبوط روس اور ایک جارح چین کا سامنا ہے اور اگر امریکہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کرتا رہا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔

Continue Reading

سیاست

مہاراشٹر مراٹھی ہندی تنازع قانون ہاتھ میں لینے والوں پر سخت کارروائی ہوگی وزیر اعلی دیویندر فڑنویس

Published

on

D.-Fadnavis

ممبئی مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے ہندی مراٹھی لسانیات تنازع پر یہ واضح کیا ہے کہ لسانی تعصب اور تشدد ناقابل برداشت ہے, اگر کوئی مراٹھی زبان کے نام پر تشدد برپا کرتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے, تو اس پر سخت کارروائی ہوگی, کیونکہ نظم و نسق برقرار رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا روڈ ہندی مراٹھی تشدد کے معاملہ میں پولس نے کیس درج کر کے کارروائی کی ہے۔ مراٹھی اور ہندی زبان کے معاملہ میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی سفارش پر طلبا کے لئے جو بہتر ہوگا وہ سرکار نافذ العمل کرے گی کسی کے دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندی زبان کی سفارش خود مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں کی گئی تھی, لیکن اب یہی لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام سب جانتے ہیں, انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ۵۱ فیصد مراٹھی ووٹ اس الیکشن میں حاصل ہوئے ہیں۔ زبان کے نام پر تشدد اور بھید بھاؤ ناقابل برداشت ہے, مراٹھی ہمارے لئے باعث افتخار ہے لیکن ہم ہندی کی مخالفت نہیں کرتے, اگر دیگر ریاست میں مراٹھی بیوپاری کو کہا گیا کہ وہاں کی زبان بولو تو کیا ہوگا۔ آسام میں کہا گیا کہ آسامی بولو تو کیا ہوگا۔ انہوں نے قانون شکنی کرنے والوں پر سخت کارروائی ہوگی۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com