Connect with us
Sunday,12-October-2025

سیاست

مختارعباس نقوی نےکہاکہ این پی آر بھی کسی طور مسلمانوں کے خلاف نہیں

Published

on

mukhtar-abbas

اس تمہید کے ساتھ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں موجودہ حکومت بلا تفریق مذہب و ملت ہر ضر ورت مند کی آنکھوں میں خوشی اور زندگی میں خوشحالی لانے کے عزم کے ساتھ کام کررہی ہے، اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سٹیزن شپ ترمیم ایکٹ،این آر سی اور اب قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کا سرکاری فیصلہ کسی بھی طرح ہندستانی مسلمانوں کے خلاف نہیں ۔
انہوں نے اپنے ایک آرٹیکل میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اس وضاحت کی تائید کی ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ، کسی کی شہریت لینے کے لئے نہیں بلکہ شہریت دینے کے لئے ہے اور اینآرسی کا 1951 سے تعلق آسام کے علاوہ کہیں اور سے نہیں۔
مسٹر نقوی نے الزام لگایا کہ سٹیزن شپ ترمیم ایکٹ،این آر سی اور اب قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کے فیصلے کے حوالے سےسماج کے ایک طبقے میں ”خوف اور شک کا بھوت“کھڑا کیا جارہا ہے۔ ”جھوٹ کے جھاڑ سے سچ کے پہاڑ“ کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں 2014 سے اب تک کے سرکاری کام کاج کوقوم کے حق میں مجموعی طو ر پر خودمختاری اور ظاہری خوشحالی سے سرشار ی کی کوشش پر محمول کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں جن 2 کروڑ غریبوں کو گھر دیا گیا ہے ان میں 31 فیصد اقلیتی آبادی خاص طور پر مسلم طبقہ کی ہے۔ 6 لاکھ دیہاتوں میں بجلی پہنچائی تو 39 فیصد سے زیادہ اقلیتی طبقے کے گاؤں جن کے مکانات روشن ہیں، 22 کروڑ کسانوں کو ”کسان سمان ندھی“ کے تحت فوائد دیئے گئے تو، اس میں بھی 33 فیصد سے زیادہ اقلیتی طبقے کے غریب کسان ہیں۔ اسی طرح 8کروڑ خواتین کو ”اْجوّ لا یوجنا“ کے تحت مفت گیس کنیکشن دیا تو اس میں 37 فیصد اقلیتی طبقے کے غریب خاندان مستفید ہو ئے۔ 21کروڑ افراد کو ”مدرایوجنا“ کے تحت روزگار سمیت دیگر معاشی سرگرمیوں کے لئے آسان قرضے دیئے گئے ہیں جن میں 36 فیصد سے زیادہ اقلیتی طبقے کے افراد مستفید ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ بجلی،سڑک،پانی،تعلیم،روزگار، ذاتی روزگار کے پروگراموں کا بھرپور فائد ہ اقلیتی سماج کے غریب کمزور طبقے کو ہوا، کیونکہ زیادہ تر اسکیمیں غریبوں، کمزور طبقوں کے لئے ہوتی ہیں اور ان 70 برسوں میں، اقلیتی طبقہ خصوصآٓمسلم سماج غربت اور تعلیم کا شکار رہا۔اسی لئے مودی سرکار کی غریب اور کمزور طبقوں کی مضبوطی کی سبھی اسکیموں کا بھرپور فائدہ اقلیتی سماج کو ہو رہا ہے۔
حکومت کے کام کاج کی اس تفصیل کے پس منظر میں مسٹر نقوی سوال کیا کہ سوال کیا کہ جس وزیر اعظم نے کسی بھید بھاؤ کے بغیرغریبوں کو مکان دیا، ان کے گھروں میں اجالا کیا کیا وہ انھیں بے گھر اور ا ن کی زندگی میں اندھیرا ہوتے کبھی دیکھ سکتے ہیں؟اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شہریت بل،این۔آر۔سی پر وزیر اعظم نے واضح پیغام یہ دیا ہے کہ کسی قانون سے ہندستانی مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔شہریت ترمیمی قانون۔ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان۔ میں مذہبی بھید بھاؤ اور اقلیتی طبقے کے متاثرہ افراد کو شہریت دینے کا قانون ہے۔ وہ بھی اگر وہ لوگ چاہیں گے تب۔ جہاں تک سوال ہے غیر ممالک میں بسنے والے مسلم سماج کے لوگوں کو شہریت دینے کا، تو یہ شق ہندوستانی سٹیزن شپ ایکٹ 1955 میں آج بھی موجود ہے اورکوئی بھی غیر ملکی شہری،جس میں مسلم بھی شامل ہیں، سٹیزن شپ ایکٹ 1955کے سیکشن 5 کے تحت ہندستانی شہریت لے سکتے ہیں۔ پچھلے 5برسوں میں، 500 سے زیادہ مسلمانوں کو ہندستانی شہریت دی گئی ہے۔
مرکزی وزیر نے مزید کہا ہے کہ سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کی تاریخی اہمیت ہے، 1955 میں ہندستان کے وزیر داخلہ پنڈت گووند بلبھ پنت اور پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل اسکندر مرزا کے مابین معاہدہ ہوا،اس سمجھوتے کے تحت بھارت سرکار کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں موجودغیر مسلم مذہبی مقامات کی حفاظت کا خیال رکھنا ہے۔ نیز غیر مسلمانوں کے مذہببی۔سماجی سروکار کی بھی فکرکرنی ہے۔
’’پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی پرظلم و ستم اور ایذا رسانی کی پہلے کی ہندستانی سرکاروں نے کوئی فکر نہیں کی۔ جو پناہ گزین مجبور اًبھاگ کر آگئے ان پر بھی پاکستان میں دہشت گردی کی تلوار لٹک رہی تھی۔اور بھارت میں قانون کا ڈنڈ ا لٹکا ہوا تھا۔ وہاں سے جان بچا کر آئے تو یہاں بھی جان مشکلوں سے دو چار ہوتی رہی۔ اسی غیرانسانی توہین کو انسانی احترام دینے کے لئے شہریت ترمیم قانون لایا گیا ہے۔ یہ خالص طور سے پاکستان،بنگلہ دیش افغانستان کی اقلیتوں کو انسانی احترام، تحفظ دینے کے مقصدسے لایا گیا ہے۔ اس کا ہندستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اس سے ان پر کوئی اثر پڑے گا‘‘۔
مسٹر نقوی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جہاں اقلیتی طبقے کے لوگ بے عزتی او ر توہین کے شکار ہیں وہیں بھارت میں اقلیتی طبقے کے لوگ ترقی میں برابر کے حصے دار رہتے آئے ہیں۔ پچھلے لگ بھگ پانچ برسوں میں ہی مختلف اسکالرشپ اسکیموں سے غریب،کمزور اقلیتی طبقے کے ریکارڈ تقریبآٓ 3 کروڑ 20 لاکھ طلباء مستفید ہوئے ہیں جن میں لگ بھگ 60 فیصد طالبات بھی شامل ہیں۔، 2014 سے ابھی تک ”سیکھو اور کماؤ“ ، ”استاد“ ، ”غریب نواز روزگار یوجنا“، ”نئی منزل“ وغیرہ نئے ترقیاتی پروگراموں کے ذریعہ 8 لاکھ سے زیادہ اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کو کوشل وکاس اور روزگار۔ روزگار کے مواقع مہیا کرائے گئے ہیں۔ ان میں تقریبآٓ 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ ”ہنر ہاٹ“ کے ذریعے پچھلے 2برسوں میں 2 لاکھ 65 ہزار سے زیادہ اقلیتی طبقے کے دستکاروں۔شلپ کاروں کو نہ صرف ملازمت۔ روزگار کے مواقع مہیا کرائے گئے ہیں۔ بلکہ انھیں قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ اور مواقع بھی مہیا کرائے گئے ہیں۔
ایک موازنہ کے تحت انہوں نے کہا کہ یو پی اے سرکارمیں صرف 90 اضلاع اقلیتی طبقوں کی ترقیّ کے لئے منتخب کئے گئے تھے وہیں مودی سرکار میں اس کو پھیلا کر دیش کے 308 اضلاع،1300 بلاک میں اقلیتی سماج خصوصاً لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کے لئے لازمی سہولیات کے ساتھ جنگی پیمانے پر کام جاری ہے۔’’پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم‘‘کے تحت گذشتہ لگ بھگ 5برسوں کے دوران 8 ہزار کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے 33 ڈگری کالج، 1 ہزار 398 اسکول کی عمارتیں، 40 ہزار 201 اضافی کلاس روم 574 ہاسٹلز 81 آئی ٹی آئی 50پالی ٹیکنک 39 ہزار 586 آنگن واڑی مراکز 398سدبھاونا منڈپ، 123 رہائشی اسکول، 570 مارکیٹ شیڈ، 104کامن سروس سینٹر وغیرہ سہولیات کا مودی سرکار کے ذریعہ زیادہ اقلیتی آبادی والے علاقوں میں تعمیر کرائی گئی ہیں۔
پاکستان کو اقلیتی طبقے کے لوگوں کے لئے جہنم اور ہندوستان کو جنت گردانتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ ’’ یہی حقیقت کچھ غیر منظم قوتوں کی آنکھ میں کر کر ی بنی ہوئی ہے اور وہ بھارت کی کثرت میں وحدت کی طاقت کو کمزور کرنے کی سازشوں کا تانا۔بانا بن رہی ہیں‘‘۔
این آر سی، کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ یہ عمل 1951 سے آسام میں شروع ہوا، پھر 1975 میں اسے آگے بڑھانے کی تحریک اور مانگ ہوئی۔ پھر 2013 میں،سپریم کورٹ نے اسے آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔لیکن صرف آسام تک محدود ہے۔ ایک فہرست 31 اگست 2019 کو جاری ہوئی جو نام نہیں آئے سرکار این آرسی سیواکیندروں،ٹربیونلوں میں قانونی طور پر ان کو مددفر اہم کر رہی ہے۔ 1951 سے آسام میں جاری این آرسی کا عمل ابھی بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
جہاں تک سوال ہے ملک کے دیگر حصوں میں این آر سی کو متعارف کرانے کا،تو اس سے متعلق انہوں نے کہا کہ کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے او ر نہ ہی دوسری ریاستوں میں این آر سی پر عمل کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جوہنگامہ اور سیا سی ڈرام عروج پر ہے اس کے پس منظر میں من گھڑت اور جھوٹ سے بھرپور کہانی بنا کر ایک خاص سماج کے کندھے پر بندوق رکھ کر “سیاست کی سانپ سیڑھی” کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دراصل موضوعات کی کنگالی نے کچھ سیاسی جماعتوں کو فروعی معاملات کا موالی “بنا دیا ہے۔ اور اب مردم شماری کو لے کر تشویش اور الجھن کا جال بچھایا جارہا ہے۔اور کچھ سیاسی پارٹیاں لوگوں کو اپنے “چالاکی کے چکرویو ” میں پھنسا نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مردم شماری یا این پی آر لگاتار جاری رہنے والا عمل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری 1951,1961,1971,1981,1991,2001,2011 میں ہوئی۔ اب اس حوالے سےبھی لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے۔’’ ہمیں سمجھناچاہئے کہ جمہوریت سے ہارے لوگ”غنڈہ تنتر“ سے جمہوریت کا اغوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
مسٹر نقوی نے اس عزم کے ساتھ اپنی بات مکمل کی کہ ’’ ہمارے لئے، ہندستان کی مٹی ہمارا ایمان ہے، اس مٹی میں پیدا ہوا ہر شخص یہیں رہے گا، کسی کے بھی سماجی، مذہبی،دستوری، شہری حق پر کوئی سوال یا خطرہ نہ ہے، نہ ہوگا۔یہی سچاّئی سے بھرپور حقیقت ہے،باقی سب تشویش سے بھرا ا فسانہ ہے۔ آئیے ہم سب متحد ہوکرخوف و ہراس اور شک کے بھوت کا صفایا کریں‘‘۔

بین الاقوامی خبریں

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کا پرزور خیرمقدم کیا۔

Published

on

Owaisi

نئی دہلی : اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان نئے سرے سے تعلقات کا پرزور خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ 2016 سے اس کی وکالت کر رہے ہیں، لیکن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن افغانستان کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات علاقائی سفارت کاری کے لیے ضروری ہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اس وقت بھارت کے دورے پر ہیں۔ اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے حیدرآباد کے ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ہندوستان-افغانستان تعلقات میں پیشرفت کے حوالے سے کہا، “میں اس کا خیرمقدم کروں گا۔ 2016 میں، میں نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ طالبان آئیں گے، اور آپ ان سے بات کریں، بی جے پی کے بہت سے میڈیا شخصیات اور سیاسی شخصیات نے مجھے گالی دی… دیکھو، وہ طالبان کے بارے میں بات کر رہا ہے… میں نے کہا کہ یہ میری تقریر ہے”۔

انہوں نے کہا، “چابہار بندرگاہ کی تعمیر ہمارے لیے بہت اہم ہے… ہم جو ایران میں تعمیر کر رہے ہیں، اسے ہم افغانستان میں داخل ہونے کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم اس علاقے میں چین اور پاکستان کو کیسے اثر و رسوخ دے سکتے ہیں؟” جب اویسی سے طالبان کی کوتاہیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، “جناب، ہر ایک میں خامیاں ہوتی ہیں، آپ خامیاں دیکھیں گے… ہم اس جگہ کو چھوڑ دیں گے… آپ کے گھر میں کیا ہوگا، میں اس کی پرواہ کیوں کروں… مجھے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ میں اس جگہ کو کھو نہ دوں”۔

بھارت کے لیے افغانستان کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے، اویسی نے کہا، “افغان وزیر خارجہ یہاں ہیں، اور پاکستان نے ان پر بمباری کی، آپ دیکھتے ہیں کہ حالات کیسے جا رہے ہیں؟ انہوں نے چین، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش کو بلایا، اور میٹنگیں کیں… کیا یہ ہمارے لیے درست ہے؟ ہمارے مکمل سفارتی تعلقات ہونے چاہئیں۔ وہاں ہماری موجودگی ملک کی سلامتی اور جغرافیائی سیاست کے لیے بہت ضروری ہے۔ … بالکل، جب طالبان کو کہا جائے گا، تو مجھے مکمل طور پر کہا جائے گا کہ جب طالبان کے ساتھ تعلقات ہوں گے تو انہیں مکمل طور پر کہا جائے گا” ہندوستان، برائے مہربانی میڈیکل کے شعبے میں اشتہارات بند نہ کریں، افغانستان میں ہماری بہت بڑی سرمایہ کاری ہے… اور وہاں ہندوستانیوں کی خیر سگالی ہے… وہاں تمام زرمبادلہ سکھوں کے پاس ہے۔”

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی بنگلہ دیشیوں کے نام پر عام مسلمانوں کو ہراساں کیا جانا بند ہو، وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان پر ابوعاصم کا سرکار پر سنگین الزام

Published

on

Asim Azmi

ممبئی : مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر ورکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ وزیر داخلہ کو اور مرکزی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنگلہ دیشی اور پاکستانی دراندازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے بنگلہ دیشیوں کے سبب ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے, یہ سراسر غلط ہے. بنگلہ دیشی اور پاکستانیوں کی آڑ میں مغربی بنگال کے باشندوں اور عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے. انہوں نے کہا کہ کئی ریاستوں اور مرکز میں سرکار آپ کی ہے تو سرحد سے کیسے بنگلہ دیشی درانداز داخل ہوتے ہیں؟ ان کے دستاویزات بنانے والوں کے خلاف سرکار نے اب تک کیا کارروائی کی ہے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا بند کیا جانا چاہیے, جس طرح سے کریٹ سومیا ہر مسلمانوں کی سرٹیفکیٹ اور دستاویزات کو فرضی قرار دینے کی سعی کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشیوں کی ہند کی سرحد سے دراندازی کیسے ہوتی ہے, اس پر سرکار کو توجہ دینی چاہئے یہ کام کانگریس، ایس پی یا دیگر پارٹیوں کا نہیں ہے, یہ کام سرکار کا ہے کہ وہ بنگلہ دیشیوں اور پاکستانیوں کے خلاف کاروائی کرے اور اس کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں و پریشان نہ کرے. انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشیوں کے دستاویزات جو تیار کر رہے ہیں کیا ان افسران پر کارروائی کی جاتی ہے۔

Continue Reading

جرم

سرکاری نوکری کے نام پر کروڑوں روپے کی ٹھگی، ملزم دلی سے گرفتار… سینکڑوں بے روزگاروں سے ملزم نے پیسہ وصول کیا تھا

Published

on

Crime

ممبئی : مہاراشٹر کے متعدد اضلاع میں مرکزی سرکار اور ریاستی سرکار میں سرکاری نوکری دلانے کے نام پر دھوکہ دہی کے الزام میں ممبئی اقتصادی ونگ نے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے. نئی ممبئی کا تاجر سنتوش گنپت نے شکایت درج کروائی کہ سرکاری نوکری کے لئے اس سے ملزم نلیش کانشی رام راٹھور نے پانچ لاکھ روپے وصول کئے اور میڈیکل ٹیسٹ و اپوائمنٹ تقرر نامہ کے لئے پانچ سے ۱۵ لاکھ روپے وصول کئے. اس کے خلاف ای او ڈبلیو نے کیس درج کیا کیونکہ اس نے نوکری کا لالچ دے کر 2.88 کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کی ہے اور تفتیش میں یہ انکشاف ہوا کہ اس نے ۱۰ کروڑ کا دھوکہ کیا ہے, اقتصادی ونگ نے مفرور ملزم کو گرفتار کرنے کے لئے ٹیم تشکیل دی اور آکولہ سمیت دیگر علاقوں میں اس کی تلاشی لی گئی ملزم نے ۲۰۲۲ میں سینکڑوں نوجوانوں کو آر سی ایف میں تقرری کے لیے دھوکہ دیا اس کی شکایت ای او ڈبلیو میں کی گئی. ای او ڈبلیو کو اطلاع ملی کہ ملزم دلی سے فرار ہونے کی سعی کر رہا ہے اس پر پولس نے اسے دلی سے گرفتار کیا ملزم کے خلاف ممبئی ای او ڈبلیو اور پونہ ڈکن میں مجرمانہ معاملہ درج ہے اس کی مزید تفتیش جاری ہے. ای او ڈبلیو کے سربراہ نشت مشرا کی سربراہی میں یہ کارروائی انجام دی گئی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com