Connect with us
Sunday,24-November-2024
تازہ خبریں

ممبئی پریس خصوصی خبر

تجاوزات مکت مالیگاؤں گروپ کی تشکیل، پھولوں کے درمیان کمشنر سے ملاقات

Published

on

(وفا ناہید) مسجدوں میناروں کے لئے مشہور شہر مالیگاؤں کی سب سے گندی بات یہ ہے کہ جتنا شہر میں علم ہے. اتنے ہی لوگ جاہل ہیں. مطلب پڑھے لکھے جاہل. جاہلوں کو ہم سمجھا سکتے ہیں مگر یہ پڑھے لکھے جاہلوں کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوتا ہے. مطلب انہیں سمجھانے والا اپنا ماتھا پیٹ لیتا ہے. کیونکہ جس طرح نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے اسی طرح ان پڑھے لکھے جاہلوں کے پاس ان کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے ایک دلیل ہوتی ہے. جس سے وہ سامنے والے فریق کا منہ بند کرنا جانتے ہیں. خوبیاں تو اس شہر میں بہت ساری تھی. واضح رہے ہم نے لفظ تھی کا استعمال کیا ہے. کیونکہ اس وقت شہر میں کسی جنگل راج کا سماں لگتا ہے. ارے ٹھہرئیے جنگل راج بول کر کہیں ہم جنگل کی توہین تو نہیں کررہے ہیں کیونکہ جنگل میں بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں اور جنگلی جانور اس کی پاسداری کرتے ہیں. مگر ہمارے شہر میں تو عام آدمی سے لے کر خواص تک صرف اپنے ہی رنگ میں شہر کو رنگنا چاہتے ہیں. جس کی وجہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مقولہ صادق آتا ہے. شہر کی کارپوریشن سے لے کر نیتا تک کو ذرا ذرا سی بات کے لئے میمورنڈم اور دھرنا آندولن کی سیاست چلتی ہیں. شہر میں صاف صفائی نہیں ہو رہی.
مالیگاؤں میں ریل اور تجاوزات ختم کرنے کا خواب گذشتہ نصف صدی سے دکھایا جاتا رہا ہے. ریل اور تجاوزات سے پاک شہر کا خواب دیکھتے دیکھتے نسل در نسل منوں مٹی کے نیچے سو گئی لیکن شہر آج بھی تجاوزات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے مفاد پرست لیڈران نے اس موضوع کو اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کیا. اخبارات میں بڑی بڑی تصاویر شائع کروانے کے بعد وہ بھی اپنا گھر اور اپنی جیب کی فکر میں منہمک ہوگئے. کل تجاوزات مکت مالیگاؤں گروپ کا ایک وفد ڈاکٹر اخلاق احمد انصاری کی قیادت میں مالیگاؤں کارپوریشن کمشنر سے ملا سب سے پہلے گروپ کی جانب سے کمشنر کو پھولوں کا نذرانہ پیش کیا گیا پھر تجاوزات مکت مالیگاؤں گروپ کو تشکیل دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس پر روشنی ڈالی گئی اس کے بعد شفیق صاحب نے کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتی کرمن کے تعلق سے نہ جانے کتنے افراد نے بار بار مطالبہ کیا ہے مگر افسوس کارپوریشن کا تجاوزات مخالف محکمہ ناکارہ اور نکما ہوگیا ہے اور اب تک کی کارکردگی صفر رہی ہے آخر ان سے باز پرس کب ہوگی؟ ڈاکٹر اخلاق احمد نے کمشنر سے پوچھا کہ کارپوریشن انتظامیہ کس مرض کی دوا ہے لوگوں کو جنازہ لے جانے میں تکلیف ہوتی ہے اور خاص طور پر اسکول کے بچوں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے. غفران بھائی نے کہا کہ مچھلی بازار پیرا ڈائز اسکول کے عقب میں دس فٹ کا راستہ تھا جس کو بند کر دیا گیا ہے کئی مرتبہ شکایت کی گئی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا. عبدالاحد بھائی نے کمشنر سے مطالبہ کیا کہ اتی کرمن اٹھانے کے بعد دوبارہ نہ ہو اس کے لیے کارپوریشن کے پاس آگے کا کیا مستقل حل ہے بتائیے زبانی جمع خرچ نہیں چلے گا. ارشد پٹھان اور حکیم اعظم صاحب نے کہا کہ آگرہ روڈ کی ٹریفک کو کم کرنے کے لئے مرزا غالب روڈ کی تنگی کو دیکھتے ہوئے دگڑو آئل مل کے بازو سے جو راستہ سردار نگر کی طرف جاتا ہے اس کو کھولا جائے جس پر وہاں بیٹھے کرمچاری نے بتایا کہ وہ راستہ 40 فٹ کا نقشے میں نہیں ہے اور محمد علی روڈ کے پاس ایک کارخانہ ہے جو پرائیویٹ ہے اسے خریدنا پڑے گا جس پر کمشنر نے گول مول جواب دے کر فنڈ کی کمی کا بہانہ بنایا. عرفان شاہد صاحب نے کہا کہ آپ اتی کرمن محکمے کو متحرک کریں یا پھر گھر بھیج دیں اور ہمیں اتی کرمن صاف کرنے کے لئے تحریری اجازت نامہ دیں جس پر کمشنر نے ٹالنے کے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ جب کارروائی ہوگی تو ہم مل کر کام کریں گے. عمر فاروق الخدمت نے کمشنر سے سوال کیا کہ پچھلے ہفتے جمیعت علماء نے اتی کرمن ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا تو آپ نے ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جس پر کمشنر نے وہی لولا لنگڑا بہانا بنایا کہ پولس بندوبست ملتے ہی اتی کرمن صاف کیا جائے گا فاروق بھائی نے کمشنر کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ ہم نے پولس ڈیپارٹمنٹ کو فیس بھر دی ہے اب آپ کہہ رہے ہو کہ پیسہ بھرا نہیں گیا تو کمشنر کہنے لگے کہ انہوں نے پیسہ لیا ہی نہیں. بہر حال آج کی ملاقات میں یہ محسوس ہوا کہ کمشنر سمجھاؤ سمیتی اور گھر جاؤ سمیتی کا صدر ہے. پورا شہر دھول، گرد غبار، گندگی اور اتی کرمن سے پریشان ہے مگر کمشنر کو کوئی پرواہ نہیں ہے.
اس وفد میں ڈاکٹر اخلاق احمد انصاری، عرفان شاہد، ارشد پٹھان، عبدالاحد، عمر فاروق الخدمت، شفیق ٹنو، شکیل حاجی، غفران بھائی، اعظم بھائی، الطاف کرانہ، لڈو بلڈر اور اطہر عرفان وغیرہ حاضر رہے.

سیاست

مفتی اسمعیل کو غیرت دلاتی اکبرالدین کی تقریر… حیرت انگیز طور پر مفتی اسمعیل کا ایک بھی تعمیری کام نہیں بتا پاۓ اکبرالدین اویسی

Published

on

akbaruddin owaisi

مالیگاٶں : مجلس اتحاد المسلمین حیدراباد کے فلور لیڈر اکبرالدین اویسی نے سلام چاچا روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اکبر اویسی صاحب کے جلسے میں روایتی طور پر ہمیشہ کی طرح عوامی ہجوم کا رہنا مفتی اسمعیل کی مقبولیت سے نہیں گردانا جانا چاہیۓ۔ اس جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوٸے اکبرالدین اویسی نے صرف اور صرف حیدرآباد تلنگانہ میں مجلس کی تعلیمی، معاشی، سیاسی کارکردگیوں کو گنوایا اور شاٸید وہ یہ بھول گٸے کہ مالیگاٶں میں بھی گذشتہ پانچ سالوں سے مجلس کا بھی ایم ایل اے ہے۔ یا پھر اکبر الدین اویسی کو جان بوجھ کر مجلس کے حیدرآباد کے کاموں کو بتاکر مالیگاٶں مجلس کے آمدار مفتی اسمعیل کو غیرت دلانے کا کام کررہے تھے۔

ایک گھنٹہ سے زاٸد اپنی تقریر میں اکبرالدین اویسی نے مفتی اسمعیل کے ایک بھی تعمیری کام گنوانے سے قاصر نظر آٸے, جسکا ڈھنڈورا مقامی طور پر ایم ایل اے مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کی طرف سے پیٹا جارہا ہے۔ مالیگاؤں کی عوام نے اکبرالدین اویسی کی تقریر کو مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کے لیۓ آٸینہ دکھانے اور غیرت دلانے سے تعبیر کرتے دکھائی دے رہے ہیں

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

30 سالوں سے جیل میں قید پانچ ملزمین کو چالیس دنوں کی پیرول منظور, جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی

Published

on

rajasthan-high-court

ممبئی 19 / اکتوبر : گذشتہ 30 سالوں سے زائد وعرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید کی سزا کاٹ رہے چار ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جئے پور ہائی کورٹ نے گذشتہ کل جاری کیا۔ مل مین کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی۔ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ابرے رحمت انصاری، اشفاق احمد، محمد آفاق، فضل الرحمن اور ڈاکٹر جلیس انصاری کو جئے پور ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اندر جیت سنگھ اور جسٹس بھون گوئل نے چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ملزمین اب تک چار مرتبہ پیرول کی سہولت حاصل کرچکے ہیں, لیکن انہیں ہر مرتبہ ہائی کورٹ سے پیرول لینا پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے پیرول ملنے کے باجود ہر سال جیلر ان کی پیرول کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردیتا ہے کہ ملزمین کو سنگین الزامات کے تحت عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔

جئے پور سینٹرل جیلر کی جانب سے پیرول کی درخواست مسترد کیئے جانے کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء کے توسط سے ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ سوامی اور ایڈوکیٹ ہرشیت شرما کے ذریعہ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی, جس پر کئی سماعتیں ہوئی۔ راجستھان سرکار کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا آر ڈی رستوگی اور کے معاونین وکلاء نے ملزمین کی پیرول پر ہائی کورٹ کی درخواست کی سخت لفظوں میں مخالفت کی تھی, لیکن ملزمین کے وکلاء کی دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔

ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین گذشتہ 30 سالوں زائد عرصے سے جیل میں قید ہے اور اس دوران انہیں صرف چار مرتبہ پیرول ملی, جس کی وجہ سے وہ فیملی اور دیگر رشتہ داروں سے مل سکے ہیں, اور انہوں نے پیرول کی سہولت کا کبھی غلط فائدہ نہیں اٹھایا, لہذا انہیں مزید انہیں پیرول پر رہا کیا جائے جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ انڈین جیل قانون 1894 کے مطابق ان قیدیوں کو سال میں 30 سے لیکر 90 دنوں تک پیرول پر رہا کیا جاسکتا ہے جو جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں, اور وہ بیماری سے جوجھ رہے ہوں یا ان کی فیملی میں کوئی شدید بیمار ہو، شادی بیاہ میں شرکت کی خاطر، زچکی کے موقع پر، حادثہ میں اگر کسی فیملی ممبر کی موت ہو جائے تو جیل میں قید شخص کو عارضی طور پر جیل سے رہائی دی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ٹاڈا، پوٹا، مکوکا اور دیگر خصوصی قوانین کے ذمرے میں آنے والے ملزمین کو پیرول پر رہا نہیں کیئے جانے کے تعلق سے جی آر جاری کیا تھا, جس کے بعد سے جیل حکام نے ملزمین کو پیرول پر رہا کیئے جانے کی عرضداشتوں کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن جمعیۃ علماء نے حکومت کے جی آر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا, جس کے بعد سے ملزمین کو راحتیں ملنا شروع ہوئیں۔

Continue Reading

بین القوامی

نکسا اور نکبہ کے ملاپ سے بھی بدتر؟ ایک سال اور کوئی امید نہیں

Published

on

Gaza


خان گلریز شگوفہ (کلیان)، ممبئی : اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنی نسل کشی شروع کیے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے مسلح و اقسام بریگیڈز کے مسلح جنگجوؤں کے حملے کے جواب میں 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہوا۔ اس حملے کے دوران تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 کو غزہ میں اسیر بنا کر لے جایا گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے ایک شیطانی بمباری کی مہم شروع کی اور 2007 سے غزہ کا محاصرہ پہلے سے زیادہ سخت کر دیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران، اسرائیلی حملوں میں غزہ میں رہنے والے کم از کم 41,615 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ہر 55 میں سے 1 کے برابر ہے۔ کم از کم 16,756 بچے مارے جا چکے ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تنازعات کے ایک سال میں ریکارڈ کیے گئے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 17,000 سے زیادہ بچے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 – کے بعد کے اہم لمحات

7 اکتوبر 2023 – اسرائیل میں حماس کی کارروائی
7 اکتوبر 2023 – اسرائیل کی جوابی کارروائی
8 اکتوبر 2023 – حزب اللہ لڑائی میں شامل ہوئی
17 اکتوبر 2023 – الاحلی اسپتال غزہ کے الاحلی عرب اسپتال میں ایک زبردست دھماکا – جو بے گھر فلسطینیوں سے بھرا ہوا تھا – تقریبا 500 افراد ہلاک ہوگئے۔
19 نومبر 2023 – حوثیوں کا پہلا حملہ
نومبر 24 سے 1 دسمبر 2023 – عارضی جنگ بندی
29 فروری کو “Flour Massacre” میں غزہ شہر کے نابلسی راؤنڈ اباؤٹ پر انسانی امداد کے انتظار میں قطار میں کھڑے 118 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
18 مارچ سے 1 اپریل تک الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے محاصرے میں 400 افراد کا قتل۔
6 مئی 2024 – رفح پر حملہ.
27 مئی کو رفح کے علاقے المواسی میں ایک پناہ گزین کیمپ میں 45 افراد کا قتل، جسے “خیمہ قتل عام” کہا جاتا ہے۔
· 8 جون کو نصیرات پناہ گزین کیمپ میں 274 فلسطینیوں کا قتل۔
13 جولائی 2024 – المواسی کا قتل عام ·
10 اگست کو غزہ شہر کے التابین اسکول میں 100 سے زیادہ افراد کا قتل۔
17 ستمبر 2024 – لبنان میں موت کا دن، جنگ کو سرکاری طور پر وسیع کرنا.
23 ستمبر کو اسرائیل نے لبنان پر براہ راست حملہ کیا، جنوب میں، مشرق میں وادی بیکا اور بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے دحیہ میں کم از کم 550 افراد مارے گئے۔
اس کے بعد 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کو دحیہ پر حملے میں قتل کر دیا گیا، یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے کئی اپارٹمنٹس کی عمارتوں کو لپیٹ میں لے لیا۔
اسرائیل نے مبینہ طور پر 80 بموں کا استعمال کیا جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 90 زخمی ہوئے۔ نصراللہ کے قتل کے فوری بعد اسرائیلی مطالبات کے بعد لوگوں کو دحیہ کے بڑے حصے سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ لبنان کی حکومت اب کہتی ہے کہ تقریباً 1.2 ملین افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ Lebanon’s Health Ministry کے مطابق، غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک لبنان میں 2,000 افراد مارے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر پچھلے تین ہفتوں میں مارے گئے۔

جنگ کی جھلکیاں :-
41,909 افراد ہلاک
97,303 زخمی
10,000 لوگ ملبے تلے دب گئے
114 ہسپتال اور کلینک غیر فعال کر دیے گئے۔
ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں اور غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں کم از کم 986 طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 165 ڈاکٹرز، 260 نرسیں، 184 ہیلتھ ایسوسی ایٹس، 76 فارماسسٹ اور 300 انتظامی اور معاون عملہ شامل ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرز میں سے کم از کم 85 سول ڈیفنس ورکرز ہیں۔

7 اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی 520 لاشیں
1.7 ملین متعدی بیماریوں سے متاثر ہیں
96 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون کے تحت، بین الاقوامی مسلح تصادم میں کسی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا مارنا جنگی جرم ہے۔

700 پانی کے کنویں تباہ ہو گئے
صحافیوں کے لیے سب سے مہلک مقام رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 130 سے زیادہ صحافی، تقریباً تمام فلسطینی، مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کے میڈیا آفس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 175 ہے، جو کہ 7 اکتوبر سے ہر ہفتے اوسطاً چار صحافی مارے جاتے ہیں۔

ہزاروں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
غزہ کا بیشتر حصہ تباہ
ایک اندازے کے مطابق غزہ پر 75,000 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا ہے اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ 42 ملین ٹن سے زیادہ کے ملبے کو صاف کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، جو کہ نہ پھٹنے والے بموں سے
بھی بھرا ہوا ہے۔
غزہ کے میڈیا آفس نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان کا تخمینہ 33 بلین ڈالر لگایا ہے۔

150,000 گھر مکمل طور پر تباہ
123 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ
ثقافتی مقامات، مساجد اور گرجا گھروں پر حملے
410 کھلاڑی، کھیلوں کے اہلکار یا کوچ ہلاک

غزہ کے لوگوں کی سب سے زیادہ پیاری یادوں کو نقش کرنے والے نشانات کے کھو جانے سے بہت سے لوگوں کے لیے دوبارہ تعمیر کا تصور ناممکن لگتا ہے۔

جنگ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اگر اسے آج روک دیا جائے تو بھی غزہ کی تعمیر نو کی لاگت حیران کن ہوگی۔ صرف پہلے آٹھ مہینوں میں، اقوام متحدہ کے ایک ابتدائی جائزے کے مطابق، جنگ نے 39 ملین ٹن ملبہ پیدا کیا، جس میں نہ پھٹنے والے بم، ایسبیسٹوس، دیگر خطرناک مادے اور یہاں تک کہانسانی جسم کے اعضاء.

مئی میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 80 سال لگ سکتے ہیں. لیکن غزہ والوں کے لیے، نہ وقت اور نہ ہی پیسہ ان سب چیزوں کی جگہ لے سکتا ہے جو کھو گیا ہے۔ اگر فلسطینیوں کی پچھلی نسلوں کا صدمہ نقل مکانی کا تھا، تو جناب جودہ نے کہا، اب یہ ایک شناخت کے مٹ جانے کا احساس بھی ہے: “کسی جگہ کو تباہ کرنے سے اس کا ایک حصہ تباہ ہو جاتا ہے جو آپ میں ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com