Connect with us
Friday,22-November-2024
تازہ خبریں

جرم

ملک میں کہاں جاکر تھمے گا عصمت دری کا طوفان؟ کب تک مردوں کی گندی ہوس کی قربان گاہ پر بیٹیوں کی قربانی دی جائیں گی؟ آخر کب تک؟

Published

on

اسپیشل اسٹوری:وفا ناپید
دیوی دیوتاؤں کی مقدس سرزمین ہند اس وقت غلیظ ناپاک اور ہوس کے پجاری وحشی درندوں کی حیوانیت سے شرمسار ہیں. یکے بعد دیگرے معصوم لڑکیوں اور نابالغ بچیوں کو یہ جھنڈ کی شکل میں اپنی ہوس کا شکار بناکر کونسی مردانگی دکھا رہے ہیں. ارے یہ مرد نہیں نامرد ہے جو اس طرح معصوم کلیوں کو مسل کر اپنی مردانگی جانچ کررہے ہیں. نربھیا سے لے کر ہاتھرس متاثرہ تک, ابھی حالیہ ہی میں جلگاؤں کی ایک معصوم 14 سالہ کی اجتماعی عصمت دری کرکے اس کے تین معصوم بہن بھائیوں کے ساتھ متاثرہ کا بھی بے رحمانہ قتل کردیا گیا. جس وقت یہ خبر ہمارے پاس آئی. للہ ہمارے ہوش اڑ گئے. یہ وارات اس وقت انجام دی گئی جب بچوں کے والدین گھر پر موجود نہیں تھے اور یہ خاندان مدھیہ پردیش سے جلگاؤں تلاش معاش کے لئے آیا تھا۔ مہتاب اور اس کی اہلیہ کا تعلق مدھیہ پردیش کے علاقے گڑھی سے ہے۔
مہتاب اور اس کی اہلیہ روملی بائی بھیلالا بورکھیڑا گاؤں کے مصطفی نامی شخص کے یہاں کاشتکاری کرتے ہیں۔ جس سے ان کی گزر اوقات ہوتی تھی. کسی کام کی وجہ سے، میاں بیوی, بچوں کو جلگاؤں میں گھر پر چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں مدھیہ پردیش گئے تھے۔ اس دوران بچے گھر میں تنہا تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 14 سالہ بچی سئیتا، 11 سالہ راول، 8 سالہ انیل اور 3 سالہ سمن شامل ہیں۔ ان چاروں بچوں کی نعش مالک مصطفیٰ کے کھیت سے ملی ہے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ چاروں بچوں کا قتل کلہاڑی سے کیا گیا ہے۔ پولیس کو شبہ تھا کہ چاروں قتل میں ایک ہی کلہاڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ پولیس نے اسی وقت پورے علاقے کو سیل کردیا تھا اور نہایت باریک بینی سے تحقیقات کا عمل جاری تھا۔ یہ قتل عام شہر سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر انجام دیا گیا تھا۔ تمام تفصیلات جان کر ذہن میں پہلا سوال یہی تھا کہ یہ قتل نہیں بلکہ اجتماعی عصمت دری کا معاملہ ہے کیونکہ 14, 11, 8 اور 3 سال کے ان معصوم بچوں کی بھلا کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے. اور آج جب پولس نے قتل کی اس واردات میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا تو اس بےرحمانہ قتل کے پیچھے چھپی ہوس اور درندگی کی ساری کہانی طشت از بام ہوئی. ان وحشی درندوں نے پولس کے سامنے اعترافِ جرم کیا ہے۔ پولیس سے پوچھ گچھ کے دوران ملزمین نے حیران کن انکشافات کرکے بتایا کہ انہوں نے پہلے عصمت دری کی کوشش کی تھی۔ مخالفت کرنے پر، تینوں بھائی بہنوں کو کلہاڑی سے کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد، باری باری ان کی بہن کی عصمت دری کی اور پھر اس کا بھی قتل کردیا۔
ریاستی حکومت بھی اس دل دہلانے والی واردت سے متحرک ہوگئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس قتل کا سراغ لگانے میں ڈاگ اسکواڈ کا اہم کردار رہا۔ جب خون سے سنی ہوئی کلہاڑی کتوں کو سنگھائی گئی تو کھوجی کتے پولیس کو تحصیل راویر کے ایک لاج میں لے گئے۔ پولیس کو وہاں ایک مشتبہ ملزم ملا۔ اس کے بعد پولیس نے 5 افراد کو اپنی تحویل میں لیا۔ ان 5 افراد میں سے 3 افراد نے اپنا جرم تسلیم کیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، واردات کی پوری تفصیل یہ ہے کہ جب بچے رات کو سو رہے تھے تو ملزمین کھڑکی توڑ کر ان کے گھر میں داخل ہوئے اور 14 سالہ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی کوشش کی۔ اسی دوران باقی بہن بھائی نیند سے بیدار ہوگئے اور انہوں نے مداخلت شروع کردی۔ ملزمان نے تینوں بہن بھائیوں کو ایک ایک کرکے ہلاک کیا اور پھر اس کے بعد 14 سالہ لڑکی کو باری باری اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ اجتماعی عصمت دری کے بعد ملزمین نے اس کا بھی قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ پولیس نے بتایا کہ گرفتار تمام ملزمان کا تعلق قبائلی سماج سے ہے اور سب کی عمر 21 سے 23 سال کے درمیان ہے۔ جلگاؤں شہر کے سرپرست وزیر گلاب راؤ پاٹل نے بتایا کہ اس معاملے میں تین ملزمان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ ان لوگوں نے مبینہ طور پر کلہاڑی کی مدد سے قتل کی واردات کو انجام دیا تھا۔ انہوں نے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو دو لاکھ روپے کی مالی مدد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کیس کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں ہوگی۔ وہ حکومت سے درخواست کریں گے کہ اس معاملے میں اُجول نکم کو سرکاری وکیل کے طور پر مقرر کیا جائے۔
اب جناب کیس عدالت میں جائے گا. تاریخ پر تاریخ ملے گی. نربھیا کو فاسٹ ٹریک کورٹ سے انصاف ملنے میں 7 سال کا طویل عرصہ لگا تھا. یہ کورونا کا دور ہے. اب تو اور 10 سال لگیں گے. اس کے بعد کیا ؟ لڑکی کی عصمت تو ایک بار تاتار ہوتی ہے مگر کورٹ میں تو ہر تاریخ پر اس کی عصمت دری کی جاتی ہے. جب کہ سارے گواہ اور ثبوت موجود ہیں ملزمین نے اِقبال جرم کرلیا ہے تب سیدھا دو پیشی میں پھانسی کی سزا دے کر متاثرہ کو انصاف دیا جانا چاہئے. تب انصاف ہوگا. ورنہ فاسٹ ٹریک عدالتیں انصاف دینے میں 7 سال لگائے گی تو پھر عصمت دری کا یہ طوفان کبھی نہیں تھمے گا. اگر حکومت واقعی بیٹیوں کا تحفظ چاہتی ہیں تو اب سے پہلے فحش ویب سائٹس کو بینڈ کریں. اب تو دیا ٹک اور وہاٹس اپ پر بھی فحاشیت نے اپنے قدم جما دیئے ہیں. ساتھ ہر ملک کی ہر ریاست میں ایک ایسا دستہ بنایا جائے تو پبلک پیلس, پارک اور دیگر تفریح کی جگہوں پر آوارہ سانڈ کی طرح گھومتے ان انسان نما درندوں سے پاک کریں اور رات کا گشت بڑھا دیں. کیونکہ رات کے اوقات میں ہی ان درندوں میں ہوس کی آگ بھڑکتی ہیں. رات کے وقت مٹرگشت کرنے والے کسی بھی نوجوان کو سیدھا حوالات کی ہوا کھلائے. ساتھ ہی جس طرح ہماری انٹیلی جنس شوشل میڈیا پر نظر رکھتی ہیں. ویسے ہی تمام شوشل سائٹس پر پولس کی کڑی نگرانی ہو. تب شاید ملک کی بیٹیاں کو تحفظ ملے گا اور والدین اپنے آوارہ بیٹوں پر قابو پاسکیں گے. ایک بات اور انصاف میں تاخیر خود انصاف کا خون ہیں. لہذا ملک کی جتنی بھی متاثرہ ہیں سب کے مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے تو انکی روح کو چین ملے گا.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com