Connect with us
Monday,07-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

اردو آج ہندوستان کی ہی نہیں بین الاقوامی زبان بھی ہے : سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری

Published

on

Vice-President-Hamid-Ansari

اردو قارئین کی کم ہوتی تعداد پر تشویس کا اظہار کرتے ہوئے سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے کہا کہ ہر دس سال میں آبادی تو بڑھ رہی ہے۔ لیکن اردو پڑھنے اور بولنے والوں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ یہ بات انہوں نے اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے کہی۔ اس کا اہتمام ’اردو صحافت دو سو سالہ تقریبات کمیٹی‘ نے کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے، اسی طرح اردو قارئین کی تعداد دن بہ دن کمی واقع ہو رہی ہے، جو باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جاتی اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ مقررہ تعداد نہیں ہوتی اردو استاذ نہیں رکھے جاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

مسٹر انصاری نے گھروں میں اردو پڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی اور گھر پر نہیں پڑھائیں گے تو پھر اردو کی پڑھائی کہاں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ جو کام والدین کو کرنا چاہئے وہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کے ذمہ داری ان کی ہے، جن کی زبان ہے۔ لہذا اردو کے تئیں ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مطمئن رہیں کہ اردو زندہ رہے گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت اردو صرف ہندوستان کی نہیں، بلکہ بین الاقوامی زبان بھی ہے۔ امریکہ، آسٹریلیاں اور دیگر ممالک میں اردو رسالے نکل رہے ہیں۔ اور اردو بولی جا رہی ہے۔

سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جموں وکشمیر غلام نبی آزاد نے اردو صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اردو صحافت کے آغاز کے بارے میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلا شخص جسے کالاپانی بھیجا گیا تھا وہ ایک مسلم صحافی تھا۔ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شخص کون تھا۔ انہوں نے کہاکہ 1794 میں ہندوستان کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان نے ’فوجی اخبار‘ کے نام سے نکالا تھا، جو فوجیوں کے لئے تھا۔ اور پہلا پرنٹنگ پریس بھی ٹیپو سلطان نے ہی قائم کیا تھا۔

انہوں رکن نے جنگ آزادی میں اردو صحافت اور اردو صحافیوں کی خدمات کا ذکر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیوں پر بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہے، اور آج کے بچے انگریزی زبان زیادہ پڑھنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں اس میں اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔

سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق سفارت کار میم افضل نے صدارت کرتے ہوئے آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا، اور کہا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان بنا دیا گیا ہے۔ اور اس میں کچھ حد تک اردو والے بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اردو اس طرح توجہ نہیں دی گئی، جس کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ اردو دم توڑنے والی زبان نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کے مستقبل کو زندہ رکھنا ہے، تو اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔

پدم شری اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اگر زبان کا مذہب ہوتا تو اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما کرتا دھرتا سدا سکھ لعل اور ہری دت نہیں ہوتے۔

دوسرے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ آج کا میڈیا حقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتا ہے۔ پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں، جب کہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے۔

مشہور صحافی قربان علی نے کہا کہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا، اس وقت تک نہ اردو صحافت بچیں گے، اور نہ ہی اردو کے اخبارات۔ اردو والے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔ ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے، اور بقاء کیلئے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہا کہ اردو صحافت کا چیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کا بقاء ممکن نہیں ہے۔ روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیر اعلی ابراہم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچوں کو اردو پڑھائیں۔

خطاب کرنے والوں میں روزنامہ ندیم بھوپال کے ایڈیٹر عارف عزیز، شاہین نظر، ڈاکٹر سید فاروق، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، رئیس مرزا اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر متعدد صحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ جن میں یو این آئی اردو کے سابق سربراہ عبدالسلام عاصم شامل ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر و فن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کیا۔

پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنوینر اور مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کی، جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی۔

سیاست

ممبئی راج اور ادھو ٹھاکرے اتحاد، مرد کون ہے عورت کون ہے : نتیش رانے کی تنقید

Published

on

Nitesh-Rane

ممبئی مہاراشٹر میں مراٹھی مانس کے لئے راج اور ادھو ٹھاکرے کے اتحاد پر بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے نے ادھو اور راج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ہمارے درمیان کے اختلافات ختم ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے انہیں اتحاد پر مجبور کیا, جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے وہ فڑنویس نے کیا ہے۔ اس پر نتیش رانے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی کے دور میں سپریہ سلے نہ کہا تھا کہ فڑنویس اکیلا تنہا کیا کرلیں گے, یہ اس بات کا جواب ہے انہوں نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کرسکے, وہ فڑنویس نے کیا۔ مزید طنز کرتے ہوئے رانے نے کہا کہ اختلافات ختم ہونے پر جو جملہ راج ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے مرد کون ہے, اور عورت کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے حال چال سے لگتا ہے کہ وہ کیا ہے, لیکن اس پر ادھو ٹھاکرے وضاحت کرے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف ایکٹ : مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ’ رولز کو مطلع کیا، جس کے تحت وقف املاک کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔

Published

on

indian-parliament

نئی دہلی : وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ رولز 2025’ کو نوٹیفائی کیا ہے۔ یہ قواعد وقف املاک کے پورٹل اور ڈیٹا بیس سے متعلق ہیں۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق تمام ریاستوں کی وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔ وزارت اقلیتی امور میں محکمہ وقف کے انچارج جوائنٹ سکریٹری اس کی نگرانی کریں گے۔

نئے قواعد کے مطابق وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے گا۔ اس پورٹل کی دیکھ بھال اقلیتی امور کی وزارت کا ایک جوائنٹ سکریٹری کرے گا۔ پورٹل ہر وقف اور اس کی جائیداد کو ایک منفرد نمبر دے گا۔ تمام ریاستوں کو جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو نوڈل افسر کے طور پر مقرر کرنا ہوگا۔ انہیں مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر ایک سپورٹ یونٹ بنانا ہوگا۔ اس سے وقف اور اس کی جائیدادوں کی رجسٹریشن، اکاؤنٹنگ، آڈٹ اور دیگر کام آسانی سے ہو سکیں گے۔ یہ قواعد 1995 کے ایکٹ کی دفعہ 108B کے تحت بنائے گئے ہیں۔ اس دفعہ کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے مطابق شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ 8 اپریل 2025 سے نافذ العمل ہے۔ قوانین میں بیواؤں، مطلقہ خواتین اور یتیموں کو کفالت الاؤنس فراہم کرنے کے بھی انتظامات ہیں۔

نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ متولی کو اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کے ساتھ پورٹل پر رجسٹر ہونا چاہیے۔ یہ رجسٹریشن ون ٹائم پاس ورڈ (او ٹی پی) کے ذریعے کی جائے گی۔ پورٹل پر رجسٹر ہونے کے بعد ہی متولی وقف کے لیے وقف اپنی جائیداد کی تفصیلات دے سکتا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ متولی کا مطلب ہے وہ شخص جسے وقف املاک کے انتظام کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ قواعد کے مطابق کسی جائیداد کو غلط طور پر وقف قرار دینے کی تحقیقات ضلع کلکٹر سے ریفرنس موصول ہونے کے ایک سال کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔ متولی کے لیے پورٹل پر رجسٹر ہونا لازمی ہے، اسے اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے او ٹی پی کے ذریعے تصدیق کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہی وہ وقف املاک کی تفصیلات دے سکتا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com