Connect with us
Thursday,09-October-2025
تازہ خبریں

خصوصی

یہ ہندوستان ہے پیارے ! جہاں مسلمانوں کا خون جانوروں سے سستا ہے، جامعہ کی صفورا کے نام این قاسمی کا خط

Published

on

(وفا ناہید)
73 سالوں سے کٹر ہندو تواودی بھارت کی اکھنڈتا کا سپنا دیکھ رہے تھے . 19 47 میں جس وقت ملک آزاد ہوا , اسی وقت ہندو مسلم منافرت کا بیج بونا شروع ہوگیا تھا . انگریز ملک سے جاتے جاتے لڑو اور حکومت کرو کی پالیسی چھوڑ گئے تھے . پچھلے 73 سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے . ان مسلمانوں سے حب حب الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے جن کے اجداد کے خون سے سرزمین ہندوستان سے انقلاب کا نیا سورج طلوع ہوا تھا . جس کی چکاچوند نے گوروں کو ہندوستان چھوڑنے مجبور کردیا تھا اور تاریخ کے اوراق میں سنہری حرفوں میں قید ہوگئے تھے . وہ مسلمان جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ لکھی آج اسی ہندوستان میں مسلمانوں کا خون پانی سے سستا ہے . جس ملک میں آج جانوروں سے ہمدردی کی جاتی ہے آج اسی ملک میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور کسی کو فرق بھی نہیں پڑتا . اسی ہندوستان میں جہاں حاملہ ہتھنی کی موت پر واویلا مچتا ہے اور حاملہ صفورا زرگر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کردیا جاتا ہے . تب ایک مسلمان بھائی این قاسمی اس دختر قوم کو ایک خط لکھتا ہے . جو قارئین کی دلچسپی کے لئے من وعن شائع کیا جارہا ہے .
میری پیاری بہن صفورا !
سوشل میڈیا اور نیوزچینلوں پر تمہاری کئی تصویریں موجودہیں،جو تمہاری زندہ دلی، بہادری، جرأت و بے باکی کی آئینہ دارہے۔لیکن حالیہ ایک دو تصویریں جس میں تم بے بس اور لاچار نظر آرہی ہو نے ذہن و دماغ کو متاثر کردیا ہے۔ ایک طرف تمہاری پر اعتماد گفتگو اور دوسری طرف تمہاری یہ تصویریں۔ کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھاکہ تمہارا قصور کیا ہے؟کن قصوروں کی سزا دی جارہی ہے۔ ان سوالوں پر جب میں نے غورکرنا شروع کیا تم مجھے معصوم سے زیادہ قصور وار نظر آنے لگی اور تمہاری تمام خطائیں فلم کی طرح چلنے نگاہوں کے سامنے چلنے لگیں۔ایک بہن ہونے کے ناطے میری ذمہ داری تھی کہ تمہارے قصوروں پر پردہ ڈال کر حمایت میں کھڑا ہوجاؤں۔مگرمجھے اپنی دیگر بہنوں کی فکر ہے جو تم کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ میری دوسری بہنیں بھی اس کرب سے گزرے جس سے آج تم گزررہی ہو۔
صفورا!
ٹی وی نیوزچینلوں پر چلاتے اور دھمکاتے نیوز اینکروں نے ہمیں یقین دلادیا ہے کہ کشمیری نہ ہندوستان کو اپنا ملک تسلیم کرتے ہیں اور نہ دستور پر یقین رکھتے ہیں۔کشمیری ملک کے دشمن، دہشت گرد، پاکستانی ایجنٹ ہیں اور کشمیری پنڈتو ں کے قاتل ہیں۔ اس ملک کو کشمیر چاہیے،کشمیری نہیں ہے،گزشتہ 70سالوں سے جاری ناانصافی، تعصب اور جبرکے باوجود تم نے کشمیر ی ہوتے ہوئے بھی بھارت کو اپنا ملک سمجھا،اس کے دستور کی حفاظت کیلئے قسمیں کھائیں۔ ہاتھوں میں بندوق لے کر دہشت گرد بننے کے بجائے تم نے جامعہ میں پڑھنے کو ترجیح دی اور سماجیات پر پی ایچ ڈی کر کے اس ملک کو فائدہ پہنچانے کا سوچا۔۔ تم نے جناح،لیاقت،بھٹو اور ضیاء کو اپنا ہیرو بنانے کے بجائے گاندھی، نہرو، پٹیل اور آزاد کو اپنا آئیڈیل مانا۔مگر تم معلوم ہونا چاہیے تھاکہ بھارت اب بدل چکا ہے اور ہمیں یہ تبدیلیاں قبول نہیں ہیں۔
یہ بھارت ہے اور اس کا دوسرا نام ”مسلمانوں کی جنت“ بھی ہے۔یہاں کے وزیر اعظم مسلم خواتین کے مسیحاہیں،انہوں نے مسلم خواتین کو ”تین طلاق“ سے آزادی دلائی۔یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان میں ’تین طلاق‘ کی شرح 0.1فیصد سے بھی کم ہے۔ مسیحائی کیلئے انہوں نے کئی سالوں تک جتن کئے،مسلم دشمن ”سیکولر پارٹیوں نے روکاوٹیں ڈالیں، مذہبی آزادی اور آئین میں پرسنل لا میں مداخلت نہیں کئے یقین دہانی کی دہائی دی مگر ہمارے وزیر اعظم نے صرف تم مسلم خواتین کی خاطرآئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کرتم خواتین پر احسان کیا۔ایسے اس ملک میں ”جسودا بین“ جیسی ہزاروں خواتین ہیں جن کے شوہروں نے طلاق دئے بغیر چھوڑرکھا ہے۔نان و نفقہ اورسماجی پذیرائی کے بغیریہ آبلہ ناریاں سات جنموں کا رشتہ نبھارہی ہیں۔
”جامعہ کی لڑکیوں“ کو آخر ہوکیا گیا تھا؟کہ دسمبرکی یخ بستہ راتوں میں اچانک سڑکوں پر نکلیں، ترنگا ہاتھ میں لے کر ہندوستان زندباد کا نعرہ بلند کرنے لگیں۔”بھگتوں“کے ٹیکس کے روپے پر پلنے اور پڑھنے والی ان لڑکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ اب بھارت بدل چکا ہے، ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے،یہاں اب سوال کرنا جرم ہے،”56انچ“سینہ والے حکمرانوں کو سوال برداشت نہیں ہے۔ انہیں ”پاکستان“سے نہیں معصوم لڑکیوں کے سوال سے ڈر لگتا ہے۔ یہاں ایک ہتھنی کی موت پر واویلا مچ جاتاہے۔حکمراں اپنی پیڑاھاچھپا نہیں پاتے ہیں۔مگر سڑکوں پر بلکتی ہوئی ماؤں کا درد ان کے ضمیر پر دستک نہیں دیتی ہے۔جب معلوم ہوتا ہے ہتھنی کا قاتل مسلمان نہیں ہے تو ہتھنی سے ہمدردی ختم ہوجاتی ہے۔”گائے ماتا“کا ہتھیارا اگر مسلمان نہیں ہے تو وہ گائے ماتا بھی قابل رحم نہیں ہے۔
”جامعہ کا لڑکیوں“ کی وجہ سے ہی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، ’کپل مشرا‘،مرکزی وزیر انور راگ ٹھاکر اور ممبر پارلیمنٹ’پرویش ورما کو غصہ آیا۔معصوم بچہ بندوق تان کر جامعہ اور شاہین باغ پہنچ گیا۔اگر یہ لڑکیاں احتجاج نہیں کرتی تو پھر کوئی”بابوسنگھ“غصے میں مسجد میں توڑ پھوڑ نہیں کرتا۔کوئی’کمار پرساد“ مسجد کے مینار پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا نہیں لہراتا اور کوئی شرماجی کا بیٹا مشرقی دہلی کے مزار کو نقصان پہنچاتا۔جامعہ کی لائبریری میں پولس کو توڑ پھوڑ اور جے این یو کے کیمپس میں گھس کر اے بی وی پی کے مہارتی غنڈوں کو طلبا کے ساتھ مارپیٹ کیلئے بھی یہی لڑکیاں ذمہ دار ہیں۔
دہلی پولس مجرموں کو پکڑنے میں یقین نہیں رکھتی ہے۔وہ ”کورونا لوجی“ سمجھتی ہے۔اسی وجہ سے آج بھی کپل شرما، انوراگ ٹھاکر، پریش ورماکے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔نہ جانے فیس بک والے مارگ ازبرگ کو کیا سوچی کہ اس نے کپل مشرا کے بھاشن کو نفرت انگیز قراردیدیا۔
اس ملک میں اب پرامن احتجاج ناقابل برداشت ہے۔ہریانہ میں جاٹوں، راجستھان میں راجپوتوں اور مہاراشٹر میں مراٹھے اگر پرتشدد احتجاج کرتے ہیں ہفتوں ریلوے جام کئے جانے اور اسی ”سی اے اے“ کے خلاف آسام اور نارتھ ایسٹ میں ہنگامہ آرائی ہوتی ہے تو اس سے بھارت کی اکھنڈتا کو فرق نہیں پڑتا ہے۔صفورااور جامعہ کی لڑکیوں کا یہی سب سے بڑا قصور ہے کہ اس نے پرامن احتجاج کی روایت ڈالی۔مرد حاوی سماج میں ملک کو راستہ دکھایا۔بھارت میں دیوی کی پوجا ہوسکتی ہے مگر قیادت منظور نہیں ہے۔لواب بھگتو انجام۔
پیاری بہن صفورا!
اگلے چند مہینے میں تم ماں بننے والی ہو، میری دعائیں ہے کہ تمہارے بچے اس کے اثرات محفوظ رہیں۔ سنا ہے کہ تمہارے کردار پر انگلیاں اٹھائے جانے اور بدکردار بتائے جانے پرتم اور تمہارے اہل خانہ تکلیف میں ہیں۔میری شکایت تمہارے شوہر سے ہے،انہیں معلوم نہیں تھاکہ بھارت ماتاکے سنتانوں نے اپنی”ماں سیتا مےّاں“ سے پاکبازی کی شہادت مانگی تھی۔جہاں ماؤں کے پیٹ کو چیڑ کر بچے کا ماردینے والوں کا کچھ نہیں بگڑتا،جہاں معصو م بچیوں کا ریپ کرنے والوں کی حمایت میں قانون ساز آجاتے ہوں وہاں اگر تمہارے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہیں تو کون سا پہاڑ ٹوٹ گیا۔
سنا ہے کہ تمہاری شکایت ججوں سے بھی ہے کہ تین تین مرتبہ تمہاری درخواست ضمانت کو رد کردیا گیاہے،قانون کے ماہرین کی رائے بھی تمہارے حق میں ہے۔ خود جج صاحب بھی مان رہے ہیں کہ تمہارے خلاف دہلی فسادات میں ملوث ہونے کا براہ راست کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عزت مآب جج صاحب کی کچھ مجبوریاں ہیں،کوئی جج لویا جیسا حشر نہیں چاہتا ہے۔ بے چارے جسٹس مرلی دھرکا کیا بناراتو ں رات ٹھکانے لگادئے گئے۔گجرات کے ہائی کورٹ کے جج صاحبان وینٹی لیٹر گھوٹالے کا نوٹس لینے چلے تھے مگر کیا ہوا۔پریس کانفرنس کرنے والے ایک جج انکل کو جانتی ہی ہو۔کتنے سیانے نکلے، عزت کے ساتھ اب پارلیمنٹ میں عدلیہ کی آزادی کی لڑائی لڑیں گے۔تم معلوم نہیں ہے یہاں پہلے گرفتاریاں ہوتی ہیں، کئی کئی سال تک ٹرائیل شروع نہیں ہوتا ہے۔14 سے 20سال تک میں جرم ثابت نہیں ہونے پرباعزت رہا ئی کا پروانہ سنادیا جاتا ہے۔ تمہیں تو جیل میں ابھی دو ہی مہینے ہوئے ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
صفورا!
تم سے میرا سوال یہ بھی ہے کہ تم کس کو انصاف دلانے چلی تھی، کس کے لئے آواز بلند کی تھی؟۔تم نے ہم سے یہ امیدباندھ رکھی تھی کہ ہم تمہاری حمایت میں سڑکوں پر اتر آئیں گے۔ یہ تمہاری بھول ہے۔دیکھا کوئی سامنے آیا۔دہلی میں سیکڑوں قومی اور بین الاقوامی ملی تنظیمیں ہیں۔ کسی کی غیرت جاگی۔پیاری صفورا! یہ بھارت ہے کوئی امریکہ نہیں ہے جہاں ایک سیاہ فام پرمظالم کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔دیکھو امریکی کتنے بیوقوف ہیں اپنے محسن کرسٹوفر کمولمبس کا مجسمہ ہی توڑ دیا ہے۔یہاں بستیوں کی بستیاں جلادی جاتی ہیں، ماؤں کے گود سے بچے چھین لئے جاتے ہیں، بچوں کے مستقبل کو دفن کردئے جاتے ہیں۔ پھر بھی کسی کے ضمیر پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ صفورا تم جیل میں قید ہو مگر تمہارا دل و دماغ اورضمیر آزاد ہے۔ ہم جیل سے باہر ہیں مگر اپنے ضمیر اور خوف کے قیدی اور غلام بن گئے ہیں۔کیا غلاموں سے صدائے حق کی امید جاسکتی ہے۔ اچھا سنو ایک خبر تمہیں ملی ہے کہ جامعہ ملک کی ٹاپ ٹین یونیورسٹی میں شامل ہوگئی ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔اس کے باوجود یہ غداروں کی یونیورسٹی ہی کہہ لائے گی۔
بات لمبی ہوگئی ہے۔مجھے معاف کردینا
تمہارا بے بس بھائی
این قاسمی

(جنرل (عام

سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

Published

on

Sonam-Wangchuck

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، “کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔

وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

Published

on

kashmir

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔

عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

Published

on

Waqf-Meeting

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ​​ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔

اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟

جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com