Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

مالیگاؤں میں اضافی گھر پٹی سروے کے خلاف مفتی محمد اسمعیل قاسمی کی قیادت میں تحریک کا بگل, جلسہ نما کارنر میٹنگ میں سروے کے خلاف تجویز منظور, سروے کو آج سے ہی بند کیا جاۓ ۔ ڈاکٹر خالد پرویز

Published

on

malegaon-nashik

مالیگاٶں (خیال اثر )
اسمبلی الیکشن میں شکست کے بعد مقامی کانگریس پارٹی کارپوریشن میں اپنے اقتدار کے بل بوتے پر شہر کی غریب عوام کے مفادات سے کھلواڑ کررہی ہے ۔ اور الگ الگ طریقے سے شہر کی غریب عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہوٸے اپنا گھر بھرنے کا کام کررہی ہے ۔ اس کا الزام ڈاکٹر خالد پرویز نے گلشیر نگر میں معلنہ ایک جلسہ نما کارنر میٹنگ میں کارپوریشن برسر اقتدار کانگریس پارٹی پر لگایا ۔ اور عوام کو کانگریس کی کارستانی سے واقف کرایا ۔ ساتھ ہی اضافی گھر پٹی سروے کے خلاف عوامی تحریک کا بگل بجادیا ۔
ڈاکٹر خالد نے کہا کہ ہم نے کبھی عوام کو سڑکوں پر لاکر اپنی سیاست چمکانے کا کام نہیں کیا ۔ نہ ہی عوام کا کسی طریقے سے استحصال کیا ۔ بلکہ کارپوریٹر منتخب ہونے کے بعد اپنی ذمہ داریاں کو فرض سمجھ کر عوام کی اور وارڈ کی خدمت کی ۔
لیکن آج حالات ایسے آگٸے ہیں کہ ہمیں اپنی عوام کے ساتھ کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ کانگریس پارٹی مسلسل شہر کے اور شہریان کے مفاد سے کھلواڑ کررہی ہے ۔ اور شہر کی غریب و محنت کش عوام کی گاڑھی کماٸی کا روپیہ اپنی تجوری میں داخل کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔ اسکے خلاف ہم سب کو مل کر سخت احتجاج کرنا ہوگا ۔
اگر گھر پٹی سروے کامیاب ہوجاتا ہے اور گھر پٹی میں اضافہ ہوجاتا ہے تو اس سے گھر پٹی کٸی گنا بڑھ کر کے آٸے گی ۔ جو کہ شہر کے حالات کو دیکھتے ہوٸے مہلک ثابت ہوگی ۔ جس کے لیۓ ہمیں بیدار ہوکر منظم احتجاج کرنا ہوگا ۔ اور اگر ضرورت پڑی تو ہم سڑکوں پہ نکل کر اسکے خلاف احتجاج کریں گے ۔ جس طرح ملک کے کسان آج موسم کی پرواہ کیۓ بغیر احتجاج کررہے ہیں ۔
دوران تقریر انہوں نے شیخ آصف کو بھی آٸینہ دکھاتے ہوٸے کہا کہ آج جس پراٸیویٹ کمپنی کا رونا آپ رورہے ہو یہ خود تمہارے دور کی منظور کردہ ہے ۔ شہر میں کلکتہ پاور سپلاٸی کمپنی کو ٹھیکہ دیا جانے والا تھا ۔ لیکن شیخ آصف نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیۓ ٹورینٹ کمپنی کے خلاف احتجاج کا ناٹک کیا ۔ اور آج سیاسی بیوہ کیماند دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔۔ قدرتی بہاٶ سے شہر میں آنے والے چنکاپور ڈیم کے پانی کی بجاٸے بڑی بڑی پمپنگ مشینوں کا استعمال کرکے گرنا ڈیم کے پانی کو مہنگے داموں میں شہر میں دیا جارہا ہے ۔ تاکہ ان کے اخراجات کو عوام سے وصول کیا جاسکے ۔
اس موقع پر انہوں نے گھر پٹی میں اضافہ میں سروے کے خلاف ایک تجویز بھی پیش کی جسکو حاضرین نے مکمل تاٸید سے منظوری دی ۔
سابق میٸر شیخ رشید کی جانب سے گرووار وارڈ کی عوام کو رشیدی کہنے کا جواب دیتے ہوٸے ڈاکٹر خالد پرویز نے کہا کہ گرووار وارڈ کی عوام نہ ہی رشیدی ہے نا ہی نہالی ہے ۔ بلکہ ہم لوگ محمدی ﷺ ہیں ۔ اور اپنے آقا ﷺ کے امتی ہیں ۔ رشیدی یا نہالی کہہ کر اس وارڈ کی عوام کو اپنی جاگیر نہ بتایا جاۓ ۔ اور نہ ہی اس وارڈ کے لوگوں کا مذاق اڑایا جاۓ ۔
حافظ عبداللہ ابن مفتی محمد اسمعیل قاسمی نے بھی اس موقع پر حاضرین سے مختصر خطاب کیا ۔ اور اسمبلی الیکشن میں مفتی موصوف کو کثیر تعداد میں ووٹ دینے پر مفتی محمد اسمعیل قاسمی کی طرف سے عوام کا شکریہ ادا کیا ۔ اور کہا کہ خانوادہ یونس عیسی نے اسمبلی الیکشن کو اپنے گھر کا الیکشن سمجھ کر محنت کی اور عوام نے بھی انکی آواز پر لبیک کہتے ہوٸے کانگریسیوں کو بتا دیا کہ گرووار وارڈ کانگریس کا نہیں بلکہ خانوادہ یونس عیسی کا گڑھ ہے ۔ اسی کے چلتے اس علاقے کی کثیر ووٹیں کٹ کرواٸیں گٸیں ۔ مجلس اسکے خلاف بھی سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرے گی ۔
انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ گرووار وارڈ میں مفتی محمد اسمعیل قاسمی صاحب کے فنڈ سے ایک عظیم الشان شادی ہال اور دو مین روڈ کی تعمیر ہوگی ۔ جس کی منظوری ہوچکی ہے ۔ جلد ہی ورک آرڈ اور ٹینڈر جاری کیا جاۓ گا ۔ حافظ عبداللہ نے اضافی گھر پٹی سروے کروانے پر برسر اقتدار کانگریس کی سخت الفاظ میں تنقید کی اور اسکے نقصانات سے عوام کو آگاہ کیا ۔ اور عوام سے اپیل کی کہ ابھی ہم عوامی بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں آگے ہمارے ذمہ داران جیسی بھی تحریک کا اعلان کریں گے آپ تمام لوگ اس تحریک میں تن من سے شریک ہوں گے ۔
اس جلسہ نما کارنر میٹنگ سے ڈاکٹر خالد پرویز اور حافظ عبداللہ کے علاوہ مولانا اعجاز رحمانی ، غازی امان اللہ ، سمیر سر ، سہراب اعظمی ، اشتیاق 42 صاحبان نے بھی خطاب کیا ۔ اور سبھوں نے کارپوریشن مقتدر کانگریس پارٹی کے عوام دشمن فیصلوں اور گھر بھرو پالیسی پر سخت تنقید کی ۔

سیاست

بہار میں ووٹر لسٹوں کی دوبارہ تصدیق کا حکم… ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ یہ درخواست الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کے فیصلے کے خلاف ہے۔ ای سی آئی بہار میں ووٹر لسٹ کی دوبارہ جانچ کا کام کر رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ای سی آئی کا یہ حکم درست نہیں ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے لاکھوں لوگ ووٹ ڈالنے سے روک سکتے ہیں، یعنی ان کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا سکتے ہیں۔ لائیو لا نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘بہار میں ووٹر لسٹوں کی دوبارہ تصدیق کے حکم کے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نامی تنظیم نے یہ عرضی دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ای سی آئی کا یہ حکم صوابدیدی ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روک سکتا ہے۔

اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بوتھ لیول آفیسرز (بی ایل او) بہار میں تقریباً 1.5 کروڑ گھروں کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ دورہ جمعہ کو مکمل ہوا۔ 24 جون 2025 تک، بہار میں 7,89,69,844 (تقریباً 7.90 کروڑ) ووٹر ہیں۔ ان میں سے 87 فیصد ووٹرز کو گنتی کے فارم دیے گئے ہیں۔ یہ اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے دوران کیا گیا ہے۔ کچھ گھر بند تھے یا ان میں رہنے والے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ کچھ لوگ دوسرے شہروں میں گئے تھے، یا کہیں سیر پر گئے ہوئے تھے۔ اس لیے بی ایل او ان گھروں تک نہیں پہنچ سکے۔ بی ایل او اس کام کے دوران تین بار گھروں کا دورہ کریں گے۔ اس لیے یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔

اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق مختلف پارٹیوں کے 1,54,977 بوتھ لیول ایجنٹ (بی ایل اے) بھی اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔ 2 جولائی تک کے اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی نے 52,689 بی ایل اے کی تقرری کی ہے۔ آر جے ڈی کے پاس 47,504، جے ڈی یو کے پاس 34,669 اور کانگریس کے پاس 16,500 بی ایل اے ہیں۔ اس کے علاوہ راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے 1913 بی ایل اے، سی پی آئی (ایم ایل) ایل کے 1271، لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے 1153، سی پی ایم کے 578 اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے 270 ہیں۔ بی ایس پی کے پاس 74، این پی پی کے پاس 3 اور عام آدمی پارٹی کے پاس 1 بی ایل اے ہے۔ ہر بی ایل اے ایک دن میں 50 تصدیق شدہ فارم جمع کرا سکتا ہے۔

ووٹر لسٹ کی تصدیق 2 اگست 2025 سے شروع ہوگی۔ ڈرافٹ ووٹر لسٹ کے جاری ہونے کے بعد کوئی بھی پارٹی یا عام شہری 2 اگست 2025 سے ووٹر لسٹ پر دعویٰ یا اعتراض درج کرا سکتا ہے۔ حتمی ووٹر لسٹ 30 ستمبر 2025 کو جاری کی جائے گی۔ اس کے بعد بھی آپ ڈی ایم (ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ آفیسر) اور ضلع مجسٹریٹ آفیسر سے اپیل کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے لیے خوشخبری سنا دی۔ اب ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ آپ فارم ای سی آئی پورٹل اور ای سی این ای ٹی ایپ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ فارم پہلے سے بھرے ہوئے ملیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ خود بھرا ہوا فارم ای سی این ای ٹی ایپ پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا… بری سفارت کاری، ناکام حکمت عملی، یوم آزادی پر جانیے اس کے زوال کی کہانی

Published

on

America

واشنگٹن : امریکا آج اپنا یوم آزادی منا رہا ہے۔ 4 جولائی 1976 کو امریکہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے قدیم ترین جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ آزادی کے بعد امریکہ نے دنیا کو باور کرایا کہ ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے، ایک ایسی قوم جو جمہوریت، آزادی اور عالمی قیادت کی اقدار کا پرچم اٹھائے گی۔ لیکن آج، جیسا کہ ہم 2025 میں امریکہ کے لیے اس تاریخی دن پر نظر ڈالتے ہیں، ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے : امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف بیرونی چیلنجز نہیں ہیں، بلکہ اندر سے ابھرنے والے سیاسی اور اسٹریٹجک عدم استحکام بھی اس زوال کی وجہ ہیں۔ امریکہ اب عالمی جغرافیائی سیاست کا واحد کھلاڑی نہیں رہا۔ ٹائم میگزین میں لکھتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی مشیر ڈینس راس جو کہ اب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مشیر بھی ہیں، نے لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک بہت مہنگی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس سے بہت محدود فوائد حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اس نے دنیا کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے انہدام نے جغرافیائی سیاست پر امریکہ کی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کیا۔ 1990 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے وسط تک، امریکہ نے سفارت کاری، فوجی طاقت، اقتصادی اثر و رسوخ اور تکنیکی قیادت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی شرائط پر چلایا۔ لیکن اس عرصے میں کچھ اہم غلط فیصلوں نے آہستہ آہستہ امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر 2003 میں عراق کی جنگ میں امریکہ کا داخلہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ عراق جنگ میں امریکہ بغیر کسی ٹھوس حکمت عملی کے ایک طویل اور مہنگی جنگ میں الجھ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ملکی سطح پر بھی قیادت کے تئیں عدم اعتماد بڑھ گیا۔

انہوں نے لکھا کہ روس ابھی تک ہمیں چیلنج نہیں کر رہا تھا لیکن 2007 میں میونخ سیکیورٹی فورم میں ولادیمیر پوٹن نے ایک قطبی دنیا کے خیال کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونا ہے اور کہا کہ روس اور دیگر لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس وقت ان کے دعوے نے امریکی بالادستی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن آج حقیقت بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر، ہمیں عالمی حریف کے طور پر چین اور روس کا سامنا ہے، چین کے ساتھ اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کا چیلنج ہے۔ علاقائی سطح پر ہمیں ایران اور شمالی کوریا کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ اقتصادی، تکنیکی اور عسکری طور پر اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط طاقت ہو سکتا ہے… لیکن ہمیں اب ایک کثیر قطبی دنیا میں کام کرنا چاہیے جس میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اور یہ رکاوٹیں بین الاقوامی سے لے کر ملکی سطح تک ہوں گی۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس جیسے لیڈروں کی قیادت میں ایک نئی امریکی قوم پرستی ابھری ہے، جس کی کتاب امریکہ کو عالمی رہنما کے طور پر تصور نہیں کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو صرف اپنی قومی ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے، چاہے وہ عالمی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے لکھا کہ “2006 میں میں ایک ایسے امریکہ کے بارے میں لکھ رہا تھا جو عراق میں ہمارے کردار پر بحث کر رہا تھا لیکن پھر بھی بین الاقوامی سطح پر امریکی قیادت پر یقین رکھتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے دنیا میں ہمارے کردار کی قیمت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھائے اور اس اتفاق رائے کو ختم کر دیا کہ امریکہ کو قیادت کرنی چاہیے۔”

ڈینس راس کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کی اب سب سے بڑی کمزوری اس کے بیان کردہ مقاصد اور ان کے حصول کے لیے وسائل کے درمیان عدم توازن ہے۔ افغانستان سے عجلت میں واپسی ہو، یا شام میں نیم دلانہ مداخلت، یا یوکرائن کے تنازع میں حمایت پر اٹھنے والے سوالات، ہر جگہ یہی نظر آرہا ہے کہ امریکہ نے اپنے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگر قیادت میں تبدیلی نہ لائی گئی اور حالات کو درست نہ کیا گیا تو امریکہ کی پالیسی نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تر امریکی شراکت دار دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا امریکہ پر عدم اعتماد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک مضبوط روس اور ایک جارح چین کا سامنا ہے اور اگر امریکہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کرتا رہا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com