Connect with us
Wednesday,24-December-2025
تازہ خبریں

جرم

شرجیل امام : میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں

Published

on

جنوری کی پانچ تاریخ کو جے این یو میں نقاب پوش بدمعاشوں کے ذریعہ تشدد اور دہلی پولس کی شرمناک خاموشی سے ناراض ممبئی اور مہاراشٹر کے نوجوانوں اور طلبہ نے اسی رات گیٹ وے پر جمع ہونے کی اپیل کی وہ جے این یو کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے۔ اسی احتجاج میں ایک لڑکی جس کا نام مہک پربھو تھا فری کشمیر کا پوسٹر اٹھائے ہوئے نظر آئی۔ یہ کسی کو نظر آئے یا نہیں آئے مگر بی جے پی کیلئے یہ موقعہ غنیمت تھا چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ اس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوئی اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور تفتیش شروع ہوگئی مگر اس سے پہلے ہی اس لڑکی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ اس کے پیچھے اس کا مقصد کشمیر میں عوام کو ہورہی دشواری پر احتجاج کرنا تھا جسے سب نے تسلیم کرلیا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ شرجیل امام پر ملک سے غداری کے مقدمہ کے بعد گرفتاری کا ہے۔ واضح ہو کہ اس نوجوان نے علی گڑھ میں احتجاج کے دوران یہ کہا تھا کہ احتجاج کو موثر بنانے کیلئے ہمیں پورے ملک میں چکہ جام جیسی صورتحال پیدا کرنی ہوگی جس میں اس نے شمال مشرق کی ریاست کو باقی ہندوستان سے کاٹ دینے یعنی رابطہ ایک لمبے عرصہ تک منقطع کرنے کی بات کی تھی تاکہ حکومت مجبور ہو کر مسلمانوں کی بات سنے۔ اس تقریر میں جو کاٹ دینے کی بات تھی اس کو علیحدگی پسندی سے تعبیر دی گئی اور اس کی یا اس کے والدین کی جانب سے دی گئی وضاحت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ وجہ بالکل صاف ہے کہ فری کشمیر کا پوسٹر اٹھانے والی ہندو لڑکی تھی اس لئے وہ قابل معافی ہے یا قابل گرفت نہیں ہے مگر شرجیل امام ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہے اس لئے اس کی جانب سے کسی وضاحت کو تسلیم نہیں کرنے کا رجحان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہے۔اس کے ثبوت کے طور پرکشمیر کے معاملہ میں جواہر لال نہرو کی حکومت میں ہی شیخ عبد اللہ کی گرفتاری کوپیش کیا جاسکتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ شرجیل امام کی حمایت میں آزاد میدان میں نعرہ لگانے والوں پر ایف آئی آر ہوجاتی ہے اور اس میں شامل ایک طالبہ کی گرفتاری کیخلاف پولس کوشاں ہوجاتی ہے مگر وہ نظروں سے بچ کر ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
کچھ دن قبل شرجیل امام کی حمایت میں کچھ نوجوانوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا جس میں شرجیل سے اظہار یکجہتی اور اس کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ اس میں ایک ٹوئٹر پر شرجیل کی ایک تصویر نظر آئی جس میں وہ ایک پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے جس پر ہاتھ سے انگریزی میں ایک تحریرہے جس کا اردوترجمہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘ہے۔ بہت مختصر جملہ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں جامع ہے۔ یہ آج کے ہر مسلم نوجوان کی آواز ہے۔ خواہ کسی سازش کے تحت اسے کچھ بھی سمجھ لیا جائے۔ شرجیل کا شمال مشرق کی ریاستوں کو بقیہ ہندوستان سے کاٹ دینے کا مطلب مہک پربھو کے فری کشمیر سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ شرجیل امام ایک آمادہ زوال قوم کا نوجوان ہے جو قوم کے حالات سے رنجیدہ ہے۔ وہ جسقدر ہندوانتہا پسندوں سے نالاں ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نام نہاد سیکولر لبرل طبقہ سے بے اعتمادی کا اظہار کرتاہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے اسی تقریر میں یہ کہا کہ یہ لوگ اپنی مارکیٹنگ کریں گے اور چلے جائیں گے ۔ ہمیں اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی۔ اجیت ساہی بھی نام نہاد سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں مسلمان، مسلمان بن کر ہی رہے گا یہی اس کی پہچان ہے‘۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کا زور اس بات پر ہے کہ مسلمان اس ملک کی تہذیب و ثقافت میں اپنی پہچان ختم کرلیں۔ اسی لئے ششی تھرور کو موجودہ احتجاج میں مسلم شناخت اور اسلامی نعرے شدت پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی نظر آتے ہیں۔
ہمیں شرجیل امام کے معاملہ میں سیکولر اور لبرل طبقہ سے شکایت ہے کہ اس نے شرجیل کو تنہا چھوڑ دیا۔ مگر ہم نے کون سا اس کا ساتھ دیا؟ ہم نے آخر کیوں اس کا ساتھ نہیں دیا؟ اس کے پیچھے محض خوف کی نفسیات اور مجرم ضمیری کے سوا کیا ہے کہ اگر ہم نے اس کی حمایت میں کچھ بولا تو ملک کے غدار ٹھہرائے جائیں گے اور مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آخر آپ کب تک خود کو مشکلات سے بچا پائیں گے؟ جب تک آپ پورے طور سے یہاں کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہو کر اپنی شناخت ختم نہ کرلیں۔ شرجیل امام کا مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا وہ بیدار مسلم نوجوان ہے جو اپنی شناخت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا اور چاہتا ہے کہ اس کی قوم بھی ایک غیور قوم کی طرح ہندوستان میں سر اٹھاکے رہے۔ شرجیل کے سامنے اس کے قوم کی شاندار روایتیں ہیں جسے قوم اور قوم کے جبہ و دستار سے سجی قیادت بھلا چکی ہے۔ شرجیل کے سامنے اسلام کی وہ اعلیٰ و ارفع تعلیمات ہیں جو حقوق انسانی کی پوری ضمانت دیتا ہے۔ وہ اس اسلام کو مانتا ہے جس نے موجودہ دنیا کو حقوق انسانی اور انسانی قدریں کیا ہوتی ہیں اس سے روسناش کرایا جبکہ شرجیل امام پر تنقید کرنے والے افراد کا یہ نظریہ کمزور ہو چکاہے۔
ہمیں سازشوں کی باتیں اتنی بتائی گئی ہیں کہ ہم زمینی حقائق اور فطری جذبہ کو بھی دشمن کی سازش قرار دینے لگے ہیں۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ شرجیل امام کا موجودہ تحریک کے دوران اس قسم کی تقریر کرنا دراصل ایک سازش ہے اور اسے دشمن نے ہمارے درمیان پلانٹ کیا ہے۔ یقین جانئے یہ صرف خوف کی انتہا ہے جس کا اظہار ہماری زبان سے اس انداز سے ہوتا ہے۔ شرجیل کا یہ جملہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘وضاحت کیلئے کافی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر کے سوا کیا کیا۔اس کے صبر کی انتہا تو سپریم کورٹ کے ذریعہ اس کی مسجد کو مندر کے حوالہ کرنے کے فیصلہ پر اشتعال میں نہیں آنا ہے ۔مگر جب اس کی شہریت کو ختم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو وہ بے چین ہوگیا۔ دنیا میں کون ہے جو بے زمین ہونے کی کیفیت کا احساس کرکے بے چین نہیں ہوگا۔ حکومت کے اس منصوبہ کیخلاف بھی مسلمانوں کو ہی میدان میں آنا پڑا اور پھر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کے گھر کی زینت اور صنف نازک کو بھی باہر آکر موسم کی سختی اور متعصب دنیا کی بدزبانی کو سہنا پڑا۔ اس سے ہمدردی اور بڑی بڑی باتیں تو بہت کی گئیں مگر میدان میں صرف مسلمانوں کو ہی نکلنا پڑا اور بیس سے زیادہ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ آج بھی حالات یہ ہے کہ میدان میں وہی نظر آرہا ہے۔ ٹھیک ہی کہا تھا شرجیل نے کہ مسلمانوں کو ان کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔شرجیل امام کے تعلق سے ابھی مزید کئی باتیں عرض کرنا باقی ہیں جو آئندہ کسی مضمون میں پیش کی جائے گی۔ یہاں سیکولر اور لبرل طبقہ کی ایک مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بہار کے سید شہاب الدین برسوں سے جیل میں ہیں تقریبا دو سال قبل انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو پرشانت بھوشن جو کہ ایک سیکولر شخص مانے جاتے ہیں نے سپریم کورٹ میں مداخلت کرکے سید شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کرواکر انہیں دوبارہ جیل بھجوادیا۔ مگر یہی پرشانت بھوشن اس وقت خاموش رہے جب دہشت گردی کے بدترین الزام کے باوجود سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت مل جاتی ہےاور وہ رہا بھی ہوجاتی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ سیکولر یا روادار طبقہ کو ساتھ نہ لیا جائے یا ان کے ساتھ نہ جایا جائے۔ صرف اتنا کیا جائے کہ ان پر پوری طرح سےتکیہ نہ کیا جائے، ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہے اور اسی تناظر میں لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور پالیسی بنائی جائے۔ ایک صدی قبل خلافت تحریک کو گاندھی جی کے کاندھوں پر ڈال کر جو نقصان ہم کو ہو چکا ہے اس کا اعادہ نہ ہو۔

جرم

پالگھر : وسئی میں 30 سالہ مزدور کو چاقو مار کر قتل کر دیا گیا، 28 سالہ آدمی کو پکڑ لیا گیا۔

Published

on

مہاراشٹر : پولیس نے جرم کے 24 گھنٹوں کے اندر مہاراشٹر کے پالگھر ضلع میں ایک مزدور کو مبینہ طور پر چاقو گھونپ کر ہلاک کرنے کے الزام میں ایک 28 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے، ایک اہلکار نے پیر کو بتایا۔ میرا-بھیندر، وسائی-ویرار (ایم بی وی وی) پولیس کے سینئر انسپکٹر ایویراج کُرھاڈے نے بتایا کہ وسائی کرائم برانچ نے 18 دسمبر کو ہونے والے جان لیوا حملے کے سلسلے میں جھارکھنڈ کے رہنے والے ملزم کشنو رام رائی ہیمبرم کو گرفتار کیا۔ "وسائی ایسٹ کے گوریپاڈا میں ایک انڈسٹریل اسٹیٹ کے قریب جھاڑیوں میں ایک نامعلوم شخص کو چاقو کے متعدد زخموں کے ساتھ پایا گیا، اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ والیو پولس اسٹیشن میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا، اور مقتول کی شناخت ٹاٹا کرسن ہیمبرم (30) کے طور پر کی گئی، جو گولانی، وسائی ایسٹ میں رہنے والا ایک مزدور تھا،” انہوں نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ مقتول کو آخری بار 17 دسمبر کی رات اس کے آبائی گاؤں کے ایک شخص کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ اس برتری پر عمل کرتے ہوئے، پولیس ٹیم نے مشتبہ شخص کو چنچ پاڑا، وسائی ایسٹ سے ٹریس کیا اور اسے حراست میں لے لیا۔ انہوں نے کہا، "تفتیش کے دوران، مشتبہ، ہیمبرم نے اعتراف کیا کہ وہ ایک دیرینہ خاندانی تنازعہ کی وجہ سے متاثرہ کے چہرے، کندھے اور گردن پر درانتی سے بار بار وار کرتا ہے۔”

Continue Reading

جرم

ممبئی : سی بی آئی نے پرائیویٹ بینک منیجر کے ساتھ ملو اکاؤنٹ گھوٹالے میں مزید 2 کی شناخت کی۔

Published

on

ممبئی : سی بی آئی نے اس معاملے میں مبینہ طور پر ملوث دو اور افراد کی شناخت کی ہے جہاں ایجنسی کے اہلکاروں نے گزشتہ ماہ ممبئی میں ایک نجی بینک کے برانچ منیجر نتیش رائے کو خچر کھاتوں کو کھولنے میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرفتار اہلکار نے سائبر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر غیر قانونی تسلی حاصل کی اور اپنے سرکاری عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اکاؤنٹ کھولنے کے فارم پر کارروائی کی، اس طرح سائبر کرائمز کی نقل و حرکت کے لیے چینلز بنائے گئے "مذکورہ کیس کی تحقیقات کے دوران، 30 اپریل، 2025 سے 4 مئی، 2025 تک، یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملزم نتیش رائے نے، برانچ منیجر، باندرہ ریکلیمیشن برانچ، ممبئی کے طور پر کام کرتے ہوئے، خچر اکاؤنٹس کھولنے میں سہولت فراہم کی اور اے این پٹھان سے غیر قانونی تسلی حاصل کی” سرکاری "تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ ایک موقع پر، 2 جنوری 2025 کو 10،000 روپے کی رقم نتیش رائے کے ایکسس بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی تھی، اکاؤنٹ کھولنے کے فارم پر کارروائی کرنے کے بدلے غیر قانونی تسکین کے طور پر۔ غیر قانونی تسکین کے مطالبے اور اس کے بعد کئے جانے والے کام پر نتیش رائے نے واٹس ایپ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔” "مطالبہ کے مطابق، ساہنی نے، پٹھان کے ذریعے، نتیش رائے کے اکاؤنٹ میں 10،000 روپے کی منتقلی کا انتظام کیا۔ پٹھان کے ذریعے منی ایکسچینج کے ذریعے ادائیگی کی سہولت فراہم کی گئی۔ مذکورہ غیر قانونی تسکین کی وصولی کے بعد، نتیش رائے نے اکاؤنٹ کھولنے کے فارم پر کارروائی کی۔” "پٹھان اور ساہنی نے اس طرح ایک سرکاری ملازم کو اپنے سرکاری فرائض کی غلط کارکردگی کے لیے اکسایا،” اہلکار نے مزید کہا۔

Continue Reading

جرم

ممبئی ایئرپورٹ کسٹمز نے تقریباً 20 کروڑ روپے کے ہائیڈروپونک گھاس کی اسمگلنگ کے الزام میں بنکاک سے آنے والے دو افراد کو گرفتار کیا۔

Published

on

ممبئی : ممبئی ہوائی اڈے کے کسٹمز حکام نے اتوار کے روز دو افراد کو بنکاک سے تقریباً 20 کروڑ روپے کی مالیت کی منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں الگ الگ مقدمات میں گرفتار کیا۔ پہلے معاملے میں، ایئرپورٹ کسٹمز حکام نے ممبرا کی رہائشی 33 سالہ فاطمہ سید کو گرفتار کیا، جو بنکاک سے آئی تھی۔ اس کے سامان کی جانچ کے دوران، اہلکاروں نے 12.13 کروڑ روپے کی مالیت کے ہائیڈروپونک گھاس کو برآمد کیا اور ضبط کیا۔ ایک اور معاملے میں، حکام نے اتر پردیش کے امروہہ کے رہائشی 27 سالہ مسافر فرمان محمد کو بینکاک سے ممبئی کے سی ایس ایم آئی ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد روک لیا۔ جانچ کے دوران، فرمان کے ٹرالی بیگ میں آٹھ مہر بند پیکٹوں سے بھرے ہوئے پائے گئے جن میں خشک سبز رنگ کا مادہ گانٹھوں کی شکل میں تھا، جس کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ حکام نے کل 7787 گرام ہائیڈروپونک گھاس برآمد کیا جس کی قیمت 7.78 کروڑ روپے ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com