Connect with us
Monday,07-April-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مولانا سید ارشدمدنی کا فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ، متاثرین سے ملاقات جمعیۃعلماء ہند کے امدادی کاموں کا لیا جائزہ

Published

on

(وفا ناہید)
نئی دہلی : یہ ایک منصوبہ بند فسادتھا جس میں شرپسند عناصر کو اس بات کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی کہ وہ جس طرح چاہئیں تباہی پھیلائیں چنانچہ اس کا فائدہ اٹھاکر انہوں نے دہلی کے شمالی مشرقی علاقوں میں زبردست تباہی مچائی، تین دن تک قتل وغارت گری لوٹ ماراور آتش زنی کامذموم سلسلہ جاری رہا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سوتے رہے، جانی نقصان کی گنتی توکی جاسکتی ہے لیکن جو مالی نقصانات ہوئے ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتاہے جو کچھ ہماری آنکھوں نے دیکھاوہ بہت روح فرسااور افسوسناک ہے اور اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے دہلی کے فسادمتاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد ردعمل کے طورپر کہے، مولانا مدنی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ ہی نہیں کیا بلکہ کسی مذہبی امتیازکے بغیر متاثرین سے ملاقات کی ان کی رودادسنی انہیں دلاسادیااور ہر طرح کی مددکا یقین دلایا، واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند کاایک نمائندہ وفدمولانامدنی کی ہدایت پر پچھلے 23 روز سے فسادمتاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے متاثرین کو ہر طرح کی مددپہنچانے کا کام کررہا ہے اور فسادکے دوران ہوئے مالی نقصانات کا سروے بھی کررہا ہے تاکہ اس کی بنیادپر مقدوربھر متاثرین کی مالی مددکی جاسکے اہم بات یہ ہے کہ فسادکے دوران جلائے گئے مکانوں کی تعمیر اور مرمت کا بیڑابھی اب جمعیۃعلماء ہند نے اٹھالیا ہے تاکہ جس قدرجلد ممکن ہوانہیں دوبارہ رہنے کے لائق بنادیا جائے، اپنے دورے کے دوران مولانا مدنی نے کھجوری خاص میں مکانات کی تعمیر ومرمت کے کام کا باضابطہ طورپر آغاز اپنی دعاسے کیا اس موقع پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن سے مولانا مدنی نے فردافردا ملاقاتیں کیں اور انہیں دلاسہ دیا بعدازاں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ بہت دل دہلا دینے والا ہے آج کی مہذب دنیا میں اس طرح کی قتل وغارت گری کو کسی بھی لحاط سے صحیح نہیں ٹہرایا جاتابلکہ یہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کے ماتھے پر ایک سیاہ داغ کی طرح ہے انہوں نے کہا کہ منافرت کی یہاں جو آگ لگائی گئی اس نے ایک ایسے بڑے علاقے کو جلاکر خاکستر کردیا جہاں ہندواورمسلمان برسوں سے محبت اور اخوت کے ساتھ رہتے آئے تھے انہوں نے یہ بھی کہا کہ عینی شاہدین نے جو کچھ بتایا اور جوکچھ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیاکے سامنے آیا اس کی بنیادپر کہا جاسکتاہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود ہندومسلم اتحادکو توڑنے میں ناکام رہی ہیں کئی جگہوں پر فسادکے دوران ہندووں نے مسلمانوں کا تحفظ کیا اور کئی علاقوں میں مسلمان اپنے پڑوسی ہندو بھائیوں کے لئے ڈھال بن گئے اگرچہ فسادکے دوران ہماری بہت سی مسجدوں کی بے حرمتی ہوئی ان میں آگ لگائی گئی مگر اس کے باوجود مسلم علاقوں میں کسی ایک مندرکو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا مولانا مدنی نے کہا کہ یہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ ہم جس مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں اس میں ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم دوسرے مذاہب اور ان کی عبادت گاہوں کا احترام کریں، انہوں نے مزید کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں اتحاداور رواداری کے اسی جذبہ کو ختم کرنے کے درپے ہیں مگر ایک بارپھر انہیں ناکامی ہاتھ لگی ہے، چنانچہ جو کچھ ہوا اسے کلیجے پر پتھر رکھ کر فراموش کرکے آگے بڑھنے اور ہندومسلم اتحادکو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اس فساد میں ایک بڑا رول باہر سے آنے والے شرپسندوں کا رہا ہے مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ اس پر شرمناک خاموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں اگر انصاف سے کام لیا جاتااور دہلی پولس منصفانہ طریقہ سے قانون کے مطابق کام کرتی تو فساد پر قابو پایا جاسکتا تھا مگر افسوس اس نے ایسا نہیں کیا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ہر فسادکے موقع پر پولس کا یہی کردارسامنے آتاہے وہ فسادیوں کی معاون بن جاتی ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وکلاء کی ٹیم متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل ہے اگر قانونی کارروائی ٹھیک سے نہیں ہوتی ہے تو وکلاء کی یہ ٹیم آگے کا قانونی عمل پوراکرے گی جمعیۃعلماء ہند کے رضاکار اور عہدیداران بھی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں کہ کارروائی کی آڑمیں کوئی بے گناہ پولس کا نشانہ نہ بننے پائے اس طرح کی شکایتیں ملنے کے بعد جمعیۃعلماء کے وفدنے پولس کمشنر اور دوسرے اعلی افسران کے ساتھ میٹینگیں کی ہیں اور اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے، پولس کمشنر نے منصفانہ کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے انہوں نے متاثرین سے کہا کہ وہ ڈراورخوف سے باہر نکلیں نڈرہوکر شرپسند عناصر کے خلاف ایف آئی آردرج کرائیں اور اپنی اپنی آبادیوں میں رواداری اور اتحاد کے جذبے مضبوط کرنے کی عملی کوششیں کریں کیونکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوتوڑنے، منافرت کی آگ لگاکر امن اور اتحادکی فضاء کو تاڑ تاڑ کرنے کی فرقہ پرست طاقتوں کی خطرناک کوششوں کو ہم ہندومسلم اتحادکے ذریعہ ہی ناکام بناسکتے ہیں، دورہ کے دوران مولانا مدنی کے ہمراہ مفتی عبدالرازق ناظم اعلیٰ صوبہ دہلی، قاری دلشادقمر، قاری فیضی، ڈاکٹر شمس، کے علاوہ معززین علاقہ اور عہدیداران جمعیۃعلماء صوبہ دہلی موجود تھے۔

(جنرل (عام

وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

Published

on

MLA-Amanatullah-Khan

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔

اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

Published

on

Ziauddin-Siddiqui

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔

Continue Reading

قومی

کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

Published

on

Waqf-Bill-2024

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔

تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔

پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:

  • ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
  • وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
  • وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
  • متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔

تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :

  • ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
  • مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
  • غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
  • انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
  • شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔

فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |

نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com