(جنرل (عام
مولانا ارشد مدنی کا ہندی ترجمہ ’قرآن شریف‘ قرآن فہمی کا بہترین ذریعہ
قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی تشریح، توضیح اور تفسیر لکھی جاتی رہے گی، اور پھر بھی قرآن کریم کا حق کما حقہ ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبان میں قران کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرے۔ لیکن یہ نعمت غیر مترقبہ ہر کسی کی قسمت کا حصہ نہیں بنتی۔ اللہ تعالی خاص بندے کو اس کے لئے منتخب کرتا ہے۔ یہ افتخار مولانا سید ارشد مدنی کو حاصل ہوا ہے۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قرآن ہر زمان اور مکان کے لئے دستور حیات ہے چنانچہ جیسے جیسے اسلام کا آفاقی پیغام غیر عرب دنیا میں پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس آفاقی پیغام کو ان کے مادری زبان میں بھی منتقل کیا جائے، لہذا پوری دنیا میں اسلام تعلیمات اور پیغام کے عام کرنے کے لئے ہر ملک کے صاحب علم و فضل اور علمائے کرام نے اپنی بساط کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ مقامی زبانوں میں کیا۔
ہندوستان میں بھی جب اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو علماء نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ لیکن جب فارسی کا چلن کم ہونے لگا، اور اردو کا فروغ ہونے لگا، تو شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادے اور دوسرے علماء کرام نے قرآن کا اردو ترجمہ کر کے اس کے پیغام کو ہندی مسلمانوں میں عام کیا۔ شیخ الہند اور مولانا تھانوی نے قرآن کااردو ترجمہ کر کے اس کو مزید آسان اور سہل الحصول بنایا۔آج جب کہ لوگ ارود سے بھی نابلد ہوتے جا رہے اور نئی نسل کا رجحان اردو کی طرف کم ہوتا جارہا ہے تو ضروت محسوس ہوئی کہ اس کا ترجمہ ہندی زبان میں بھی کیا جائے تاکہ اردو سے ناواقف لوگ بھی اسلام کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ چیز ان لوگوں کی طرف سے آئیں جو براہ راست قرآن سے استفادہ نہ کرسکتے تھے بلکہ دوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہوکر ان کے اندر غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ اس لئے ان کے لئے بھی قرآن کے ہندی ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
چنانچہ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر اور امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے قرآن کریم کے پیغام کو عام مسلمان اور عام ہندوستانی تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کا ہندی میں ترجمہ تفسیر کے ساتھ کیا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو ’ہندوستانی زبان‘ میں ترجمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
اس کی خوبی یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے، اس کے بعد اس کا ہندی میں آسان زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور پھر اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندی داں حضرات کو قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس کی تفسیر سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔ بہت سے غیر مسلم حضرات چاہتے ہیں کہ وہ ہندی میں قرآن پڑھیں اور اسے سمجھیں، لیکن اس کی تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں قرآن پاک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں خام اور غیر مصدقہ مواد کی بھر مار ہے قرآن کے بارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس ترجمہ اور توضیح و تشریح سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، اور عام لوگوں کی رسائی بھی قرآن کریم تک ہو جائے گی۔
مولانا سید ارشد مدنی اپنے ترجمے اور تفسیر کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”ہم نے پہلے ایڈیشن میں قرآن کے موضوعات کے سلسلے میں کوئی فہرست نہیں بنائی تھی، لوگوں کی خواہش تھی کہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح قرآن کی تفسیر کی بھی ایک فہرست آنی چاہیے، تاکہ دیکھنے والا اپنی خواہش کے مطابق جس موضوع کو دیکھنا چاہے دیکھ سکے۔ قرآن کی تفسیر کی ایک فہرست ”معارف القرآن“ جو مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی تفسیر ہے، میں ہر سورت کے آغاز میں دی گئی ہے۔ مولانا عثمانی کی تفسیر میں کوئی فہرست نہیں تھی، لیکن یہ فہرست مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے بیٹے جناب محمد ولی رازی صاحب نے بنائی ہے، ہم کو وہ کام پسند آیا اس لیے ہم نے اسی فہرست کو قرآن کریم کے دونوں حصوں کے آغاز میں رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس سورت اور کس آیت میں کون کون سے مضامین بیان کیے گئے ہے پڑھنے والا اس کو سمجھ سکے اور مستفید ہوسکے۔ اس وقت تک ہندی زبان میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ بہت سے لوگ کر چکے ہیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آ چکے ہیں، لیکن ہماری یہ کوشش قرآن کے ترجمہ سے آگے بڑھ کر اس کی مخصوص تفسیر پیش کرنا ہے، کیونکہ صحیح طریقے سے قرآن کا سمجھنا اس کی تفسیر کو پڑھے بنا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر سے متعلق کچھ اصول و ضوابط مختصر طور پر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ تو اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ علم کی مکمل اور حیرت انگیز کتاب کس مقام پر، کس ماحول میں اور کس شخص پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علم کے ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے ایسی مکمل کتاب تیار ہو سکے، جو اگلے پچھلے لوگوں کے علم کو جمع کرنے والی اور انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے ہر جہت کے تعلق سے بہتر رہنمائی پیش کر سکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام موجود ہو اور عائلی قوانین سے لے کر ملکی نظام کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہو۔“
اس کا ترجمہ نہایت آسان اور عام فہم زبان میں ہے۔ ہندی بہت سخت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ عام ہندوستانی زبان ہے اردو اور ہندی کی آمیزش ہے۔ اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام ہندی داں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ اور تفسیر غیر مسلم برادر سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو سامنے پر رکھ کر کی گئی ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے ناآشنا ہے۔ اس لئے ان کی رسائی قرآن تک نہیں ہے کیوں کہ قرآن ایک صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، راہ ہدایت ہے، لائحہ عمل ہے، زندگی گزارنے کے قوانین ہیں، حکمرانی کے طریقے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا میں اس لئے ذلیل خوار ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو صرف تلاوت یا اجر و ثواب کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ اس ترجمے اور توضیح قرآن کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور قرآن سے استفادہ کر کے وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو ترتیب دے سکتے ہیں۔
علمائے کرام نے قرآن مجید کی تفاسیر کو چار ادوار پر تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ قرآنِ مجید عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی عربی تھی، لیکن علم و فہم فراست کے لحاظ سب ایک جیسے نہ تھے، اس لئے جب بھی کسی لفظ یا کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں پریشانی ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضری دے دیتے تھے، اور پوری بات سمجھ میں آجاتی تھی۔ یہیں سے قرآن کریم کی تفسیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ پہلا دور ہے۔ دوسرا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پردہ فرمانے کے بعد کا ہے۔ جب بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور انہوں نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ سے کسب فیض کیا تھا۔ اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معانی مفاہیم سمجھنے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے قران کے مطالب و مفاہیم سمجھے۔ صحابہ کرام کو پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھے۔ وہ قرانی اسلوب اور لغت سے واقف تھے اس لئے پورے قرآن کی تفسیر کو ان کو ضرورت نہیں تھی۔ تیسرے دور میں صحابہ کرام کے بعد تابعی اور تبع تابعین کا زمانہ آیا تھا۔اس دور میں اسلام اطراف کے ممالک میں اپنا دامن پھیلا چکا تھا۔ اس دور میں اگرچہ قرآن کا کریم کی تفسیر کا ایک ذخیرہ موجود تھا، لیکن پورے قرآن کی تفسیر نہ تھی۔ اسلام نے اپنے دامن عرب سے عجم کی طرف پھیلا چکا تھا، اب ضرورت تھی قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کوقرآنی علوم کو بہرہ ور کیا جاسکے۔ اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاوی کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی تفسیر قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علو الہ وسلم کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآن مجید کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیر قرآن سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار نہیں ملے، وہاں انہوں نے اجتہاد و استنباط سے کام لیا، اور اسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا۔
چوتھا اہم دور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادے کا آتا ہے۔ یہاں عربی خاص کی زبان تھی اور عام لوگ عربی سے ناواقف تھے۔ بڑا عجمی خطہ جو جہاں بیشتر لوگ اسلام کا دامن تھام چکے تھے، جس میں برصغیر کے ہمسایہ ملک ترکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ ممالک شامل ہیں۔ یہاں کی زبان عربی نہیں تھی۔ اس وقت شاہ ولی اللہ رحم اللہ نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فارسی میں ’المقدّمہ فی قوانین الترجمۃ‘ لکھا۔ یہ رسالہ اصول ترجمہ پر تحریر کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے۔ اسے ہم دوسرے لفظوں میں اصول تفسیر، پر ایک جامع رسالہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ترجمہ کئی لحاظ سے تفسیر ہی کی ایک قسم ہے۔ شاہ صاحب خود اس رسالہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں: ”اللہ کرم والے کی رحمت کا فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم کہتا ہے کہ یہ رسالہ جس کا نام ترجمہ کے قوانین رکھا ہے، قواعدِ ترجمہ پر مشتمل ہے، کیونکہ درحقیقت قرآن کا ترجمہ اس وقت ضبطِ تحریر میں جاری ہے۔“ فتح الرحمن بترجمۃ القرآن (فارسی) محققین کے مطابق برصغیر کا پہلا فارسی ترجمہ باب الاسلام سندھ میں ہوا، اور مخدوم لطف اللہ بن مخدوم نعمت اللہ المعروف مخدوم نوح اللہ (م 998ھ/ 1589ء) ساکن ہالہ (حیدر آباد) نے یہ شرف حاصل کیا۔ (وکی پیڈیا) جو مقبولیت شاہ عبدالعزیز کے فارسی اور شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کو حاصل ہوئی، وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔
شاہ لی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں اور شاہ عبدالقادر رحم اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا، اور مغل بادشاہ محدود سے محدود تر ہوتے جارہے تھے۔ فارسی کے ساتھ اردو زبان میں رائج ہورہی تھی بلکہ عام لوگوں کی زبان اردو تھی۔ اس لئے قرآن کریم کی افہام تفہیم کے لئے اردو میں ترجمہ ضروری تھی۔ مولانا اسحاق بھٹیؒ لکھتے ہیں: ”اس (ترجمہ) کی اولیت کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سر ہی بندھے گا۔ وہ پہلے عالم ہیں، جن کے ترجمے نے بے پناہ قبولیت حاصل کی اور لوگوں کی وسیع تعداد نے اس سے استفادہ کیا۔ اب بھی حوالے کے لیے اس ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب ان تمام اوصاف سے متصف اور ان تمام خصوصیات سے (بدرجہ اتم) مالا مال تھے جن سے قرآن کے مترجم کو ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی مترجم میں وہ اوصاف جمع نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب میں جمع فرما دیے تھے۔“
اس دور کے حالات کو دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کیا بلکہ اصل کارنامہ تو یہ تھا کہ قرآن فہمی کے حوالہ سے عرصے سے چلے آتے جمود کو توڑا اور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کر کے انھیں براہ راست قرآن سے جوڑا۔ اگر آپ اس فکر کا رد نہ کرتے کہ قرآن کو کوئی بہت بڑا عالم ہی سمجھ سکتا ہے، تو شاید آپ کے ترجمہ قرآن کو اتنی قبولیت حاصل نہ ہو پاتی۔ دوسرے یہ کہ شرعی و لغوی علوم سے گہری واقفیت کی بناء پر آپ کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم خصوصیت علمی پختگی اور رسوخ تھا۔
مولانا سید ارشد مدنی کا قرآن کے سلسلے میں یہ کارنامہ قرآن فہمی تحریک کو مہمیز دے گا، اور قران کو عربی زبان کے نہ جاننے والے بھی سمجھ کر اپنی زندگی میں اتاریں گے۔ بلاشبہ مولانا مدنی کا یہ کارنامہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرے گا اور اس سے نہ صرف قرآن فہمی میں مدد ملے گی، بلکہ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور مفروضہ کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
ریاست میں موسم سرما میں بارش کا اندیشہ، تین اضلاع میں الرٹ جاری

ممبئی ریاست میں موسم مسلسل بدل رہا ہے۔ اب شدید سردی کے بعد بھارتی محکمہ موسمیات نے براہ راست بارش کی بڑی وارننگ دے دی ہے۔ ریاست اس وقت بارش کے لیے سازگار موسم کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست میں گزشتہ کچھ دنوں سے سردی اور درجہ حرارت
میں گراؤٹ درج کیا گیا ہے۔ پارہ مسلسل گر رہا ہے۔ پونے میں شدید سردی، درجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے پونےکر کو گلابی سردی کا سامنا ہے۔ پونے ہی نہیں ریاست کے کئی حصوں میں شدید سردی پڑ رہی ہے اور شمال سے ٹھنڈی فضائیں چل رہی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں شدید سردی ہے اور اگلے چند دنوں میں پارہ مزید گرنے کا امکان ہے۔ تاہم کل سے سردی میں قدرے کمی آئی ہے۔ ممبئی، ناگپور، اکولہ، سولاپور، چھترپتی سمبھاجی نگر، بیڈ، ناندیڑ، پربھنی، ہنگولی، اہلیہ نگر، گڈچرولی، گوندیا، جلگاؤں، بھنڈارا، ایوت محل کے اضلاع میں پارہ گر رہا ہے۔ دھولیہ میں پارہ 7.5 سیلسیس تک گر گیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات نے اب بہت بڑی وارننگ جاری کر دی ہے۔
اگرچہ اس وقت سردی محسوس کی جارہی ہے تاہم بعض علاقوں میں گزشتہ دو تین روز کے مقابلے میں سردی میں کمی آئی ہے۔ یہی نہیں ابر آلود موسم بھی ہے۔ فی الحال ریاست میں بارش کے لیے ماحول سازگار ہے۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات نے کچھ اضلاع میں بارش کی وارننگ بھی جاری کی ہے۔ کولہاپور، سانگلی اور سندھو درگ اضلاع میں بارش کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر پارہ 10 ڈگری سے بھی نیچے ہے۔ جمعہ کو ریاست میں سب سے کم درجہ حرارت دھولیہ میں ریکارڈ کیا گیا۔ دھولے میں درجہ حرارت 7.5 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ پربھنی میں درجہ حرارت 8.9 ریکارڈ کیا گیا۔ نفاد میں درجہ حرارت 8 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ پونے، اہلیہ نگر اور مہابلیشور میں پارہ 11 ڈگری تک گر گیا۔ آج ریاست کے کچھ شہروں میں بارش کے لیے موسم سازگار ہے۔ کولہاپور، سانگلی اور سندھو درگ میں ہلکی سے درمیانی بارش ہوگی۔ پونے میں پارہ 10 ڈگری سے نیچے گر گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہوا میں شدید دھند ق کہرا چھائی ہوئی ہے۔ سردی سے بچنے کے لیے پونے کے سرس باغ میں گنپتی بپا کو روایتی طور پر اونی سویٹر اور کان کی ٹوپی پہنائی گئی ہے۔ یہ سویٹر گنپتی بپا کو اس خوشگوار احساس کے ساتھ دیا گیا ہے کہ گنپتی بپا کو بھی سردی محسوس ہو رہی ہوگی۔ ہر موسم سرما میں، جب بھی سردی بڑھتی ہے، گنپتی بپا کو ایک سویٹر دیا جاتا ہے۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
ممبئی چارکوپ بلڈر پر فائرنگ، ۴ گرفتار

ممبئی : ممبئی پولس نے چارکوپ میں بلڈر پر فائرنگ کے بعد اس معمہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس میں ملوث راجیش رمیش چوہان عرف دیاکاندیوالی، ممبئی۔سبھاش بھیکاجی موہتے، ویرار، پالگھر، منگیش ایکناتھ چودھری،بھورپونے کرشناروشن بسنت کمار سنگھ کاشیگاؤں، تھانے کو گرفتار کیا ہے ان چاروں پر بلڈر پر فائرنگ کا الزام الزام ہے اس فائرنگ کے بعد علاقہ میں سنسنی پھیل گئی تھی جس کے بعد پولس نے مشترکہ ٹیم کے معرفت ملزمین کی تلاش کی اور انہیں گرفتار کر لیا ہے پولس نے ۲۴ گھنٹے کے اندر ہی ملزمین کو اپنی گرفت میں لے لیا اس کے لئے پولس نے سی سی ٹی وی کی مدد سے گرفتاری بھی عمل میں لائی ہے ۔
سیاست
شندے سینا اراکین کی شمولیت سے یو بی ٹی میں ہلچل… زبان لسانیات کے نام پر کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دی جاسکتی : ادھو ٹھاکرے

ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اس سے پہلے ادھو ٹھاکرے نے آج ایکناتھ شندے کو بڑا جھٹکا دیا۔ مگاتھانے میں ایکناتھ شندے کی شیو سینا کے شیوسینک آج ماتوشری میں ادھو ٹھاکرے گروپ کا دامن تھام لیا یہ شندے اور پرکاش سروے کے لیے ایک دھچکا ہے۔ کیونکہ پرکاش سروے مگا تھانے اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ شیو سینا شندے گروپ میں ہیں۔ اب ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی اور غدار کتنے منافق ہیں۔ یہ جنگ آسان نہیں ہے۔ آپ جوش میں ہیں۔ آپ کو جوش میں ہونا چاہیے۔ لیکن اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور ہر طرف دیکھیں۔ بی جے پی دھوکے اور سازش کی پارٹی ہے اس لئے اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے یہ الزام ادھو ٹھاکرے نے عائد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اب پارٹی کو توڑتے ہوئے گھر توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی ہندوتوا کا بلبلا پھٹ گیا ہے۔ پالگھر قتل عام اس وقت ہوا جب ہم اقتدار میں تھے، یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا، کسی نے اس کی حمایت نہیں کی، ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ پالگھر معاملہ کے مشکوک افراد کو جب بی جے پی نے اپنی پارٹی میں شامل کیا تو اس پر ہنگامہ برپا ہوا اور بعدازاں اسے پارٹی سے نکال دیا گیا بی جے پی صرف ہندوتوا کا ڈھونگ کرتی ہی اس کا حقائق سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ‘ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ زبان کی بنیاد پر کسی کو قتل کیا جائے’ اب لسانی علاقائیت کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم زبان کی بنیاد پر کسی کو مارنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے ۔کوئی زبان دیگر زبان سے تعصب نہیں برتتی ، لسانی علاقائیت کہاں سے شروع ہوئی؟ کسی نے مگا تھانے میں کہا تھا کہ مراٹھی میری ماں ہے، اگر میری ماں مر جائے تو ہم ان سے کیا امید رکھ سکتے ہیں، ہم ایسے لوگوں سے کیا بات کر سکتے ہیں۔آر ایس ایس کے جوشی نے کہا کہ وہاں کی مادری زبان مراٹھی نہیں ہے ہم مراٹھی زبان کی حفاظت کےلئے ہر ضروری اقدام کریں گے لیکن تشدد کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی ۔
-
سیاست1 سال agoاجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
سیاست6 سال agoابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 سال agoمحمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
جرم5 سال agoمالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 سال agoشرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 سال agoریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 سال agoبھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 سال agoعبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا
