(جنرل (عام
مولانا ارشد مدنی کا ہندی ترجمہ ’قرآن شریف‘ قرآن فہمی کا بہترین ذریعہ

قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی تشریح، توضیح اور تفسیر لکھی جاتی رہے گی، اور پھر بھی قرآن کریم کا حق کما حقہ ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبان میں قران کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرے۔ لیکن یہ نعمت غیر مترقبہ ہر کسی کی قسمت کا حصہ نہیں بنتی۔ اللہ تعالی خاص بندے کو اس کے لئے منتخب کرتا ہے۔ یہ افتخار مولانا سید ارشد مدنی کو حاصل ہوا ہے۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قرآن ہر زمان اور مکان کے لئے دستور حیات ہے چنانچہ جیسے جیسے اسلام کا آفاقی پیغام غیر عرب دنیا میں پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس آفاقی پیغام کو ان کے مادری زبان میں بھی منتقل کیا جائے، لہذا پوری دنیا میں اسلام تعلیمات اور پیغام کے عام کرنے کے لئے ہر ملک کے صاحب علم و فضل اور علمائے کرام نے اپنی بساط کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ مقامی زبانوں میں کیا۔
ہندوستان میں بھی جب اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو علماء نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ لیکن جب فارسی کا چلن کم ہونے لگا، اور اردو کا فروغ ہونے لگا، تو شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادے اور دوسرے علماء کرام نے قرآن کا اردو ترجمہ کر کے اس کے پیغام کو ہندی مسلمانوں میں عام کیا۔ شیخ الہند اور مولانا تھانوی نے قرآن کااردو ترجمہ کر کے اس کو مزید آسان اور سہل الحصول بنایا۔آج جب کہ لوگ ارود سے بھی نابلد ہوتے جا رہے اور نئی نسل کا رجحان اردو کی طرف کم ہوتا جارہا ہے تو ضروت محسوس ہوئی کہ اس کا ترجمہ ہندی زبان میں بھی کیا جائے تاکہ اردو سے ناواقف لوگ بھی اسلام کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ چیز ان لوگوں کی طرف سے آئیں جو براہ راست قرآن سے استفادہ نہ کرسکتے تھے بلکہ دوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہوکر ان کے اندر غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ اس لئے ان کے لئے بھی قرآن کے ہندی ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
چنانچہ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر اور امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے قرآن کریم کے پیغام کو عام مسلمان اور عام ہندوستانی تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کا ہندی میں ترجمہ تفسیر کے ساتھ کیا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو ’ہندوستانی زبان‘ میں ترجمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
اس کی خوبی یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے، اس کے بعد اس کا ہندی میں آسان زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور پھر اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندی داں حضرات کو قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس کی تفسیر سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔ بہت سے غیر مسلم حضرات چاہتے ہیں کہ وہ ہندی میں قرآن پڑھیں اور اسے سمجھیں، لیکن اس کی تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں قرآن پاک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں خام اور غیر مصدقہ مواد کی بھر مار ہے قرآن کے بارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس ترجمہ اور توضیح و تشریح سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، اور عام لوگوں کی رسائی بھی قرآن کریم تک ہو جائے گی۔
مولانا سید ارشد مدنی اپنے ترجمے اور تفسیر کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”ہم نے پہلے ایڈیشن میں قرآن کے موضوعات کے سلسلے میں کوئی فہرست نہیں بنائی تھی، لوگوں کی خواہش تھی کہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح قرآن کی تفسیر کی بھی ایک فہرست آنی چاہیے، تاکہ دیکھنے والا اپنی خواہش کے مطابق جس موضوع کو دیکھنا چاہے دیکھ سکے۔ قرآن کی تفسیر کی ایک فہرست ”معارف القرآن“ جو مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی تفسیر ہے، میں ہر سورت کے آغاز میں دی گئی ہے۔ مولانا عثمانی کی تفسیر میں کوئی فہرست نہیں تھی، لیکن یہ فہرست مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے بیٹے جناب محمد ولی رازی صاحب نے بنائی ہے، ہم کو وہ کام پسند آیا اس لیے ہم نے اسی فہرست کو قرآن کریم کے دونوں حصوں کے آغاز میں رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس سورت اور کس آیت میں کون کون سے مضامین بیان کیے گئے ہے پڑھنے والا اس کو سمجھ سکے اور مستفید ہوسکے۔ اس وقت تک ہندی زبان میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ بہت سے لوگ کر چکے ہیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آ چکے ہیں، لیکن ہماری یہ کوشش قرآن کے ترجمہ سے آگے بڑھ کر اس کی مخصوص تفسیر پیش کرنا ہے، کیونکہ صحیح طریقے سے قرآن کا سمجھنا اس کی تفسیر کو پڑھے بنا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر سے متعلق کچھ اصول و ضوابط مختصر طور پر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ تو اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ علم کی مکمل اور حیرت انگیز کتاب کس مقام پر، کس ماحول میں اور کس شخص پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علم کے ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے ایسی مکمل کتاب تیار ہو سکے، جو اگلے پچھلے لوگوں کے علم کو جمع کرنے والی اور انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے ہر جہت کے تعلق سے بہتر رہنمائی پیش کر سکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام موجود ہو اور عائلی قوانین سے لے کر ملکی نظام کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہو۔“
اس کا ترجمہ نہایت آسان اور عام فہم زبان میں ہے۔ ہندی بہت سخت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ عام ہندوستانی زبان ہے اردو اور ہندی کی آمیزش ہے۔ اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام ہندی داں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ اور تفسیر غیر مسلم برادر سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو سامنے پر رکھ کر کی گئی ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے ناآشنا ہے۔ اس لئے ان کی رسائی قرآن تک نہیں ہے کیوں کہ قرآن ایک صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، راہ ہدایت ہے، لائحہ عمل ہے، زندگی گزارنے کے قوانین ہیں، حکمرانی کے طریقے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا میں اس لئے ذلیل خوار ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو صرف تلاوت یا اجر و ثواب کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ اس ترجمے اور توضیح قرآن کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور قرآن سے استفادہ کر کے وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو ترتیب دے سکتے ہیں۔
علمائے کرام نے قرآن مجید کی تفاسیر کو چار ادوار پر تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ قرآنِ مجید عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی عربی تھی، لیکن علم و فہم فراست کے لحاظ سب ایک جیسے نہ تھے، اس لئے جب بھی کسی لفظ یا کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں پریشانی ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضری دے دیتے تھے، اور پوری بات سمجھ میں آجاتی تھی۔ یہیں سے قرآن کریم کی تفسیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ پہلا دور ہے۔ دوسرا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پردہ فرمانے کے بعد کا ہے۔ جب بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور انہوں نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ سے کسب فیض کیا تھا۔ اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معانی مفاہیم سمجھنے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے قران کے مطالب و مفاہیم سمجھے۔ صحابہ کرام کو پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھے۔ وہ قرانی اسلوب اور لغت سے واقف تھے اس لئے پورے قرآن کی تفسیر کو ان کو ضرورت نہیں تھی۔ تیسرے دور میں صحابہ کرام کے بعد تابعی اور تبع تابعین کا زمانہ آیا تھا۔اس دور میں اسلام اطراف کے ممالک میں اپنا دامن پھیلا چکا تھا۔ اس دور میں اگرچہ قرآن کا کریم کی تفسیر کا ایک ذخیرہ موجود تھا، لیکن پورے قرآن کی تفسیر نہ تھی۔ اسلام نے اپنے دامن عرب سے عجم کی طرف پھیلا چکا تھا، اب ضرورت تھی قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کوقرآنی علوم کو بہرہ ور کیا جاسکے۔ اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاوی کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی تفسیر قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علو الہ وسلم کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآن مجید کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیر قرآن سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار نہیں ملے، وہاں انہوں نے اجتہاد و استنباط سے کام لیا، اور اسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا۔
چوتھا اہم دور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادے کا آتا ہے۔ یہاں عربی خاص کی زبان تھی اور عام لوگ عربی سے ناواقف تھے۔ بڑا عجمی خطہ جو جہاں بیشتر لوگ اسلام کا دامن تھام چکے تھے، جس میں برصغیر کے ہمسایہ ملک ترکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ ممالک شامل ہیں۔ یہاں کی زبان عربی نہیں تھی۔ اس وقت شاہ ولی اللہ رحم اللہ نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فارسی میں ’المقدّمہ فی قوانین الترجمۃ‘ لکھا۔ یہ رسالہ اصول ترجمہ پر تحریر کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے۔ اسے ہم دوسرے لفظوں میں اصول تفسیر، پر ایک جامع رسالہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ترجمہ کئی لحاظ سے تفسیر ہی کی ایک قسم ہے۔ شاہ صاحب خود اس رسالہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں: ”اللہ کرم والے کی رحمت کا فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم کہتا ہے کہ یہ رسالہ جس کا نام ترجمہ کے قوانین رکھا ہے، قواعدِ ترجمہ پر مشتمل ہے، کیونکہ درحقیقت قرآن کا ترجمہ اس وقت ضبطِ تحریر میں جاری ہے۔“ فتح الرحمن بترجمۃ القرآن (فارسی) محققین کے مطابق برصغیر کا پہلا فارسی ترجمہ باب الاسلام سندھ میں ہوا، اور مخدوم لطف اللہ بن مخدوم نعمت اللہ المعروف مخدوم نوح اللہ (م 998ھ/ 1589ء) ساکن ہالہ (حیدر آباد) نے یہ شرف حاصل کیا۔ (وکی پیڈیا) جو مقبولیت شاہ عبدالعزیز کے فارسی اور شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کو حاصل ہوئی، وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔
شاہ لی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں اور شاہ عبدالقادر رحم اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا، اور مغل بادشاہ محدود سے محدود تر ہوتے جارہے تھے۔ فارسی کے ساتھ اردو زبان میں رائج ہورہی تھی بلکہ عام لوگوں کی زبان اردو تھی۔ اس لئے قرآن کریم کی افہام تفہیم کے لئے اردو میں ترجمہ ضروری تھی۔ مولانا اسحاق بھٹیؒ لکھتے ہیں: ”اس (ترجمہ) کی اولیت کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سر ہی بندھے گا۔ وہ پہلے عالم ہیں، جن کے ترجمے نے بے پناہ قبولیت حاصل کی اور لوگوں کی وسیع تعداد نے اس سے استفادہ کیا۔ اب بھی حوالے کے لیے اس ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب ان تمام اوصاف سے متصف اور ان تمام خصوصیات سے (بدرجہ اتم) مالا مال تھے جن سے قرآن کے مترجم کو ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی مترجم میں وہ اوصاف جمع نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب میں جمع فرما دیے تھے۔“
اس دور کے حالات کو دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کیا بلکہ اصل کارنامہ تو یہ تھا کہ قرآن فہمی کے حوالہ سے عرصے سے چلے آتے جمود کو توڑا اور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کر کے انھیں براہ راست قرآن سے جوڑا۔ اگر آپ اس فکر کا رد نہ کرتے کہ قرآن کو کوئی بہت بڑا عالم ہی سمجھ سکتا ہے، تو شاید آپ کے ترجمہ قرآن کو اتنی قبولیت حاصل نہ ہو پاتی۔ دوسرے یہ کہ شرعی و لغوی علوم سے گہری واقفیت کی بناء پر آپ کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم خصوصیت علمی پختگی اور رسوخ تھا۔
مولانا سید ارشد مدنی کا قرآن کے سلسلے میں یہ کارنامہ قرآن فہمی تحریک کو مہمیز دے گا، اور قران کو عربی زبان کے نہ جاننے والے بھی سمجھ کر اپنی زندگی میں اتاریں گے۔ بلاشبہ مولانا مدنی کا یہ کارنامہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرے گا اور اس سے نہ صرف قرآن فہمی میں مدد ملے گی، بلکہ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور مفروضہ کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
(جنرل (عام
بنگال کے مرشد آباد میں ایک شخص نے بیوی اور نابالغ بیٹے کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی

کولکتہ، 8 اکتوبر، ایک چونکا دینے والے واقعے میں، مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے بیلڈنگا میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور نابالغ بیٹے کو قتل کرنے کے بعد پھانسی لگا کر خودکشی کرلی، پولیس نے بدھ کو بتایا۔ تینوں متوفی سنجیت ہلدر (40)، اس کی بیوی موسمی ہلدر (28) اور اس کے نابالغ بیٹے ریان ہلدر (7) کی لاشیں بدھ کی صبح سنجیت کی ماں کو ملی تھیں۔ ماں کی طرف سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق، اس نے بدھ کی صبح سب سے پہلے اپنے بیٹے کی لاش اپنے بیڈ روم کی چھت سے لٹکتی ہوئی دیکھی۔ وہ گھبرا کر چیخنے لگی۔ پڑوسیوں نے موقع پر پہنچ کر بیڈ روم کا دروازہ توڑ کر دیکھا تو موسومی ہلدر اور ریان ہلدر کی لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں جن کے گلے کٹے ہوئے تھے۔ فوری طور پر مقامی تھانے کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے لاشیں قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیں۔ ابتدائی تفتیش میں بتایا گیا ہے کہ سنجیت نے منگل کی رات پہلے اپنی بیوی اور نابالغ بیٹے کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور پھر پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔
سنجیت کی والدہ نے میڈیا پرسن کو بتایا کہ کسی وجہ سے ان کے بیٹے اور بہو کے درمیان کافی عرصے سے تناؤ چل رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایک وقت میں تناؤ کافی شدید ہوگیا اور میرا بیٹا بھی گھر سے چلا گیا تاہم بعد میں ہم سب نے اسے واپس آنے پر راضی کرلیا۔ غالباً اس تناؤ نے سنگین شکل اختیار کرلی جس نے میرے بیٹے کو ایسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔‘‘ سنجیت کی بہن شیبانی مونڈل نے میڈیا والوں کو بتایا کہ ان کا بھائی اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ شیبانی نے کہا، “جب بھی ان کی بیوی اور ہمارے درمیان کوئی اندرونی اختلاف ہوا، میرے بھائی نے ہمیشہ اپنی بیوی کا ساتھ دیا۔ اس لیے ان کی طرف سے ایسا اقدام واقعی ناقابل تصور تھا۔” پڑوسیوں نے بتایا کہ سنجیت دوسری صورت میں محلے میں ایک نرم گو اور خوش اخلاق شخص کے طور پر جانا جاتا تھا۔ “وہ بنیادی طور پر اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے ٹھیکے پر کام کرتا تھا۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں، اسے کوئی لت نہیں تھی، اسے کبھی کسی سے جھگڑتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ہم نے سنا ہے کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تناؤ چل رہا تھا، لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس جیسا شخص اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا ہے۔”
(Tech) ٹیک
میڈ ان انڈیا 4جی اسٹیک برآمد کے لیے تیار ہے، عالمی ٹیک لیڈر شپ کی نمائش کرتا ہے : پی ایم مودی

source: ians
وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز کہا کہ ‘میڈ ان انڈیا 4جی اسٹیک اب برآمد کے لیے تیار ہے’، عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹوں میں ملک کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو اجاگر کرتے ہوئے انڈیا موبائل کانگریس 2025 کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، پی ایم مودی نے کہا کہ یہ ترقی ’آتمنیر بھر بھارت وژن‘ کی طاقت اور گزشتہ دہائی میں ٹیلی کام کے شعبے میں ہندوستان کی ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ جی کنیکٹیویٹی اب ملک کے تقریباً ہر ضلع تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ان دنوں سے ایک اہم سنگ میل ہے جب ہندوستان 2جی نیٹ ورکس کے ساتھ جدوجہد کر رہا تھا۔ “ملک نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ آج، ہمارے پاس ہر کونے میں 5جی کوریج ہے،” پی ایم مودی نے ہندوستان کی ڈیجیٹل ترقی کی حمایت میں جدید انفراسٹرکچر کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا۔ پی ایم مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایک لاکھ ٹاوروں کی تنصیب نے عالمی توجہ مبذول کرائی ہے، جو بڑے پیمانے پر ٹیلی کام انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ہندوستان کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
پی ایم مودی نے کہا کہ “نئے جی اسٹیک سے تیز تر انٹرنیٹ کی رفتار، زیادہ قابل اعتماد خدمات، اور ہموار کنیکٹیویٹی فراہم کرنے کی توقع ہے، جس سے ہندوستان کے تکنیکی کنارے کو مزید تقویت ملے گی۔” پی ایم مودی نے الیکٹرانکس اور موبائل مینوفیکچرنگ میں ہندوستان کی نمایاں کامیابیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 2014 سے پیداوار میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ موبائل مینوفیکچرنگ میں 28 گنا اضافہ ہوا ہے، اور برآمدات میں 127 گنا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کامیابی کو آگے بڑھانے میں سٹارٹ اپس اور اختراع کے کردار پر زور دیا۔ “ڈیجیٹل انوویشن اسکوائر’ اور ‘ٹیلی کام ٹکنالوجی ڈیولپمنٹ فنڈ’ جیسی اسکیمیں نئے آئیڈیاز کو پروان چڑھانے کے لیے فنڈنگ اور مدد فراہم کر رہی ہیں، وزیر اعظم نے کہا۔ “انڈیا موبائل کانگریس اب ایشیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فورم بن گیا ہے، جو عالمی سطح پر ملک کی صلاحیتوں اور اختراعات کو ظاہر کرتا ہے،” پی ایم مودی نے کہا۔ پی ایم مودی کے تیز رفتار قانونی فریم کی عکاسی کرتے ہوئے، پی ایم مودی کے قانونی فریم کے جدید سفر کی عکاسی کرتا ہے۔ تکنیکی تبدیلی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ملک کا ڈیجیٹل مستقبل قابل ہاتھوں میں رہے۔
سیاست
آئی لو محمد بنام آئی لو مہادیو سے ماحول خراب کرنے کی سازش، کریٹ سومیا نے ٹریفک روک اسٹیکر چسپاں کیا، حالات کشیدہ، کیس درج کرنے سے پولس کا انکار

ممبئی ؛ ممبئی کے کرلا علاقہ میں کریٹ سومیا نے آئی لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسٹیکر کو لے کر ایک مرتبہ پھر تنازع پیدا کیا اور آئی لو محمد بنا آئی لو مہادیو کا اسٹیکر چسپاں کیا, جس سے ٹریفک نظام بری طرح سے متاثر ہوا. پولس نے اس دوران سخت حفاظتی انتظامات کئے تھے, آئی لو محمد بنام آئی لو مہادیو کی آڑ میں ملک اور ممبئی شہر میں ماحول خراب کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے کریٹ سومیا نے کہا کہ پولس نے آئی لو محمد کے اسٹیکر جبرا لگانے پر کوئی کیس درج نہیں کیا, لیکن جب ہم نے آئی لو مہادیو کا اسٹیکر چسپاں کیا تو اس پر پولس نے نوٹس ارسال کی. اس کے ساتھ کریٹ سومیا نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہیں دھمکی موصول ہو رہی ہے سوشل میڈیا پر ایم پی سنجے دینا پاٹل اور یوبی ٹی لیڈر محسن نے دھمکی دی ہے, جس کے خلاف پولیس تفتیش کررہی ہے. انہوں نے پولس پر بھی جانبداری کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ یہ ہندوستان ہے یہاں آئی لو مہادیو کا اسٹیکر ہی چسپاں کیا جائے گا۔ کریٹ سومیا نے اس سے قبل آئی لو محمد کے مسئلہ پر زہر افشانی کرتے ہوئے اسے دادا گیری اور غنڈہ گردی قرار دیا تھا. اس دوران کریٹ سومیا نے آج ادھو ٹھاکرے، شرد پوار کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے. آئی لو مہادیو اور آئی لو محمد کی آڑ میں کرلا کا ماحول اور نظم ونسق خطرہ میں ہے جبکہ پولس نے کریٹ سومیا کی شکایت پر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا ہے. اب کرلا میں حالات پرامن ہے, لیکن فرقہ وارانہ کشیدگی برقرار ہے۔ کرلا میں کریٹ سومیا کے دورہ کے دوران کارکنان نے ٹریفک روک کر ہر ہر مہادیو کا فلک شگاف نعرہ بلند کیا. جبکہ کریٹ سومیا سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ ملنڈ میں آئی لو مہادیو کا اسٹیکر چسپاں کرنے کے بجائے کرلا کا رخ کیوں کیا, اس پر کریٹ سومیا خاموش ہو گئے۔
-
سیاست12 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست6 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا