(جنرل (عام
مولانا ارشد مدنی کا ہندی ترجمہ ’قرآن شریف‘ قرآن فہمی کا بہترین ذریعہ

قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی تشریح، توضیح اور تفسیر لکھی جاتی رہے گی، اور پھر بھی قرآن کریم کا حق کما حقہ ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبان میں قران کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرے۔ لیکن یہ نعمت غیر مترقبہ ہر کسی کی قسمت کا حصہ نہیں بنتی۔ اللہ تعالی خاص بندے کو اس کے لئے منتخب کرتا ہے۔ یہ افتخار مولانا سید ارشد مدنی کو حاصل ہوا ہے۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قرآن ہر زمان اور مکان کے لئے دستور حیات ہے چنانچہ جیسے جیسے اسلام کا آفاقی پیغام غیر عرب دنیا میں پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس آفاقی پیغام کو ان کے مادری زبان میں بھی منتقل کیا جائے، لہذا پوری دنیا میں اسلام تعلیمات اور پیغام کے عام کرنے کے لئے ہر ملک کے صاحب علم و فضل اور علمائے کرام نے اپنی بساط کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ مقامی زبانوں میں کیا۔
ہندوستان میں بھی جب اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو علماء نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ لیکن جب فارسی کا چلن کم ہونے لگا، اور اردو کا فروغ ہونے لگا، تو شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادے اور دوسرے علماء کرام نے قرآن کا اردو ترجمہ کر کے اس کے پیغام کو ہندی مسلمانوں میں عام کیا۔ شیخ الہند اور مولانا تھانوی نے قرآن کااردو ترجمہ کر کے اس کو مزید آسان اور سہل الحصول بنایا۔آج جب کہ لوگ ارود سے بھی نابلد ہوتے جا رہے اور نئی نسل کا رجحان اردو کی طرف کم ہوتا جارہا ہے تو ضروت محسوس ہوئی کہ اس کا ترجمہ ہندی زبان میں بھی کیا جائے تاکہ اردو سے ناواقف لوگ بھی اسلام کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ چیز ان لوگوں کی طرف سے آئیں جو براہ راست قرآن سے استفادہ نہ کرسکتے تھے بلکہ دوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہوکر ان کے اندر غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ اس لئے ان کے لئے بھی قرآن کے ہندی ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
چنانچہ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر اور امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے قرآن کریم کے پیغام کو عام مسلمان اور عام ہندوستانی تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کا ہندی میں ترجمہ تفسیر کے ساتھ کیا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو ’ہندوستانی زبان‘ میں ترجمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
اس کی خوبی یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے، اس کے بعد اس کا ہندی میں آسان زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور پھر اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندی داں حضرات کو قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس کی تفسیر سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔ بہت سے غیر مسلم حضرات چاہتے ہیں کہ وہ ہندی میں قرآن پڑھیں اور اسے سمجھیں، لیکن اس کی تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں قرآن پاک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں خام اور غیر مصدقہ مواد کی بھر مار ہے قرآن کے بارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس ترجمہ اور توضیح و تشریح سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، اور عام لوگوں کی رسائی بھی قرآن کریم تک ہو جائے گی۔
مولانا سید ارشد مدنی اپنے ترجمے اور تفسیر کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”ہم نے پہلے ایڈیشن میں قرآن کے موضوعات کے سلسلے میں کوئی فہرست نہیں بنائی تھی، لوگوں کی خواہش تھی کہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح قرآن کی تفسیر کی بھی ایک فہرست آنی چاہیے، تاکہ دیکھنے والا اپنی خواہش کے مطابق جس موضوع کو دیکھنا چاہے دیکھ سکے۔ قرآن کی تفسیر کی ایک فہرست ”معارف القرآن“ جو مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی تفسیر ہے، میں ہر سورت کے آغاز میں دی گئی ہے۔ مولانا عثمانی کی تفسیر میں کوئی فہرست نہیں تھی، لیکن یہ فہرست مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے بیٹے جناب محمد ولی رازی صاحب نے بنائی ہے، ہم کو وہ کام پسند آیا اس لیے ہم نے اسی فہرست کو قرآن کریم کے دونوں حصوں کے آغاز میں رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس سورت اور کس آیت میں کون کون سے مضامین بیان کیے گئے ہے پڑھنے والا اس کو سمجھ سکے اور مستفید ہوسکے۔ اس وقت تک ہندی زبان میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ بہت سے لوگ کر چکے ہیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آ چکے ہیں، لیکن ہماری یہ کوشش قرآن کے ترجمہ سے آگے بڑھ کر اس کی مخصوص تفسیر پیش کرنا ہے، کیونکہ صحیح طریقے سے قرآن کا سمجھنا اس کی تفسیر کو پڑھے بنا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر سے متعلق کچھ اصول و ضوابط مختصر طور پر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ تو اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ علم کی مکمل اور حیرت انگیز کتاب کس مقام پر، کس ماحول میں اور کس شخص پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علم کے ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے ایسی مکمل کتاب تیار ہو سکے، جو اگلے پچھلے لوگوں کے علم کو جمع کرنے والی اور انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے ہر جہت کے تعلق سے بہتر رہنمائی پیش کر سکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام موجود ہو اور عائلی قوانین سے لے کر ملکی نظام کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہو۔“
اس کا ترجمہ نہایت آسان اور عام فہم زبان میں ہے۔ ہندی بہت سخت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ عام ہندوستانی زبان ہے اردو اور ہندی کی آمیزش ہے۔ اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام ہندی داں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ اور تفسیر غیر مسلم برادر سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو سامنے پر رکھ کر کی گئی ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے ناآشنا ہے۔ اس لئے ان کی رسائی قرآن تک نہیں ہے کیوں کہ قرآن ایک صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، راہ ہدایت ہے، لائحہ عمل ہے، زندگی گزارنے کے قوانین ہیں، حکمرانی کے طریقے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا میں اس لئے ذلیل خوار ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو صرف تلاوت یا اجر و ثواب کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ اس ترجمے اور توضیح قرآن کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور قرآن سے استفادہ کر کے وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو ترتیب دے سکتے ہیں۔
علمائے کرام نے قرآن مجید کی تفاسیر کو چار ادوار پر تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ قرآنِ مجید عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی عربی تھی، لیکن علم و فہم فراست کے لحاظ سب ایک جیسے نہ تھے، اس لئے جب بھی کسی لفظ یا کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں پریشانی ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضری دے دیتے تھے، اور پوری بات سمجھ میں آجاتی تھی۔ یہیں سے قرآن کریم کی تفسیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ پہلا دور ہے۔ دوسرا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پردہ فرمانے کے بعد کا ہے۔ جب بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور انہوں نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ سے کسب فیض کیا تھا۔ اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معانی مفاہیم سمجھنے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے قران کے مطالب و مفاہیم سمجھے۔ صحابہ کرام کو پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھے۔ وہ قرانی اسلوب اور لغت سے واقف تھے اس لئے پورے قرآن کی تفسیر کو ان کو ضرورت نہیں تھی۔ تیسرے دور میں صحابہ کرام کے بعد تابعی اور تبع تابعین کا زمانہ آیا تھا۔اس دور میں اسلام اطراف کے ممالک میں اپنا دامن پھیلا چکا تھا۔ اس دور میں اگرچہ قرآن کا کریم کی تفسیر کا ایک ذخیرہ موجود تھا، لیکن پورے قرآن کی تفسیر نہ تھی۔ اسلام نے اپنے دامن عرب سے عجم کی طرف پھیلا چکا تھا، اب ضرورت تھی قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کوقرآنی علوم کو بہرہ ور کیا جاسکے۔ اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاوی کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی تفسیر قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علو الہ وسلم کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآن مجید کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیر قرآن سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار نہیں ملے، وہاں انہوں نے اجتہاد و استنباط سے کام لیا، اور اسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا۔
چوتھا اہم دور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادے کا آتا ہے۔ یہاں عربی خاص کی زبان تھی اور عام لوگ عربی سے ناواقف تھے۔ بڑا عجمی خطہ جو جہاں بیشتر لوگ اسلام کا دامن تھام چکے تھے، جس میں برصغیر کے ہمسایہ ملک ترکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ ممالک شامل ہیں۔ یہاں کی زبان عربی نہیں تھی۔ اس وقت شاہ ولی اللہ رحم اللہ نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فارسی میں ’المقدّمہ فی قوانین الترجمۃ‘ لکھا۔ یہ رسالہ اصول ترجمہ پر تحریر کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے۔ اسے ہم دوسرے لفظوں میں اصول تفسیر، پر ایک جامع رسالہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ترجمہ کئی لحاظ سے تفسیر ہی کی ایک قسم ہے۔ شاہ صاحب خود اس رسالہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں: ”اللہ کرم والے کی رحمت کا فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم کہتا ہے کہ یہ رسالہ جس کا نام ترجمہ کے قوانین رکھا ہے، قواعدِ ترجمہ پر مشتمل ہے، کیونکہ درحقیقت قرآن کا ترجمہ اس وقت ضبطِ تحریر میں جاری ہے۔“ فتح الرحمن بترجمۃ القرآن (فارسی) محققین کے مطابق برصغیر کا پہلا فارسی ترجمہ باب الاسلام سندھ میں ہوا، اور مخدوم لطف اللہ بن مخدوم نعمت اللہ المعروف مخدوم نوح اللہ (م 998ھ/ 1589ء) ساکن ہالہ (حیدر آباد) نے یہ شرف حاصل کیا۔ (وکی پیڈیا) جو مقبولیت شاہ عبدالعزیز کے فارسی اور شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کو حاصل ہوئی، وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔
شاہ لی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں اور شاہ عبدالقادر رحم اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا، اور مغل بادشاہ محدود سے محدود تر ہوتے جارہے تھے۔ فارسی کے ساتھ اردو زبان میں رائج ہورہی تھی بلکہ عام لوگوں کی زبان اردو تھی۔ اس لئے قرآن کریم کی افہام تفہیم کے لئے اردو میں ترجمہ ضروری تھی۔ مولانا اسحاق بھٹیؒ لکھتے ہیں: ”اس (ترجمہ) کی اولیت کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سر ہی بندھے گا۔ وہ پہلے عالم ہیں، جن کے ترجمے نے بے پناہ قبولیت حاصل کی اور لوگوں کی وسیع تعداد نے اس سے استفادہ کیا۔ اب بھی حوالے کے لیے اس ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب ان تمام اوصاف سے متصف اور ان تمام خصوصیات سے (بدرجہ اتم) مالا مال تھے جن سے قرآن کے مترجم کو ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی مترجم میں وہ اوصاف جمع نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب میں جمع فرما دیے تھے۔“
اس دور کے حالات کو دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کیا بلکہ اصل کارنامہ تو یہ تھا کہ قرآن فہمی کے حوالہ سے عرصے سے چلے آتے جمود کو توڑا اور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کر کے انھیں براہ راست قرآن سے جوڑا۔ اگر آپ اس فکر کا رد نہ کرتے کہ قرآن کو کوئی بہت بڑا عالم ہی سمجھ سکتا ہے، تو شاید آپ کے ترجمہ قرآن کو اتنی قبولیت حاصل نہ ہو پاتی۔ دوسرے یہ کہ شرعی و لغوی علوم سے گہری واقفیت کی بناء پر آپ کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم خصوصیت علمی پختگی اور رسوخ تھا۔
مولانا سید ارشد مدنی کا قرآن کے سلسلے میں یہ کارنامہ قرآن فہمی تحریک کو مہمیز دے گا، اور قران کو عربی زبان کے نہ جاننے والے بھی سمجھ کر اپنی زندگی میں اتاریں گے۔ بلاشبہ مولانا مدنی کا یہ کارنامہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرے گا اور اس سے نہ صرف قرآن فہمی میں مدد ملے گی، بلکہ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور مفروضہ کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
(Monsoon) مانسون
ممبئی موسم باراں کے لئے بی ایم سی تیار، بی ایم سی ایجنسیوں اور محکمہ کو الرٹ رہنے کے احکامات جاری

ممبئی ہندوستان کے محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ مانسون جون کی پہلے ہفتے میں ممبئی آمد ہوگی۔ میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں مانسون سے پہلے کے کاموں کی تیاریوں کے مطابق، تمام ایجنسیوں کو ضرورت کے مطابق جائزہ اجلاس، مشترکہ دورے اور فوری سروے کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، ممبئی مضافاتی ضلع ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اور ایڈیشنل میونسپل کمشنر (مغربی مضافات)، ڈاکٹروپن شرما نے ہدایت کی ہے کہ نظام کو تیار رکھا جائے تاکہ ممبئی کے شہریوں کو مانسون کے موسم میں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ اپیل بھی کی کہ تمام ایجنسیاں اپنے تجربات اور اچھی ہم آہنگی کے ساتھ اجتماعی طور پر اپنا حصہ ڈالیں تاکہ آئندہ مانسون کے موسم میں شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سال مانسون کے پیش نظر، ایڈیشنل میونسپل کمشنر ڈاکٹر وپن شرما نے آج (20 مئی 2025) کو میونسپل کارپوریشن ہیڈ کوارٹر میں ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی میٹنگ منعقد کی۔ میٹنگ میں ایڈیشنل میونسپل کمشنر (مشرقی مضافات) ڈاکٹر امیت سینی، ایڈیشنل میونسپل کمشنر (پروجیکٹڈ)نے شرکت کی۔ میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی کمشنر (جنرل ایڈمنسٹریشن) ابھیجیت بنگر۔ کشور گاندھی کے ساتھ ڈپٹی کمشنرس، اسسٹنٹ کمشنرس، مختلف محکموں کے اکاونٹ ہیڈس اور ساتوں حلقوں کے متعلقہ افسران میٹنگ میں موجود تھے۔
اس میٹنگ کے دوران،ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ایمرجنسی مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرمہیش نارویکر نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق جاری سرگرمیوں کے بارے میں کمپیوٹر پریزنٹیشن کے ذریعے معلومات فراہم کیں۔ میٹنگ میں میونسپل کارپوریشن کے مختلف محکموں کے سربراہان اور مرکزی اور مغربی ریلوے، ہندوستانی محکمہ موسمیات، ہندوستانی کوسٹ گارڈ، بحریہ، نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس (این ڈی آر ایف)، ممبئی ٹریفک پولیس، مہاراشٹر ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (مہا ڈا)، سلم ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی (ایس آر اے)، ممبئی کے محکمہ پبلک ورکس ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈبلیو ڈی) سمیت مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اتھارٹی (ایم ایم آر ڈی اے)، ممبئی بجلی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ انڈرٹیکنگ (بی ای ایس ٹی)، ٹاٹا پاور، اڈانی انرجی وغیرہ۔
میونسپل حدود میں کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے ‘نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیم’ کا ایک دستہ شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی مضافاتی علاقوں میں بھی تعینات کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر شرما نے یہ بھی ہدایت کی کہ ٹریفک پولیس اس ٹیم کے لیے ایک خصوصی لین (گرین کوریڈور) تیار کرے تاکہ کسی آفت کی صورت میں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ سکے۔ شرما نے متعلقہ ایجنسیوں کو ضروری احکامات بھی جاری کئے ۔ شہر، مشرقی اور مغربی مضافاتی علاقوں میں تعینات یونٹوں کے ساتھ، یہ یونٹ کسی واقعے کی جگہ پر فوری امدادی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ برہان ممبئی میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں این ڈی آر ایف کی ٹیمیں تیار رہیں تاکہ جائے وقوعہ پر شہریوں کو راحت فراہم کرنا ممکن ہو سکے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مانسون کے دوران پانی جمع ہونے کے واقعات کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر رین واٹر ڈرینج ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر پمپس اور ڈیزل جنریٹر سیٹس کی تنصیب کا منصوبہ بنائیں۔ اس کے علاوہ، اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مین ہول کے ڈھکن کھلے نہ رہ جائیں۔ ڈاکٹر نے یہ بھی ہدایت کی کہ ریلوے اور بارش کے پانی کی نکاسی کا محکمہ مشترکہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ ریلوے کے علاقے میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے مضافاتی مقامی ٹریفک میں خلل نہ پڑے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ذریعے درختوں کی شاخوں کو تراشنے کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ، ممبئی میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں مختلف حکام کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں اشتہاری بورڈ موجود ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ساختی استحکام کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ بل بورڈز اچھی حالت میں ہیں۔ ڈاکٹر شرما نے ہدایت کی ہے کہ جن بورڈز کا سٹرکچرل سٹیبلٹی سرٹیفکیٹ حاصل نہیں ہے ان کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں۔ اسی طرح انہوں نے متعلقہ کمپنیوں کو موبائل ٹاورز کے سلسلے میں اسٹرکچرل سٹیبلٹی سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ متعلقہ ادارے مشترکہ مع…
(جنرل (عام
سعودی عرب میں یرغمال بنائے گئے 400 ہندوستانی، وقت پر کھانا اور تنخواہ نہیں مل رہی، اب پی ایم مودی سے وطن واپسی کی اپیل

گوپال گنج : گوپال گنج سمیت بہار کے کئی اضلاع سے بڑی تعداد میں مزدور روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک جاتے ہیں، لیکن قسمت ہر بار ساتھ نہیں دیتی۔ اس بار ایک سنگین معاملہ سامنے آیا ہے، جہاں سعودی عرب کی ایک کمپنی میں کام کرنے گئے سینکڑوں ہندوستانی ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کمپنی کی طرف سے نہ تو کھانا اور نہ ہی تنخواہ بروقت فراہم کی جا رہی ہے۔ انہیں اپنے ملک واپس جانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔ کمپنی نے اس کے ضروری کاغذات جمع کرائے ہیں۔ اب کارکنوں نے پی ایم مودی اور سی ایم نتیش کمار سے اپنے وطن واپسی میں مدد کی اپیل کی ہے۔
گوپال گنج کے درجنوں کارکن پچھلے سال سعودی کی سینڈن انٹرنیشنل کمپنی لمیٹڈ میں کام کرنے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ 8-9 ماہ سے انہیں نہ تو وقت پر کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی تنخواہ۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ کمپنی نے ان پر اپنے ملک واپس جانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور وہ یرغمال جیسی صورتحال میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان مزدوروں میں راجکشور کمار، بلیندر سنگھ، دلیپ کمار چوہان، شیلیش کمار چوہان، اوم پرکاش سنگھ، روی کمار، راجیو رنجن، ہریندر چوہان اور سیوان کے امیش ساہ شامل ہیں۔ یہ معاملہ صرف گوپال گنج تک محدود نہیں ہے۔ اسی کمپنی میں بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال کے دیگر اضلاع کے تقریباً 400 کارکنان بھی یرغمال ہیں۔ سبھی نے ویڈیو پیغامات بھیجے ہیں جس میں ہندوستانی حکومت سے مدد کی درخواست کی گئی ہے۔
کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار ہندوستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا، میل اور فون کالز کے ذریعے اپنا مسئلہ بیان کیا، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس مدد نہیں ملی۔ اس سے ان میں مایوسی اور خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ اس معاملے کی اطلاع ملنے پر گوپال گنج کے ایم پی اور جے ڈی یو کے قومی خزانچی ڈاکٹر آلوک کمار سمن نے مداخلت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کارکنوں کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کیا اور مکمل معلومات دی، جو انہوں نے وزارت خارجہ کو بھیج دی ہے۔ ڈاکٹر سمن نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے کارکنوں سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ وزارت خارجہ ان کی شناخت اور حالت کی تصدیق کر کے ضروری کارروائی کر سکے اور انہیں بحفاظت بھارت واپس لایا جا سکے۔
(جنرل (عام
وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری، جب تک کوئی مضبوط کیس نہیں بنتا، عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں۔

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے بدھ کو وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کی۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے۔ عدالتیں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتیں جب تک کوئی مضبوط کیس نہ بنایا جائے۔ اس دوران سینئر وکیل کپل سبل نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس دوران سی جے آئی گوائی نے کہا کہ یہ معاملہ آئین سے متعلق ہے۔ عدالتیں عام طور پر مداخلت نہیں کرتیں، اس لیے جب تک آپ بہت مضبوط کیس نہیں بناتے، عدالت مداخلت نہیں کرتی۔ سی جے آئی نے مزید کہا کہ اورنگ آباد میں وقف املاک کو لے کر کئی تنازعات ہیں۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وہ تین امور پر عبوری ہدایات دینے کے لیے دلائل سنے گی، بشمول وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا عدالتوں کا اختیار، صارف کے ذریعہ وقف یا عمل کے ذریعہ وقف۔ بنچ نے 20 مئی کو واضح کیا تھا کہ وہ سابقہ 1995 وقف ایکٹ کی دفعات پر روک لگانے کی درخواست پر غور نہیں کرے گی۔ وقف کیس پر سینئر وکیل کپل سبل اور دیگر نے وقف ایکٹ کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف حصوں میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت سے کہا کہ وہ سماعت کو عبوری حکم منظور کرنے کے لیے نشان زد تین مسائل تک محدود رکھے۔ سنگھوی نے کہا کہ جے پی سی کی رپورٹ دیکھیں۔ 28 میں سے 5 ریاستوں کا سروے کیا گیا۔ 9.3 فیصد رقبہ کا سروے کیا گیا اور پھر آپ کہتے ہیں کہ کوئی رجسٹرڈ وقف نہیں تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عرض کیا کہ متولی کے لیے سوائے رجسٹریشن کے اور کوئی نتیجہ نہیں ہے۔
مرکز نے منگل کو سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر عبوری حکم پاس کرنے کے لیے تین شناخت شدہ مسائل کی سماعت کو محدود کرے۔ ان مسائل میں عدالت کی طرف سے وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو منقطع کرنے کا حق، صارف کے ذریعہ وقف یا ڈیڈ کے ذریعہ وقف کا حق بھی شامل ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ پر زور دیا کہ وہ خود کو پہلے کی بنچ کی طرف سے طے شدہ کارروائی تک محدود رکھیں۔ لاء آفیسر نے کہا کہ عدالت نے تین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ ہم نے ان تینوں مسائل پر اپنا جواب داخل کیا تھا۔
تاہم، درخواست گزاروں کے تحریری دلائل اب کئی دیگر مسائل تک پھیل گئے ہیں۔ میں نے ان تینوں مسائل کے جواب میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اسے صرف تین مسائل تک محدود رکھا جائے۔ سینئر وکیل کپل سبل اور ابھیشیک سنگھوی، وقف ایکٹ 2025 کی دفعات کو چیلنج کرنے والے افراد کی طرف سے پیش ہوئے، اس دلائل کی مخالفت کی کہ سماعت حصوں میں نہیں ہو سکتی۔ ایک مسئلہ ‘عدالت کے ذریعہ وقف، صارف کے ذریعہ وقف یا عمل کے ذریعہ وقف’ کے طور پر اعلان کردہ جائیدادوں کو ڈینوٹائی کرنے کا اختیار ہے۔ عرضی گزاروں کے ذریعہ اٹھائے گئے دوسرا مسئلہ ریاستی وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل سے متعلق ہے، جہاں وہ استدلال کرتے ہیں کہ ان میں صرف مسلمانوں کو ہی خدمت کرنی چاہئے سوائے سابقہ ممبران کے۔ تیسرا مسئلہ اس شق سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب کلکٹر یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کرے گا کہ جائیداد سرکاری اراضی ہے یا نہیں تو وقف املاک کو وقف نہیں سمجھا جائے گا۔
17 اپریل کو، مرکز نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا تھا کہ وہ نہ تو وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی کرے گا، بشمول ‘یوزر کے ذریعہ وقف’، اور نہ ہی 5 مئی تک سنٹرل وقف کونسل اور بورڈز میں کوئی تقرری کرے گی۔ مرکز نے عدالت عظمیٰ کی اس تجویز کی مخالفت کی تھی کہ وہ وقف املاک کو وقف کے ذریعے استعمال کرنے کی اجازت دینے سمیت وقف کی جائیدادوں کی منسوخی کے خلاف عبوری حکم نامہ پاس کرے۔ سنٹرل وقف کونسلز اور بورڈز میں غیر مسلموں کی شمولیت۔ 25 اپریل کو، اقلیتی امور کی مرکزی وزارت نے ترمیم شدہ وقف ایکٹ، 2025 کا دفاع کرتے ہوئے 1,332 صفحات پر مشتمل ایک ابتدائی حلف نامہ داخل کیا تھا۔ اس نے “آئینیت کے تصور کے ساتھ پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون” پر عدالت کی طرف سے کسی بھی “بلینکٹ اسٹے” کی مخالفت کی تھی۔ مرکز نے گزشتہ ماہ وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو مطلع کیا تھا، جس کے بعد اسے 5 اپریل کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری ملی تھی۔ یہ بل لوک سبھا میں 288 ارکان کے ووٹوں سے پاس ہوا، جب کہ 232 ارکان پارلیمنٹ اس کے خلاف تھے۔ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے اس کے حق میں اور 95 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
-
سیاست7 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا