Connect with us
Sunday,06-April-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مولانا ارشد مدنی مسلسل ساتویں مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر منتخب

Published

on

maulana-arshad-madni

ملک کے موجودہ حالات، قانون و انتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ کے تعلیمی وظائف کی رقم پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دی۔ یہ اعلان انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ نے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کی بنیاد پر آئندہ میعاد کی صدارت کے لئے مولانا ارشد مدنی کے نام کا اعلان کر دیا۔
مجلس عاملہ سے خطاب میں مولانا ارشد مدنی نے ملک کے موجودہ حالات میں قانون و انتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی تناسب پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس کے لئے وظائف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حد تک سنور سکتا ہے، جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کر کے اس لائق بنا دیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دو چار کر کے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سر کرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طور پر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کر دیا، سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں، مولانا مدنی نے سوال کیا کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی، اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خود جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی، کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدار میں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کا شکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اور لیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جائیں گے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کر دینے کی کوششیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے۔

مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، اور کارزارحیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کواپنا اصل ہتھیاربنالے۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بد قسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے، اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے، لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کر رہی ہے، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب ومدارس قائم کر رہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کر دیا ہے جو روزگار فراہم کرتا ہے، روزگار فراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اور مسابقتی تعلیم ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کر کے باہر نکلیں انہیں فورا روزگار اور ملازمت مل سکے، اور وہ خود کو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ تعلیم کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے ہی انتہائی حساس رہی ہے چنانچہ اس کے اکابرین نے 1954 میں ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانا اور ملک کے طول وعرض میں مکاتب و مدارس قائم کرنا تھا چنانچہ یہ جو ہم پورے ملک میں مکاتب و مدارس کا بچھا ہوا جال دیکھ رہے ہیں یہ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں نئے سرے سے مہم شروع کرنی ہوگی، اسی لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثر مہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اورقوم کے تمام ذمہ اداران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی اس لئے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھا پانے سے قاصرہیں انہوں نے آگے کہاکہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے، بلکہ اس کے لئے عملی طورپر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کے لئے انتہائی خطرناک ہوچکے ہیں، ایک طرف جہاں آئین اور قانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کو ختم کر دینے کی خطرناک روش اختیار کی جا رہی ہے۔

ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانب داری اور روا داری کے لئے مشہور ہے، سیکولرزم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے۔ کثیر المذاہب ملک میں کسی ایک خاص مذہب اور خاص سوچ کی حکمرانی نہیں چل سکتی۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص نظریے کی بنیاد پر چلے گا یا قومیت کی بنیادپر یا سیکولرزم کے اصولوں پر؟ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک سب کا ہے، ہندوستان ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہاہے، اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے اخیر میں تمام مسلمانوں سے خاص طور پر یہ اپیل کی کہ وہ جہاں بھی ہوں محبت، امن واتحاد کے پیغامبر بن جائیں،نفرت سے نفرت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتایادرکھیں نفرت کو صرف محبت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے، ورکنگ کمیٹی نے ریاستی، ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے تعمیری پروگرام خصوصا اصلاح معاشرہ کے پروگرام کو بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔

جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے، مکاتب ومدارس کا قیام کے ساتھ ساتھ عصری و ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورت مند طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے، اور اس کے بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپئے کی رقم تعلیمی وظائف کے لئے مختص کی گئی تھی، جس کے لئے پورے ملک سے تقریبا 600 طلبہ منتخب کئے گئے ہیں، جن میں سے اب تک تقریبا 500 طلبہ کو وظیفہ جاری کر دیا گیا ہے، تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ ہر دو سال میں جمعیۃ کی ممبر سازی ہوتی ہے، پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریبا ایک کڑوڑ پندرہ لاکھ تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے آج سے 31/ جولائی تک اس ٹرم کی ممبر سازی کا اعلان کیا ہے۔ شرکاء اجلاس میں صدر محترم مدظلہٗ کے علاوہ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، مولانا حبیب الرحمن قاسمی، مولانا سید اسجد مدنی، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق عنفر، مفتی غیاث الدین، مولانا عبداللہ ناصر، حاجی حسن احمد قادری، حاجی سلامت اللہ، وغیرہ اور مدعوئیین خصوصی بھی شریک ہوئے۔

(جنرل (عام

وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

Published

on

MLA-Amanatullah-Khan

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔

اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

Published

on

Ziauddin-Siddiqui

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔

Continue Reading

قومی

کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

Published

on

Waqf-Bill-2024

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔

تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔

پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:

  • ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
  • وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
  • وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
  • متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔

تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :

  • ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
  • مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
  • غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
  • انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
  • شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔

فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |

نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com