(جنرل (عام
کشمیری پنڈتوں کی شاہین باغ خاتون مظاہرین سے اظہار یکجہتی

قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کشمیری پنڈتوں نے کہاکہ آپ کے درد کو دیکھ ہمیں اپنا درد یاد آگیا اور آپ کے درد میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ یہ کشمیری پنڈت ایک افواہ’جشن شاہین‘کی وجہ سے آئے تھے لیکن جیسے ہی یہاں کا نظارہ دیکھا ان کا ارادہ بدل اور نظریہ بدل گیا۔
انہوں نے کہاکہ آج ہی کے دن (19جنوری 1990)میں کشمیری پنڈتوں کو وادی سے نکالا گیا تھا۔ آج تک کسی حکومت نے ہمارے مسئلہ کو حل نہیں کیا ہے ہم لوگ جس تکلیف سے گزر رہے ہیں وہی تکلیف میں آپ کو دیکھ رہے ہیں اس لئے ہم لوگ آپ کے غم میں شریک اور آپ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں وہاں اجڑے ہوئے 30برس ہوگئے لیکن آج تک ہمیں کسی حکومت نے وہاں بسانے کی کوشش نہیں کی۔
شاہین باغ میں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ پنجاب سے سکھوں کا دستہ جس میں پنجاب کے سابق کابینی وزراء ڈپٹی اسپیکر، سابق رکن پارلیمنٹ اور سماج کے دیگر شعبہ سے اہم لوگ شامل تھے آکر شاہین باغ خواتین کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مکمل ساتھ دینے اور کاندھا سے کاندھا ملاکر کھڑا ہونے کا یقین دلایا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے شاہین باغ میں بھیڑ کافی تھی۔کئی فنکاروں، سماجی کارکنوں نے اس میں حًصہ لیا۔جامعہ نگر سے کئی جلوس، جس میں کینڈل مارچ بھی شامل تھا، آکر شاہین باغ میں شامل ہوئے۔
شاہین باغ مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پوری دہلی سے سماج کے ہر طبقے کے لوگ آرہے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات آکر اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ شاہین باغ خواتین مظاہرہ گنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ اقدار و تہذیب کا سنگم نظر آتا ہے۔ کیا، ہندو، کیا مسلمان، کیا سکھ، کیا عیسائی سب لوگوں کی موجودگی نظر آتی ہے اور سبھی طبقے کے لوگ یہاں اپنا تعاون پیش کرتے نظر آرہے ہیں، سڑکوں پر پینٹنگ، تختی بنانے، رخساروں پر ترنگا بنانے، مختلف نعرے لکھنے میں سب لوگ اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔ یہاں انڈیا گیٹ بھی ہیں اور ہندوستان کا نقشہ بھی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین جنگ آزادی کا منظر پیش کر ر ہے ہیں،ایک طرف قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تقریریں ہورہی ہوتی ہیں تو دوسرے اس کے آس پاس ذاکر حسین لائبریری کے سامنے روڈپر قومی یکجہتی کا نظارہ ہوتا ہے۔ ہندو،سکھ، مسلم، عیسائی کے علامت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہیں میٹرو کے مختلف کھمبے کے سامنے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے کالج کے گروپ، بچوں کے گروپ نظر آتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اہم شخصیات، سماجی کارکنوں اور سیاسی و تعلیمی شخصیات کا آنا جاری ہے اور وہ لوگ یہاں آکر نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو میں غنڈہ گردی کی مذمت کرتے ہیں بلکہ فسطائی طاقتوں کے خلاف لڑنے کی اپیل کرتے ہیں۔
شاہین باغ کے بعد خاتون مظاہرین کی تعداد سب سے بڑی تعداد خوریجی میں ہے۔ سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ شاہین باغ کی طرف سے شروع کیا گیا مظاہرہ اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل رات میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے سابق سکریٹری نبیل عثمانی اور اسٹوڈینٹ لیڈر یاسین غازی نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ انہوں نے خواتین کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اس کالا قانون کے خلاف آپ لوگ گھروں سے نکلی ہے۔ انہوں نے حکومت پر نشانہ لگاتے ہوئے کہاکہ اس قانون کے ذریعہ حکومت نے سماج کو بانٹنے کا کام کیا ہے اس کے خلاف باہر نکل آپ نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگی۔
محترمہ عشرت جہاں نے بتایا کہ آج رات خوریج میں اہم خطاب کرنے والوں میں مشہور مصنف، سماجی کارکن اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، آل انڈیا ڈیموکریٹک وومین ایسوسی ایشن (اینڈوا) کی صہبا‘ جے این یو اسٹوڈینٹس یونین کی سابق صدر سوچیتا دیو، محمد ابو ذر چودھری،ہائی منچ کے رویش عالم وغیرہ شامل ہیں۔
اس وقت دہلی میں سیلم پور جعفرآباد،، ترکمان گیٹ،کھجوری، مصفطی آباد، کردم پوری، شاشتری پارک، اورجامع مسجدسمت ملک تقریباً پچاس سے زائد مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔
دہلی کے بعد سب سے زیادہ قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہار سے آواز اٹھ رہی ہے اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ’سیوان،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، سمستی پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور بہت سے ہندو نوجوان مسلمانوں کی حفاظت کرتے نظر آئے۔
کولکاتہ کے پارک سرکس میں خواتین سخت پریشانیوں کے باوجود اپنا مظاہرہ جاری رکھا۔ انتظامیہ سہولت کی لائن کاٹ کر دھرنا کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خواتین کے عزم و حوصلہ کے سامنے وہ ٹک نہیں سکی۔
لکھنو میں خواتین نے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ 19دسمبر کو احتجاج کے بعد تشدد کی وجہ سے اترپردیش میں احتجاج پوری طرح بند تھا اور رات میں بھی پولیس خواتین کو بھگانے کی کوشش کی لیکن خواتین ڈٹی رہیں۔آج ہزاروں کی تعداد میں خواتین مطاہرہ کر رہی ہیں۔یہاں کی خواتین کی جانفشانی کا یہ عالم ہے کہ کھلے آسمان کے نیچے سخت سردی کے عالم بغیر کمبل اور روشنی کے مظاہرہ کررہی ہیں۔پولیس نے یہاں کی لائٹ کاٹ دی تھی، کمبل اور کھانے کا سامان چھین کر لے گئے تھے لیکن پولیس کی ہٹلر شاہی رویہ بھی ان خواتین کا جوش و خروش کم نہ کرسکا۔ پولیس نے یہاں ٹینٹ لگانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ خواتین موبائل کی روشنی سے احتجاج کی روشنی پوری دنیا میں پہنچارہی ہیں۔
اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد کی خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان مظاہرے کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے پس پشت نہ کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی کوئی بڑی تنظیم، جو کچھ بھی آتا ہے وہ رضاکارانہ طور پر آتا ہے اور عام لوگ ضرورت چیزیں خواتین کو پہنچاتے ہیں۔
(جنرل (عام
مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔
سیاست
مہاراشٹر مراٹھی ہندی تنازع قانون ہاتھ میں لینے والوں پر سخت کارروائی ہوگی وزیر اعلی دیویندر فڑنویس

ممبئی مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے ہندی مراٹھی لسانیات تنازع پر یہ واضح کیا ہے کہ لسانی تعصب اور تشدد ناقابل برداشت ہے, اگر کوئی مراٹھی زبان کے نام پر تشدد برپا کرتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے, تو اس پر سخت کارروائی ہوگی, کیونکہ نظم و نسق برقرار رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا روڈ ہندی مراٹھی تشدد کے معاملہ میں پولس نے کیس درج کر کے کارروائی کی ہے۔ مراٹھی اور ہندی زبان کے معاملہ میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی سفارش پر طلبا کے لئے جو بہتر ہوگا وہ سرکار نافذ العمل کرے گی کسی کے دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندی زبان کی سفارش خود مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں کی گئی تھی, لیکن اب یہی لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام سب جانتے ہیں, انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ۵۱ فیصد مراٹھی ووٹ اس الیکشن میں حاصل ہوئے ہیں۔ زبان کے نام پر تشدد اور بھید بھاؤ ناقابل برداشت ہے, مراٹھی ہمارے لئے باعث افتخار ہے لیکن ہم ہندی کی مخالفت نہیں کرتے, اگر دیگر ریاست میں مراٹھی بیوپاری کو کہا گیا کہ وہاں کی زبان بولو تو کیا ہوگا۔ آسام میں کہا گیا کہ آسامی بولو تو کیا ہوگا۔ انہوں نے قانون شکنی کرنے والوں پر سخت کارروائی ہوگی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
ترکی کے لمین میگزین میں گستاخانہ خاکے کی اشاعت کے خلاف رضا اکیڈمی کا احتجاج

ممبئی : ترکی کے معروف “لمین میگزین” میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے منسوب گستاخانہ خاکہ شائع کیے جانے پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج بعد نماز جمعہ ممبئی کے سیفی جوبلی اسٹریٹ واقع ہانڈی والی مسجد میں رضا اکیڈمی کی جانب سے ایک پُرامن احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس احتجاج کی قیادت رضا اکیڈمی کے سربراہ اسیر مفتی اعظم الحاج محمد سعید نوری اور مولانا اعجاز احمد کشمیری نے کی۔ مظاہرے میں سینکڑوں عاشقانِ رسول ﷺ نے شرکت کی اور گستاخانہ خاکے کے خلاف اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
اس موقع پر الحاج محمد سعید نوری نے کہا : “نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی پوری امت مسلمہ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم ترک حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس گستاخ میگزین کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے عناصر کو سخت سزا دے۔”
مقررین نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایسے گستاخانہ اقدامات کے خلاف ٹھوس عالمی قانون سازی کریں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرأت نہ کر سکے۔ احتجاج کے دوران شرکاء نے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر”لبیک یا رسول اللہ ﷺ جیسے نعرے بھی لگائے، لیکن پورا احتجاج پُرامن ماحول میں اختتام پذیر ہوا۔
-
سیاست9 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا