(جنرل (عام
حیدرآباد:تبلیغی جماعت سے واپس کورونا سے روبہ صحت شخص کا تالیوں کی گونج میں ہیرو کی طرح بین مذہبی شاندار استقبال

حیدرآباد کے علاقہ بورابنڈہ کے این آر آر پورم سائٹ تری کا ایک پرانا مکان معمولی نظر آتا ہے تاہم اس کی امید،بین طبقہ ہم آہنگی کی کہانی غیر معمولی ہے۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران جب کبھی تبلیغی جماعت کا لفظ سننے میں آیا،اس لفظ کو صرف تنازعہ کی حد یا لوگوں کو ہندو اور مسلم کے خطوط پر تقسیم کرنے کے پس منظرمیں سناگیا،اس کے ذریعہ منافرت پھیلانے والوں کو ایک موقع ملا۔ اس دوران کورونا جہاد جیسا ناگوار لفظ بھی بعض متعصب افراد سے سناگیا لیکن حیدرآباد کے اس چھوٹے سے محلہ میں لوگ،دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں کورونا سے متاثرہونے کے بعد اس سے روبہ صحت شخص کوہمدری اور شفقت کے ساتھ ہیرو کی طرح شاندار استقبال کرتے ہوئے منافرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرنے اوران کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے جذبہ کو تحریک میں تبدیل کرنے کے لئے آگے آئے۔اس طرح کے استقبال کے ذریعہ ان افراد نے یہ ثابت کردیا کہ شہر حیدرآباد میں گنگاجمنی تہذیب ابھی باقی ہے اوریہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔روبہ صحت شخص کا تالیوں کی گونج میں پھول نچھاور کرتے ہوئے بلالحاظ مذہب وملت استقبال کیاگیا۔اس موقع پر بابا فصیح الدین ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی) نے گلدستہ پیش کرتے ہوئے ان کا شاندار استقبال کیا۔محمد رفیع اللہ خان جو روبہ صحت ہوکر اپنے گھر پہنچے، اس تعلق سے بتاتے ہیں کہ 5 اپریل کو وہ شہر حیدرآباد کے گاندھی اسپتال میں داخل کئے گئے جو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج کے لئے ایک بڑے مرکز کے طورپر ابھرا ہے۔تقریبا 43دن اسپتال میں وہ زیرعلاج رہے۔اسپتال سے روبہ صحت ہونے کے بعد گھر واپسی پر ان کا ہیرو کا طرح استقبال کیاگیا۔سڑک کی دونوں جانب لوگوں نے تالیاں بجاکران کا استقبال کیا۔ساتھ ہی ایک عالم دین، ایک پادری اور ایک ہندو خاتون جو موظف گزیٹیڈ آفیسر نے ان کا شاندار خیرمقدم کیا۔ہندو خاتون نے جہاں ان کی آرتی اتاری تو پادری نے ان کے لئے دعائیہ کلمات اداکئے اور عالم دین نے ان کو دعا دی۔رفیع صاحب نے کہا”میری یہ ابتدا میں سونچ تھی کہ چونکہ میں بیماری سے روبہ صحت ہورہا ہوں تو پتہ نہیں میرے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیاجائے گاتاہم محلہ پہنچنے پر میرے کے لئے حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرابین طبقاتی استقبال کیاگیا۔میرا یہ احساس تھا کہ روبہ صحت ہونے کے بعد اس بیماری کے تعلق سے پیداخدشات کے درمیان میری طرف کوئی بھی پلٹ کر نہیں دیکھاگاکیونکہ عالمی سطح پر اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیاجارہا ہے اور سماجی فاصلہ کے نام پر دوررہنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن جب میں اپنے محلہ پہنچا تو تالیوں کے ساتھ میرا ستقبال کیاگیا جس پر مجھے کافی مسرت ہوئی۔تمام افراد بالخصوص ہندو،مسلم،عیسائی طبقات کے لوگ بھی میرااستقبال کرنے والوں میں تھے“۔ان کاکہنا ہے”ابتدا ہی سے اس علاقہ میں ہندو،مسلم لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے ہیں۔میں میرا استقبال کرنے والوں کا شکرگذار ہوں،میری وجہ سے اس علاقہ کے 70تا80گھروں میں رہنے والوں کو تکلیف ہوئی کیونکہ میرے مثبت پائے جانے کے بعد اس علاقہ کوکنٹینمنٹ زون میں تبدیل کردیاگیاتھا۔میری وجہ سے ان مکانات کے افراد گھروں سے باہر نہیں نکل پارہے تھے۔اس کے لئے میں ان تمام افراد سے معذرت خواہی کرتا ہوں۔یہ افراد میرے لئے قابل احترام ہیں۔جس طرح میرا استقبال کیاگیا اورمذہبی رواداری کا مظاہرہ کیاگیا اس سے اپنے آپ کوجدا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہمیں تمام کے ساتھ رہنا ہے“۔
خاندان کے ایک فرد کی طرح رفیع صاحب کا استقبال کیاگیا۔دراصل رفیع اللہ خان اُس ہندوستان کی یاد دلارہے ہیں جو ہنوز زندہ ہے۔اس میں مذہب کے نام پر بیر نہیں ہے۔محمد رفیع اللہ خان اس طرح کے شاندار استقبال پر روپڑے اور کہاکہ اسپتال میں ان کو تمام طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔انہوں نے وزیراعلی کے چندرشیکھرراو کے ساتھ ساتھ ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی)بابا فصیح الدین کا شکریہ اداکیا۔انہوں نے کہاکہ اسپتال میں کھانا وقت پر دیاگیا اور ہر چیز وقت پر ان کو فراہم کی گئی۔اسپتال میں بہترین سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ بابافصیح الدین اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور انسانی بھائی چارہ کے لئے کافی بڑھ چڑھ کرکام کررہے ہیں۔ان کی مساعی کافی قابل ستائش ہے۔ان کے کارناموں کو یاد رکھاجائے گا۔تین افراد جو تین مختلف مذاہب کے نمائندے ہیں نے انسانیت اور ہمدردی کا اظہار رفیع اللہ خان کے لئے کیا ہے۔ نارالکشمی موظف گزیٹیڈ آفیسرجنہوں نے رفیع اللہ خان کی آمد پر ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کی آرتی اتاری کا کہنا ہے ”انسانی بنیادوں پر ان کا استقبال کیاگیا اور ہندو طریقہ کے مطابق یہ آرتی اتاری گئی جس کے بعد میں نے رفیع اللہ خان کو آیوشمان سُکھی بھوا بھی کہا۔ مذہب،طبقہ،ذات میں کوئی فرق نہیں ہے۔تمام کو ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔ میں نے رفیع اللہ خان کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کی آرتی اتاری“۔پادری پرکاش جنہوں نے رفیع اللہ خان کے استقبال کے موقع پر دعائیہ کلمات کہے نے کہا”اس مرض کے تعلق سے رفیع صاحب،ان کے خاندان کے دل میں کسی بھی قسم کا کوئی شک وشبہ نہ رہے، اس کے لئے میں نے دعائیہ کلمات اداکئے“۔اس سوال پر کہ اس طرح کے انسانی رشتہ سے لوگوں کو کیابتانامقصد ہے؟توپادری پرکاش نے کہا”کورونا کے اس ملک میں آنے کے بعد مذہب کی بنیاد پر اس کی تقسیم کی گئی،لوگوں کا پیار محبت تقسیم ہوگیا،اس کورونا معاملہ نے تمام مذاہب کو تقسیم کردیا تھاتاہم تین مذاہب کی جانب سے روبہ صحت شخص کے استقبال سے ملک کے لئے بہتر پیام دینے کا کام کیاگیا ہے“۔
مولانااحمد جنہوں نے رفیع اللہ خان کی آمد کے موقع پر ان کو دعادی کا کہنا ہے”میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ کوروناوائرس کا جلد از جلد خاتمہ کیاجائے کیونکہ اس وبا کی وجہ سے ساری انسانیت پریشان ہے،پوری دنیا میں لوگ پریشان ہیں، رفیع اللہ صاحب کی صحت کے لئے بھی دعا کی گئی۔کورونا وائرس کی وجہ سے وہ ذہنی تناو کا شکار ہوگئے تھے،تمام افراد کے ٹہر کر ان کا استقبال کرنے سے تمام کو نئی خوشی ملی اور خود ان کو بھی خوشی ہوئی۔تمام نے ٹہر کر ان کو دعا دی“۔اس خصوص میں مقامی نوجوان صحافی ابرار نے کہا کہ جس طرح رفیع اللہ خان کا استقبال کیاگیا اس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ملک میں نفرت کے اس ماحول میں ہمیں اتحاد کے ساتھ رہنا ہوگا۔آج بھوک مری،مزدوروں کے مسائل ہیں،ہمیں ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی بھول کرانسانیت کے پیچھے جانا چاہئے۔رفیع اللہ کی کم عمر بیٹی نے کہا کہ ان کو ان کے والد کے بیمار ہونے کے وقت تھوڑا خوف انہیں تھا۔ بابافصیح الدین ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی) نے لوگوں کی اس مساعی میں اہم رول ادا کیا۔انہوں نے لوگوں کے اس اقدام کی کافی ستائش کی اوراسے گنگاجمنی تہذیب کی علامت سے تعبیر کیا۔بابافصیح الدین اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں کافی سرگرم عمل ہیں۔انہوں نے گاندھی اسپتال سے رفیع اللہ خان کو خود ان کی گاڑی میں گھر پہنچایا۔ان کا کہنا ہے کہ مرکز کے معاملہ کو تبلیغی جماعت سے جوڑ کر بعض افراد کی جانب سے سما ج میں تفرقہ ڈالنے کا کام کیاجارہا ہے اورمسلم طبقہ کو نشانہ بنایاجارہا ہے،اس کو دور کرنے کے لئے مقامی افراد نے رفیع اللہ کے استقبال کے لئے جو اقدامات کئے وہ لائق ستائش ہیں۔
بابا فصیح الدین جنہوں نے رفیع اللہ کے مناسب علاج کے سلسلہ میں نمایاں رول اداکیا نے کہاکہ وزیراعلی کے چندرشیکھرراو کی قیادت میں تلنگانہ میں سیکولر حکومت برسراقتدار ہے۔یہاں پر ہمیشہ گنگاجمنی تہذیب کو فروغ دیاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ رفیع اللہ خان کے کورونا سے مثبت پائے جانے کے بعد ان کی بیوی اور بچوں کے بھی طبی معائنے کروائے گئے تاہم ان کی رپورٹس منفی آئیں جس کے بعد ان کو اسپتال سے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔انہوں نے کہاکہ ان کے ڈسچارج ہونے کے بعد سائٹ تری کالونی کے تمام افراد نے گنگاجمنی تہذیب کے مطابق رفیع اللہ خان کا استقبال کیا۔ڈپٹی مئیر نے اس علاقہ کے کنٹیمنٹ زون میں رہنے والوں کے لئے رمضان کی ابتداسے ہی روزانہ سحری کا معقول انتظام کیا اور دیگر خدمات انجام دیں کی کافی ستائش کی جارہی ہے۔ رفیع اللہ خان، پادری پرکاش،نارالکشمی اور مولانا احمد نے ان کے اس قدم کی کافی ہمت افزائی کی۔اس کالونی کے دیگر افراد نے بھی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وائرس کے متاثرین کے بہتر علاج کو یقینی بنانے پر حکومت تلنگانہ سے وہ اظہار تشکرکرتے ہیں۔اس موقع پر رفیع اللہ کے بھائی نے بھی تمام سے اس سلسلہ میں اظہار تشکر کیااور کہا کہ محلہ کے تمام افراد بالخصوص بابا فصیح الدین کا تعاون کافی زیادہ رہا۔
(جنرل (عام
سپریم کورٹ نے وکلاء کے مراعات کی خلاف ورزی اور ان کے مسائل سے متعلق ایک درخواست پر مرکزی حکومت اور دیگر سے جواب طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا۔

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے وکلاء کو درپیش مسائل بالخصوص ان کے مراعات کی خلاف ورزی کی درخواست پر مرکز اور دیگر سے جواب طلب کیا ہے۔ جسٹس وکرم ناتھ اور سندیپ مہتا کی بنچ نے سپریم کورٹ کے وکیل آدتیہ گور کی عرضی پر مرکز، بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔ گور، جنہوں نے وکلاء کے مسائل پر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، 2014 سے مرکزی حکومت سے ایڈووکیٹ (تحفظ) بل کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گور کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ نشانت آر کٹنیشورکر نے کہا، “درخواست گزار ایک وکیل ہے اور تقریباً 11 سالوں سے بار کونسل سمیت متعلقہ حکام سے اس بل کا مسودہ تیار کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔”
بنچ نے کہا کہ بل زیر غور ہے۔ درخواست میں متعلقہ حکام کو وکلاء کے مراعات کے تحفظ کے مقصد سے ایڈووکیٹ ایکٹ 1961 کے سیکشن 10(3) اور دیگر متعلقہ دفعات کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایکٹ کا سیکشن 10 تادیبی کمیٹیوں کے علاوہ دیگر کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب وکالت (تحفظ) بل لا کمیشن آف انڈیا کے سامنے زیر التوا تھا، درخواست گزار نے ایڈووکیٹ ایکٹ کے سیکشن 7(ڈی) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بی سی آئی کو لکھا تھا کہ وہ وکالت کے مراعات کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے۔
اس میں کہا گیا، ‘موجودہ پٹیشن، جو مفاد عامہ میں دائر کی جا رہی ہے، مختلف پیش رفتوں کی وجہ سے ضروری ہو گئی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بار کونسل کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مراعات کی خلاف ورزی سے متعلق خدشات کو دور کرے اور وکلاء کو اس طرح کی خلاف ورزیوں سے بچانے کے لیے موثر اقدامات کرے۔’ درخواست میں کہا گیا ہے کہ موثر انصاف کے نظام کے لیے ضروری ہے کہ وکلاء کی مراعات کو پامال نہ کیا جائے تاکہ وہ آزادی سے اور بغیر کسی خوف کے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ اس میں وکلاء پر حملے سے متعلق واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ “وکلاء پر حملہ نہ صرف وکلاء کے ذاتی وقار کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے عدالتی انتظامیہ کی ساکھ اور کارکردگی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے”۔
سیاست
سینئر مہاراشٹر کے افسر اور سابق وزیر شہد کے پھندے میں پھنس گئے : شکایت درج، مگر تفتیش ابھی نامکمل

ممبئی، 1 اکتوبر 2023 – مہاراشٹر کے ایک سینئر افسر اور سابق وزیر کے درمیان ایک سنسنی خیز شہد کے پھندے کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے، جہاں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہیں خواتین کے ذریعے پھنسایا گیا۔ اس معاملے میں شکایت درج کی گئی ہے، لیکن تفتیش کی حالت واضح نہیں ہے۔
رپورٹس کے مطابق، سابق وزیر اور ایک سینئر سرکاری افسر پر یہ الزام ہے کہ انہیں کئی خواتین کے ذریعے پھنسایا گیا، جس کی وجہ سے ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ شکایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان افسران پر خواتین کی کشش کا اثر ہوا، جس کے نتیجے میں حساس معلومات حاصل کی گئیں۔
تاہم، کیس پولیس تک پہنچنے کے باوجود تفتیش کی رفتار سست ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران کی شناخت کے باوجود کیس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی، جس سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ سیاسی دباؤ اس معاملے کی کارروائیوں کو سست کرنے میں ایک عنصر ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں، ایک مقامی سماجی کارکن نے کہا کہ ایسے کیسز کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان معاملات میں طاقتور لوگوں کو جوابدہ ٹھیرانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
شہر کی پولیس ابھی تک اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کر سکی۔ یہ واقعہ مہاراشٹر میں ایک ہلچل پیدا کر رہا ہے اور سیاسی حلقوں میں بھی گونج رہا ہے۔
تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر مکمل تفتیش نہیں کی گئی تو یہ عوام کا حکومت پر اعتماد کم کر سکتی ہے۔ اس کیس کے بارے میں مزید معلومات آنے والے دنوں میں متوقع ہیں جب پولیس محکمہ تفتیش کی سمت میں ٹھوس اقدامات کرے گا۔
یہ واقعہ مہاراشٹر کی سیاست میں نہ صرف سیکیورٹی کے مسائل پر گفتگو کا آغاز کر رہا ہے بلکہ شہد کے پھندوں جیسے مسائل کے بارے میں آگاہی کی ضرورت کو بھی اجاگر کر رہا ہے
سیاست
آکولہ بنگلہ دیشیوں کے نام پر پیدائشی اسناد منسوخی، اگر وہ بنگلہ دیشی ہیں تو انہیں بنگلہ دیش بھیجو نہیں تو انتظامی اہلکاروں پر کارروائی ہو، ابوعاصم کا مطالبہ

ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی ریاست مہاراشٹر آکولہ میں مقامی باشندوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کی پیدائشی اسناد منسوخ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بنگلہ دیشی قرار دینے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ مہاراشٹر کے اکولا ضلع میں بی جے پی لیڈر کی شکایت پر، 2800 باشندوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں، جن میں تمام مذاہب اور ذاتوں کے شہری شامل ہیں، انہیں “بنگلہ دیشی” قرار دیا گیا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مہاراشٹر کے رہائشی ہے, اگر وہ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو انہیں اب تک مہاراشٹر میں رہنے کی اجازت کیسے ملی؟ اور اگر نہیں تو پھر انہیں بنگلہ دیش کیوں نہیں بھیجا گیا؟
میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کی جائے۔ اگر یہ تمام 2800 باشندے، جو خود کو مہاراشٹر کے باشندے بتا رہے ہیں، دراصل یہیں کے ہیں اور ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹ غلط طریقے سے منسوخ کیے گئے ہیں، تو ذمہ دار انتظامی اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اور اگر وہ واقعی غیر ملکی شہری ہیں تو انہیں قانون کے مطابق فوری طور پر واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا جائے۔
-
سیاست9 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا