Connect with us
Sunday,06-July-2025
تازہ خبریں

جرم

امولیہ سے وارث پٹھان تک عجب عالم بدحواسی ہے

Published

on

بنگلور میں ایک انیس سالہ لڑکی اس اسٹیج سے جہاں اسدالدین اویسی موجود تھے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی ہے، اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی اس سے مائیک چھین لیا گیا اور ایک پولس افسر اسے گھسیٹ کر لے گیا لیکن وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر واپس بنا مائیک کے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہے۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور اسے ملک سے غداری کے مقدمہ میں جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کوئی بارود کا گولا ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں وہ پھٹ پڑے گا اور اس سے پورا ملک تباہ ہوجائے گا کہ ایک عالم بدحواسی میں سب اکٹھا ہو جاتے ہیں اور بقول رویش کمار جو افسر کبھی اپنی ذمہ داری ڈھنگ سے نہیں نبھاتا وہ بھی ایسے موقعوں کو غنیمت جان کر محب وطن ہونے کا ثبوت دینے کیلئے فورا حرکت میں آجاتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد اسی کرناٹک کے دوسرے شہر میں ایک اور جلسہ میں وارث پٹھان یہ بولتے بولتے یہ کہہ جاتے ہیں سو پر پندرہ بھاری ہے۔ بس پھر کیا تھا ان کے خلاف بھی مذمت کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور شاید کئی پولس اسٹیشنوں میں مقدمہ بھی کردیاجاتا ہے۔ یہ دونوں ہی معاملے میں ایک چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم بدحواسی۔ کسی کو مزید کچھ نہیں کہنے دینا ہے، اس کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا ہے۔ امولیہ آگے اور کیا کہنا چاہتی تھی اس کی بات سننے کو کوئی راضی نہیں بس اس نے پاکستان زندہ باد کیوں کہا ؟ یہی ایک مسئلہ ہے۔ رویش کمار کے مطابق گویا ہندوستان کوئی پتہ ہے جس کا وجود پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے ہی بکھر جائے گا۔ امولیہ نے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کسی صورت جان چھڑا کر ہندوستان زندہ باد کے بھی نعرہ لگائے اور اس کے فیس بک اکائونٹ کے مطابق اس کے ذہن میں اپنے پڑوسی ممالک کے لئے بھی زندہ باد کا نعرہ ہے محض ہندوستان ہی زندہ باد نہیں ہے اور وہ وہاں اسٹیج پر ان سبھی ممالک کیلئے زندہ باد کہنا چاہتی تھی جس کا اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا۔
وارث پٹھان کا سو پر پندرہ بھاری والا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ سہی مگر اس کیخلاف اتنی شدت نہیں آنی چاہئے کہ ان کے پتلے جلائے جائیں اور ان کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگائے جائیں جبکہ ان کے سیاسی رفیق امتیاز جلیل کہا’وارث پٹھان کا یہ بیان سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کیخلاف برہمی کا اظہار ہے جو جبرا مسلمانوں پر تھوپ کر اس بیان کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں امتیاز جلیل کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ سے سوچنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں۔ آج ہم اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے اور دوسروں (سنگھی، لبرل اور دہریہ) کو خوش کرنے کیلئے مذمت اور احتجاج یا ہائے ہائے کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ ۲۱ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو شام سات بجے سے ممبئی کے اسلام جمخانہ کے دیوان خاص ہال میں ’الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی، این پی آر‘ کی مہاراشٹر و ممبئی اکائی کی جانب سے رضاکاروں، ارکان اور کارکنان کیلئے تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا۔ جس میں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور اسلام جمخانہ کے موجودہ سربراہ یوسف ابراہانی نے وارث پٹھان کیخلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ کانگریس میں اپنی جگہ بنانے اور کچھ قوتوں کی چاپلوسی کا تھا اس لئے وہاں الائنس کے پلیٹ فارم سے ایک غیر ضروری کام کیا گیا۔ ہم نے یوسف ابراہانی کا ایک ویڈیو پیغام بھی دیکھا جس میں وہ وارث پٹھان اور مجلس اتحادالمسلمین کیخلاف عوام کو ورغلاتے نظر آرہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وارث پٹھان ہوتے کون ہیں مسلمانوں کی جانب سے قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیکن ابراہانی خود وارث پٹھان کے بیان کے تعلق سے معافی مانگتے ہوئے خود کو پندرہ کروڑ مسلمانوں کا لیڈر قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ دونوں کی پوزیشن ایک ہی ہے۔ دونوں عوام کے ٹھکرائے ہوئے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ عوام سے ٹھکرایا ہوا ایک کانگریسی عوامی طور پر مسترد کئے ہوئے دوسرے شخص کو قوم کا ٹھیکیدار تسلیم نہیں کرتا لیکن پندرہ کروڑ مسلمانوں کی جانب سے معافی مانگ کر خود کو مسلمانوں کے قیادت کی دعویداری کررہا ہے۔
ایک بات واضح کردوں کہ میری نظر میں بھی وارث پٹھان کا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ ہے ۔ بس میرا کہنا یہ ہے کہ اس پر اتنی ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ پٹھان نے کہا آپ نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی بس۔ اس سے آگے کی تحریک یا کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کسی کے دبائو میں ضرورت سے زیادہ روادار اور محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالات بتارہے ہیں کہ اگر آپ گرم لوہے کی سلاخ ہاتھوں میں لے کر اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے تو ہ طبقہ آپ کی وفاداری تسلیم نہیں کرے گا۔ اس حقیقت کے باوجود آپ کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اتحاد کی لالچ میں وہ کرتے چلے جارہے ہیں جس کی مخالفت قوم برسوں سے کرتی آرہی ہے۔ یہاں دو مثالیں کافی ہیں جو میں الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی اینڈ این پی آر کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد احتجاجی اجلاس عام میں اس کے ہی ایک شریک کنوینر کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب مسلمانوں کا جواب دیکھا۔ الائنس کے شریک کنوینر ایڈووکیٹ راکیش راٹھوڑ نے ۱۵ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو آزاد میدان کی احتجاجی ریلی میں بھارت ماتاکی اور وندے کے نعرے لگائے اور مسلمانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا گیا۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمان اس سے بچتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آزاد میدان کے اس نعرے اور جگہ بجگہ سیکولر لبرل طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کی بھیڑ سے اپنی لیڈر شپ کاشت کرنے کی فکر نے مجھے بے چین کیا ہے۔ اگر کسی کو بے چینی نہیں ہوتی میں کیا کرسکتا ہوں۔ اوروں کی طرح میں بھی ہندو مسلم اتحاد کو پسند کرتا ہوں۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے جاکر مسلمانوں کے ساتھ تمام پسماندہ طبقات کے اتحاد کو زیادہ بہتر اور موثر سمجھتا ہوں۔ مگر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کئے بغیر۔ ہم نے شیواجی کی یوم پیدائش پر مذہبی شناخت کے ساتھ شیواجی کی قد آدم مورتی پر پھول اور ہار چڑھاتے مسلمانوں کی تصویر بھی دیکھی ہے۔ سوچئے ہم اتحاد اور رواداری کی خواہش میں کہاں چلے جارہے ہیں۔ ہم انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکتے کہ ہم شیواجی یا امبیڈکر سمیت اس جیسے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں لیکن تمہاری تہذیب کے مطابق ان کی عبادت نہیں کرسکتے۔
غور کیجئے وارث پٹھان کے بیان کیخلاف بیان دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ تحریک میں ہم بڑی مشکل سے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بنا پائے ہیں جسے وارث پٹھان یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تباہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ صرف خوش فہمیاں ہیں جو کچھ لوگوں کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلائی جارہی ہے۔مجھے اپنی اس شہری ترمیم قانون یا این پی آر اور این آر سی کیخلاف تحریک میں سوائے اسٹیج کے کہیں بھی کوئی غیر مسلم دکھادیں، تو مان جائوں گا کہ آپ نے اتحاد بین المذاہب کو حاصل کرلیا۔ ہر جگہ اس بھیڑ میں انہیں تلاش کررہا ہوں مگر میری آنکھیں لوٹ آتی ہیں اور وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ ہمیں ہر وقت یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلم بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ جڑے تو مگر صرف لیڈر اور اسٹیج کی حد تک جیسا اوپر ذکر کیا گیا۔حالانکہ مذکورہ قانون سے مسلمانوں سے زیادہ پسماندہ طبقات کو ہی نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ وہ لوگ بے زمین تھے اور آج بھی ایک بڑی آبادی بے زمین ہے۔ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسی کی بنیاد پر برہمنوں کی پروردہ موجودہ مودی حکومت دستور میں دی گئی ریزرویشن کی سہولت کو ختم کردینا چاہتی ہے۔ مگر انہیں مسلم دشمنی کی شراب اتنی پلائی گئی ہے کہ اس کا نشہ اترتا ہی نہیں۔ مسلم دشمنی کی آڑ میں انہیں اپنی تباہی نہیں دِکھ رہی ہے کہ این آر سی کے بعد ان کا وہ دور واپس آجائے گا جب انہیں اپنے پیچھے جھاڑو باندھنا اور گلے میں مٹکہ لٹکانا ہوگا۔ ان کے لیڈر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں۔ بہتر ہے کہ یہ باتیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اپنے درمیان کے کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ہلکی پھلکی سرزنش کرکے تنہائی میں اسے سمجھائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور اس کی یہ بات کیوں حکمت کیخلاف ہے۔ مگر مرعوبیت اور مغلوبیت یا غلامانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے قوم کا مورال پست ہو۔ آپ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر ٹھیک معلوم ہوتا ہے-

جرم

دہلی کی ایک عدالت نے اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا، بھنڈاری پر واڈرا سے تعلق کا الزام، رابرٹ واڈرا کی بڑھے گی ٹینشن

Published

on

Sanjay-Bhandari-&-Robert

نئی دہلی : دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے ہفتہ کو اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا۔ یہ فیصلہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی درخواست کے بعد آیا۔ خصوصی عدالت نے یہ حکم مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ 2018 کے تحت جاری کیا ہے۔ اس فیصلے سے بھنڈاری کی برطانیہ سے حوالگی کی ہندوستان کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ بھنڈاری 2016 میں لندن فرار ہو گیا تھا جب متعدد تفتیشی ایجنسیوں نے اس کی سرگرمیوں کی جانچ شروع کی تھی۔

اس واقعہ سے رابرٹ واڈرا کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ واڈرا پر ہتھیاروں کے ڈیلروں سے روابط رکھنے کا الزام ہے اور وہ زیر تفتیش ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل واڈرا کو منی لانڈرنگ کیس میں تازہ سمن جاری کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی بھنڈاری کے ساتھ ان کے تعلقات کا الزام ہے۔ ای ڈی نے 2023 میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔ ای ڈی کا الزام ہے کہ بھنڈاری نے 2009 میں لندن میں ایک پراپرٹی خریدی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ الزام ہے کہ یہ رقم واڈرا نے دی تھی۔ واڈرا نے کسی بھی طرح کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے ان الزامات کو ‘سیاسی انتقام’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ واڈرا نے کہا، ‘سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔’

بھنڈاری کے خلاف یہ کارروائی ای ڈی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس سے واڈرا کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔ ای ڈی اب بھنڈاری کو ہندوستان لانے کی کوشش کرے گی۔ واڈرا کو حال ہی میں ای ڈی نے سمن بھیجا تھا۔ لیکن وہ کوویڈ علامات کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوا۔ ای ڈی اس معاملے میں واڈرا سے پوچھ گچھ کرنا چاہتا ہے۔ ای ڈی جاننا چاہتا ہے کہ واڈرا کا بھنڈاری سے کیا رشتہ ہے۔ یہ معاملہ 2009 کا ہے۔ الزام ہے کہ بھنڈاری نے لندن میں جائیداد خریدی تھی۔ ای ڈی کا کہنا ہے کہ یہ جائیداد واڈرا کے پیسے سے خریدی گئی تھی۔ واڈرا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی سازش ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا ای ڈی واڈرا کے خلاف کوئی ثبوت تلاش کر پائے گی؟ کیا بھنڈاری کو بھارت لایا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والے وقت میں مل جائیں گے۔

Continue Reading

جرم

پونے میں آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والی 22 سالہ خاتون کا ریپ۔ پولیس نے ڈیلیوری بوائے کا تیار کرلیا خاکہ، پولیس تفتیش میں اہم انکشافات ہوئے ہیں۔

Published

on

raped

پونے : مہاراشٹر کے پونے میں پولیس نے 22 سالہ آئی ٹی پروفیشنل کے ریپ کیس میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے ڈیلیوری بوائے کے روپ میں داخل ہونے والے شخص کی گرفتاری کے لیے 10 ٹیمیں تشکیل دیں۔ یہ واقعہ بدھ کی شام پونے کی ایک سوسائٹی میں پیش آیا جب ایک نامعلوم شخص نے ڈلیوری ایگزیکٹو کے طور پر پیش کیا۔ ملزم نے خاتون کو قلم مانگنے کے نام پر اندر بھیجا تھا۔ اس کے بعد اس نے فلیٹ کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیا اور درندگی کی۔ ملزم نے اس کی تصویر کھینچی اور اسے وائرل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پیغام چھوڑ دیا۔

پونے پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پونے پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ شام 7.30 بجے کے قریب خاتون کے فلیٹ میں اس وقت پیش آیا جب وہ گھر میں اکیلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں ایک پرائیویٹ آئی ٹی فرم میں کام کرنے والی خاتون اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھی اور وہ کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ ملزم نے خاتون کو بے ہوش کر دیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب خاتون کو ہوش آیا تو وہ فرار ہو چکا تھا۔ پونے پولیس کے ڈی سی پی راج کمار شندے کے مطابق، ڈیلیوری بوائے کے طور پر ظاہر کرنے والے شخص نے متاثرہ لڑکی کو بتایا تھا کہ اس کے لیے کورئیر میں بینک کے کچھ دستاویزات آئے ہیں۔ اس نے رسید دینے کو کہا اور کہا کہ وہ قلم بھول گیا ہے۔ متاثرہ خاتون جب اندر گئی تو ملزم فلیٹ میں داخل ہوا اور اندر سے دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ زیادتی کی۔

ڈی سی پی راج کمار شندے کے مطابق، تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ ملزم نے متاثرہ کی تصویر اس کے فون پر لی تھی۔ اس نے اس کے فون پر ایک پیغام بھی چھوڑا جس میں دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ تصویر وائرل کر دے گا اور وہ دوبارہ آئے گا۔ ڈی سی پی نے کہا کہ ہم نے 10 ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور جائے وقوعہ کی فرانزک جانچ کی گئی ہے۔ کتوں کی ٹیم بھی طلب کر لی گئی ہے۔ ہم سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور دیگر تکنیکی سراغ کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ ملزم کے فون پر لی گئی تصویر میں متاثرہ کے چہرے کا ایک چھوٹا سا حصہ پکڑا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک خاکہ تیار کیا جا رہا ہے۔ پونے پولیس نے بتایا کہ خاتون مہاراشٹر کے دوسرے ضلع کی رہنے والی ہے۔ پولیس نے علاقے کے پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 64 (ریپ)، 77 (وائیورزم) اور 351-2 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ یہ واقعہ پونے کے کونڈوا علاقے میں پیش آیا۔ پونے مہاراشٹر کے آئی ٹی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس واقعے نے خواتین کے تحفظ پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

مالی میں اغوا کیے گئے ہندوستانی… القاعدہ سے جڑی اسلامی دہشت گرد تنظیم جے این آئی ایم کتنی خطرناک ہے، وہ ‘جہادی بیلٹ’ کیسے بنا رہی ہے؟

Published

on

Mali

بماکو : یکم جولائی کو مغربی مالی میں متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد تین ہندوستانی شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ یہ حملہ کییس میں ڈائمنڈ سیمنٹ فیکٹری میں ہوا، جہاں مسلح افراد کے ایک گروپ نے سائٹ میں گھس کر کارکنوں کو اغوا کر لیا۔ بھارتی وزارت خارجہ (ایم ای اے) کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد فیکٹری کے ملازم تھے اور انہیں جان بوجھ کر پرتشدد دراندازی کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ سرکاری بیان میں، ایم ای اے نے کہا، “یہ واقعہ 1 جولائی کو پیش آیا، جب مسلح حملہ آوروں کے ایک گروپ نے فیکٹری کے احاطے پر ایک مربوط حملہ کیا اور تین ہندوستانی شہریوں کو زبردستی یرغمال بنا لیا۔”

اگرچہ ابھی تک کسی دہشت گرد تنظیم نے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن جس طرح مالی کے کئی حصوں میں ایک ہی دن مربوط دہشت گرد حملے ہوئے، اس سے شک کی سوئی براہ راست القاعدہ کی حمایت یافتہ تنظیم جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) کی طرف اٹھتی ہے۔ جے این آئی ایم نے اسی دن کئی دوسرے قصبوں جیسے کییس، ڈیبولی اور سندرے میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ حکومت ہند نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور مالی کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغویوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائے۔ ہندوستانی سفارت خانہ باماکو میں مقامی حکام اور فیکٹری انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور متاثرین کے اہل خانہ کو مسلسل آگاہ کیا جا رہا ہے۔

نصرت الاسلام والمسلمین، یا جے این آئی ایم، 2017 میں اس وقت وجود میں آئی جب مغربی افریقہ میں سرگرم چار بڑے جہادی گروپس – انصار دین، المرابیتون، القاعدہ کی سہیل برانچ ان اسلامک مغرب (اے کیو آئی ایم) اور مکنا کتیبات مسینا – تنظیم بنانے کے لیے افواج میں شامل ہوئے۔ یہ بھی ایک بنیاد پرست اسلامی تنظیم ہے، جس کا مقصد ایک بنیاد پرست اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنا ہے۔ ایاد اگ غالی اور عمادو کوفہ تنظیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایاد ایک تواریگ نسلی رہنما ہے جبکہ کوفہ ایک فولانی ہے، جو مقامی مسلم کمیونٹی میں ایک بااثر اسلامی مبلغ ہے۔ دونوں کے درمیان شراکت داری ظاہر کرتی ہے کہ جے این آئی ایم نہ صرف اسلامی بنیاد پرستی بلکہ علاقائی اور نسلی مساوات کو بھی اپنی حکمت عملی کا حصہ بناتی ہے۔ جے این آئی ایم نے خود کو القاعدہ کے سرکاری نمائندے کے طور پر قائم کیا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں اس کے بعض بیانات میں القاعدہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، جس سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یہ تنظیم اپنی نظریاتی سمت میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جے این آئی ایم کے پاس فی الحال 5 ہزار سے 6 ہزار جنگجو ہیں۔ اس کا ڈھانچہ انتہائی غیر مرکزیت یافتہ ہے، جو اسے مختلف مقامی حالات کے مطابق ڈھالنے کی اجازت دیتا ہے۔ تنظیم “فرنچائز” کے انداز میں کام کرتی ہے، یعنی مختلف علاقوں میں مقامی کمانڈر آزادانہ طور پر فیصلے کرتے ہیں۔ جے این آئی ایم نہ صرف اچھی طرح سے مسلح ہے بلکہ یہ ان علاقوں میں بھی حکومت کرتی ہے جہاں حکومت کی پہنچ کمزور ہے۔ یہ مختلف دیہاتوں کے ساتھ اسلام کی بنیاد پر سمجھوتہ کرتا ہے اور ان دیہاتوں کی حفاظت کرتا ہے جو اسلامی قانون پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں، تنظیم زکوٰۃ (مذہبی ٹیکس) جمع کرتی ہے اور اسلامی شرعی قانون نافذ کرتی ہے، جس میں خواتین کی تعلیم پر سختی سے پابندی ہے۔

پچھلی دہائی کے دوران ساحل کا علاقہ بالخصوص مالی، برکینا فاسو اور نائجر دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔ فرانس اور اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے کردار پر ناراضگی اور مقامی حکومتوں کے آمرانہ رویے نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ جے این آئی ایم نے عوام کے اس غصے اور حکومت کے انکار کا فائدہ اٹھایا اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ مئی 2025 میں، اس نے جیبو، برکینا فاسو پر حملہ کیا، جس میں 100 افراد ہلاک ہوئے۔ یہی نہیں، جے این آئی ایم اب مغربی مالی سے لے کر بینن، نائیجر اور یہاں تک کہ نائجیریا کی سرحد تک ایک ‘جہادی بیلٹ’ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ بیلٹ تنظیم کے زیر کنٹرول علاقوں کو جوڑتی ہے، جہاں یہ شرعی قانون کے تحت ٹیکس اور قواعد جمع کرتی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com