(جنرل (عام
خانقاہ رحمانی کے قدیم متوسل اور ذاکر و شاغل بزرگ حضرت مولانا محمد حنیف کی رحلت

(خیال اثر)
گزشتہ کل ۱۴۴۲ دیر رات کو حافظ محمد امتیازر حمانی (ناظم دارالاشاعت خانقاہ رحمانی مونگیر)کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ خانقاہ رحمانی کے قدیم متوسل اور ذاکر و شاغل بزرگ حضرت مولانا محمد حنیف رحمانیﷲ تعالی کو پیارے ہو گئے ،اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
اس تعلق سے اظہار تعزیت پیش کرتے ہوئے خلیفہ حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی مدظلہ حضرت مولانا عمیرین محفوظ رحمانی نے کہا کہ حضرت مولانا محمد حنیف رحمانی خانقاہ رحمانی کے وابستگان میں نمایاں عالم دین تھے ،اور یکسوئی کے ساتھ ذکر وفکر کا اہتمام کرنے والے شخص تھے،ان کا بیعت کا تعلق پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد منت ﷲ رحمانیؒ سے رہا اور اس کے بعد انہوں نے شیخ طریقت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم سے تجدیدِ بیعت کی اور ان کی رہنمائی میں سلوک کے مراحل طے کرتے رہے،وہ بڑے یکسو متواضع منکسر المزاج اورصاحب اخلاق شخص تھے،ذکر،نوافل اور تلاوت کا انہیں خاص ذوق تھا،روزانہ دس پارے تلاوت کا معمول تھا،رات کو جلد اٹھ کر تلاوت میں مشغول ہوجاتے تھے،اور بیماری اور صحت دونوں حالتوں میں تلاوت کا معمول پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے،ان کے چہرے کی نورانیت اس بات کی گواہی دیتی تھی کہ راتوں کو اٹھ کرﷲتعالی کی یاد اور اس سے مناجات کا خاص ذوق انہیں حاصل ہے،خانقاہ رحمانی کی مسجد میں ان سے ملاقات کا بارہا شرف حاصل ہوا،اور ایک مرتبہ ان کے صاحب زادے گرامی مولانا محمد صبغۃﷲصاحب زید مجدہم (خلیفہ حضرت حکیم کلیم ﷲصاحب ہردوئی)کی دعوت پر ان کے گاؤں گڑھی ضلع جموئی جانے اور ان کے قائم کردہ مدرسے کو دیکھنے کی عزت حاصل ہوئی ،مولاناصبغتہﷲصاحب بھی کارگزار اور مستعد عالم دین ہیں،حضرت مولانا محمد حنیف رحمانی کی تربیت کا پر تو ان کی زندگی میں نظر آتا ہے۔مولانا مرحوم نے لانبی عمر پائی،ان کی پیدائش ۱۹۳۴ ء کی تھی،اس لحاظ سے چھیاسی سال کی عمر ہوئی،انہوں نے جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوۃ تک تعلیم پائی،اس زمانے میں جامعہ رحمانی میں دورٔحدیث کی تعلیم کا نظم نہیں تھا ،اس لیے حضرت امیر شریعت مولانا منتﷲ رحمانی نورﷲمرقدہ کے حکم سے ان کا خط لے کر مولانا مرحوم مدرسہ شاہی مرادآباد چلے گئے،اور وہیں سے دور حدیث کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی ،فراغت کے بعد چند سال امامت کرتے رہے،پھر جھریا ضلع دھنباد میں ایک مدرسے میں تدریس اور اہتمام کی ذمہ داری نبھائی ،اس کے بعد گڑھی ضلع جموئی میں ۱۹۷۲ء میں مدرسہ روح العلوم کی بنیاد رکھی،اور تادم زیست اس مدرسے کی خدمت کرتے رہے،ماشاءﷲ اس ادارے نے مولانا مرحوم کے اخلاص اور ان کے صاحبزادے مولانا صبغۃﷲ کی محنت سے ترقی کی ،اور علاقے کے لیے دینی علوم کی خدمت کا مرکزبنا ،ﷲتعالی اس چمنستان علم کو ہمیشہ سدا بہار رکھے۔
آپ نے مزید کہا کہ حضرت مولانا محمد حنیف رحمانیؒ کی زندگی کا یہ پہلو بھی قابل رشک تھا کہ وہ پابندی سے خانقاہ رحمانی حاضر ہوا کرتے تھے اور بڑی یکسوئی سے وہاں وقت گزارتے تھے،انہیں نہ کسی امتیاز ی مقام کی تلاش ہوتی تھی اور نہ بہتر قیام و طعام کے وہ خواہاں ہوتےتھےمسجد کے گوشے میں ٹھہر جاتے اور یاد الٰہی میں مشغول رہتے،باوجود معمر اور سن رسیدہ ہوجانے کے کسی کی خدمت قبول نہیں فرماتے ،اپنے کاموں کو خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے تھے،اور اس طرح شب وروز گزارتے تھے کہ کوئی ناواقف دیکھ کر اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ جید عالم دین اور اپنے علاقے کی ممتاز شخصیت ہیں۔
مولانا مرحوم کو اپنے مرشد گرامی شیخ طریقت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت بر کاتہم سے بڑا والہانہ تعلق تھا ،جب گفتگو میں حضرت اقدس کا ذکر آتا تو ان کے لب و لہجے کی مٹھاس بڑھ جایا کرتی تھی،اب ایسے ذاکر و شاغل خاموش مزاج اور متواضع علماءکی بڑی کمی ہوتی جارہی ہے، مولانا مرحوم نے جس طرز وانداز کی زندگی گزاری اور جن مومنانہ صفات کے ساتھ انہوںنے اپنی زندگی کے شب وروز بتائےﷲتعالی نے اس کا یہ اثر دنیا ہی میں ظاہر فرمایاکہ انہیں قابل رشک خاتمہ نصیب ہوا اور نماز مغرب کی ادائیگی کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں وفات پائی،حدیث شریف میں یہ بات ہے کہ سجدے کی حالت میں انسان اپنےپروردگار سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے،جس بندے نے زندگی بھر قرب الٰہی کے حصول کا اہتما م کیااور اس راہ میں اپنے آپ کو مٹادیاﷲتعالی نے قرب اور نزدیکی کے اعلی مراتب سے نہ صرف یہ کہ انہیں نوازا بلکہ دنیا والوں پر ان کے مقام بلند کا اظہار ان کے حسن خاتمہ کے ذریعے فرمایا،مولانا مرحوم کی رحلت سے دل غمزدہ ہے اور ایک بھلے اور مومنانہ صفات کے حامل انسان کی رحلت پر آنکھیں اشکبار ہیں،دعا ہے کہﷲتعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے،کروٹ کروٹ ان کوجنت نصیب فرمائے،اور انہیں مراتب بلند نصیب فرمائے،اور ان کے پسماندگان بالخصوص حافظ روحﷲ صاحب اور مولانا صبغۃﷲ صاحب اور دیگر اہل خانہ کو صبرجمیل نصیب فرمائے(آمین)
(جنرل (عام
وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔
اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔
اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔
قومی
کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔
تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔
پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:
- ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
- وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
- وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
- متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :
- ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
- مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
- غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
- انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
- شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔
فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |
نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا