Connect with us
Saturday,04-October-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مالیگاؤں کے حقیقی “صاحب “ساتھی نہال احمد کی برسی پر شہریان کی آنکھیں نم!!!

Published

on

gum

تحریر : خیال اثر (مالیگاؤں)

ایک دو دن یا برس دو برس کی بات نہیں بلکہ یہ نصف صدی پر محیط وہ داستان پارینہ ہے جو تاریخ کے صفحات پر آب زر سے لکھے جانے کا قابل ہے اور ہر دور میں لکھی جاتی رہے گی.آج اسی داستان پارینہ کا ایک روشن و منور گوشہ نگاہوں میں گردش کررہا ہے. ماہ فروری کی 29 تاریخ کو مالیگاؤں شہر ہی نہیں بلکہ ریاستی اور ملکی سیاست میں پا مردی سے سرگرم عمل رہنے والے ساتھی نہال احمد مولوی محمد عثمان اپنے چاہنے والوں سے ہر رشتہ ,ہر تعلق اور ہر ناطہ توڑ کر سوئے عدم روانہ ہوئے تھے.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی اول تا آخر عوامی خدمات سے معمور تھی اور اس کے لئے انھوں نے بساط سیاست پر اپنے آپ کو سدا ہی متحرک و فعال رکھا تھا .اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ملک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سیاسی,ملی,تعلیمی,تہذیبی,اور مذہبی تشخص کے لئے اپنی تحریکی ذہنیت کا بے لوث مظاہرہ کرتے ہوئے میدان سیاست میں اپنے انمٹ نشان ثبت کئے ہیں.1949 میں نیا پورہ کی ْآزاد کلب کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے بلدیاتی انتخاب میں پہلی بار حصہ لیا لیکن انھیں پہلے ہی انتخاب میں ناکامی ہاتھ آئی چونکہ وہ دن ساتھی نہال احمد کے جوانی کے ایام تھے اس لئے انھوں نے خود کو مایوسی کے پھندوں میں قید ہونے نہ دیا.رفتہ رفتہ وہ عوامی خدمتگار کی حیثیت سے جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسے مشہور و معروف سوشلیٹ لیڈران سے متاثر ہوتے گئے.جب ان لیڈران نے ملک کے غریبوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سیکولر محاذ کی تشکیل دی تو ریاستی سطح پر ساتھی نہال احمد ریاستی نمائندے کی حیثیت سے فعال ہو گئے.1949 سے 1999 تک کی نصف صدی شہری سیاست اور نہال احمد ایک جان دو قالب رہے .1954 میں بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہو کر کونسلر منتخب ہوئے.1962 صدر بلدیہ کی مسند پر براجمان ہوئے .رفتہ رفتہ ساتھی نہال احمد کا سیاسی دائرہ کار بڑھتا گیا تو 1962.میں ہی اپنے اولین اسمبلی انتخاب میں حصہ لیا لیکن اس بار بھی انھیں شکست حاصل ہوئی.ناکامیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے 1967 میں آخر کار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا .1978 میں وزیر روزگار اور ٹیکنکل تعلیم کی وزارت سے سرفراز کئے گئے.1987.میں ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب کئے گئے.اپنےطویل ترین سیاسی تجربات اور حسن تدبر کی بدولت انھیں اسپیکر کا عہدہ جلیلہ بھی نصیب ہوا لیکن انھوں نے اس بار گراں کا متحمل نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئےخود ہی مستعفی ہو گئے تھے.1967.میں رکن.اسمبلی منتخب ہونے کے بعد 1978,1980,1985,1990,1995کل چھ میعاد کے لئے کثیر ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے.مالیگاؤں بلدیہ کو جب کارپوریشن میں تبدیل کیا گیا تو 2002 میں ساتھی نہال احمد کو ہی اولین میئر کا خطاب حاصل ہوا.
ساتھی نہال احمد قانون کی بندشوں سے ہمیشہ ہی جکڑے رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ہی قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے قانون کو توڑا ہے.سیکولر نظریات کےحامل ہونے کی وجہ سے وہ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھےاور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی کثیر آبادی والی بلدیہ میں سیکولر نظریات کے برادران وطن کی نمائندہ شخصیات وٹھل راؤ کاڑے,ڈاکٹر نول رائے شاہ اور دیپک بھونسلے جیسے افراد کو صدر بلدیہ جیسی کرسی تک پہنچایا تھا.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی عوامی فلاح وبہبود کی دست نگر رہی ہے.وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب ہندوستان میں ایمر جنیسی نافذ کی اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو پابند سلاسل کرنا شروع کیا تو نہال احمد بھی اس کالےقانون سے مبرا نہیں رہے.دیڑھ سال کا طویل عرصہ انھیں جیل کی سلاخوں کے پچھے قید و بند کی سزا جھیلنی پڑی تھی.ساتھی نہال احمد کی تحریکیں غریبوں کے حقوق کی عمل داری کا پیرہن لئے ہوئے ہوتی تھیں.راشن دکانوں سے غریب شہریوں کو بروقت راکیل اور اناج سستے داموں میں مہیا ہو ہمیشہ ہی اس سلسلے میں وہ متحرک رہا کرتے تھے.مالیگاؤں شہر میں جیسے جیسے پاور لوموں کی تعداد بڑھتی گئی مزدور پیشہ افراد کی آمد میں اضافہ ہوتا گیا .بے شمار افراد بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے اہل و عیال کو لئے جب مالیگاؤں میں وارد ہوئے تو انھیں سر چھپانے کے لئے سائبان مہیا کرنےکا کام ساتھی نہال احمد نے انجام دیا .بھلے ہی انھوں نے مالیگاؤں کی زمین پر کانکریٹ کا جنگل نہیں بویا ہو لیکن بے شمار جھونپڑ پٹیوں کی داغ بیل ضرور ڈالی ہےساتھ ہی ان سلم علاقوں میں انھوں نے پرائمری اسکولوں کی بنیاد گزاری بھی انجام دی ہے.جمہور ہائی اسکول ,ٹی ایم ہائی اسکول ,پیرا ڈائز ہائی اسکول,اے ٹی ٹی ہائی اسکول,جدید انجمن تعلیم ,انجمن معین الطلباء جیسے قدیم عصری اردو اداروں کو پروان چڑھانے کی مخلصانہ کوشش میں اپنی بے پایاں خدمات کا ثبوت دیا ہے.مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور نت نئے روزگار سے منسلک کرنے کے لئے جمہور آئی ٹی آئی اور فارمیسی کالج جیسے بے مثال اداروں کی بنیاد گزاری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے.مالیگاؤں میں موجود خواتین کی اولین عالمی دینی درسگاہ جامعات الصالحات سے عالمہ کے کورس سے فراغت حاصل کرنے والی طالبات کی ڈگری کو بی اے کے مساوی قرار دینے کے لئے حکومت وقت سے منظوری دلانے میں بھی ساتھی نہال احمد نے اپنی فعالیت کا عدیم المثال مظاہرہ پیش کیا تھا.اردو ,مراٹھی,فارسی,عربی,انگلش جیسی زبانوں پر عبور اور قانون کی تمام ترگتھیوں سے واقفیت نے انھیں انتہائی زیرک اور شاطر سیاستداں بنا دیا تھا.1938 سے 1943 تک اپنے والدین کے ہمراہ وہ حیدرآباد کے نظام آباد میں بھی سکونت پذیر رہے تھے.ان کے ابتدائی ایام پاور لوم پر مزدوری کرتے ہوئے گزرے تھے تو کچھ عرصہ کرانہ دکان سے بھی منسلک رہے تھے.روزگار کی تلاش میں مالیگاؤں آنے والے لاکھوں افراد کے لئے نئی نئی بستیاں بسانے کا عظیم کارنامہ ساتھی نہال احمد کا مرہون منت ہے.غریب شہریان کو سستے داموں میں ضروریات زندگی مہیا کروانے کے لئے وہ مسلسل جد و جہد کرتے رہے تھے.فرقہ پرستی کے کٹر دشمن ساتھی نہال احمد پر مخالفین نے ہمیشہ ہی بے شمار الزامات عائد کئے ہیں .ان کی ضعیفی ,بیماری اور ناتوانی کو ہدف و ملامت کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سرخروی حاصل کی.شہر کی گلیوں چوراہوں پر پا پیادہ سفر کرتے ہوئے جب انھیں کوئی تلخ جملہ کہتا تو وہ پلٹ کر دیکھتے اور کچھ کہہ بغیر آگے بڑھ جاتے تھے.سیاست کا اصول ہے کہ ہمیشہ ہی چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے .جب کسی سیاستداں یا لیڈر کو کسی عہدے سے نوازا جاتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے اس کے چاہنے والے امڈ پڑھتے ہیں لیکن یہ ریکارڈ صرف اور صرف ساتھی نہال احمد کے لئے مختص ہے کہ جب ان کی شوشلیٹ اور سیکولر حکومت ختم ہوئی اور وہ وزارت سے برطرف ہونے کے بعد اپنے آبائی شہر مالیگاؤں کی جانب رخت سفر باندھا تو شہر کے داخلی راستہ موتی باغ ناکہ پر ان کے چاہنے والوں کا اژدھام امڈ آیا تھا .مالیگاؤں شہر چونکہ ہمیشہ ہی ایک حساس شہر قرار دیا گیا ہے .فرقہ پرستی کی بیلیں یہاں ہمشیہ پروان چڑھا کرتی ہیں اور ایسے ہی نامساعد حالات میں ساتھی نہال احمد نے فرقہ پرستی کی ہر داغ بیل کا بحسن خوبی خاتمہ کیا ہے.ساتھی نہال احمد اپنے مخالفین کو ایسے ایسے خوب صورت طنزیہ القابات سے مخاطب کیا کرتے تھے کہ مخالفین بھی وہ طنزیہ القابات سن کر بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے.امن عامہ کے لئے جب بھی مالیگاؤں میں دفعہ 37/1 اور دفعہ 44 کا نفاذ کرتے ہوئے جلسہ جلوس اور عوامی ہجوم جمع کرنے پر بےجا پابندیاں عائد کیں گئیں تب تب ساتھی نہال احمد نے قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے اس طرح قانون توڑا کہ قانون کے رکھوالے بھی انگشت بدانداں رہ جاتے تھے. شہری علاقوں میں جلسوں پر پابندی عائد کی گئی تو ساتھی نہال احمد نے درے گاؤں کی پہاڑیوں پر اعلان کے مطابق جلسہ عام کا انعقاد کیا .کبھی اپنی آفس کی گیلری سے کرسی لٹکا کر چلتے پھرتے افراد سے مخاطب ہوئے.جلسوس پر پابندی عائد کی گئی تو فرضی بارات نکال کر جلوس نکالا.شہر کے مصروف ترین مشاورت چوک پر عام جلسے کی اجازت دستیاب نہ ہونے پر ٹیپو سلطان ٹاور کے اوپری منزلہ سے تقریر کرتے ہوئے اپنی اہمیت اور قول و فعل میں ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا. عبدالرحمان انتولے جب مہاراشٹر کے وزیر اعلی بنائے گئے تھے جو اندرا گاندھی کے منظور نظر رہے تھے .سیمنٹ اسکنڈل میں جب وہ ملوث ہوئے تو ساتھی نہال احمد نے اسمبلی اجلاس میں گھنٹوں بے تکان وہ احتجاجی تقریر کی تھی کہ اے آر انتولے کو وزارت اعلی سے مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا.2006.بم دھماکوں میں ملوث کئے گئے شہر کے اعلی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی کے لئے ان کے طویل ترین احتجاجی اقدامات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں.اگر مورخ وقت ساتھی نہال احمد کی خدمات سے رو گردانی کرتےہوئے انھیں فراموش کردےگا تو یہ مورخ کی بد نصیبی ہوگی نہ کہ ساتھی نہال احمد کی. نصف صدی تک متحرک اور فعال رہنے کے بعد جب ساتھی نہال احمد سوئے عدم روانہ ہوئے تو اپنے پچھے اعلی تعلیم یافتہ فرزند ارجمند بلند اقبال اور دختر شان ہند کے علاوہ اپنے قابل داماد مستقیم ڈگنیٹی کو سیاست کے سارے اسرار و رموز ازبر کرکے رخصت ہوئے تھے.آج بھلے ہی بلند اقبال دنیا میں موجود نہیں لیکن مستقیم ڈگینٹی اور شان ہند دونوں ہی اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ہر فرقہ پرستی ہر ناانصافی اور تمام کمیشن خوریوں کا سدباب کرنے کے لئے جواں مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں.سیاست کے اسرار و رموز سے واقفیت اور مراٹھی زبان پر عبوریت کے علاوہ میونسپل سیاست پر گہری نظر نے آج انھیں اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں کبھی پہلے ساتھی نہال احمد موجود تھےاور ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج نہیں تو کل یہ دونوں ساتھی نہال احمد کی وراثت کے حقیقی حقدار کہلائیں گے.آج ساتھی نہال احمد کو مرحوم ہوئے پانچ برس مکمل ہونے والے ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے مگر یہ طے ہے کہ آج بھلے ہی وہ جیتی جاگتی شکل میں ہمارے درمیان موجود نہ ہوں لیکن ان کے عملی اقدامات اور ان کے سیاسی اسرار و رموز اور کارکردگی آنے والے ہر دور میں زندہ و جاوید رہیں گے .ساتھی نہال احمد کے نظریات,اصول و ضوابط آنے والےہر دور میں نئےآنے والوں کےلئے نقوش تابندہ رہیں گے.

(جنرل (عام

کیرالہ ہائی کورٹ ڈیجیٹل بن گئی، اے آئی عدالتی عمل کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے۔

Published

on

highcourt

کوچی، کیرالہ ہائی کورٹ انصاف کو تیز تر اور زیادہ قابل رسائی بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت ( اے آئی) اور ڈیجیٹل میسجنگ ٹولز کو اپنا کر اپنے کمرہ عدالتوں کو جدید بنانے کی طرف بڑے قدم اٹھا رہی ہے۔ 1 نومبر سے، ریاست کی تمام عدالتیں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے عدالت. اے آئی، تقریر سے متن کی نقل کرنے کا آلہ استعمال کرنا شروع کر دیں گی۔ اب تک، گواہوں کے بیانات یا تو ججز لکھتے تھے یا عدالتی عملہ ٹائپ کرتے تھے۔ اے آئی پر مبنی ٹرانسکرپشن پر سوئچ کرکے، ہائی کورٹ کا مقصد تاخیر کو کم کرنا اور عمل میں زیادہ درستگی لانا ہے۔ اس نظام کو پہلے اس سال کے شروع میں ایرناکولم میں چار ٹرائل کورٹس میں آزمایا گیا تھا اور اسے مثبت فیڈ بیک ملا تھا۔ عدالت نے اب ریاست بھر میں اس کا استعمال لازمی قرار دے دیا ہے۔ رہنما خطوط کے مطابق، ایک بار جمع کرانے اور دستخط کرنے کے بعد، اسے ڈسٹرکٹ کورٹ کیس مینجمنٹ سسٹم (ڈی سی ایم ایس) پر اپ لوڈ کیا جائے گا، جس سے فریقین اور وکلاء اپنے ڈیش بورڈز کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ ہر ضلع میں نوڈل آفیسر رول آؤٹ کی نگرانی کریں گے اور ماہانہ رپورٹس پیش کریں گے۔ تکنیکی خرابیوں کی صورت میں، عدالتیں متبادل، ہائی کورٹ سے منظور شدہ ٹرانسکرپشن پلیٹ فارم استعمال کرنے کی منظوری حاصل کر سکتی ہیں جو ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔ تجاویز، تربیت کی ضروریات، اور مسائل کو براہ راست عدالت. اے آئی سپورٹ میں حل کیا جا سکتا ہے، جس کی کاپیاں ہائی کورٹ کے ای کورٹ سیل میں نشان زد ہیں۔

اے آئی کے ساتھ ساتھ، ہائی کورٹ 6 اکتوبر سے اپنے کیس مینجمنٹ سسٹم کی ایک اضافی خصوصیت کے طور پر واٹس ایپ نوٹیفیکیشنز بھی متعارف کروا رہی ہے۔ اس اقدام سے وکلاء، قانونی چارہ جوئی اور فریقین کو کیس کی فہرستوں، ای فائلنگ کے نقائص، کارروائی اور دیگر عدالتی مواصلات کے بارے میں حقیقی وقت میں اپ ڈیٹس حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ عدالت نے واضح کیا کہ واٹس ایپ پیغامات صرف اضافی اپ ڈیٹس کے طور پر کام کریں گے اور سرکاری نوٹس یا سمن کی جگہ نہیں لیں گے۔ تمام پیغامات تصدیق شدہ مرسلآئی ڈی “کیرالہ کی ہائی کورٹ” سے آئیں گے۔ اسٹیک ہولڈرز کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ دھوکہ دہی والے پیغامات کے خلاف چوکس رہیں اور ان کے سی ایم ایس پروفائلز میں ایک فعال واٹس ایپ نمبر کو یقینی بنائیں۔ دریں اثنا،اے آئی پر مبنی ٹرانسکرپشن اور واٹس ایپ پیغام رسانی کو اپنانا کیرالہ کی عدلیہ میں ایک اہم ڈیجیٹل تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے — انصاف کو زیادہ موثر، شفاف اور صارف دوست بنانے کے لیے کمرہ عدالت میں ٹیکنالوجی لانا۔

Continue Reading

(جنرل (عام

نوی ممبئی : انوائرمنٹ لائف فاؤنڈیشن نے وانگانی میں 250 کلو کچرے کو ہٹانے کے ساتھ 25 ویں آبشار کی صفائی کا نشان لگایا

Published

on

vegetable

نئی ممبئی : گاندھی جینتی، لال بہادر شاستری جینتی، اور وجے دشمی کے موقع پر، انوائرمنٹ لائف فاؤنڈیشن نے رائے گڑھ ضلع کے کرجت تعلقہ کے ونگانی کے قریب کھڈیچاپاڈا میں وانا لکشمی آبشار میں آبشار کی صفائی مہم کا اہتمام کیا۔ اس اقدام نے، جس میں چھ رضاکاروں اور دو مقامی دیہاتیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، اس کے نتیجے میں تقریباً 250 کلو گرام غیر بایوڈیگریڈیبل فضلہ اکٹھا کیا گیا، جس سے 11 بڑے کچرے کے تھیلے بھرے گئے۔ اس کوڑے میں شراب کی بوتلیں، پیک شدہ پانی کی بوتلیں، سافٹ ڈرنک کین، فوڈ ریپر، ڈسپوزایبل پلیٹس، بیبی ڈائپرز، جوتے اور پلاسٹک کی کٹلری شامل ہیں جو کہ ماحولیاتی طور پر حساس سہیادری رینج میں غیر ذمہ دارانہ سیاحت کے مستقل مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

یہ فاؤنڈیشن کی 2025 کی پہلی آبشار کی صفائی تھی اور 2016 کے بعد جب مہم شروع ہوئی تھی، اس کی 25ویں آبشار کی صفائی تھی۔ انوائرنمنٹ لائف فاؤنڈیشن کے بانی، دھرمیش بارائی نے کہا، “اس طرح کی قدرتی خوبصورتی کو لاپرواہی سے خراب ہوتے دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ شہری احساس کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی- اس کے لیے بیداری کی ضرورت ہوتی ہے،” دھرمیش بارائی نے کہا، جو بڑے پیمانے پر دی مین آف واٹر فال کے نام سے مشہور ہیں۔ “جب ہمیں ایسے قدیم مقامات پر شراب کی بوتلوں اور پلاسٹک کے کچرے کے ڈھیر ملتے ہیں تو اس سے شدید تشویش پیدا ہوتی ہے۔ اگر لوگ اسی طرح جاری رہے تو ہم اپنے ملک کو کیسے صاف ستھرا اور خوبصورت رکھیں گے؟”

بارائی نے بتایا کہ شرکاء میں ڈومبیولی کے ایک سائیکل سوار نتن مہاترے، کوپر کھیرانے کے کرنل یوراج نندیال، نیرل کے سنجے آئنکر جو 2016 سے اس مہم میں شامل ہو رہے ہیں اور روہن اور سوہن بھوسلے، جنہوں نے اپنی چھٹیاں فطرت کی خدمت کے لیے وقف کی، شامل تھے۔ یہ مہم بھی سوچھ بھارت ابھیان کا ایک حصہ تھی، جس میں رضاکار قدرتی مقامات پر آنے والوں کو اپنا فضلہ واپس لے جانے اور بنیادی شہری اصولوں کی پیروی کرنے پر زور دیتے ہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

بزرگ شہری اجتماعی عصمت دری کیس : بنگال کے کلتلی میں کشیدگی بڑھ گئی کیونکہ تیسرا ملزم اب بھی فرار ہے

Published

on

rape

کولکتہ، مغربی بنگال کے جنوبی 24 پرگنہ ضلع کے کلتلی میں جمعہ کو ایک بار پھر کشیدگی بڑھ رہی ہے کیونکہ ایک بزرگ شہری کی مبینہ اجتماعی عصمت دری کا تیسرا ملزم اب بھی فرار ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے میں گرفتار ہونے والے دو ملزمان کو منگل کی رات دیر گئے پیچھا کرکے پکڑا گیا۔ ملزم نے مبینہ طور پر 60 سالہ خاتون کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جب وہ منگل کی رات گھر میں اکیلی تھی۔ ارتکاب جرم کے بعد جب ملزمان نے فرار ہونے کی کوشش کی تو مقامی لوگوں نے ان میں سے دو کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ تاہم مقامی پولیس افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ تیسرے ملزم کا سراغ لگانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ملزم گھر کے ساتھ لگے پولٹری کوپ سے چکن چوری کرنے متاثرہ کے گھر پہنچا۔ آواز سن کر خاتون بیدار ہوئی اور چوروں کو للکارا تو تینوں ملزمان نے اسے گھسیٹ کر گھر کے ایک کمرے میں لے جا کر اجتماعی زیادتی کی۔ بعد میں گاؤں والوں نے ان کا پیچھا کیا اور تین میں سے دو ملزمان کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے۔

دیہاتیوں نے پکڑے گئے دونوں ملزمان کی پٹائی کرنے کے بعد اگلی صبح انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔ جمعرات کو انہیں جنوبی 24 پرگنہ ضلع کی سب ڈویژنل عدالت میں پیش کیا گیا۔ متاثرہ خاتون کی جانب سے مقامی پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وہ اپنے گھر پر اکیلی تھی کیونکہ اس کا شوہر آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں اسپتال میں تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تینوں بدمعاشوں کے پاس ایک دیسی ساختہ پستول اور ایک تیز دھار والا ہتھیار تھا، جس سے انہوں نے جرم کرتے وقت اسے دھمکایا۔ مغربی بنگال پچھلے سال سے ہیبت ناک عصمت دری اور قتل کے متعدد واقعات کی وجہ سے اکثر قومی سرخیوں میں رہا ہے۔ بہت سے معاملات میں، متاثرین نابالغ تھے۔ سب سے زیادہ چرچا معاملہ سرکاری آر جی کی ایک خاتون جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کا تھا۔ کولکتہ میں کار میڈیکل کالج اور ہسپتال پچھلے سال اگست میں ہسپتال کے احاطے میں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com