(جنرل (عام
مالیگاؤں کے حقیقی “صاحب “ساتھی نہال احمد کی برسی پر شہریان کی آنکھیں نم!!!

تحریر : خیال اثر (مالیگاؤں)
ایک دو دن یا برس دو برس کی بات نہیں بلکہ یہ نصف صدی پر محیط وہ داستان پارینہ ہے جو تاریخ کے صفحات پر آب زر سے لکھے جانے کا قابل ہے اور ہر دور میں لکھی جاتی رہے گی.آج اسی داستان پارینہ کا ایک روشن و منور گوشہ نگاہوں میں گردش کررہا ہے. ماہ فروری کی 29 تاریخ کو مالیگاؤں شہر ہی نہیں بلکہ ریاستی اور ملکی سیاست میں پا مردی سے سرگرم عمل رہنے والے ساتھی نہال احمد مولوی محمد عثمان اپنے چاہنے والوں سے ہر رشتہ ,ہر تعلق اور ہر ناطہ توڑ کر سوئے عدم روانہ ہوئے تھے.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی اول تا آخر عوامی خدمات سے معمور تھی اور اس کے لئے انھوں نے بساط سیاست پر اپنے آپ کو سدا ہی متحرک و فعال رکھا تھا .اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ملک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سیاسی,ملی,تعلیمی,تہذیبی,اور مذہبی تشخص کے لئے اپنی تحریکی ذہنیت کا بے لوث مظاہرہ کرتے ہوئے میدان سیاست میں اپنے انمٹ نشان ثبت کئے ہیں.1949 میں نیا پورہ کی ْآزاد کلب کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے بلدیاتی انتخاب میں پہلی بار حصہ لیا لیکن انھیں پہلے ہی انتخاب میں ناکامی ہاتھ آئی چونکہ وہ دن ساتھی نہال احمد کے جوانی کے ایام تھے اس لئے انھوں نے خود کو مایوسی کے پھندوں میں قید ہونے نہ دیا.رفتہ رفتہ وہ عوامی خدمتگار کی حیثیت سے جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسے مشہور و معروف سوشلیٹ لیڈران سے متاثر ہوتے گئے.جب ان لیڈران نے ملک کے غریبوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سیکولر محاذ کی تشکیل دی تو ریاستی سطح پر ساتھی نہال احمد ریاستی نمائندے کی حیثیت سے فعال ہو گئے.1949 سے 1999 تک کی نصف صدی شہری سیاست اور نہال احمد ایک جان دو قالب رہے .1954 میں بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہو کر کونسلر منتخب ہوئے.1962 صدر بلدیہ کی مسند پر براجمان ہوئے .رفتہ رفتہ ساتھی نہال احمد کا سیاسی دائرہ کار بڑھتا گیا تو 1962.میں ہی اپنے اولین اسمبلی انتخاب میں حصہ لیا لیکن اس بار بھی انھیں شکست حاصل ہوئی.ناکامیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے 1967 میں آخر کار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا .1978 میں وزیر روزگار اور ٹیکنکل تعلیم کی وزارت سے سرفراز کئے گئے.1987.میں ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب کئے گئے.اپنےطویل ترین سیاسی تجربات اور حسن تدبر کی بدولت انھیں اسپیکر کا عہدہ جلیلہ بھی نصیب ہوا لیکن انھوں نے اس بار گراں کا متحمل نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئےخود ہی مستعفی ہو گئے تھے.1967.میں رکن.اسمبلی منتخب ہونے کے بعد 1978,1980,1985,1990,1995کل چھ میعاد کے لئے کثیر ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے.مالیگاؤں بلدیہ کو جب کارپوریشن میں تبدیل کیا گیا تو 2002 میں ساتھی نہال احمد کو ہی اولین میئر کا خطاب حاصل ہوا.
ساتھی نہال احمد قانون کی بندشوں سے ہمیشہ ہی جکڑے رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ہی قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے قانون کو توڑا ہے.سیکولر نظریات کےحامل ہونے کی وجہ سے وہ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھےاور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی کثیر آبادی والی بلدیہ میں سیکولر نظریات کے برادران وطن کی نمائندہ شخصیات وٹھل راؤ کاڑے,ڈاکٹر نول رائے شاہ اور دیپک بھونسلے جیسے افراد کو صدر بلدیہ جیسی کرسی تک پہنچایا تھا.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی عوامی فلاح وبہبود کی دست نگر رہی ہے.وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب ہندوستان میں ایمر جنیسی نافذ کی اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو پابند سلاسل کرنا شروع کیا تو نہال احمد بھی اس کالےقانون سے مبرا نہیں رہے.دیڑھ سال کا طویل عرصہ انھیں جیل کی سلاخوں کے پچھے قید و بند کی سزا جھیلنی پڑی تھی.ساتھی نہال احمد کی تحریکیں غریبوں کے حقوق کی عمل داری کا پیرہن لئے ہوئے ہوتی تھیں.راشن دکانوں سے غریب شہریوں کو بروقت راکیل اور اناج سستے داموں میں مہیا ہو ہمیشہ ہی اس سلسلے میں وہ متحرک رہا کرتے تھے.مالیگاؤں شہر میں جیسے جیسے پاور لوموں کی تعداد بڑھتی گئی مزدور پیشہ افراد کی آمد میں اضافہ ہوتا گیا .بے شمار افراد بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے اہل و عیال کو لئے جب مالیگاؤں میں وارد ہوئے تو انھیں سر چھپانے کے لئے سائبان مہیا کرنےکا کام ساتھی نہال احمد نے انجام دیا .بھلے ہی انھوں نے مالیگاؤں کی زمین پر کانکریٹ کا جنگل نہیں بویا ہو لیکن بے شمار جھونپڑ پٹیوں کی داغ بیل ضرور ڈالی ہےساتھ ہی ان سلم علاقوں میں انھوں نے پرائمری اسکولوں کی بنیاد گزاری بھی انجام دی ہے.جمہور ہائی اسکول ,ٹی ایم ہائی اسکول ,پیرا ڈائز ہائی اسکول,اے ٹی ٹی ہائی اسکول,جدید انجمن تعلیم ,انجمن معین الطلباء جیسے قدیم عصری اردو اداروں کو پروان چڑھانے کی مخلصانہ کوشش میں اپنی بے پایاں خدمات کا ثبوت دیا ہے.مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور نت نئے روزگار سے منسلک کرنے کے لئے جمہور آئی ٹی آئی اور فارمیسی کالج جیسے بے مثال اداروں کی بنیاد گزاری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے.مالیگاؤں میں موجود خواتین کی اولین عالمی دینی درسگاہ جامعات الصالحات سے عالمہ کے کورس سے فراغت حاصل کرنے والی طالبات کی ڈگری کو بی اے کے مساوی قرار دینے کے لئے حکومت وقت سے منظوری دلانے میں بھی ساتھی نہال احمد نے اپنی فعالیت کا عدیم المثال مظاہرہ پیش کیا تھا.اردو ,مراٹھی,فارسی,عربی,انگلش جیسی زبانوں پر عبور اور قانون کی تمام ترگتھیوں سے واقفیت نے انھیں انتہائی زیرک اور شاطر سیاستداں بنا دیا تھا.1938 سے 1943 تک اپنے والدین کے ہمراہ وہ حیدرآباد کے نظام آباد میں بھی سکونت پذیر رہے تھے.ان کے ابتدائی ایام پاور لوم پر مزدوری کرتے ہوئے گزرے تھے تو کچھ عرصہ کرانہ دکان سے بھی منسلک رہے تھے.روزگار کی تلاش میں مالیگاؤں آنے والے لاکھوں افراد کے لئے نئی نئی بستیاں بسانے کا عظیم کارنامہ ساتھی نہال احمد کا مرہون منت ہے.غریب شہریان کو سستے داموں میں ضروریات زندگی مہیا کروانے کے لئے وہ مسلسل جد و جہد کرتے رہے تھے.فرقہ پرستی کے کٹر دشمن ساتھی نہال احمد پر مخالفین نے ہمیشہ ہی بے شمار الزامات عائد کئے ہیں .ان کی ضعیفی ,بیماری اور ناتوانی کو ہدف و ملامت کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سرخروی حاصل کی.شہر کی گلیوں چوراہوں پر پا پیادہ سفر کرتے ہوئے جب انھیں کوئی تلخ جملہ کہتا تو وہ پلٹ کر دیکھتے اور کچھ کہہ بغیر آگے بڑھ جاتے تھے.سیاست کا اصول ہے کہ ہمیشہ ہی چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے .جب کسی سیاستداں یا لیڈر کو کسی عہدے سے نوازا جاتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے اس کے چاہنے والے امڈ پڑھتے ہیں لیکن یہ ریکارڈ صرف اور صرف ساتھی نہال احمد کے لئے مختص ہے کہ جب ان کی شوشلیٹ اور سیکولر حکومت ختم ہوئی اور وہ وزارت سے برطرف ہونے کے بعد اپنے آبائی شہر مالیگاؤں کی جانب رخت سفر باندھا تو شہر کے داخلی راستہ موتی باغ ناکہ پر ان کے چاہنے والوں کا اژدھام امڈ آیا تھا .مالیگاؤں شہر چونکہ ہمیشہ ہی ایک حساس شہر قرار دیا گیا ہے .فرقہ پرستی کی بیلیں یہاں ہمشیہ پروان چڑھا کرتی ہیں اور ایسے ہی نامساعد حالات میں ساتھی نہال احمد نے فرقہ پرستی کی ہر داغ بیل کا بحسن خوبی خاتمہ کیا ہے.ساتھی نہال احمد اپنے مخالفین کو ایسے ایسے خوب صورت طنزیہ القابات سے مخاطب کیا کرتے تھے کہ مخالفین بھی وہ طنزیہ القابات سن کر بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے.امن عامہ کے لئے جب بھی مالیگاؤں میں دفعہ 37/1 اور دفعہ 44 کا نفاذ کرتے ہوئے جلسہ جلوس اور عوامی ہجوم جمع کرنے پر بےجا پابندیاں عائد کیں گئیں تب تب ساتھی نہال احمد نے قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے اس طرح قانون توڑا کہ قانون کے رکھوالے بھی انگشت بدانداں رہ جاتے تھے. شہری علاقوں میں جلسوں پر پابندی عائد کی گئی تو ساتھی نہال احمد نے درے گاؤں کی پہاڑیوں پر اعلان کے مطابق جلسہ عام کا انعقاد کیا .کبھی اپنی آفس کی گیلری سے کرسی لٹکا کر چلتے پھرتے افراد سے مخاطب ہوئے.جلسوس پر پابندی عائد کی گئی تو فرضی بارات نکال کر جلوس نکالا.شہر کے مصروف ترین مشاورت چوک پر عام جلسے کی اجازت دستیاب نہ ہونے پر ٹیپو سلطان ٹاور کے اوپری منزلہ سے تقریر کرتے ہوئے اپنی اہمیت اور قول و فعل میں ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا. عبدالرحمان انتولے جب مہاراشٹر کے وزیر اعلی بنائے گئے تھے جو اندرا گاندھی کے منظور نظر رہے تھے .سیمنٹ اسکنڈل میں جب وہ ملوث ہوئے تو ساتھی نہال احمد نے اسمبلی اجلاس میں گھنٹوں بے تکان وہ احتجاجی تقریر کی تھی کہ اے آر انتولے کو وزارت اعلی سے مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا.2006.بم دھماکوں میں ملوث کئے گئے شہر کے اعلی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی کے لئے ان کے طویل ترین احتجاجی اقدامات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں.اگر مورخ وقت ساتھی نہال احمد کی خدمات سے رو گردانی کرتےہوئے انھیں فراموش کردےگا تو یہ مورخ کی بد نصیبی ہوگی نہ کہ ساتھی نہال احمد کی. نصف صدی تک متحرک اور فعال رہنے کے بعد جب ساتھی نہال احمد سوئے عدم روانہ ہوئے تو اپنے پچھے اعلی تعلیم یافتہ فرزند ارجمند بلند اقبال اور دختر شان ہند کے علاوہ اپنے قابل داماد مستقیم ڈگنیٹی کو سیاست کے سارے اسرار و رموز ازبر کرکے رخصت ہوئے تھے.آج بھلے ہی بلند اقبال دنیا میں موجود نہیں لیکن مستقیم ڈگینٹی اور شان ہند دونوں ہی اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ہر فرقہ پرستی ہر ناانصافی اور تمام کمیشن خوریوں کا سدباب کرنے کے لئے جواں مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں.سیاست کے اسرار و رموز سے واقفیت اور مراٹھی زبان پر عبوریت کے علاوہ میونسپل سیاست پر گہری نظر نے آج انھیں اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں کبھی پہلے ساتھی نہال احمد موجود تھےاور ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج نہیں تو کل یہ دونوں ساتھی نہال احمد کی وراثت کے حقیقی حقدار کہلائیں گے.آج ساتھی نہال احمد کو مرحوم ہوئے پانچ برس مکمل ہونے والے ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے مگر یہ طے ہے کہ آج بھلے ہی وہ جیتی جاگتی شکل میں ہمارے درمیان موجود نہ ہوں لیکن ان کے عملی اقدامات اور ان کے سیاسی اسرار و رموز اور کارکردگی آنے والے ہر دور میں زندہ و جاوید رہیں گے .ساتھی نہال احمد کے نظریات,اصول و ضوابط آنے والےہر دور میں نئےآنے والوں کےلئے نقوش تابندہ رہیں گے.
سیاست
مہاراشٹر مراٹھی ہندی تنازع قانون ہاتھ میں لینے والوں پر سخت کارروائی ہوگی وزیر اعلی دیویندر فڑنویس

ممبئی مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے ہندی مراٹھی لسانیات تنازع پر یہ واضح کیا ہے کہ لسانی تعصب اور تشدد ناقابل برداشت ہے, اگر کوئی مراٹھی زبان کے نام پر تشدد برپا کرتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے, تو اس پر سخت کارروائی ہوگی, کیونکہ نظم و نسق برقرار رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا روڈ ہندی مراٹھی تشدد کے معاملہ میں پولس نے کیس درج کر کے کارروائی کی ہے۔ مراٹھی اور ہندی زبان کے معاملہ میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی سفارش پر طلبا کے لئے جو بہتر ہوگا وہ سرکار نافذ العمل کرے گی کسی کے دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندی زبان کی سفارش خود مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں کی گئی تھی, لیکن اب یہی لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام سب جانتے ہیں, انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ۵۱ فیصد مراٹھی ووٹ اس الیکشن میں حاصل ہوئے ہیں۔ زبان کے نام پر تشدد اور بھید بھاؤ ناقابل برداشت ہے, مراٹھی ہمارے لئے باعث افتخار ہے لیکن ہم ہندی کی مخالفت نہیں کرتے, اگر دیگر ریاست میں مراٹھی بیوپاری کو کہا گیا کہ وہاں کی زبان بولو تو کیا ہوگا۔ آسام میں کہا گیا کہ آسامی بولو تو کیا ہوگا۔ انہوں نے قانون شکنی کرنے والوں پر سخت کارروائی ہوگی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
ترکی کے لمین میگزین میں گستاخانہ خاکے کی اشاعت کے خلاف رضا اکیڈمی کا احتجاج

ممبئی : ترکی کے معروف “لمین میگزین” میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے منسوب گستاخانہ خاکہ شائع کیے جانے پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج بعد نماز جمعہ ممبئی کے سیفی جوبلی اسٹریٹ واقع ہانڈی والی مسجد میں رضا اکیڈمی کی جانب سے ایک پُرامن احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس احتجاج کی قیادت رضا اکیڈمی کے سربراہ اسیر مفتی اعظم الحاج محمد سعید نوری اور مولانا اعجاز احمد کشمیری نے کی۔ مظاہرے میں سینکڑوں عاشقانِ رسول ﷺ نے شرکت کی اور گستاخانہ خاکے کے خلاف اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
اس موقع پر الحاج محمد سعید نوری نے کہا : “نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی پوری امت مسلمہ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم ترک حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس گستاخ میگزین کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے عناصر کو سخت سزا دے۔”
مقررین نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایسے گستاخانہ اقدامات کے خلاف ٹھوس عالمی قانون سازی کریں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرأت نہ کر سکے۔ احتجاج کے دوران شرکاء نے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر”لبیک یا رسول اللہ ﷺ جیسے نعرے بھی لگائے، لیکن پورا احتجاج پُرامن ماحول میں اختتام پذیر ہوا۔
سیاست
مہاراشٹر میں مراٹھی کے نام پر تشدد ناقابل برداشت، وزیر اعلی دیویندر فڑنویس سے کارروائی کا ابوعاصم اعظمی کا مطالبہ

مہاراشٹر سماجواری پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی نے مراٹھی بنام ہندی تنازع اور تشدد کے خلاف ریاستی وزیر اعلی دیویندرفڑنویس سے مطالبہ کیا ہے کہ مراٹھی زبان کے نام پر تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اتربھارتی یہاں ممبئی میں کام کاج کی غرض سے آتے ہیں, ان کے بغیر ممبئی کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ لیکن لسانیات کے نام پر ان پر تشدد عام ہو گیا۔ ایم این ایس کے ہندی زبان اور اتربھارتیوں کے تشدد پر اعظمی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پر اس پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مراٹھی زبان کے نام پر شمالی ہند کے باشندوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سیاست کی جا رہی ہے۔ ممبئی میں روزی کمانے کے لیے آنے والے غریبوں کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے, یہ غنڈہ گردی صرف غریبوں پر ہو رہی ہے، کسی بڑے کارپوریٹ پر تشدد کیوں نہیں برپا کیا جارہا ہے, غریبوں پر ہی یہ تشدد کیوں؟ یہ سوال اعظمی نے کیا ہے کہ میں اپنے قومی صدر محترم سے اکھلیش یادو جی سے اپیل کرتا ہوں کہ نفرت کی اس سیاست کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز حق بلند کر کے اتربھارتیوں کو انصاف دلائے اور سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کی مبینہ پالیسی پر حکومت سے سوال کریں۔
میں وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ان غنڈوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اعظمی نے مراٹھی کے نام پر تشدد کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
-
سیاست9 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا