Connect with us
Monday,22-December-2025

خصوصی

12 سال کے بعد دھولیہ فساد سن 2008 کے تمام ملزمین کے لیے راحت، تمام ملزمین ہوے الزامات سے بری

Published

on

All the accused in the riots

دھولیہ : (نامہ نگار)
واضح ہو کہ بد قسمتی سے 5 اکتوبر 2008، شہر دھولیہ میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا۔ اس فساد میں 10 مسلمان شہید ہوے، اور کثیر تعداد میں زخمی ہوئے تھے۔ ساتھ ہی کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا۔ روزِ اول سے ہی جمعیۃ علماء دھولیہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے نیز شہداء کے ساتھ انصاف دلانے اور زخمیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تگ و دو کرتی رہی۔

فساد پھوٹ پڑنے کے بعد پولس کی جانب سے کامبنگ آپریشن کا سلسلہ ہوا اور کثیر تعداد میں بے قصور مسلمانوں پر فساد بھڑکانے کا الزام عائد کر دیا گیا۔

ملزمین کی قانونی چارہ جوئی کے لیے پھر جمعیۃ علماء ہی میدان میں اتری، لوگوں کو ایف۔ آئی۔ آر درج کرنے پر آمادہ کیا، اور اس مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف فرقہ پرست تنظیمیں اس محنت میں لگی رہیں کہ شہر کے نامور وکلاء کو مسلمانوں کے کیس کی پیروی کرنے سے روکیں۔ بڑی دقتیں پیش آئیں۔ عجیب و غریب حالات کا سامنا ہوا۔ جیسے جیسے دن گزرتا رہا نئی نئی مصیبتیں مقابلے کے لیے تیار تھیں۔

ایسے حالات میں اکابرینِ جمعیۃ بالخصوص حضرت مولانا ابوالعاص نوراللہ مرقدہ اور حضرت حافظ شمس الحق (چھوٹے حاجی) نوراللہ مرقدہ کی بصیرت و ذکاوت اور ان کے مشورے سے قانونی امداد کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی، اور اس کیس کو لڑنے کا بیڑا اٹھایا گیا۔ قانونی چارہ جوئی کے لیے جواں سال وکیل ایڈوکیٹ اشفاق شیخ اور ان کی ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی۔ وقت گزرتا رہا، حالات کے نشیب و فراز آتے رہے، لیکن حالات کے ان تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے ہوے نہایت استقامت کے ساتھ مقدمے کی کارروائیاں انجام دی گئیں۔

نتیجتاً اللہ کے فضل اور کرم، بزرگوں، نوجوانوں اور عورتوں کی آہ سحر گاہی، نیز اراکینِ جمعیۃ بالخصوص قانونی امداد کمیٹی کی محنتوں سے آج وہ مبارک دن آہی گیا کہ تمام ملزمین کو سیشن کورٹ کے محترم جج ‘سید صاحب’ نے بفضل اللہ الزامات سے بری کرنے کا حکم سنا دیا۔
واضح ہو کہ کل 59 ملزمین میں 42 افراد کے مقدمے جمعیۃ علماء (مولانا ارشد مدنی) کی زیر نگرانی عدالت میں زیرِ سماعت تھے، اور الحمدللہ تمام ملزمین کو الزامات سے بری کردیا گیا ہے۔ تقریباً 13 سال سے ذہنی کرب میں مبتلا ملزمین نے راحت کی سانس لی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس سلسلے میں ایک مختصر استقبالیہ تقریب کا انعقاد دفتر جمعیۃ علماء، مدرسہ سراج العلوم، مولوی گنج میں کیا گیا۔ تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ قانونی امداد کمیٹی کے فعال رکن اس مقدمے میں روزِ اول سے نہایت متحرک، الحاج غلام مصطفیٰ پپو ملا نے اجمالی طور پر شرکاء کے سامنے روئیداد بیان کی۔ نائب صدر جمعیۃ علماء دھولیہ مفتی شفیق قاسمی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختصر، پر مغز خطاب فرمایا اور تمام ملزمین سے اللہ کی جانب رجوع ہونے اور اپنی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی تلقین کی۔ الحاج شوال امین، نائب صدر جمعیۃ علماء دھولیہ نے اپنی تقریر میں جمعیۃ علماء اور اکابرین کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوے جمعیۃ کے کاموں کی سراہنا کی اور تمام شرکاء سے جمعیۃ کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی درخواست کی۔
اخیر میں صاحبِ استقبال ایڈوکیٹ اشفاق شیخ کا جمعیۃ کی جانب سے، باعزت بری ہونے والے تمام ملزمین کی جانب سے اور خدام مرکز مسجد، جمیل وائرمین گروپ کی جانب سے یکے بعد دیگرے علماء کرام و معززین کے ہاتھوں استقبال کیا۔

سن 2008 فساد نے شہر کے علاوہ اطراف شہر اور دیہاتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ شہر کے قریب ونی نامی دیہات میں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر تبلیغی جماعت کے ساتھیوں پر حملہ کیا، بستی کے مسلمانوں کو تکالیف پہنچائی، اسی طرح شیروڈ نامی دیہات میں ملک کی سرحد پر حفاظتی دستے میں تعینات نوجوان عارف پٹیل کے مکان کو آگ لگادی۔ دیہات کے مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کے لئے شہر میں پناہ لی۔ الحمدللہ جمعیۃ علماء دھولیہ ان مقدمات کو بھی عدالت میں دیکھ رہی ہے، ان شاء اللہ بہت جلد اس کا فیصلہ بھی ہمارے حق میں آنے کی امید ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس پورے مقدمے میں اراکینِ جمعیۃ نے جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری الحاج گلزار اعظمی صاحب (ممبئی) سے مشورہ لیتی رہی اور موصوف نے قدم قدم پر اس سلسلے میں خوب رہنمائی فرمائی، جس کی برکت سے اللہ نے اس معاملے کو حل فرما دیا۔ اللہ پاک آں محترم کو اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی خدمات انجام دینے والے تمام مخلصین و محبین کو اپنی شایان شایان دونوں جہان میں بہترین بدلہ عطا فرماے۔ اور اپنی رضا عطا فرماے۔ آمین
جمعیۃ علماء (ارشد مدنی) دھولیہ کی قانونی امداد کمیٹی کے ذمے داران عبدالسلام ماسٹر، غلام مصطفٰی پپو ملا، محمود ربانی، مشتاق صوفی وغیر ہم نیز جمعیۃ کے تمام اراکین کی انتھک کوشش و محنت سے اللہ پاک نے یہ کامیابی عطا فرمائی۔

اس تقریب کی صدارت حضرت مولانا محمد عابد قاسمی دامت برکاتہم نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض اپنے مخصوص انداز میں محمد یوسف پاپا سر نے انجام دیے۔

تقریب میں حافظ حفظ الرحمن (صدر جمعیۃ علماء، ضلع دھولیہ)، مولانا ضیاء الرحمن (صدر جمعیۃ علماء، شہر دھولیہ)، مولانا محمد عابد، مفتی شفیق قاسمی، مولانا شعیب حنیف، مولانا غزالی، مولانا محمد ثوبان، مولانا اصغر جمیل، پپو ملا، الحاج مشتاق صوفی، الحاج شوال امین، شیخ پرویز، عبد المحیط میکانک، عارف عرش، محمد رضوان، عبدالرحمن، محمد ثوبان، سلیم بھیا، مسعود احمد، خادمین جامع مسجد مرکز، مولوی گنج، باعزت رہا ہونے، خوش نصیب افراد اور دیگر احباب موجود تھے۔

(جنرل (عام

سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

Published

on

Sonam-Wangchuck

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، "کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔

وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

Published

on

kashmir

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔

عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

Published

on

Waqf-Meeting

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ​​ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔

اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟

جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com