(جنرل (عام
مالیگاؤں میں سنی جمیعت الاسلام کے پرچم تلے مشاورتی اجلاس کا انعقاد

(خیال اثر)
مالیگاؤں یوں تو بے شمار متعبر و محترم شخصیتات کا گہوارہ رہا ہے. مذہبی, تعلیمی, سماجی, فلاحی اور سیاسی بنیادوں پر اپنی خدمات سے اس شہر کو روشناس کرانے والے افراد نے اپنی بیش بہا خدمات سے اس شہر کو ایک ایسے شہر میں تبدیل کردیا ہے جس کی نظیر بہ مشکل ہی کہیں اور مل پائے گی. مذہبی سطح پر مولانا عبدالحمید نعمانی علیہ رحمہ نے مدرسہ معہد ملت کی بنیاد گزاری کرتے ہوئے شہر میں مذہبی اقدار کے سرخیل کہلائے. اسی طرح مدرسہ بیت العلوم اور مدرسہ اسلامیہ کے بنیاد گزاروں نے بھی بے مثل خدمات سے مذہبی اقدار کا پرچم بلند کیا تھا. خواتین میں دین و مذہب کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لئے مرحوم مولانا محمد عثمان نے خواتین کے لئے مدرسہ جامعات الصاحات قائم کرتے ہوتے دنیا بھر کی دختران ملت کی مذہبی آبیاری میں نقش اولین کی حیشت سے نمایاں رہے. مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی کے فرزند مولانا آفتاب نے مدرسہ عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی. آج مدرسہ عثمانیہ کی مالیگاؤں شہر میں تین سو سے زائد شاخیں مذہبی و قرانی تعلیمات کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہیں.
اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دارلعلوم حنفیہ سنیہ سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے ایک غریب فرد نے اپنی صلاحتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر کے دور افتادہ اور ویران علاقے میں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت فیض القران کی بنیاد گزاری کی. انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اس دارالعلوم کی بنیاد گزاری تو کردی گئی لیکن نامسائد حالات کے عالم میں اسے کامیابی سے جاری رکھنا پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر نکالنے نکالنے کے مترادف تھا. یہ کارنامہ انجام دیا فرہاد وقت بن کر صوفی ملت مرحوم صوفی غلام رسول قادری شطاری علیہ رحمہ نے جنہیں کورونا جیسی خطرناک وبائی بیماری کے ایام میں بروقت طبی امداد مہیا نہ ہونے کی وجہ سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے اپنے خالی دامن میں دبوچ لیا تھا. صوفی ملت کیے ناگہانی وصال نے شہر مالیگاؤں سے ایک روشن و منور آفتاب چھین لیا. مرحوم کے وصال سے ہر ذی حساس کے دل میں یہ شعر بازگشت کی صورت گونج اٹھا کہ
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
ہر شعبہ حیات میں مرحوم صوفی ملت علیہ رحمہ کی خدمات اظہر من الشمس رہی ہیں. مرحوم کی ہر شعبہ حیات میں ناقابل فراموش اور نمایاں خدمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے “محبان صوفی ملت “اور “سنی جمیعت الاسلام “نے طے کیا ہے کہ مرحوم کی خدمات کو ایک کتابی شکل میں شائع کرتے ہوئے ان کے کارہائے نمایاں کو روش تاریخ کا زرین باب بنا دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے کارناموں سے فیض حاصل کرتے جائیں کیونکہ مشہور ہے “اپنے اسلاف کو یاد رکھنا ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا زندہ قوموں کی زندہ علامت ہے”.اسی روایت پر عمل کرنے کے لئے گزشتہ کل صوفی ملت کے مکان پر ہی دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے موجودہ صدر الحاج محمد یوسف الیاس کی صدارت میں ایک مشاورتی مجلس کا انعقاد کیا گیا. اس مجلس میں پیرزادہ و صاحب زادہ صوفی ملت کے فرزند ارجمند اور سجادہ نشین صوفی نورالعین صابری نے اغراض و مقاصد پیش کرتے ہوئے محبان صوفی ملت سے اس مسئلے پر ان کی آراء طلب کیں. کل جماعتی تنظیم کے صوفی سعید احمد سعدی, سنی جمعیت الاسلام کے ترجمان اطہر حیسن اشرفی, سنی تعزیہ کمیٹی کے جاوید انور, حافظ اسماعیل, صوفی جمیل ٹیلر, خطیب ملت صوفی انیس احمد قادری ,شمس الضحی اسرائیل کے علاوہ شوشل میڈیا سے منسلک منصور اکبر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صوفی ملت کی زندگی کے نشیب و فراز کا احاطہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ ان کی روشن و منور کارناموں پر مبنی کتاب کو عملی شکل دینے کے لئے حاضرین سے پر خلوص تعاون کا اعادہ کیا. ساتھ ہی خود بھی اس میں شامل رہنے کے لئے ہر ممکن کوشش کا یقین دلایا. اس سلسلے میں صحافتی حلقوں میں اپنی خدمات انجام دینے والے صحافی برادری سے تعاون طلب کرنے کے لئے ایک مشاورتی مجلس کا انعقاد بھی کل رات کیا گیا. صوفی ملت کی ستیزہ کار زندگی کے حالات اور نشیب و فراز کتابی شکل میں دنیا کے سامنے آنے کے لئے بے قرار و تاب ہے ہو سکتا ہے یہ کتاب صوفی ملت کے اولین عرس کے موقع پر دنیا کے سامنے رونمائی کا شرف حاصل کرلے. مذکورہ میٹنگ میں صوفی ملت کی زندگی پر تحریری مضامین طلب کرنے کے لئے تحریری دعوت نامے کا اجراء صدر مجلس الحاج یوسف الیاس کے ہاتھوں عمل میں آیا. اس موقع پر سیٹھ محمد اکبر اشرفی, فاروق فردوسی, خیال اثر, اشفاق صدیقی, مرغوب عالم, حافظ عرفان رضا, قاری نور محمد کے علاوہ دارالعلوم فیض القران کے دیگر ذمہ داران و مدرسین اول تا آخر موجود تھے.
(جنرل (عام
وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔
اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔
اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔
قومی
کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔
تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔
پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:
- ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
- وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
- وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
- متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :
- ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
- مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
- غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
- انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
- شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔
فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |
نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا