(جنرل (عام
مالیگاؤں کے حقیقی “صاحب “ساتھی نہال احمد کی برسی پر شہریان کی آنکھیں نم!!!

تحریر : خیال اثر (مالیگاؤں)
ایک دو دن یا برس دو برس کی بات نہیں بلکہ یہ نصف صدی پر محیط وہ داستان پارینہ ہے جو تاریخ کے صفحات پر آب زر سے لکھے جانے کا قابل ہے اور ہر دور میں لکھی جاتی رہے گی.آج اسی داستان پارینہ کا ایک روشن و منور گوشہ نگاہوں میں گردش کررہا ہے. ماہ فروری کی 29 تاریخ کو مالیگاؤں شہر ہی نہیں بلکہ ریاستی اور ملکی سیاست میں پا مردی سے سرگرم عمل رہنے والے ساتھی نہال احمد مولوی محمد عثمان اپنے چاہنے والوں سے ہر رشتہ ,ہر تعلق اور ہر ناطہ توڑ کر سوئے عدم روانہ ہوئے تھے.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی اول تا آخر عوامی خدمات سے معمور تھی اور اس کے لئے انھوں نے بساط سیاست پر اپنے آپ کو سدا ہی متحرک و فعال رکھا تھا .اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ملک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سیاسی,ملی,تعلیمی,تہذیبی,اور مذہبی تشخص کے لئے اپنی تحریکی ذہنیت کا بے لوث مظاہرہ کرتے ہوئے میدان سیاست میں اپنے انمٹ نشان ثبت کئے ہیں.1949 میں نیا پورہ کی ْآزاد کلب کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے بلدیاتی انتخاب میں پہلی بار حصہ لیا لیکن انھیں پہلے ہی انتخاب میں ناکامی ہاتھ آئی چونکہ وہ دن ساتھی نہال احمد کے جوانی کے ایام تھے اس لئے انھوں نے خود کو مایوسی کے پھندوں میں قید ہونے نہ دیا.رفتہ رفتہ وہ عوامی خدمتگار کی حیثیت سے جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسے مشہور و معروف سوشلیٹ لیڈران سے متاثر ہوتے گئے.جب ان لیڈران نے ملک کے غریبوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سیکولر محاذ کی تشکیل دی تو ریاستی سطح پر ساتھی نہال احمد ریاستی نمائندے کی حیثیت سے فعال ہو گئے.1949 سے 1999 تک کی نصف صدی شہری سیاست اور نہال احمد ایک جان دو قالب رہے .1954 میں بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہو کر کونسلر منتخب ہوئے.1962 صدر بلدیہ کی مسند پر براجمان ہوئے .رفتہ رفتہ ساتھی نہال احمد کا سیاسی دائرہ کار بڑھتا گیا تو 1962.میں ہی اپنے اولین اسمبلی انتخاب میں حصہ لیا لیکن اس بار بھی انھیں شکست حاصل ہوئی.ناکامیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے 1967 میں آخر کار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا .1978 میں وزیر روزگار اور ٹیکنکل تعلیم کی وزارت سے سرفراز کئے گئے.1987.میں ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب کئے گئے.اپنےطویل ترین سیاسی تجربات اور حسن تدبر کی بدولت انھیں اسپیکر کا عہدہ جلیلہ بھی نصیب ہوا لیکن انھوں نے اس بار گراں کا متحمل نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئےخود ہی مستعفی ہو گئے تھے.1967.میں رکن.اسمبلی منتخب ہونے کے بعد 1978,1980,1985,1990,1995کل چھ میعاد کے لئے کثیر ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے.مالیگاؤں بلدیہ کو جب کارپوریشن میں تبدیل کیا گیا تو 2002 میں ساتھی نہال احمد کو ہی اولین میئر کا خطاب حاصل ہوا.
ساتھی نہال احمد قانون کی بندشوں سے ہمیشہ ہی جکڑے رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ہی قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے قانون کو توڑا ہے.سیکولر نظریات کےحامل ہونے کی وجہ سے وہ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھےاور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی کثیر آبادی والی بلدیہ میں سیکولر نظریات کے برادران وطن کی نمائندہ شخصیات وٹھل راؤ کاڑے,ڈاکٹر نول رائے شاہ اور دیپک بھونسلے جیسے افراد کو صدر بلدیہ جیسی کرسی تک پہنچایا تھا.ساتھی نہال احمد کی ساری زندگی عوامی فلاح وبہبود کی دست نگر رہی ہے.وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب ہندوستان میں ایمر جنیسی نافذ کی اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو پابند سلاسل کرنا شروع کیا تو نہال احمد بھی اس کالےقانون سے مبرا نہیں رہے.دیڑھ سال کا طویل عرصہ انھیں جیل کی سلاخوں کے پچھے قید و بند کی سزا جھیلنی پڑی تھی.ساتھی نہال احمد کی تحریکیں غریبوں کے حقوق کی عمل داری کا پیرہن لئے ہوئے ہوتی تھیں.راشن دکانوں سے غریب شہریوں کو بروقت راکیل اور اناج سستے داموں میں مہیا ہو ہمیشہ ہی اس سلسلے میں وہ متحرک رہا کرتے تھے.مالیگاؤں شہر میں جیسے جیسے پاور لوموں کی تعداد بڑھتی گئی مزدور پیشہ افراد کی آمد میں اضافہ ہوتا گیا .بے شمار افراد بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے اہل و عیال کو لئے جب مالیگاؤں میں وارد ہوئے تو انھیں سر چھپانے کے لئے سائبان مہیا کرنےکا کام ساتھی نہال احمد نے انجام دیا .بھلے ہی انھوں نے مالیگاؤں کی زمین پر کانکریٹ کا جنگل نہیں بویا ہو لیکن بے شمار جھونپڑ پٹیوں کی داغ بیل ضرور ڈالی ہےساتھ ہی ان سلم علاقوں میں انھوں نے پرائمری اسکولوں کی بنیاد گزاری بھی انجام دی ہے.جمہور ہائی اسکول ,ٹی ایم ہائی اسکول ,پیرا ڈائز ہائی اسکول,اے ٹی ٹی ہائی اسکول,جدید انجمن تعلیم ,انجمن معین الطلباء جیسے قدیم عصری اردو اداروں کو پروان چڑھانے کی مخلصانہ کوشش میں اپنی بے پایاں خدمات کا ثبوت دیا ہے.مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور نت نئے روزگار سے منسلک کرنے کے لئے جمہور آئی ٹی آئی اور فارمیسی کالج جیسے بے مثال اداروں کی بنیاد گزاری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے.مالیگاؤں میں موجود خواتین کی اولین عالمی دینی درسگاہ جامعات الصالحات سے عالمہ کے کورس سے فراغت حاصل کرنے والی طالبات کی ڈگری کو بی اے کے مساوی قرار دینے کے لئے حکومت وقت سے منظوری دلانے میں بھی ساتھی نہال احمد نے اپنی فعالیت کا عدیم المثال مظاہرہ پیش کیا تھا.اردو ,مراٹھی,فارسی,عربی,انگلش جیسی زبانوں پر عبور اور قانون کی تمام ترگتھیوں سے واقفیت نے انھیں انتہائی زیرک اور شاطر سیاستداں بنا دیا تھا.1938 سے 1943 تک اپنے والدین کے ہمراہ وہ حیدرآباد کے نظام آباد میں بھی سکونت پذیر رہے تھے.ان کے ابتدائی ایام پاور لوم پر مزدوری کرتے ہوئے گزرے تھے تو کچھ عرصہ کرانہ دکان سے بھی منسلک رہے تھے.روزگار کی تلاش میں مالیگاؤں آنے والے لاکھوں افراد کے لئے نئی نئی بستیاں بسانے کا عظیم کارنامہ ساتھی نہال احمد کا مرہون منت ہے.غریب شہریان کو سستے داموں میں ضروریات زندگی مہیا کروانے کے لئے وہ مسلسل جد و جہد کرتے رہے تھے.فرقہ پرستی کے کٹر دشمن ساتھی نہال احمد پر مخالفین نے ہمیشہ ہی بے شمار الزامات عائد کئے ہیں .ان کی ضعیفی ,بیماری اور ناتوانی کو ہدف و ملامت کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سرخروی حاصل کی.شہر کی گلیوں چوراہوں پر پا پیادہ سفر کرتے ہوئے جب انھیں کوئی تلخ جملہ کہتا تو وہ پلٹ کر دیکھتے اور کچھ کہہ بغیر آگے بڑھ جاتے تھے.سیاست کا اصول ہے کہ ہمیشہ ہی چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے .جب کسی سیاستداں یا لیڈر کو کسی عہدے سے نوازا جاتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے اس کے چاہنے والے امڈ پڑھتے ہیں لیکن یہ ریکارڈ صرف اور صرف ساتھی نہال احمد کے لئے مختص ہے کہ جب ان کی شوشلیٹ اور سیکولر حکومت ختم ہوئی اور وہ وزارت سے برطرف ہونے کے بعد اپنے آبائی شہر مالیگاؤں کی جانب رخت سفر باندھا تو شہر کے داخلی راستہ موتی باغ ناکہ پر ان کے چاہنے والوں کا اژدھام امڈ آیا تھا .مالیگاؤں شہر چونکہ ہمیشہ ہی ایک حساس شہر قرار دیا گیا ہے .فرقہ پرستی کی بیلیں یہاں ہمشیہ پروان چڑھا کرتی ہیں اور ایسے ہی نامساعد حالات میں ساتھی نہال احمد نے فرقہ پرستی کی ہر داغ بیل کا بحسن خوبی خاتمہ کیا ہے.ساتھی نہال احمد اپنے مخالفین کو ایسے ایسے خوب صورت طنزیہ القابات سے مخاطب کیا کرتے تھے کہ مخالفین بھی وہ طنزیہ القابات سن کر بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے.امن عامہ کے لئے جب بھی مالیگاؤں میں دفعہ 37/1 اور دفعہ 44 کا نفاذ کرتے ہوئے جلسہ جلوس اور عوامی ہجوم جمع کرنے پر بےجا پابندیاں عائد کیں گئیں تب تب ساتھی نہال احمد نے قانون کے دائروں میں رہتے ہوئے اس طرح قانون توڑا کہ قانون کے رکھوالے بھی انگشت بدانداں رہ جاتے تھے. شہری علاقوں میں جلسوں پر پابندی عائد کی گئی تو ساتھی نہال احمد نے درے گاؤں کی پہاڑیوں پر اعلان کے مطابق جلسہ عام کا انعقاد کیا .کبھی اپنی آفس کی گیلری سے کرسی لٹکا کر چلتے پھرتے افراد سے مخاطب ہوئے.جلسوس پر پابندی عائد کی گئی تو فرضی بارات نکال کر جلوس نکالا.شہر کے مصروف ترین مشاورت چوک پر عام جلسے کی اجازت دستیاب نہ ہونے پر ٹیپو سلطان ٹاور کے اوپری منزلہ سے تقریر کرتے ہوئے اپنی اہمیت اور قول و فعل میں ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا. عبدالرحمان انتولے جب مہاراشٹر کے وزیر اعلی بنائے گئے تھے جو اندرا گاندھی کے منظور نظر رہے تھے .سیمنٹ اسکنڈل میں جب وہ ملوث ہوئے تو ساتھی نہال احمد نے اسمبلی اجلاس میں گھنٹوں بے تکان وہ احتجاجی تقریر کی تھی کہ اے آر انتولے کو وزارت اعلی سے مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا.2006.بم دھماکوں میں ملوث کئے گئے شہر کے اعلی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی کے لئے ان کے طویل ترین احتجاجی اقدامات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں.اگر مورخ وقت ساتھی نہال احمد کی خدمات سے رو گردانی کرتےہوئے انھیں فراموش کردےگا تو یہ مورخ کی بد نصیبی ہوگی نہ کہ ساتھی نہال احمد کی. نصف صدی تک متحرک اور فعال رہنے کے بعد جب ساتھی نہال احمد سوئے عدم روانہ ہوئے تو اپنے پچھے اعلی تعلیم یافتہ فرزند ارجمند بلند اقبال اور دختر شان ہند کے علاوہ اپنے قابل داماد مستقیم ڈگنیٹی کو سیاست کے سارے اسرار و رموز ازبر کرکے رخصت ہوئے تھے.آج بھلے ہی بلند اقبال دنیا میں موجود نہیں لیکن مستقیم ڈگینٹی اور شان ہند دونوں ہی اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ہر فرقہ پرستی ہر ناانصافی اور تمام کمیشن خوریوں کا سدباب کرنے کے لئے جواں مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں.سیاست کے اسرار و رموز سے واقفیت اور مراٹھی زبان پر عبوریت کے علاوہ میونسپل سیاست پر گہری نظر نے آج انھیں اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں کبھی پہلے ساتھی نہال احمد موجود تھےاور ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج نہیں تو کل یہ دونوں ساتھی نہال احمد کی وراثت کے حقیقی حقدار کہلائیں گے.آج ساتھی نہال احمد کو مرحوم ہوئے پانچ برس مکمل ہونے والے ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے مگر یہ طے ہے کہ آج بھلے ہی وہ جیتی جاگتی شکل میں ہمارے درمیان موجود نہ ہوں لیکن ان کے عملی اقدامات اور ان کے سیاسی اسرار و رموز اور کارکردگی آنے والے ہر دور میں زندہ و جاوید رہیں گے .ساتھی نہال احمد کے نظریات,اصول و ضوابط آنے والےہر دور میں نئےآنے والوں کےلئے نقوش تابندہ رہیں گے.
(Monsoon) مانسون
ممبئی موسم باراں کے لئے بی ایم سی تیار، بی ایم سی ایجنسیوں اور محکمہ کو الرٹ رہنے کے احکامات جاری

ممبئی ہندوستان کے محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ مانسون جون کی پہلے ہفتے میں ممبئی آمد ہوگی۔ میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں مانسون سے پہلے کے کاموں کی تیاریوں کے مطابق، تمام ایجنسیوں کو ضرورت کے مطابق جائزہ اجلاس، مشترکہ دورے اور فوری سروے کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، ممبئی مضافاتی ضلع ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اور ایڈیشنل میونسپل کمشنر (مغربی مضافات)، ڈاکٹروپن شرما نے ہدایت کی ہے کہ نظام کو تیار رکھا جائے تاکہ ممبئی کے شہریوں کو مانسون کے موسم میں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ اپیل بھی کی کہ تمام ایجنسیاں اپنے تجربات اور اچھی ہم آہنگی کے ساتھ اجتماعی طور پر اپنا حصہ ڈالیں تاکہ آئندہ مانسون کے موسم میں شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سال مانسون کے پیش نظر، ایڈیشنل میونسپل کمشنر ڈاکٹر وپن شرما نے آج (20 مئی 2025) کو میونسپل کارپوریشن ہیڈ کوارٹر میں ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی میٹنگ منعقد کی۔ میٹنگ میں ایڈیشنل میونسپل کمشنر (مشرقی مضافات) ڈاکٹر امیت سینی، ایڈیشنل میونسپل کمشنر (پروجیکٹڈ)نے شرکت کی۔ میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی کمشنر (جنرل ایڈمنسٹریشن) ابھیجیت بنگر۔ کشور گاندھی کے ساتھ ڈپٹی کمشنرس، اسسٹنٹ کمشنرس، مختلف محکموں کے اکاونٹ ہیڈس اور ساتوں حلقوں کے متعلقہ افسران میٹنگ میں موجود تھے۔
اس میٹنگ کے دوران،ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ایمرجنسی مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرمہیش نارویکر نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق جاری سرگرمیوں کے بارے میں کمپیوٹر پریزنٹیشن کے ذریعے معلومات فراہم کیں۔ میٹنگ میں میونسپل کارپوریشن کے مختلف محکموں کے سربراہان اور مرکزی اور مغربی ریلوے، ہندوستانی محکمہ موسمیات، ہندوستانی کوسٹ گارڈ، بحریہ، نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس (این ڈی آر ایف)، ممبئی ٹریفک پولیس، مہاراشٹر ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (مہا ڈا)، سلم ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی (ایس آر اے)، ممبئی کے محکمہ پبلک ورکس ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈبلیو ڈی) سمیت مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اتھارٹی (ایم ایم آر ڈی اے)، ممبئی بجلی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ انڈرٹیکنگ (بی ای ایس ٹی)، ٹاٹا پاور، اڈانی انرجی وغیرہ۔
میونسپل حدود میں کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے ‘نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیم’ کا ایک دستہ شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی مضافاتی علاقوں میں بھی تعینات کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر شرما نے یہ بھی ہدایت کی کہ ٹریفک پولیس اس ٹیم کے لیے ایک خصوصی لین (گرین کوریڈور) تیار کرے تاکہ کسی آفت کی صورت میں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ سکے۔ شرما نے متعلقہ ایجنسیوں کو ضروری احکامات بھی جاری کئے ۔ شہر، مشرقی اور مغربی مضافاتی علاقوں میں تعینات یونٹوں کے ساتھ، یہ یونٹ کسی واقعے کی جگہ پر فوری امدادی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ برہان ممبئی میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں این ڈی آر ایف کی ٹیمیں تیار رہیں تاکہ جائے وقوعہ پر شہریوں کو راحت فراہم کرنا ممکن ہو سکے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مانسون کے دوران پانی جمع ہونے کے واقعات کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر رین واٹر ڈرینج ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر پمپس اور ڈیزل جنریٹر سیٹس کی تنصیب کا منصوبہ بنائیں۔ اس کے علاوہ، اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مین ہول کے ڈھکن کھلے نہ رہ جائیں۔ ڈاکٹر نے یہ بھی ہدایت کی کہ ریلوے اور بارش کے پانی کی نکاسی کا محکمہ مشترکہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ ریلوے کے علاقے میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے مضافاتی مقامی ٹریفک میں خلل نہ پڑے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ذریعے درختوں کی شاخوں کو تراشنے کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ، ممبئی میونسپل کارپوریشن کے علاقے میں مختلف حکام کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں اشتہاری بورڈ موجود ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ساختی استحکام کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ بل بورڈز اچھی حالت میں ہیں۔ ڈاکٹر شرما نے ہدایت کی ہے کہ جن بورڈز کا سٹرکچرل سٹیبلٹی سرٹیفکیٹ حاصل نہیں ہے ان کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں۔ اسی طرح انہوں نے متعلقہ کمپنیوں کو موبائل ٹاورز کے سلسلے میں اسٹرکچرل سٹیبلٹی سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ متعلقہ ادارے مشترکہ مع…
(جنرل (عام
سعودی عرب میں یرغمال بنائے گئے 400 ہندوستانی، وقت پر کھانا اور تنخواہ نہیں مل رہی، اب پی ایم مودی سے وطن واپسی کی اپیل

گوپال گنج : گوپال گنج سمیت بہار کے کئی اضلاع سے بڑی تعداد میں مزدور روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک جاتے ہیں، لیکن قسمت ہر بار ساتھ نہیں دیتی۔ اس بار ایک سنگین معاملہ سامنے آیا ہے، جہاں سعودی عرب کی ایک کمپنی میں کام کرنے گئے سینکڑوں ہندوستانی ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کمپنی کی طرف سے نہ تو کھانا اور نہ ہی تنخواہ بروقت فراہم کی جا رہی ہے۔ انہیں اپنے ملک واپس جانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔ کمپنی نے اس کے ضروری کاغذات جمع کرائے ہیں۔ اب کارکنوں نے پی ایم مودی اور سی ایم نتیش کمار سے اپنے وطن واپسی میں مدد کی اپیل کی ہے۔
گوپال گنج کے درجنوں کارکن پچھلے سال سعودی کی سینڈن انٹرنیشنل کمپنی لمیٹڈ میں کام کرنے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ 8-9 ماہ سے انہیں نہ تو وقت پر کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی تنخواہ۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ کمپنی نے ان پر اپنے ملک واپس جانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور وہ یرغمال جیسی صورتحال میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان مزدوروں میں راجکشور کمار، بلیندر سنگھ، دلیپ کمار چوہان، شیلیش کمار چوہان، اوم پرکاش سنگھ، روی کمار، راجیو رنجن، ہریندر چوہان اور سیوان کے امیش ساہ شامل ہیں۔ یہ معاملہ صرف گوپال گنج تک محدود نہیں ہے۔ اسی کمپنی میں بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال کے دیگر اضلاع کے تقریباً 400 کارکنان بھی یرغمال ہیں۔ سبھی نے ویڈیو پیغامات بھیجے ہیں جس میں ہندوستانی حکومت سے مدد کی درخواست کی گئی ہے۔
کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار ہندوستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا، میل اور فون کالز کے ذریعے اپنا مسئلہ بیان کیا، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس مدد نہیں ملی۔ اس سے ان میں مایوسی اور خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ اس معاملے کی اطلاع ملنے پر گوپال گنج کے ایم پی اور جے ڈی یو کے قومی خزانچی ڈاکٹر آلوک کمار سمن نے مداخلت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کارکنوں کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کیا اور مکمل معلومات دی، جو انہوں نے وزارت خارجہ کو بھیج دی ہے۔ ڈاکٹر سمن نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے کارکنوں سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ وزارت خارجہ ان کی شناخت اور حالت کی تصدیق کر کے ضروری کارروائی کر سکے اور انہیں بحفاظت بھارت واپس لایا جا سکے۔
(جنرل (عام
وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری، جب تک کوئی مضبوط کیس نہیں بنتا، عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں۔

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے بدھ کو وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کی۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے۔ عدالتیں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتیں جب تک کوئی مضبوط کیس نہ بنایا جائے۔ اس دوران سینئر وکیل کپل سبل نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس دوران سی جے آئی گوائی نے کہا کہ یہ معاملہ آئین سے متعلق ہے۔ عدالتیں عام طور پر مداخلت نہیں کرتیں، اس لیے جب تک آپ بہت مضبوط کیس نہیں بناتے، عدالت مداخلت نہیں کرتی۔ سی جے آئی نے مزید کہا کہ اورنگ آباد میں وقف املاک کو لے کر کئی تنازعات ہیں۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وہ تین امور پر عبوری ہدایات دینے کے لیے دلائل سنے گی، بشمول وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا عدالتوں کا اختیار، صارف کے ذریعہ وقف یا عمل کے ذریعہ وقف۔ بنچ نے 20 مئی کو واضح کیا تھا کہ وہ سابقہ 1995 وقف ایکٹ کی دفعات پر روک لگانے کی درخواست پر غور نہیں کرے گی۔ وقف کیس پر سینئر وکیل کپل سبل اور دیگر نے وقف ایکٹ کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف حصوں میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت سے کہا کہ وہ سماعت کو عبوری حکم منظور کرنے کے لیے نشان زد تین مسائل تک محدود رکھے۔ سنگھوی نے کہا کہ جے پی سی کی رپورٹ دیکھیں۔ 28 میں سے 5 ریاستوں کا سروے کیا گیا۔ 9.3 فیصد رقبہ کا سروے کیا گیا اور پھر آپ کہتے ہیں کہ کوئی رجسٹرڈ وقف نہیں تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عرض کیا کہ متولی کے لیے سوائے رجسٹریشن کے اور کوئی نتیجہ نہیں ہے۔
مرکز نے منگل کو سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر عبوری حکم پاس کرنے کے لیے تین شناخت شدہ مسائل کی سماعت کو محدود کرے۔ ان مسائل میں عدالت کی طرف سے وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو منقطع کرنے کا حق، صارف کے ذریعہ وقف یا ڈیڈ کے ذریعہ وقف کا حق بھی شامل ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ پر زور دیا کہ وہ خود کو پہلے کی بنچ کی طرف سے طے شدہ کارروائی تک محدود رکھیں۔ لاء آفیسر نے کہا کہ عدالت نے تین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ ہم نے ان تینوں مسائل پر اپنا جواب داخل کیا تھا۔
تاہم، درخواست گزاروں کے تحریری دلائل اب کئی دیگر مسائل تک پھیل گئے ہیں۔ میں نے ان تینوں مسائل کے جواب میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اسے صرف تین مسائل تک محدود رکھا جائے۔ سینئر وکیل کپل سبل اور ابھیشیک سنگھوی، وقف ایکٹ 2025 کی دفعات کو چیلنج کرنے والے افراد کی طرف سے پیش ہوئے، اس دلائل کی مخالفت کی کہ سماعت حصوں میں نہیں ہو سکتی۔ ایک مسئلہ ‘عدالت کے ذریعہ وقف، صارف کے ذریعہ وقف یا عمل کے ذریعہ وقف’ کے طور پر اعلان کردہ جائیدادوں کو ڈینوٹائی کرنے کا اختیار ہے۔ عرضی گزاروں کے ذریعہ اٹھائے گئے دوسرا مسئلہ ریاستی وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل سے متعلق ہے، جہاں وہ استدلال کرتے ہیں کہ ان میں صرف مسلمانوں کو ہی خدمت کرنی چاہئے سوائے سابقہ ممبران کے۔ تیسرا مسئلہ اس شق سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب کلکٹر یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کرے گا کہ جائیداد سرکاری اراضی ہے یا نہیں تو وقف املاک کو وقف نہیں سمجھا جائے گا۔
17 اپریل کو، مرکز نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا تھا کہ وہ نہ تو وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی کرے گا، بشمول ‘یوزر کے ذریعہ وقف’، اور نہ ہی 5 مئی تک سنٹرل وقف کونسل اور بورڈز میں کوئی تقرری کرے گی۔ مرکز نے عدالت عظمیٰ کی اس تجویز کی مخالفت کی تھی کہ وہ وقف املاک کو وقف کے ذریعے استعمال کرنے کی اجازت دینے سمیت وقف کی جائیدادوں کی منسوخی کے خلاف عبوری حکم نامہ پاس کرے۔ سنٹرل وقف کونسلز اور بورڈز میں غیر مسلموں کی شمولیت۔ 25 اپریل کو، اقلیتی امور کی مرکزی وزارت نے ترمیم شدہ وقف ایکٹ، 2025 کا دفاع کرتے ہوئے 1,332 صفحات پر مشتمل ایک ابتدائی حلف نامہ داخل کیا تھا۔ اس نے “آئینیت کے تصور کے ساتھ پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون” پر عدالت کی طرف سے کسی بھی “بلینکٹ اسٹے” کی مخالفت کی تھی۔ مرکز نے گزشتہ ماہ وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو مطلع کیا تھا، جس کے بعد اسے 5 اپریل کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری ملی تھی۔ یہ بل لوک سبھا میں 288 ارکان کے ووٹوں سے پاس ہوا، جب کہ 232 ارکان پارلیمنٹ اس کے خلاف تھے۔ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے اس کے حق میں اور 95 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
-
سیاست7 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا