سیاست
دین کی خاموش خدمت انجام دینے والا ایک چھوٹا سا مدرسہ ایسا بھی جہاں بڑی عمر کی خواتین بھی ختم قرآن کی سعادت حاصل کر رہی ہیں

مالیگاؤں (نامہ نگار) مالیگاؤں کے عائشہ نگر نامی علاقے میں واقع سونیا گاندھی کالونی کے ایک فلیٹ میں خواتین اور بچیوں کے لیے ایک مدرسہ گزشتہ پندرہ برسوں سے جاری ہے، جو ہزار کھولی کے مدرسہ اہل سنت عربیہ نورالعلوم کی ایک شاخ ہے ، شیخ غلام رسول آپریٹر، ڈاکٹر رئیس احمد رضوی اور عقیل بھائی رکشہ والے کی زیر نگرانی یہ مدرسہ ایسی خاموش خدمات انجام دے رہا ہے جو بہت متاثر کن ہے ، رضا اکیڈمی اور مدرسہ تہذیب البنات کی سرپرستی بھی اس مدرسے کو حاصل ہے .رضا اکیڈمی کے شکیل احمد سبحانی نے بتایا کہ گزشتہ دنوں نور باغ جانا ہوا، سونیا گاندھی کالونی کا وہ مدرسہ یاد آیا اور ہم لوگ وہاں پہنچ گئے ، جہاں مدرسہ اہل سنت تہذیب البنات سے شعبہ ء عالمیت میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سے صبیحہ کوثر خدمت دین انجام دے رہی ہیں ، اپنی معلمہ صاحبہ کو دیکھ کر آس پاس کی بچیاں بھی مدرسے میں جمع ہوگئیں ، میں نے ان بچیوں سے پوچھا کہ تمہارے اس مدرسے سے اس بستی میں دین کی کیسی خدمت ہورہی ہے؟ سب نے بتایا کہ آس پاس کی چند گلیوں کے لیے یہ مدرسہ دینی تعلیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے ، صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہمارے محلے کی جو بچیاں شادی ہوجانے کے سبب اس محلے کو چھوڑ چکی ہیں ان سبھوں نے بھی اسی مدرسہ میں قرآن شریف پڑھنے کی سعادت پائی اور دین کی تعلیم حاصل کی ، اسی دوران ان بچیوں نے بتایا کہ ہمارے اس مدرسے کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں جہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں علم دین حاصل کرتی ہیں ، وہیں بڑی عمر کی خواتین بھی مدرسہ پڑھتی ہی. میں نے دریافت کیا کہ کیا مطلب ؟ کیا وہ روزانہ مدرسہ آتی ہیں یا ہفتہ واری درس میں شریک ہوتی ہیں ، بچیوں نے بتایا کہ روزانہ مدرسہ بھی آتی ہیں اور درس میں بھی شریک ہوتی ہیں میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن وہ مدرسہ آتی ہیں تو کچھ پڑھتی بھی ہیں یا یوں ہی کچھ وعظ و نصیحت سن کر چلی جاتی ہیں. اس سوال پر مدرسے کی معلمہ صبیحہ کوثر نے بتایا کہ اس ماہ کے آخری عشرے میں جب ہمارے اس مدرسے کا سالانہ جلسہ ہوگا تو کمسن بچیوں کے ساتھ ساتھ پانچ بڑی عمر کی خواتین کو بھی ناظرہ ختم قرآن کی سند دی جائے گی …….
میں نے دریافت کیا کہ بڑی عمر کا مطلب کیا؟
تیس چالیس برس ….. ؟
تو صبیحہ آپا نے بتایا کہ دو خواتین پچاس برس کے قریب اور دو خواتین پچپن برس کے آس پاس ہیں ، جنہوں نے اسی مدرسے میں حروف کی پہچان کی اور اب ختم قرآن کر رہی ہیں، یہ سن کر عجیب سی خوشی محسوس ہوئی اور میں نے فوراً کہا کہ کیا انہیں ابھی مدرسے میں بلایا جا سکتا ہے؟ تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ کس طرح وہ قرآن پڑھتی ہیں اور جان سکیں کہ اس عمر میں انہیں کس طرح علم دین حاصل کرنے کی ترغیب ملی ؟ صبیحہ آپا نے کہا کیوں نہیں ؟ بچے ابھی انہیں بلا لائیں گے ، پانچ دس منٹوں میں ہی اپنی زندگی کی چار پانچ دہائیوں کو عبور کر لینے والی اس مدرسے کی وہ تمام طالبات اپنے مادر علمی میں موجود تھیں ، جو اپنی مثال آپ ہیں.
ان کے آتے ہی میں نے جو چند سوالات کیے وہ یہ تھے
سوال : کیا آپ سب بھی اس مدرسہ میں پڑھتی ہیں
جواب : جی ہاں، ہم اسی مدرسے میں پڑھتی ہیں
سوال : اپنا نام اور عمر بتائیں
جواب : ذکیہ شیخ خلیل ( 32 سال ) نسیم بانو سراج علی( 42 سال) رئیسہ شیخ سلیم ( 47 سال) رحیمہ بی شیخ سلیم ( 52 سال) قمرالنساء عبدالسلام ( 55 سال)
سوال : کیا آپ سب ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں ؟
جواب : بالکل پڑھ سکتی ہیں .
سوال : قرآن پاک کا کون سا پارہ آپ سب بہ آسانی پڑھ سکتی ہیں ؟جواب : آپ جو بھی پارہ کہو، ہم سنانے کی کوشش کریں گے.
انتہائی پر اعتماد انداز میں جس طرح ان پانچوں خواتین نے جواب دیا ، اس کے بعد اس بات کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی تھی کہ ان سے قرآن کریم سنا جائے ، لیکن چونکہ اس عنوان پر ایک مضمون قلمبند کرنے کا ذہن میں نے بنا لیا تھا اس لیے بہتر یہی تھا کہ قرآن کی کچھ آیتیں ان سے سن لی جائیں تاکہ جو کچھ لکھا جائے وہ مشاہدات پر مبنی ہو. اس لیے ہم نے یکے بعد دیگرے ان پانچوں خواتین سے قرآن کریم کو متعدد مقامات سے سنا اور دیکھا کہ واقعی جو کچھ انہوں نے کہا تھا اسی کے مطابق وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کر رہی تھیں .
جب قرآن پاک پڑھنے کا سلسلہ ختم ہوا تو پھر کچھ سوالات ہم نے ان سے کیے . پہلا سوال تھا .کتنے دنوں سے آپ سب مدرسہ آرہی ہیں .کسی نے کہا دیڑھ سال کسی نے دو سال، جب پوچھا گیا کہ اتنی عمر گزر جانے کے بعد مدرسہ آنے کا خیال کیسے پیدا ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ اس مدرسے کی معلمہ صبیحہ کوثر نے ہماری ذہن سازی کی، ہمیں ہمت و حوصلہ دیا اور بتایا کہ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، صبیحہ کوثر کی ان باتوں نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے اور دین کو سمجھنے کا ایسا موقع دیا جسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے .انہوں نے بتایا کہ ہم سے قبل بھی محلے کی کچھ بزرگ خواتین نے صبیحہ کوثر کے پاس اس مدرسے میں قرآن کریم پڑھا تھا ، وہ خواتین ہمارے لیے رہنما ثابت ہوئیں .
سوال : اب جب کہ آپ سب قرآن کریم پڑھنا سیکھ چکی ہیں تو کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟
جواب : ہم سب بہت خوش ہیں کہ ہم نے قرآن کریم پڑھ کر اپنے لیے توشہ ء آخرت جمع کر لیا ہے ،
سوال : یہ تو ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے لیکن دین کی بڑی خدمت یہاں سے ہو رہی ہے ، اس کے متعلق کیا کچھ کہنا چاہیں گے آپ.
جواب : ہم چاہیں گے کہ یہ مدرسہ بڑا ہوجائے اور دین کی مزید خدمت یہاں سے ہو ، لیکن ہماری نظر میں یہ چھوٹا سا مدرسہ ہی بہت بڑا ہے اس لیے کہ یہیں سے ہم لوگوں نے قرآن کریم کو پڑھنا سیکھا ، اگر یہ مدرسہ اور یہ معلمہ نہیں ہوتی تو شاید ہم قرآن کریم پڑھنے کی اس نعمت سے محروم ہو جاتے جو ہمیں حاصل ہوئی.
سوال : اپنے محلے کی ان ماؤں بہنوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی ، جو کسی وجہ سے علم دین حاصل کرنے سے محروم رہے .
جواب : ہم ان سے یہی کہیں گے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ ڈر، خوف اور جھجھک کو چھوڑ کر ہماری طرح وہ بھی اس یقین کے ساتھ مدرسہ آئیں کہ ہمیں بھی قرآن کریم پڑھنا ہے اور علم دین حاصل کرنا ہے . یہ تھے ایسی ماؤں بہنوں کے احساسات اور جذبات جو اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گزار لینے کے بعد علم دین حاصل کرنے کی جانب متوجہ ہوئی تھیں اور اس راہ میں کامیابی کے بعد وہ اس قدر خوش ہیں کہ اپنے مدرسے کے لیے اور دین کی خدمت کا بہترین جذبہ رکھنے والی اپنی فرض شناس معلمہ کا شکر ادا کرنے کے لیے جن کے پاس الفاظ نہیں ہیں. یقینی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں اس مدرسہ کے سرپرست اور ذمہ داران جنہوں نے زندگی کی بہت ساری مصروفیات کے باوجود اس مدرسے کو فراموش نہیں کیا ، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے وطفیل اس کی بہترین جزا انہیں عطا فرمائے . آمین. اس مدرسے میں بیٹھے بیٹھے جو بات میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ کیا ہی بہتر ہوتا اگر مدرسے سے متصل کوئی اور فلیٹ بھی حاصل کرکے اس مدرسے کو وسیع کردیا جاتا .میں سمجھتا ہوں مدرسہ عربیہ نورالعلوم کے منتظمین و ذمہ داران اگر غلام رسول بھائی آپریٹر، ڈاکٹر رئیس احمد رضوی اور عابد بھائی رکشہ والے کی سرپرستی میں اس جانب متوجہ ہوتے ہیں تو یہ کام کچھ مشکل نہیں ، برسہا برس سے جو مدرسہ دین کی خاموش خدمت انجام دے رہا ہے ، اس کی ترقی کے لیے قوم کے مخیر حضرات بھی ان شاء اللہ تعالٰی اپنا دست تعاؤن دراز کریں گے .
ممبئی پریس خصوصی خبر
کریٹ سومیا کو دھمکی… یوسف انصاری کو 48 گھنٹے میں گرفتار کرنے کا مطالبہ، لاؤڈ اسپیکر اور مسجدوں پر کارروائی کا الٹی میٹم

ممبئی : ممبئی گوونڈی شیواجی نگر میں غیر قانونی مسجد اور لاؤڈ اسپیکر کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے زہر افشانی کی ہے۔ انہوں نے گوونڈی شیواجی نگر کی حدود میں غیر قانونی مساجد پر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر پر کارروائی کی پولس کو ہدایت دی ہے, اور کہا ہے کہ اگر 48 گھنٹوں میں غیر قانونی مسجد اور لاؤڈ اسپیکر کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو بی جے پی احتجاج کرے گی, اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کریٹ سومیا کو دھمکی دینے والے یوسف انصاری پر بھی کارروائی اور گرفتاری کا مطالبہ بی جے پی نے کیا ہے اور کہا ہے کہ یوسف انصاری کو پولس فوری طور پر گرفتار کرے۔ غیر قانونی مسجد کو کریٹ سومیا نے لینڈ جہاد قرار دیا اور کہا ہے کہ یوسف انصاری جیسے غنڈہ سے وہ ڈرنے والے نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنے احتجاج میں مزید شدت پیدا کریں گے۔ کریٹ سومیا نے گوونڈی شیواجی نگر میں غیر قانونی بنگلہ دیشی پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے کریٹ سومیا کی اس شرانگیزی سے علاقہ میں ہلچل ہے۔ پولس نے کریٹ سومیا کے دورہ کے پس منظر پر سخت حفاظتی انتظامات کئے تھے۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
ممبئی وقف ایکٹ پر احتجاج پڑا مہنگا آصف شیخ کو نوٹس… پولس پر ہراسائی اور پریشان کرنے کا الزام، پولس کمشنر سے کارروائی کا مطالبہ

ممبئی : ممبئی میں 18 اپریل کو وقف ایکٹ کے خلاف احتجاج کی اجازت طلب کرنا آصف شیخ اور ان کے کنبہ پر مہنگا پڑا اور پولیس نے اب آصف شیخ اور ان کی اہلیہ کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے, جس کے خلاف اب آصف شیخ نے اس کی شکایت بھی کی ہے, اور پولیس کمشنر سے التجا کی ہے کہ وہ ان پولیس والوں کیخلاف کارروائی کرے, جو ان کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوئے تھے۔ تلک نگر پولیس اسٹیشن کی ہراسائی اور غنڈہ گردی کے خلاف آصف شیخ اور ان کی اہلیہ جاسمین شیخ نے ممبئی پولیس کمشنر سے درخواست کی ہے کہ وہ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے, جنہوں نے ان کے شوہر کے غیر موجودگی میں وقف ایکٹ کے تحت احتجاج نہ کرنے کیلئے ان کے گھر میں نوٹس چسپاں کرنے کے ساتھ انہیں ہراساں کیا ہے۔ جاسمین شیخ نے کہا ہے کہ میرے شوہر گھر پر موجود نہیں تھے ان کی عدم موجودگی میں پولیس نے ہمارے گھر پر نہ صرف یہ کہ ہمیں ہراساں کیا بلکہ اب پولیس ہمارے محلہ والوں کو بھی ہراساں اور پریشان کر رہی ہے کہ وہ ہمارا ساتھ نہ دے۔
آصف شیخ نے ممبئی پولیس کمشنر سے التجا کی ہے کہ اس متعلق کارروائی کی جائے بصورت دیگر وہ خودسوزی پر مجبور ہوں گے اور ممبئی پولیس کمشنر کے ہیڈکوارٹر پر خودسوزی کریں گے۔ آصف شیخ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ مقامی پولیس اسٹیشن نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ کمشنر کے حکم پر ہی ان کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری اہلیہ کو ہراساں کر نے کے ساتھ پولیس اہلکاروں نے بے پردہ ہماری گھر کی خواتین کا ویڈیو بھی لیا ہے، جو غیر قانونی ہے لیکن پولیس اہلکار اپنی ہٹ دھرمی پر ہے اور کہتے ہیں کہ انہیں ویڈیو لینے کی اجازت ہے۔ اس سلسلے میں جب ڈی سی پی نوناتھ ڈھولے سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ پر احتجاج کی اجازت نہیں دی گئی اور آصف شیخ اور دیگر کو نوٹس دیدی گئی ہے، لیکن علاقہ کے دیگر لوگوں کو ہراساں کئے جانے کے الزام کی ڈی سی پی نے تردید کی ہے۔
سیاست
ایم این ایس مراٹھی زبان کے معاملے پر دوبارہ سرگرم ہو گئی، شمالی ہندوستانیوں کو مہاراشٹر میں رہنے کی اجازت دینے پر نظر ثانی کرنے کا انتباہ۔

ممبئی : مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) نے ایک بار پھر مراٹھی زبان کے معاملے پر اپنا موقف گرم کیا ہے۔ منگل کو ایک شخص نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ راج ٹھاکرے کی پارٹی اس معاملے پر ناراض ہوگئی اور اس نے ایک بار پھر شمالی ہندوستانیوں کو خبردار کیا ہے۔ ایم این ایس لیڈر نے کہا کہ پارٹی کو غور کرنا پڑے گا کہ آیا شمالی ہندوستانیوں کو ریاست میں رہنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ پارٹی کے ترجمان اور ممبئی یونٹ کے صدر سندیپ دیشپانڈے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر علاقائی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ حال ہی میں دیویندر فڑنویس کی مداخلت سے زبان کا تنازعہ حل ہوا تھا۔
سنیل شکلا، ممبئی میں مقیم نارتھ انڈین ڈیولپمنٹ آرمی کے کارکن نے کہا کہ پارٹی نے حال ہی میں بینکوں اور دیگر اداروں میں مراٹھی زبان کے استعمال کو نافذ کرنے کے لیے ایک تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس کے لیے سپریم کورٹ میں ایم این ایس کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ سنیل شکلا نے کہا کہ ایم این ایس نہ صرف شمالی ہند کے مخالف ہے بلکہ ہندو مخالف بھی ہے کیونکہ ایم این ایس کے کارکنوں نے جن بینک اہلکاروں پر حملہ کیا وہ ہندو تھے۔
اس پیش رفت کے بعد، دیش پانڈے نے ایک پوسٹ میں لکھا، ‘ایک عجیب بھیا (شمالی ہندوستانی) نے سیاسی جماعت کے طور پر ایم این ایس کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کے لیے عدالت میں درخواست کی ہے۔ اگر شمالی ہندوستانی مراٹھی مانوس کی پارٹی کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو (ہمیں) سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا انہیں ممبئی اور مہاراشٹر میں رہنے دیا جائے؟ دیش پانڈے نے کہا کہ یہ بی جے پی کی علاقائی پارٹیوں کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کام وہ اپنے حواریوں کے ذریعے کر رہے ہیں۔ ہم ان سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ دریں اثنا، شیو سینا کے رہنما سنجے نروپم نے کہا کہ ایم این ایس یا کسی دوسری پارٹی میں کچھ غلط نہیں ہے کہ مہاراشٹر میں لوگوں سے مراٹھی زبان استعمال کریں۔ تاہم انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بے گناہ بینک اہلکاروں پر حملہ کرنا غلط ہے۔ انہوں نے پارٹی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا