Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

لو جہاد کے نام پر ایک بار پھر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش!

Published

on

yogi

خیال اثر
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے لو جہاد کو سنگین. مسئلہ قرار دے کر اس پر قدغن لگانے کے لئے ایک قانونی مسودے کو عدلیہ کے حکم کے خلاف ورزی کرتے ہوئے یوگی سرکار نے اپنی من مانی مبینہ ثبوت دے کر پورے ہندوستان فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی ہے. الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنی پسند کی شادی کرنے اور مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص شادی کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اسے یہ حق قانونی طور سے حاصل ہے،سلامت انصاری نے 19؍ اگست 2019 کو پرینکا کھروار نام کی لڑکی سے اسلامی روایت کے مطابق شادی کی تھی۔ شادی کے بعد پرینکا نے اپنا نام عالیہ رکھ لیا تھا۔اس شادی کے خلاف پرینکا کے والد نے سلامت انصاری کے خلاف اغوا اور پاکسو ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ سلامت انصاری نے اس ایف آئی آر کو الہ آباد میں چیلنج کیا تھا.
آخر یہ لو جہاد ہے کیا چیز یا یہ کس بلا کا نام ہے. عام ہندوستانی اس سے ذرا بھی واقفیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس جنجال میں پڑنا چاہتا ہے. آج اقتدار کے زعم میں ہندو توا کے علمبرداران یکے بعد دیگرے ہندوستانی آئین میں تبدیلیاں کرتے ہوئے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعے ترتیب دئیے گئے اس آئین کو مذاق کا موضوع بنا دیا ہے جس میں ہر مذہب ہر فرقے اور ہر نسل کے افراد کو مناسب نمائندگی دیتے ہوئے ان کے اپنے وضع کردہ قوانین میں دخل اندازی سے گریز کیا گیا تھا. ایک طویل عرصہ تک ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعے ترتیب دیئے گئے آئین میں کسی بھی طرح کا کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا تھا. تاریخ گواہ ہے کہ امبیڈکر کے ذریعے وضع کردہ قوانین ہر مذہب اور ہر فرقے کے لئے مناسب اور متوازن تھے لیکن ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اقتدار پر قابض بھگوائی پرچم تھامے ہوئے تمام قوانین کو بھگوا رنگ دینے میں اپنی ساری طاقت صرف کررہے ہیں. اس کے پس پردہ کون سے عوامل سرگرداں ہیں اگر بغور اس کا معائنہ کیا جائے تو نظر آئے گا کہ اس کے پس پردہ ساورکر اور گوڈسے جیسے عوامل اور جن سنگھ اور آر ایس ایس سے جڑے ہوئے تھنک ٹینک میں شامل افراد ہیں اور ان تمام لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ ہندوستان کی روا داری اور گنگا جمنی تہذیب کو دھیرے دھیرے ختم کرکے ہندوستان کو “ہندو راشٹر “بنا دیا جائے جس میں صرف اور صرف برہمنی سماج اپنے پیر پھیلا کر حکومت کر سکے. ایسا کوئی بھی قانون ہندوستانی تہذیب و تمدن کے منافی ہے. ہندوستان پر مسلمان مغل بادشاہوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی ایسے کسی کالے قانون کو وضع کرنے اور نفاذ کی کوشش نہیں کی. ہندوستان کی ریاستوں میں یکے بعد دیگرے بھگوائی پرچم لہرانے کے بعد گوڈسے اور ساورکر کے پروردہ افراد کی ہمت بڑھتی جارہی ہے. ان کے سارے ارمان کسی الہڑ دوشیزہ کی توبہ شکن انگڑایوں کی طرح بیدار ہوتے جارہے ہیں. اس طوفان بلا خیز کی بپھری ہوئی موجوں کی رفتار کا اندازہ ان بھاجپائی لیڈران کو شاید نہیں ہے. آج نہیں تو کل ایسے کسی بھی کالے قانون کا نفاذ ایسے تمام افراد کو خش و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جائے گا اور یہ ہوگا کہ دنیا ایسے تمام فرقہ پرستوں اور ہندو توا وادیوں کو ڈھونڈتی رہ جائے گی لیکن کہیں بھی ان کا وجود اور نام و نشان نظر نہیں آئے گا اس لئے سیکولرازم پر ایمان و عقیدہ رکھنے والے حساس افراد کو چاہیے کہ ایسے سیاہ قوانین کو وضع کرنے اور رو بہ عمل لانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف میدان عمل ڈٹ جائیں.
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے صفحات پر آب زر سے رقم ہے کہ ہندوستانی راجاؤں اور مہاراجاؤں نے خود اور اپنے حکومتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی جواں سال بٹیوں کو مغل بادشاہ اور نوابین کے عقد میں بخوشی دے دیا تھا یہی وجہ تھی کہ اکبر اعظم کے عقد میں آ کر جودھا بائی نامی برہمن خاتون مہارانی جودھا بائی بن کر ہندوستان پر حکومت میں معاون و مدگار رہیں. ایسی مثالیں ہندوستان کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ملیں گی. کہیں پر کسی مجبوری کے تحت یا کہیں راضی بہ رضا ہوتے بغیر کسی مجبوری کے غیر مسلم خواتین نے عام و خاص افراد کو اپنا جیون ساتھی منتخب کیا ہے. ایسے بھی بے شمار واقعات منظر عام پر آئے ہیں کہ مختلف النوع شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مسلم افراد کے پچھے سازش رچتے ہوئے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو لگایا گیا اور ان غیر مسلم خواتین نے ان مسلم افراد کا سارا مستقبل ملیا میٹ کرکے رکھ دیا. آج لوجہاد کا ہنگامہ برپا کرنے والے افراد کے لئے چند مثالیں دیتے ہوئے انھیں درس عبرت دینے کی کوشش کررہے ہیں. یاد کیجئے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی “سلیم درانی اور نواب پٹوڈی “کی خانگی زندگی کے پوشیدہ گوشے. کہ سلیم درانی کے پچھے بولڈ اداکارہ پروین بابی کو لگایا گیا تو نواب پٹوڈی کو ٹیگور خاندان کی شرمیلا ٹیگور نے اپنے بنگالی حسن کاا سیر بنا لیا تھا. نامور بیڈ منٹن کھلاڑی سید مودی کے تعاقب میں امیتا نامی غیر مسلم خاتون کو لگاکر اس کے کیرئر کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کا بھی چراغ گل کروا دیا. تازہ ترین مثال ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے نامور کپتان اظہرالدین کی ہے جنھیں سنگیتا بجلانی نامی اداکارہ نے تباہی کے دہانوں تک پہنچا دیا تھا. بیشتر مثالیں ایسی بھی ہیں کہ کئی غیر مسلم خواتین نے مسلمان شوہروں کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی آغوش میں جائے پناہ دھونڈ لی. بالی ووڈ کنگ خان شاہ رخ کے دامن سے لپٹ کر گوری نامی غیر مسلم خاتون گوری خان کہلائی. کرن راؤ نامی ہندو خاتون نے عامر خان کے دامن میں خود کو محفوظ و مامون سمجھا. سیف علی خان کے دامن سے لپٹ کر راج کپور خانوادے کی کرینہ کپور نے کرینہ خان کہلانے میں فخر محسوس کیا. یہ ساری مثالیں تو فلم اسٹاروں کی ہیں جن کا کوئی مذہب اور مسلک نہیں ہوتا. اس کے برعکس سیاسی لیڈران کی مثالیں دیں تو سید شاہنواز حیسن اور مختار عباس نقوی کے نام سرخیوں میں آتے ہیں جن کی بیویاں ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہیں. اسی طرح مہاراشٹر کے مرد آہن بالا صاحب ٹھاکرے کی بھانجی نے بھی مسلم لڑکے سے پیار و محبت کرتے ہوئے اپنے خاندان کے بر خلاف شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی مسلم لڑکے کے ساتھ ٹھاکرے پریوار نے بحالت مجبوری اپنی لڑکی کا عقد کردیا. ایسی ہی مثالیں اگر ہم دینے بیٹھے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی.ہم نے جو حقیقی مثالیں دیتے ہوئے ہندوستان کے قانون ساز اداروں اور صاحبان اقتدار کو متوجہ کیا ہے وہ مسلم افراد سے شادیاں کرکے ان کے گھروں میں پناہ لینے والی ہندو خواتین کی گھر واپسی کا پروگرام ترتیب دیں. ہمیں یقین ہے کہ ہنسی خوشی مسلم افراد کے ساتھ شادی شدہ زندگی گزارنے والی کوئی بھی ہندو خاتون گھر واپسی کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوگی اور اگر جن سنگھ کے پروردہ افراد نے ایسی کوئی کوشش کی تو انھیں ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا. اس لئے لو جہاد کی آڑ میں کالے قوانین وضع کرنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ دبی ہوئی راکھ کو نہ کریدیں ورنہ اس میں پنہاں چنگاریاں خود ان کا دامن راکھ کردیں گی.

بین الاقوامی خبریں

امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا… بری سفارت کاری، ناکام حکمت عملی، یوم آزادی پر جانیے اس کے زوال کی کہانی

Published

on

America

واشنگٹن : امریکا آج اپنا یوم آزادی منا رہا ہے۔ 4 جولائی 1976 کو امریکہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے قدیم ترین جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ آزادی کے بعد امریکہ نے دنیا کو باور کرایا کہ ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے، ایک ایسی قوم جو جمہوریت، آزادی اور عالمی قیادت کی اقدار کا پرچم اٹھائے گی۔ لیکن آج، جیسا کہ ہم 2025 میں امریکہ کے لیے اس تاریخی دن پر نظر ڈالتے ہیں، ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے : امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف بیرونی چیلنجز نہیں ہیں، بلکہ اندر سے ابھرنے والے سیاسی اور اسٹریٹجک عدم استحکام بھی اس زوال کی وجہ ہیں۔ امریکہ اب عالمی جغرافیائی سیاست کا واحد کھلاڑی نہیں رہا۔ ٹائم میگزین میں لکھتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی مشیر ڈینس راس جو کہ اب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مشیر بھی ہیں، نے لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک بہت مہنگی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس سے بہت محدود فوائد حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اس نے دنیا کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے انہدام نے جغرافیائی سیاست پر امریکہ کی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کیا۔ 1990 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے وسط تک، امریکہ نے سفارت کاری، فوجی طاقت، اقتصادی اثر و رسوخ اور تکنیکی قیادت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی شرائط پر چلایا۔ لیکن اس عرصے میں کچھ اہم غلط فیصلوں نے آہستہ آہستہ امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر 2003 میں عراق کی جنگ میں امریکہ کا داخلہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ عراق جنگ میں امریکہ بغیر کسی ٹھوس حکمت عملی کے ایک طویل اور مہنگی جنگ میں الجھ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ملکی سطح پر بھی قیادت کے تئیں عدم اعتماد بڑھ گیا۔

انہوں نے لکھا کہ روس ابھی تک ہمیں چیلنج نہیں کر رہا تھا لیکن 2007 میں میونخ سیکیورٹی فورم میں ولادیمیر پوٹن نے ایک قطبی دنیا کے خیال کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونا ہے اور کہا کہ روس اور دیگر لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس وقت ان کے دعوے نے امریکی بالادستی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن آج حقیقت بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر، ہمیں عالمی حریف کے طور پر چین اور روس کا سامنا ہے، چین کے ساتھ اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کا چیلنج ہے۔ علاقائی سطح پر ہمیں ایران اور شمالی کوریا کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ اقتصادی، تکنیکی اور عسکری طور پر اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط طاقت ہو سکتا ہے… لیکن ہمیں اب ایک کثیر قطبی دنیا میں کام کرنا چاہیے جس میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اور یہ رکاوٹیں بین الاقوامی سے لے کر ملکی سطح تک ہوں گی۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس جیسے لیڈروں کی قیادت میں ایک نئی امریکی قوم پرستی ابھری ہے، جس کی کتاب امریکہ کو عالمی رہنما کے طور پر تصور نہیں کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو صرف اپنی قومی ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے، چاہے وہ عالمی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے لکھا کہ “2006 میں میں ایک ایسے امریکہ کے بارے میں لکھ رہا تھا جو عراق میں ہمارے کردار پر بحث کر رہا تھا لیکن پھر بھی بین الاقوامی سطح پر امریکی قیادت پر یقین رکھتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے دنیا میں ہمارے کردار کی قیمت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھائے اور اس اتفاق رائے کو ختم کر دیا کہ امریکہ کو قیادت کرنی چاہیے۔”

ڈینس راس کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کی اب سب سے بڑی کمزوری اس کے بیان کردہ مقاصد اور ان کے حصول کے لیے وسائل کے درمیان عدم توازن ہے۔ افغانستان سے عجلت میں واپسی ہو، یا شام میں نیم دلانہ مداخلت، یا یوکرائن کے تنازع میں حمایت پر اٹھنے والے سوالات، ہر جگہ یہی نظر آرہا ہے کہ امریکہ نے اپنے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگر قیادت میں تبدیلی نہ لائی گئی اور حالات کو درست نہ کیا گیا تو امریکہ کی پالیسی نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تر امریکی شراکت دار دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا امریکہ پر عدم اعتماد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک مضبوط روس اور ایک جارح چین کا سامنا ہے اور اگر امریکہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کرتا رہا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔

Continue Reading

سیاست

مہاراشٹر مراٹھی ہندی تنازع قانون ہاتھ میں لینے والوں پر سخت کارروائی ہوگی وزیر اعلی دیویندر فڑنویس

Published

on

D.-Fadnavis

ممبئی مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے ہندی مراٹھی لسانیات تنازع پر یہ واضح کیا ہے کہ لسانی تعصب اور تشدد ناقابل برداشت ہے, اگر کوئی مراٹھی زبان کے نام پر تشدد برپا کرتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے, تو اس پر سخت کارروائی ہوگی, کیونکہ نظم و نسق برقرار رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا روڈ ہندی مراٹھی تشدد کے معاملہ میں پولس نے کیس درج کر کے کارروائی کی ہے۔ مراٹھی اور ہندی زبان کے معاملہ میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی سفارش پر طلبا کے لئے جو بہتر ہوگا وہ سرکار نافذ العمل کرے گی کسی کے دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندی زبان کی سفارش خود مہاوکاس اگھاڑی کے دور اقتدار میں کی گئی تھی, لیکن اب یہی لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام سب جانتے ہیں, انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ۵۱ فیصد مراٹھی ووٹ اس الیکشن میں حاصل ہوئے ہیں۔ زبان کے نام پر تشدد اور بھید بھاؤ ناقابل برداشت ہے, مراٹھی ہمارے لئے باعث افتخار ہے لیکن ہم ہندی کی مخالفت نہیں کرتے, اگر دیگر ریاست میں مراٹھی بیوپاری کو کہا گیا کہ وہاں کی زبان بولو تو کیا ہوگا۔ آسام میں کہا گیا کہ آسامی بولو تو کیا ہوگا۔ انہوں نے قانون شکنی کرنے والوں پر سخت کارروائی ہوگی۔

Continue Reading

جرم

پونے میں آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والی 22 سالہ خاتون کا ریپ۔ پولیس نے ڈیلیوری بوائے کا تیار کرلیا خاکہ، پولیس تفتیش میں اہم انکشافات ہوئے ہیں۔

Published

on

raped

پونے : مہاراشٹر کے پونے میں پولیس نے 22 سالہ آئی ٹی پروفیشنل کے ریپ کیس میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے ڈیلیوری بوائے کے روپ میں داخل ہونے والے شخص کی گرفتاری کے لیے 10 ٹیمیں تشکیل دیں۔ یہ واقعہ بدھ کی شام پونے کی ایک سوسائٹی میں پیش آیا جب ایک نامعلوم شخص نے ڈلیوری ایگزیکٹو کے طور پر پیش کیا۔ ملزم نے خاتون کو قلم مانگنے کے نام پر اندر بھیجا تھا۔ اس کے بعد اس نے فلیٹ کے اندر جا کر دروازہ بند کر دیا اور درندگی کی۔ ملزم نے اس کی تصویر کھینچی اور اسے وائرل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پیغام چھوڑ دیا۔

پونے پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پونے پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ شام 7.30 بجے کے قریب خاتون کے فلیٹ میں اس وقت پیش آیا جب وہ گھر میں اکیلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں ایک پرائیویٹ آئی ٹی فرم میں کام کرنے والی خاتون اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھی اور وہ کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ ملزم نے خاتون کو بے ہوش کر دیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب خاتون کو ہوش آیا تو وہ فرار ہو چکا تھا۔ پونے پولیس کے ڈی سی پی راج کمار شندے کے مطابق، ڈیلیوری بوائے کے طور پر ظاہر کرنے والے شخص نے متاثرہ لڑکی کو بتایا تھا کہ اس کے لیے کورئیر میں بینک کے کچھ دستاویزات آئے ہیں۔ اس نے رسید دینے کو کہا اور کہا کہ وہ قلم بھول گیا ہے۔ متاثرہ خاتون جب اندر گئی تو ملزم فلیٹ میں داخل ہوا اور اندر سے دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ زیادتی کی۔

ڈی سی پی راج کمار شندے کے مطابق، تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ ملزم نے متاثرہ کی تصویر اس کے فون پر لی تھی۔ اس نے اس کے فون پر ایک پیغام بھی چھوڑا جس میں دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ تصویر وائرل کر دے گا اور وہ دوبارہ آئے گا۔ ڈی سی پی نے کہا کہ ہم نے 10 ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور جائے وقوعہ کی فرانزک جانچ کی گئی ہے۔ کتوں کی ٹیم بھی طلب کر لی گئی ہے۔ ہم سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور دیگر تکنیکی سراغ کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ ملزم کے فون پر لی گئی تصویر میں متاثرہ کے چہرے کا ایک چھوٹا سا حصہ پکڑا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک خاکہ تیار کیا جا رہا ہے۔ پونے پولیس نے بتایا کہ خاتون مہاراشٹر کے دوسرے ضلع کی رہنے والی ہے۔ پولیس نے علاقے کے پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 64 (ریپ)، 77 (وائیورزم) اور 351-2 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ یہ واقعہ پونے کے کونڈوا علاقے میں پیش آیا۔ پونے مہاراشٹر کے آئی ٹی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس واقعے نے خواتین کے تحفظ پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com