Connect with us
Sunday,24-November-2024
تازہ خبریں

جرم

آج مالیگاؤں کے بھکو چوک بم بلاسٹ کو 12سال مکمل!!

Published

on

خیال اثر مالیگانوی
2006 کو بڑا قبرستان اور مشاورت چوک بم دھماکوں کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ 29 ستمبر 2008 رمضان المبارک میں شب قدر کے موقع پر قلب شہر کے تاریخی بھکو چوک پر ایک اور بم بلاسٹ ہو گیا تھا. بم بلاسٹ کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ دور بہت دور تلک اس بلاسٹ کی گونج سن کر شہریان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے. اس بلاسٹ میں ایک 11سالہ بچی سمیت بے شمار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے. کئی درجن افراد شدید طور پر مجروح بھی ہوئے تھے.یہ بم بلاسٹ رمضان کی مبارک ساعتوں اور خاص طور پر شب قدر کے موقع پر منظم سازش کے تحت کیا گیا تھا. بم بلاسٹ کا مقام انتہائی بھیڑ بھاڑ والا علاقہ رہا کرتا ہے. امت مسلمہ شب قدر کی مناسبت سے اسی علاقہ کے عظیم تبلیغی مرکز نورانی مسجد سے نماز ادا کرکے بھکو چوک پر پہنچے ہی تھے کہ بم دھماکہ ہوا. 2006 کے بم دھماکوں کے خونچکاں مناظر اور یادیں ایک بار پھر تازہ ہو گئیں تھیں. لوگوں تک جیسے جیسے یہ خبریں پہنچتی گئیں لوگ اپنے عزیز و اقرباء کی تلاش اور امداد کے لئے دوڑتے ہوئے مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے تھے. پورے شہر میں سراسیمگی کا عالم طاری تھا. چاروں طرف خوف و ہراس پھیل گیا تھا. شہریان یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ اس بم بلاسٹ کے الزام میں ایک بار پھر شہر کے ہی بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے انھیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر آنجہانی ہیمنت کرکرے کی ایماندارانہ تفتیش نے ملک میں پہلی بار بھگوا دہشت گردوں کے چہروں سے نقاب نوچ کر بھگوائی سازشوں کا پردہ فاش کردیا تھا. اس بم بلاسٹ کی خبریں عام ہوتے ہی ریاستی حکومت کے ذمہ داران وزیر داخلہ آر آر پاٹل سمیت دیگر وزراء مالیگاؤں آئے. اس بلاسٹ کے پس پردہ رہنے والے ذمہ داران کو قانون و عدلیہ کے دائرے میں لانے کے لئے اے ٹی ایس اور این آئی اے جیسے فعال محکموں کو ذمہ داریاں تقویض کی گئیں. ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اے ٹی ایس چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے نے انتہائی ذمہ داری اور فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھگوا دہشت گردی کا چہرہ بے نقاب کیا.بم بلاسٹ میں استعمال شدہ ایل ایم فریڈم موٹر سائیکل جو کہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے نام پر تھی. ہیمنت کرکرے نے سادھوی پرگیہ سنگھ کو ٹارگیٹ بناتے ہوئے جب اپنی تفتیش کے دائرے وسیع کئے تو بھگوا دہشت گردوں کے سارے چہرے ایک کے بعد ایک منظر عام پر آتے گئے. ان دہشت گردوں میں ایک نمایاں نام فوج کے اعلی عہدے دار کرنل پروہت کا بھی تھا یہ وہی کرنل ہے جو ناسک کے بھونسلہ ملٹری کالج کا تربیت یافتہ کرنل تھا اور یہ بم بلاسٹ کرنے میں ماہر تھا. اس بم بلاسٹ کو 12سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن قانونی منہ شگافیوں کی بدولت بھگوا دہشت گردوں کے خلاف یہ مقدمہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جارہا ہے. اس طویل ترین دورانیے میں اس بم بلاسٹ کی کلیدی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ قید و بند کی اذیتیں جھیلتے ہوئے زندگی اور موت کی کشکمش میں مبتلا ہے. اب خدا معلوم یہ اذیتیں خدائی قہر ہے یا پھر سزا سے بچنے کا کوئی حربہ ہے. یہ وہی ملزمہ ہے جو بھگوا پارٹی سے رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئی ہے.
ہمیں یاد ہے کہ بم بلاسٹ کے فورأ بعد وزیر داخلہ آر آر پاٹل جائے وقوع پر آن موجود ہوئے تھے تو اسی علاقے کے بےباک عوامی خادم مرحوم آصف علی ڈرائیور اور این سی پی کے صدر حاجی یوسف نیشنل کے علاوہ بے شمار سماجی خادمین نے اپنی بےباک نمائندگی سے حکومت وقت اور وزیر داخلہ کا ناطقہ بند کردیا تھا.آج بھی اس بم بلاسٹ کے متاثرین اپنے زخموں کو لے کر مجرمین کو سزا دینے کے تمنائی ہیں لیکن 12سال کے بعد انصاف کی دیوی اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹانے کو تیار نہیں ہے. اس بم بلاسٹ کے سبھی بھگوا دہشت گرد ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دندناتے گھوم رہے ہیں اور جیل کی سلاخیں پھانسی کے پھندوں کے ہمراہ ان کی منتظر ہیں. بم دھماکہ کے مقام کے سامنے واقع نثار ڈیری میں موجود دیوار گھڑی آج بھی بم بلاسٹ کے اوقات کو لے کر اول دن سے بند ہے اور شاید اس بند گھڑی کی سوئیاں اسی وقت حرکت میں آئیں جب ان بھگوا دہشت گردوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جائے گا. ہندوستان میں راج کر رہی فسطائی پارٹی. کے طفیل اس بم بلاسٹ کے سبھی مجرمین ہو سکتا ہے کہ سزائے موت سے بچ جائیں لیکن یہاں کی عدالتوں سے بالا ایک اور عدالت بھی موجود ہے جہان ان کے کالے کارناموں کی سزا یقنأ ملے گی کیونکہ خدا کی عدالت میں دیر ہے مگر اندھیر نہیں اور ویسے بھی یہ دنیا دارالعمل ہے انسانوں کے کئے کی سزا دنیا ہی میں اسے بھگتنا پڑتی ہے. سادھوی جیسی ملزمہ کی آج جو بھی حالت ہے اسی کا نتیجہ ہے. ساری دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار کہلانے والے وزیر اعظم کا انتم سنکار ہونے کے بعد ان کی نعش کیا حال ہوا تھا ہو سکتا ہے اس بم بلاسٹ کے ایک اور ملزم کرنل پروہت کی بار بار ضمانت کی عرضداشت کورٹ میں پیش کرنے میں بھی خدا کی کوئی مصلحت شامل ہو اور ہو سکتا ہے سادھوی پرگیہ سنگھ اور کرنل پروہت کا انجام بھی آنجہانی پی وی نرسہما راؤ جیسا ہو.
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ مرحوم آصف علی ڈرائیور اور یوسف نیشنل کی بےباک نمائندگی اور ایک منظم سازش کے تحت آنجہانی ہوئے اے ٹی ایس. چیف شری ہیمنت کرکرے کی ایماندارانہ تفتیش رائیگاں نہیں جائے گی. اس بم بلاسٹ کے بھگوا دہشت گردوں پر یہ دنیا روز بروز تنگ ہوتی جائے گی اور یہ سبھی یکے بعد دیگرے کیفر کردار تک پہنچیں گے تبھی اس بم بلاسٹ میں شہید اور مجروحین کو انصاف نصیب ہوگا اور وہی دن حق و انصاف کی جیت کا دن ہوگا. شہیدوں کا خون اور مجروحین کی آہ و بقا ایک نہ ایک ضرور رنگ لائے گی کیونکہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com