Connect with us
Saturday,23-August-2025
تازہ خبریں

سیاست

مراٹھا ریزرویشن آرڈیننس کے ساتھ ہی مسلم ریزرویشن آرڈیننس بھی جاری کیا جائے، مہاراشٹر پردیش کانگریس صدر سے آصف شیخ کا مطالبہ

Published

on

ASIF SHAIKH

(خیال اثر)
مہاراشٹر کے مسلمان مسلم ریزرویشن کو لیکر فکر مند ہیں، نوجوان تعلیم اور نوکریوں کے حصول کیلئے پریشان ہوریے ہیں، مسلم ریزرویشن کو لیکر مسلمانوں میں جوش کو ماحول پیدا ہورہا ہے، نوجوان طبقہ اپنے غصے کا اظہار کررہا ہے اور حکومت سے امید لگا بیٹھا ہے کہ مہاراشٹر کی سرکار کامن مینمم پروگرام کے تحت مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دے گی تو ایسے میں ہم مہاراشٹر کانگریس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مراٹھا سماج کے لئے آرڈیننس جاری کرنے کے ساتھ ہی ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق مسلم سماج کو ٪5 ریزرویشن کا آرڈیننس جاری کیا جائے۔اسطرح کا مطالبہ مالیگاؤں کے سابق ایم ایل اے و مسلم ریزرویشن فیڈریشن کے بانی و تحریک ریزرویشن کنوینر آصف شیخ رشید نے مہاراشٹر پردیش کانگریس کے صدر بالا صاحب تھورات سے کیا ہے ۔آصف شیخ نے تفصیلی مطالباتی مکتوب میں لکھا ہے کہ ریاست کی کل آبادی میں سے ٪15 آبادی مسلم سماج کی ہیں۔حکومت نے جسٹس راجیندر سچر، رنگن ناتھ مشرا کمیشن اور ڈاکٹر محمود الرحمن کمیٹی کی تشکیل کر احوال طلب کیا تھا اس رپورٹ کی روشنی میں ریاست کی مسلم کمیونٹی تعلیمی ، معاشرتی اور معاشی طور پر پسماندہ ہے اور انتہائی قابل رحم حالت میں ہے۔ لہذا مسلم کمیونٹی کے افراد کو سرکاری نوکری اور تعلیم میں ریزرویشن دینے کی ضرورت ہے۔حکومت نے کمیٹیوں کی تمام سفارشات کو قبول کرلیا تھا۔ لیکن چونکہ حکومت نے منظور شدہ سفارش پر عمل درآمد شروع نہیں کیا ۔آصف شیخ نے کانگریس صدر بالا صاحب تھورات سے کہا کہ میں نے خود بھی متعدد مسلم تعلیمی اور سماجی تنظیموں اور ریاست بھر کے الگ الگ افراد، تنظیموں کے ساتھ مالیگاؤں سے ممبئی تک 300 کلومیٹر پیدل مارچ کیا تھا تاکہ مسلم ریزرویشن کے لئے اس وقت کی حکومت کی توجہ مبذول کروا کر ریزرویشن حاصل کیا جاسکے ۔ اور ہمارے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے ڈیموکریٹک الائنس حکومت نے 2014 میں مراٹھا برادری کو ٪16 اور مسلم برادری کو ٪5 ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔ تاہم ، کچھ لوگوں نے ممبئی ہائی کورٹ میں مسلم ریزرویشن کو چیلنج کیا ، جس کے سبب کورٹ نے ملازمت میں ٪5 منسوخ کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے تعلیم میں ٪5 ریزرویشن کو برقرار رکھا۔ اکتوبر 2014 میں ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد بی جے پی حکومت تشکیل دی گئی اور حکومت نے اپنے پہلے ناگپور کنونشن میں مراٹھا برادری کے لئے ٪16 ریزرویشن کا آرڈیننس پاس کیا۔ لیکن اسی کے ساتھ ٪5 مسلم ریزرویشن آرڈیننس پاس نہیں ہوا ہے ، جس کے نتیجے میں مسلم ریزرویشن آرڈیننس خود بخود قانونی طور پر منسوخ ہوگیا ۔جس سے ریاست میں مسلم سماج کے طلباء کو بہت بڑا تعلیمی اور معاشی نقصان ہوا ہے۔ مسلم معاشرے کے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان مرد اور خواتین بے روزگار ہوگئے۔آصف شیخ رشید نے مہاراشٹر پردیش کانگریس صدر بالا صاحب تھورات سے کہا کہ حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت مراٹھا ریزرویشن آرڈیننس لائے گی تاکہ مراٹھا سماج کے طلباء کو کسی قسم کا تعلیمی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ ہم مراٹھا ریزرویشن آرڈیننس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ لیکن مسلم ریزرویشن آرڈیننس لانا بھی انصاف کے نقطہ نظر سے لازمی ہے۔ ریاست میں اقتدار کی تبدیلی نے مسلم کمیونٹی کے تحفظات اور خوش آئند فیصلوں کی امیدوں کو جنم دیا ہے۔ اس سے قبل ، ممبئی ہائی کورٹ نے مسلم ریزرویشن پر فیصلہ سنایا تھا اور نوکریوں میں ریزرویشن کو کالعدم قرار دے کر تعلیمی ریزرویشن کو بحال کیا تھا۔ حکومت مذکورہ فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرے اور مسلم کمیونٹی کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں ٪5 ریزرویشن برقرار رکھنے کی درخواست کرے۔ شیخ آصف نے کہا کہ آپ سے درخواست کی جارہی ہے کہ مہاوکاس اگھاڑی سرکار کے تحت ریاست میں ریزرویشن کا مسئلہ ختم ہونے ہی والا ہے۔ چونکہ مسلم کمیونٹی ایک محروم طبقہ ہے لہذا ان کو تعلیم دینے کے لئے ریزرویشن کی بہت زیادہ ضرورت ہے لہذا مراٹھا ریزرویشن آرڈیننس کے ساتھ ساتھ مسلم ریزرویشن آرڈیننس کو بھی منظور کرکے ریاست کے مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جانا چاہئے۔اس مکتوب کی ایک کاپی کانگریس کے وزیر شہری ترقیات و مراٹھا ریزرویشن کمیٹی کے صدر اشوک راؤ چوہان کو بھی دی گئی ہے ۔آصف شیخ نے کانگریس صدر بالا صاحب تھورات اور اشوک چوہان سے کہا کہ میں کانگریس کا سابق ایم ایل اے اور موجودہ ممبر ہوں، مہاراشٹر بھر سے عوام مجھ سے سوال کرتے ہوئے مسلم ریزرویشن پر کانگریس کا موقف جانتے ہیں ۔مسلم نوجوانوں میں ریزرویشن کو لیکر غصہ نظر آتا ہے اس لئے کانگریس پارٹی کامن مینمم پروگرام کے تحت اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کرے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دے ۔

بین الاقوامی خبریں

میانمار کی ریاست راکھین میں ایک نئی جنگ شروع… اراکان آرمی کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے چیلنج کا سامنا ہے۔

Published

on

Myanmar

اسلام آباد : میانمار میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) نے صوبہ رخائن میں اراکان آرمی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں اراکان آرمی کے کئی جنگجوؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے بیان کے مطابق یہ حملہ تاونگ پیو لٹ میں ہوا۔ اس دوران اراکان آرمی کے دو کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ 10 اگست کی رات تقریباً 11 بجے شروع ہوا اور تقریباً 50 منٹ تک جاری رہا۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں اراکان آرمی کے کم از کم 5 جنگجو ہلاک اور 12 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران اراکان آرمی کے درجنوں جنگجو موقع سے فرار ہو گئے۔

گونج نیوز کی رپورٹ کے مطابق اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مسلح گروپ میانمار کی مسلم روہنگیا آبادی میں سرگرم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کو پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ سمیت کئی دوسرے دہشت گرد گروپس کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کا عروج میانمار کی سرحد سے متصل ہندوستانی علاقوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اراکان آرمی میانمار کا ایک باغی گروپ ہے جو 2009 میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں بدھ مت کی آبادی کے لیے زیادہ خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ فی الحال، اراکان آرمی میانمار کے راکھین صوبے کے 17 میں سے 15 قصبوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ یہ گروپ پہلے ہی مختلف دھڑوں کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جن میں میانمار آرمی اور دیگر عسکریت پسند گروپس جیسے اے آر ایس اے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اراکان آرمی کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے میانمار میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اس کام کے لیے بنگلہ دیش کے بنیاد پرستوں کو بھی اپنے پیادوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم روہنگیا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی میں شامل ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپوں میں کئی کیمپ لگائے ہیں جن میں انہیں ہتھیار اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

Continue Reading

بزنس

ممبئی اور مہاراشٹر میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو اگلے پانچ سال تک نہیں دینا پڑے گا ٹول ٹیکس، جانیں سب کچھ

Published

on

Atal-Setu..

ممبئی : ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اب انہیں ممبئی میں اٹل سیتو پر اپنی ای وی پر سفر کرتے ہوئے ٹول ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے لیا گیا فیصلہ 22 اگست 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔ نجی اور سرکاری گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں آئیں گی۔ اس فیصلے سے چار پہیہ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرک بسوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اٹل سیٹو سے روزانہ تقریباً 60 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد الیکٹرک گاڑیوں کی ہے۔ حکومت نے 2030 تک ای وی کو ٹول ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹل سیٹو پر ایک کار کا ٹول 250 روپے ہے۔ یہ ٹول دسمبر 2025 سے لاگو ہے۔

ریاستی حکومت نے اپریل 2025 میں ‘مہاراشٹرا الیکٹرک وہیکل پالیسی’ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اٹل سیٹو، ممبئی-پونے ایکسپریس وے اور سمردھی ہائی وے پر برقی چار پہیہ گاڑیوں اور بسوں کو ٹول چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو ریاستی اور قومی شاہراہوں پر 50 فیصد رعایت ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کمشنر وویک بھیمنوار نے کہا کہ اٹل سیٹو پر ٹول معافی کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے۔ اس کا نفاذ جمعہ سے ہو جائے گا جبکہ یہ سہولت دیگر شاہراہوں پر بھی 2 روز میں شروع ہو جائے گی۔

پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکٹرک مال بردار گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گی۔ حکام کے مطابق، یہ چھوٹ سرکاری اور نجی شعبے میں ای وی کو اپنانے کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ یہ نیا اصول اٹل سیتو پر شیواجی نگر اور گاون میں واقع ٹول بوتھوں پر جمعہ سے نافذ ہو جائے گا۔ حکام کو امید ہے کہ اس پالیسی سے ای وی کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا ہوا بیڑا ہے، جو اس اقدام سے براہ راست فائدہ اٹھائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18,400 لائٹ فور وہیلر، 2,500 ہلکی مسافر گاڑیاں، 1,200 بھاری مسافر گاڑیاں اور 300 درمیانے درجے کی مسافر گاڑیاں، کل 22,400 الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اٹل سیٹو سے روزانہ اوسطاً 60,000 گاڑیاں گزرتی ہیں۔

Continue Reading

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com