Connect with us
Friday,11-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے: مولانا سید ارشد مدنی

Published

on

maluana

ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے امن واتحاد اور محبت کا گہوارہ رہا ہے، یہ ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے، ہمارے ملک کا آئین ہرشہری کو برابرکے حقوق دیتاہے اور مذہب زبان، علاقہ کی بنیادپر کسی شہری کے ساتھ بھیدبھاؤ کرنا ہندوستان کے آئین کے روح کے سراسرخلاف ہے،مگر افسوس ادھر چندبرسوں سے جس طرح ملک کی موجودہ حکومت صرف سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے مذہبی بنیادپر نفرت کا بازارگرم کئے ہوئے ہے اور جس طرح اقلیت واکثریت کے درمیان اختلافات کی دیوارکھڑی کرکے ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے،اس سے ملک کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہوچکے ہیں، ان خیالات کا اظہار جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے ممبئی میں شروع ہورہے جمعیۃعلماء ہندکے چارروزہ مجلس عاملہ اور مجلس منتظمہ کے اجلاس سے قبل ممبئی کے مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی آڑمیں فرقہ ورانہ ایجنڈے کے تحت ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے اپنے ناپاک عزائم کی طرف عملی طورپر قدم بڑھارہی ہے جس میں مذہبی اقلیتیں اپنے مذہبی تشخص سے محروم ہوکر اکثریت میں ضم ہوکر رہ جائیں گی، جو یقینا ملک کی سالمیت ویکجہتی کے لئے خطرناک بات ہوگی،صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ سی اے اے کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ جن لوگوں کو شہریت دینا چاہتے ہیں دیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جس طرح مذہب کی بنیادپر ایک مخصوص طبقہ کو اس قانون کے دائرہ سے الگ کردیا گیا ہے ہمیں اس پر اعتراض ہے کیونکہ یہ ملک کے سیکولردستورکے سراسرخلاف ہے، آپ مذہب کی بنیادپر کسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں برت سکتے اس کی کھلی وضاحت آئین میں موجود ہے ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم این پی آرکی موجودہ شکل کے خلاف ہیں اس کے خلاف جمعیۃعلماء ہند نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے انہوں نے وضاحت کی کہ این پی آرکی موجودہ شکل اس لئے انتہائی خطرناک ہے کہ اس میں جو نئی نکات جوڑی گئی ہیں وہ غیر ضروری ہیں مولانا مدنی نے کہا کہ جب این پی آر شروع ہوگا تو سرکل افسرکو یہ اختیاربھی حاصل ہوگا کہ وہ جس شخص کو بھی چاہے ڈی ووٹر قراردیدے ہم نے آسام میں اس کا خطرناک تجربہ دیکھاہے اس صورت میں مشکوک قراردیئے گئے شخص کو ووٹ دینے کا اختیارنہیں ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس کی زدمیں مسلمان ہی نہیں ہندوبھی بڑی تعدادمیں آجائیں گے ان سے جب پوچھاگیا کہ حکومت نے ابھی این پی آرکا کوئی فارمیٹ جاری نہیں کیا ہے تو آپ اس طرح کے خدشات کا اظہارکیوں کررہے ہیں اس پر مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات سامنے آگئی ہے کہ 1951سے لیکر 2010خطوط پر این پی آریا مردم شماری ہوتی رہی ہے اس باران خطوط پرنہیں ہوگی بلکہ اس میں بعض ایسی معلومات بھی طلب کی جائیں گی جن کی تفصیل فراہم کرنا ہر شہری کیلئے ایک مشکل امر ہوگا انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم اندیشے کا شکار اس لئے بھی ہیں کہ پچھلے چھ برس سے موجودہ حکومت فرقہ ورانہ ایجنڈے پر عمل پیراہے، سی اے اے جیسے قانون کو لانا اس کا بین ثبوت ہے اور اب این پی آرکو لیکر جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ حکومت کے ایجنڈے کو ظاہر کردیتاہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ این پی آرہی این آرسی کی اولین شکل ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون، قومی رجسٹربرائے شہریت (این آرسی)اور این پی آر کے علاوہ ملک کی موجودہ صورت حال مسلمانوں کو درپیش مسائل سمیت کئی دیگر اہم مسائل پر ملک کی قدیم ترین ملی جماعت جمعیۃعلماء ہند کا ممبئی میں جو چارروزہ اجلاس ہورہا ہے، اس کا اختتام 23/فروری کو آزادمیدان میں کل ہند تحفظ جمہوریت کانفرنس پر ہوگا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے دیوبند میں اجلاس عام منعقد کرنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اب جمعیۃعلماء ہند اسی اجلاس کو ممبئی میں منعقدکررہی ہے، واضح رہے کہ گزشتہ سال 19-18-17/اکتوبر کو اجلاس مجلس منتظمہ دیوبند میں منعقد ہونا تھا مگر اجازت ملنے کے بعدبھی انتظامیہ کے ذریعہ اچانک اجلاس کو روک دیا گیا اور یہ کہاگیا تھا کہ ضمنی انتخاب ہورہا ہے اس لئے اجلاس نہیں ہوسکتا، یہ پہلاموقع تھا کہ جب جمعیۃعلماء ہند کے اجلاس کو روکا گیا اس کے بعد دہلی میں انہی تاریخوں میں اجلاس کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہاں بھی کامیابی نہیں مل سکی، لیکن ہمیں پروگرام کرنا تھا کیونکہ ہم ملک کے موجودہ حالات سے غفلت نہیں برت سکتے تھے،ہمیں اپنے لوگوں کو ایک لائحہ عمل اور پیغام دینا تھا اسی لئے یہ اہم اجلاس یہاں ہورہا ہے۔مولانا مدنی نے ایک بارپھرکہا کہ ہم نہ تو کسی خاص پارٹی کے حامی ہیں اور نہ ہی مخالف، ہم ملک کے اتحاد اور سالمیت کے حامی ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں مگر یہ سچ نہیں ہے ہم تو صرف اس ذہنیت یا نظریہ کی مخالف ہیں جو ملک کے اتحاداور یکجہتی کی بنیادکو اکھاڑدینے کی سازشوں میں مصروف ہیں ملک میں ایک اور تقسیم کے حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ حکومت اچھے دن لانے کا وعدہ کرکے اقتدارمیں آئی تھی لیکن اب اس نے اپنی تمام ترتوجہ فرقہ وارانہ ایجنڈے پر مرکوزکردی ہے، جو ایک سیکولرملک کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں۔، سی اے اے جیسے سیاہ قانون کے خلاف پرامن احتجاج کو جگہ جگہ ڈنڈے کے زورسے کچلنے کی کوشش ہورہی ہے، مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ 15/دسمبر کو اترپردیش میں آئین کے ذریعہ دیئے گئے احتجاج کے حق کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین جب پرامن طورپر سڑکوں پر اترے تو پولس نے نہ صرف اپنی وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا بلکہ مظاہرین کے سینوں پر سیدھے سیدھے گولیاں ماری گئیں، بعد میں دلیل دی گئی کہ خودمظاہرین نے پولس پر حملہ کیا جس کے جواب میں لاٹھی چارج ہوا، انہوں نے کہا کہ یہ کتنی حیر ت انگیز بات ہے کہ مظاہروں کے دوران ہوئے مالی نقصان کی بھرپائی مظاہرین پر بھاری جرمانہ عائد کرکے کی جارہی ہے مگر پولس کے ہاتھوں جو جانی نقصان ہوا اس کی بھرپائی کے بارے میں نہ تو یوپی حکومت نے سوچااور نہ ہی مرکزی حکومت نے۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ ڈراور خوف کی سیاست ہورہی ہے اور غیر جمہوری وغیر آئینی فیصلوں کو عوام پر جبراتھوپنے کی سازش ہورہی ہے، چنانچہ جو لوگ جمہوری طریقہ سے ان فیصلوں کی مخالفت کررہے ہیں انہیں غداراور ملک دشمن قراردیا جارہا ہے، مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہم سی اے اے اور این پی آرکے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے ہیں اور عدالت نے اس پر حکومت ہند کو نوٹس بھی جاری کردیا ہے کیونکہ جمعیۃعلماء ہند ایسے تمام معاملوں میں جن کا سیاسی طورپر کوئی حل نہ نکل سکے قانونی جدوجہد کا راستہ اختیارکرتی ہے، متعدد اہم معاملوں میں عدلیہ سے ہمیں انصاف ملا ہے اس لئے ہم پرامید ہیں کہ سی اے اے اور این پی آر کے معاملوں میں بھی کوئی بہتر اور قابل قبول فیصلہ سامنے آئے گا انہوں نے کہا کہ منتظمہ کے اجلاس میں ان تمام امورپر بحث اور غوروخوض ہوگا اس کے بعد جو بھی لائحہ عمل تیارہوگا اس کا اعلان 23/فروری کو آزادمیدان کے اجلاس میں ہوگا انہوں نے کہا کہ یہ جو حالات پیداہوئے ہیں یا جو ایشوز ہمارے سامنے ہیں ان کا ہندوومسلمان سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے مذہب کی عینک سے دیکھنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ بڑاسوال آئین کی بالادستی اور ملک کے سیکولرکردارکو باقی رکھنے کا ہے اور اس کے لئے ملک کے ہر سچے شہری کو سوچناہوگا

جرم

داعش آئی ایس آئی ایس پونے سلیپر ماڈیول کیس میں 11واں کلیدی سازشی اور مطلوب ملزم این آئی اے کے ذریعے گرفتار

Published

on

arrested

قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے آئی ایس آئی ایس پونے سلیپر ماڈیول کیس میں مطلوب ایک اور اہم سازشی کو گرفتار کیا ہے۔ رضوان علی @ ابو سلمہ @ مولا کیس RC-05/2023/NIA/MUM میں گرفتار ہونے والے 11 ویں ملزم ہے اور اس پر۳ لاکھ روپے کا انعام تھا۔ این آئی اے کی خصوصی عدالت نے رضوان کے خلاف اسٹینڈنگ غیر ضمانتی وارنٹ (این بی ڈبلیو) بھی جاری کیا تھا، جو نامزد غیر ملکی دہشت گرد تنظیم، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے میں سرگرم عمل تھا۔

آئی ایس آئی ایس کی بھارت مخالف سازش کے ایک حصے کے طور پر، جسے مختلف دیگر ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، رضوان نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے مختلف مقامات کی جاسوسی اور سراغ رسانی میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ اس کیس میں این آئی اے کی تحقیقات کے مطابق، وہ فائرنگ کی کلاسیں کرنے اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) کی تیاری میں بھی شامل تھا۔

اس کیس میں این آئی اے کی تحقیقات کے مطابق، وہ فائرنگ کی کلاسیز منعقد کرنے اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) کی تیاری میں بھی شامل تھا۔ پہلے سے گرفتار اور عدالتی حراست میں 10 دیگر ملزمان کے ساتھ، رضوان نے ملک کو غیر مستحکم کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کی سازش کی تھی۔

رضوان علی کے علاوہ سلیپر سیل کے دیگر گرفتار ارکان کی شناخت محمد عمران خان، محمد یونس ساکی، عبدالقادر پٹھان، سیماب ناصر الدین قاضی، ذوالفقار علی بڑودوالا، شمل ناچن، عاکف ناچن، شاہنواز عالم، عبداللہ فیاض شیخ اور طلحہ خان کے نام سے ہوئی ہے۔ تمام ملزمین کو این آئی اے نے یو اے (پی) ایکٹ، دھماکہ خیز مواد ایکٹ، اسلحہ ایکٹ اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت چارج شیٹ کیا ہے۔ حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑ کر تشدد اور دہشت کے ذریعے ملک میں اسلامی حکمرانی قائم کرنے کی داعش کی سازش کو ناکام بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر این آئی اے اس معاملے میں اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی فوٹوپاس بنوانے کی فیس میں تخفیف ہو، رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی کا ایوان میں مطالبہ

Published

on

Abu-Asim-Azmi-

‎ مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں عوام کی سہولت کے لئے فوٹو پاس شناختی کارڈ بنوانے کی فیس میں تخفیف کا مطالبہ آج رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے کیا ہے۔ مانخورد شیواجی نگر علاقے میں جھونپڑیوں اور دکانوں کی منتقلی کی فیس کو کم کرنے، فوٹو پاس کے لیے کرایہ کلکٹر عملہ اور کالونی آفس میں تعینات کرنے اور 2000 تک کی رسید رکھنے والوں کو جلد فوٹو پاس جاری کرنے کے مطالبہ اعظمی نے کیا ہے, تاکہ علاقے کے مکینوں کو سہولت ملے اور حکومت کو محصول حاصل ہو سکے انہوں نے کہا کہ گھر کے فوٹو پاس کی فیس 40 ہزار اور دکان کی 60 ہزار روپے ہے جو غریبوں کے لئے کافی زیادہ ہے, اس لئے اس فیس کو کم کیا جائے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے عالمی یوم آبادی 2025 کے موقع پر آبادی سے متعلق خدشات اور غلط فہمیوں پر مبنی مباحثوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

Published

on

population

نئی دہلی : عالمی یوم آبادی 2025 کے موقع پر، این جی او پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستان میں آبادی کے بارے میں خوف اور غلط فہمیوں پر مبنی بحثوں کو ختم کرنے اور ایسی پالیسی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو خاص طور پر خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کے وقار، حقوق اور مواقع پر توجہ مرکوز کریں۔ غیر سرکاری تنظیم نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کی آبادی کے چیلنجز صرف تعداد کا مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق انصاف، مساوات اور انسانی وسائل میں سرمایہ کاری سے بھی ہے۔

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونم متریجا نے اس موقع پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ ہندوستان کی آبادی ایک بحران نہیں بلکہ ایک اہم موڑ ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں ‘زیادہ آبادی’ اور ‘آبادی میں کمی’ کے خوف سے آگے بڑھنے اور ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو واقعی اہم ہیں جیسے کہ صنفی مساوات، تولیدی حقوق کی آزادی، اور عوامی سرمایہ کاری۔

فاؤنڈیشن پالیسی سازوں پر زور دیتی ہے کہ وہ آبادی کے بارے میں خوف پر مبنی گفتگو کو ترک کریں اور اس کے بجائے دیکھ بھال پر مبنی نظام اور حقوق پر مبنی پالیسیاں اپنائیں۔ اگر ہم لوگوں، خاص طور پر خواتین، نوجوانوں اور بوڑھوں کو اپنی پالیسیوں کے مرکز میں رکھیں، تو آبادی کا رجحان بحران نہیں بلکہ ایک زیادہ منصفانہ اور بااختیار مستقبل کا راستہ بن سکتا ہے۔ این جی او نے کہا کہ ہندوستان کی آبادی کے چیلنج صرف تعداد کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ انصاف، مساوات اور انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کا معاملہ بھی ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ آبادی کا عالمی دن اس سال عالمی تھیم کے تحت منایا جا رہا ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ ایک منصفانہ اور پرامید دنیا میں اپنی پسند کا خاندان حاصل کر سکیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com