Connect with us
Monday,28-July-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

سنجے ہیگڑے اور سادھنا نے شاہین باغ خاتون مظاہرین کے موقف کو سپریم کورٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی کرائی

Published

on

2020_2$largeimg21_Feb_2020_202448503

قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کے موقف کو سپریم کورٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے کہا کہ آپ کے درد کو سمجھتے ہیں، اور سپریم کورٹ کے سامنے آپ کا مسئلہ کو اٹھائیں گے۔
انہوں نے شاہین باغ مظاہرین سے دل کا راستہ کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آپ راستہ کھولئے پھر دیکھئے کہ آپ کے لئے کتنے راستے کھلتے ہیں۔ انہوں نے اتفاق رائے سے مسئلہ کو حل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ چاہتا ہے کہ آپ کا احتجاج بھی جاری رہے اور راستہ بھی کھل جائے۔ سپریم کورٹ نے آپ کے حق کو تسلیم کیا ہے اس لئے آئین نے آپ کو اس کا حق آئین نے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کار نے مظاہرین کے سیکورٹی کے خدشے پر دہلی پولیس نے تحریری یقین دہانی کرانے کو کہا۔
مظاہرین نے تحفظ کی بات کرتے ہوئے کہاکہ جب بریکیڈ ہٹاکردو بار گولی چلانے والے آسکتے ہیں تو راستہ کھل جانے پر کوئی بھی آسکتا ہے تو مظاہرین کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس پر مذاکرات کار نے کہاکہ آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سب پر ہے۔ آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ انہوں نے دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا جو درد ہے اس کا درد ہے اور جو اس کا درد ہے وہ ہمارا درد ہے۔ ہمیں کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہئے۔
آج بھی مظاہرین کو تین بجے سے مذاکرات کار کے آنے کا انتظار تھا لیکن سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندر ن چھ شام کے بعد پہنچے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کی بار بار سڑک کھولنے کی اپیل اور سپریم کورٹ نے مذاکرات مقرر کرنے اور راستہ کھولنے کی عرضی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے والی خواتین محترمہ ثمینہ اور ملکہ خاں نے کہاکہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف سپریم کورٹ میں 144 سے زائد عرضی داخل ہیں، جب کہ روڈ کھلوانے کے سلسلے میں محض چھ عرضی داخل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح سپریم کورٹ نے ان چھ عرضیوں پر جلدی کارروائی کی ہے اور مذاکرات کار مقرر کئے ہیں اسی طرح 144 عرضیوں پر جلد سماعت کرے گی اور مذاکرات کار مقرر کرے۔
آج زیادہ ٹریفک کی وجہ سے 45 منٹ کے لئے سریتا وہار کالندی کنج راستہ کھولا گیا تھا۔
قبل ازیں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے مذاکرات کے عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک مظاہرہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کار چاہتے ہیں کہ ہم گروپ میں بات کریں یا کمیٹی تشکیل دیکر بات کریں لیکن مظاہرین اس کے حق میں نہیں ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی بات چیت ہو اوپن فرنٹ پر ہو اور اسٹیج پر ہو تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا بات چیت ہورہی ہے۔ اسی لئے مظاہرین میڈیا کی موجودگی کے حق میں ہیں اور مظاہرین نے میڈیا کو آنے دیا تھا۔ جب کہ مذاکرات کار میڈیا کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے دونوں دن انہوں نے میڈیا کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ شاہین باغ مظاہرہ کی خاص بات یہی ہے کہ اس کا کوئی لیڈر نہیں ہیں اور خواتین ہی سب کچھ سنبھال رہی ہیں اور مرد حضرات تعاون کرتے ہیں۔ اسٹیج کا سارا کام کاج خواتین ہی سنبھالتی ہیں۔ اس لئے کسی گروپ یا کمیٹی کے طور پر بات کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ صرف سڑک نہیں ہے بلکہ سڑک پر بیٹھی خواتین کا ہے۔ مذاکرات کار کو ہماری تکلیفوں کو سمجھنا ہوگا اور وہ سمجھ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نے صرف 150 میٹر سڑک پربند کیا ہے جب کہ ساری سڑکوں کو پولیس نے بند کیا ہے۔
مذاکرات کار کے بار بار بند سڑک کا نام لئے جانے اور اس سے ہونے والی تکلیفوں کا ذکر کرنے پر مظاہرین کا احساس ہے کہ پہلے ہماری تکلیف ہے۔ سڑک بند ہونے سے ہونے والی تکلیف ایک دو گھنٹے کی ہے لیکن اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیاگیا تو ہماری پوری نسل تکلیف میں آجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ نے راستہ کھلوانے کے لئے مذاکرات تو بھیجے لیکن ہمارے مسئلے کے حل کے لئے انتظامیہ کو کوئی حکم نہیں دیا۔ مظاہرین نے کہاکہ مذاکرات کار نے ہمارے درد کا احساس کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کو ہماری تکلیفوں، پریشانیوں اور ہمارے احساسات سے آگاہ کریں گے۔
مظاہرین میں شامل خواتین میں سے سماجی کارکن محترمہ ملکہ خاں، محترمہ ثمینہ، محترمہ اپاسنا، محترمہ نصرت آراء نے کہا کہ مسئلہ کا حل کئے بغیر ہم لوگ روڈ خالی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ روڈ پر بیٹھی ہیں تو اب تک انتظامیہ میں سے کوئی بھی ہماری بات سننے کے لئے نہیں آیا ہے تو روڈ خالی کر دینے اور مظاہرہ کو منتقل کر دینے سے پھر ہماری بات کون سنے گا۔ انہوں نے کہاکہ انتظامیہ کا ارادہ ہمیں تھکا دینے کا ہے تاکہ ہم تھک کر یہاں سے بھاگ جائیں۔ انہوں نے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم تھکنے والے نہیں ہیں اور اس وقت تک مظاہرہ جاری رکھیں گے جب تک اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیا جاتا۔
اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24 گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے جس میں اظہار یکجہتی کیلئے اہم لوگ آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ دقومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا تھا۔
خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ مظاہرین یہاں پر امن طریقے سے خواتین کا احتجاج جاری ہے مظاہرہ میں تنوع اور حکومت کی توجہ مبذول کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ نیا کر رہے ہیں اور پچاس سے زائد میٹر سیاہ کپڑا پر نو سی اے اے، نو این آر سی، نو این پی آر لکھ کر احتجاج کیا اور اسی کے ساتھ 11 میٹر سیاہ کپڑے کا آنچل بناکر بھی احتجاج کیا۔ اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر‘ سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ، بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک، بیری والا باغ، نظام الدین، جامع مسجد سمیت دیگر جگہ پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ چننئی میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور’اودن پور اور دیگر مقامات پر، اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندور میں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹادیا جاتا ہے۔ وہاں 19 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا اب ہزاروں میں ہیں۔ خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ، سہارنپور، مبارک پور، اعظم گڑھ، اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور وہاں دلت، قبائلی سمیت ہندوؤں کی بڑی تعداد مظاہرے اور احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔ ارریہ فاربس گنج کے دربھنگیہ ٹولہ عالم ٹولہ، جوگبنی میں خواتین مسلسل دھرنا دے رہی ہیں ایک دن کے لئے جگہ جگہ خواتین جمع ہوکر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔ کبیر پور بھاگلپور۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اس طرح یہ ملک کا تیسرا شاہین باغ ہے، دوسرا شاہین باغ خوریجی ہے۔ سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کھکڑیا کے مشکی پور میں، نرکٹیا گنج، مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی میں ململ اور دیگر جگہ، ارریہ کے مولوی ٹولہ، سیوان، چھپرہ، کھگڑیا میں مشکی پور، بہار شریف، جہاں آباد، گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، مغربی چمپارن، بیتیا، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی اور متعدد جگہ، بیگو سرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیار پور سب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔
شاہین باغ، دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، آرام پارک خوریجی، حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ دہلی،۔جامع مسجد دہلی، ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، رانی باغ سمری بختیار پور ضلع سہرسہ بہار، سبزی باغ پٹنہ، ہارون نگر، پٹنہ، شانتی باغ گیا بہار، مظفرپور، ارریہ سیمانچل بہار، بیگو سرائے بہار، پکڑی برواں نوادہ بہار، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج بہار، مگلا کھار، انصار نگر نوادہ بہار، مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، سمستی پور، تاج پور، سیوان، گوپال گنج، کلکٹریٹ بتیا، ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور، رفیع گنج، مہارشٹر میں دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی، پرمانی، آکولہ، سلوڑ، پوسد، کونڈوا، پونہ، ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں، جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے، شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کلکتہ‘ مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔ علی پور دوار، اسلامیہ میدان الہ آباد یوپی، روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی، محمد علی پارک چمن گنج کانپور یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان، کوٹہ، اودے پور، جودھپور، راجستھان، اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد گراونڈ اندور، مانک باغ اندور، اجین، دیواس، کھنڈوہ، مندسور، گجرات کے بڑودہ، احمد آباد، جوہاپورہ، بنگلورمیں بلال باغ، منگلور، شاہ گارڈن، میسور، پیربنگالی گرؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا، ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ، کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد، عادل آباد، آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم، اننت پور، سریکا کولم، کیرالہ میں کالی کٹ، ایرنا کولم، اویڈوکی، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر فتح آباد، فریدآباد، جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو، لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔

جرم

اسد الدین اویسی نے پولیس پر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے اور انہیں بنگلہ دیشی کہہ کر ملک بدر کرنے کا الزام لگایا۔

Published

on

Asaduddin-Owaisi

نئی دہلی : اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے پولیس پر ملک بھر میں بنگالی بولنے والے مسلم شہریوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے اور انہیں بنگلہ دیشی کا لیبل لگا کر ملک سے باہر پھینکنے کا الزام لگایا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم ایم پی نے بی جے پی کی مرکزی حکومت پر بھی الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کی غریب ترین برادریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ایسا کام کر رہی ہے جیسے وہ ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ اویسی نے ہفتہ کو ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ہندوستان کے کئی حصوں میں پولیس بنگالی بولنے والے مسلم شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن ہونے کا الزام لگا کر حراست میں لے رہی ہے۔ جن لوگوں پر الزام لگایا جا رہا ہے ان میں زیادہ تر غریب لوگ ہیں۔ وہ کچی آبادیوں میں رہنے والے، صفائی کے کارکن، چیتھڑے چننے والے ہیں۔ پولیس ان لوگوں کو اس لیے نشانہ بنا رہی ہے کہ وہ غریب ہیں اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ایسی اطلاعات ہیں کہ ہندوستانی شہریوں کو بندوق کی نوک پر بنگلہ دیش میں دھکیل دیا جا رہا ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم ایم پی نے ایکس پر گروگرام ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کی ایک کاپی بھی شیئر کی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بنگلہ دیشی شہریوں اور روہنگیا کو ملک بدر کرنے کے لیے ایس او پی کو لاگو کیا ہے۔ اویسی نے کہا کہ پولیس کو لوگوں کو صرف اس لیے گرفتار کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ ایک خاص زبان بولتے ہیں۔

اویسی کا یہ بیان پونے پولیس کے پیٹھ علاقے میں پانچ بنگلہ دیشی خواتین کو گرفتار کرنے کے بعد آیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ خواتین بغیر تصدیق شدہ دستاویزات کے بھارت میں رہ رہی تھیں اور جعلی شناختی کارڈ استعمال کر رہی تھیں۔ تفتیش کے دوران پولیس کو پتہ چلا کہ یہ خواتین بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر ہندوستان آئی تھیں اور جسم فروشی میں ملوث تھیں۔ پولیس نے انسانی سمگلنگ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ حکومت آسام میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلا رہی ہے۔ آسام حکومت کے وزیر اتل بورا نے کہا کہ قبائلی علاقوں کو مشکوک لوگوں سے بچانا بہت ضروری ہے۔ اس لیے حکومت تجاوزات ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ آسام بی جے پی نے منگل کو اس بات کا اعادہ کیا کہ بے دخلی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ تمام غیر قانونی طور پر قابض زمین کو خالی نہیں کر دیا جاتا۔

Continue Reading

سیاست

بہار اسمبلی انتخابات کے ساتھ آسام اور بنگال میں بھی انتخابات کو لے کر جوش و خروش ہے، کانگریس بمقابلہ بی جے پی… او بی سی کی لڑائی میں کیا ہے حکمت عملی؟

Published

on

Rahul-&-Modi

نئی دہلی : بہار اسمبلی انتخابات کو لے کر پٹنہ سے دہلی تک سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ بہار کے بعد نئے سال میں آسام اور مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی اور کانگریس او بی سی ووٹ بینک کو اپنے حق میں کرنے میں مصروف ہیں۔ او بی سی ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں کانگریس ذات کے سروے اور ریزرویشن جیسے سماجی انصاف کے مسائل پر زور دے رہی ہے، وہیں بی جے پی ہندوتوا، ترقی اور مائیکرو مینجمنٹ کے مرکب سے او بی سی ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں ایک بات طے ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، مقابلہ دلچسپ ہونے والا ہے۔

دیگر پسماندہ طبقے (او بی سی) ووٹروں نے ہمیشہ ملک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ ان کی بڑی آبادی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، خاص طور پر ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں۔ ، خاص طور پر بہار اور دیگر ریاستوں میں 2025 کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں او بی سی ووٹروں کا کردار اور بھی اہم ہونے والا ہے۔ بہار میں او بی سی اور انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) کی آبادی تقریباً 60 فیصد ہے۔ یہاں بی جے پی نے نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ساتھ اتحاد کر کے او بی سی ووٹوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی سے ہاتھ ملایا ہے۔ اپنی عددی طاقت کی وجہ سے او بی سی ووٹر یہاں کنگ میکر کی پوزیشن میں ہیں۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی ذات پات کی مردم شماری پر مسلسل زور دے رہے ہیں۔ کانگریس کی طرف سے او بی سی کو راغب کرنے کے لیے شراکتی انصاف کی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں 75 فیصد او بی سی ریزرویشن کی تجویز کو پاس کیا ہے۔ بہار انتخابات کو لے کر کانگریس کے اس اقدام کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی مدھیہ پردیش، راجستھان سے لے کر بہار تک او بی سی لیڈروں کو ترجیح دے رہی ہے۔ کانگریس نے انڈیا الائنس کے تحت سماج وادی پارٹی اور آر جے ڈی سے ہاتھ ملایا ہے۔ اس کے پیچھے کانگریس کی حکمت عملی او بی سی ووٹوں کو متحد رکھنا ہے۔ حال ہی میں، راہول گاندھی نے بھاگیداری نیا آندولن کی میٹنگ میں، قومی ذات کی مردم شماری کرانے، تحفظات پر 50 فیصد کی حد کو ہٹانے، اور نجی تعلیمی اداروں میں کوٹہ کے قوانین کو لاگو کرنے کے کانگریس کے عزم کو دہرایا۔ گاندھی نے الزام لگایا کہ او بی سی کو ان کی تاریخ جاننے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ وہ آر ایس ایس اور اس کی “منووادی” سیاست سے مظلوم تھے۔

بی جے پی اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں غیر یادو اور غیر بااثر او بی سی ذاتوں پر شرط لگا رہی ہے۔ ان میں راج بھر اور کرمی جیسی ذاتوں کے لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے روہنی کمیشن کو آئینی درجہ دیا ہے۔ اس سے او بی سی کی ذیلی درجہ بندی کو جنم دیا۔ اس سے چھوٹی او بی سی ذاتوں کو فائدہ ہوا۔ یہی نہیں بہار کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اپنے تین چوتھائی سے زیادہ امیدوار او بی سی، ای بی سی، ایس سی اور مہادلیت سے اتارے گی۔ رپورٹ کے مطابق یہ اس وقت ہو رہا ہے جب این ڈی اے نے انتخابی ریاست بہار کی ذات پات کی نقشہ سازی کی ہے۔ اس کے ساتھ ذاتوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس سے ریاست کی 243 اسمبلی سیٹوں کے لیے ہر ایک امیدوار کو میدان میں اتارا جائے گا۔ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی ایک زبردست مشق میں، بی جے پی نے اپنی اندرونی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے قومی لیڈروں کی نگرانی میں تمام اسمبلی سیٹوں کا سروے کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بی جے پی نے اپنے حلیفوں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہر سیٹ الاٹمنٹ سے ذاتوں کو حتمی شکل دی جائے گی اور امیدواروں کو بعد میں حتمی شکل دی جائے گی۔

مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے مرکزی یونیورسٹیوں میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے خالی ریزرو اسامیوں پر راہل گاندھی کے ریمارکس پر حملہ کیا۔ پردھان نے الزام لگایا کہ کانگریس قائدین ہمیشہ ’’جھوٹ کی سیاست‘‘ کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے راہل گاندھی نے مرکزی یونیورسٹیوں میں خالی ریزرو اسامیوں پر مودی حکومت پر حملہ بولا تھا۔ انہوں نے اسے صرف غفلت ہی نہیں بلکہ ’’بہوجنوں‘‘ کو تعلیم، تحقیق اور پالیسیوں سے دور رکھنے کی ’’منصوبہ بند سازش‘‘ قرار دیا۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ اس طرح کے تمام خالی عہدوں کو فوری طور پر بھرا جائے اور ‘بہوجنوں’ کو ان کے حقوق دیے جائیں نہ کہ ‘منووادی بائیکاٹ’۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عام لوگوں اور غریبوں کے خلاف سیاست کرنے والوں کے دل زہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ جن کے دلوں میں زہر ہے وہ زہر پورے ملک میں دیکھیں گے۔ خدا کانگریس کو عقل دے۔

Continue Reading

سیاست

بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے پی ایم مودی کو لے کر دیا بڑا بیان، 15-20 سال تک ابھی مودی ہی نظر آ رہے ہے… 75 سال پر ریٹائرمنٹ کی بحث

Published

on

Modi-&-Nishikant

نئی دہلی : بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل الیکشن کمیشن نے جس طرح ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کا عمل شروع کیا اس سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ اب اس معاملے پر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے تبصرہ کیا ہے۔ اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسمبلی الیکشن بہار کے ووٹروں کے ساتھ ہوگا یا بنگلہ دیش کے ووٹروں کے ساتھ؟ جو ہنگامہ جاری ہے کہ آدھار کارڈ ہونے کے باوجود لوگوں کو بھگایا جا رہا ہے، تو آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ ہم آپ سے شہریت کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی نشانہ بنایا۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ‘آج سب جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش بنا کر اندرا گاندھی کی غلطی کا خمیازہ بہار کے عوام کس طرح بھگت رہے ہیں۔’

اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے مزید کہا کہ اگر ہمیں بنگلہ دیش بنانا تھا تو ہندو بنگلہ دیش کو الگ اور مسلم بنگلہ دیش کو الگ بنانا چاہئے تھا۔ بنگلہ دیشیوں کے ہندوستان میں داخلے کے سوال پر نشی کانت دوبے نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش کے پورے سرحدی علاقے پر باڑ لگانا چاہتے ہیں۔ ممتا بنرجی کی حکومت ہمیں زمین نہیں دے رہی ہے کیونکہ زمین کا مسئلہ ریاستی حکومت کے تحت آتا ہے۔ وہ ہمیں 4 ہزار کلومیٹر میں سے 1500 کلومیٹر میں جگہ نہیں دے رہے۔ جس کی وجہ سے باڑ لگانے کا کام رک گیا ہے۔

نشی کانت دوبے نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے 75 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ پر تبصرہ کیا ہے۔بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ میں اگلے 15-20 سال تک صرف مودی کو دیکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر مودی جی ہمارے لیڈر نہیں ہیں تو بی جے پی 150 سیٹیں بھی نہیں جیت پائے گی۔ نریندر مودی کی قیادت میں 2029 کا الیکشن لڑنا بی جے پی کی مجبوری ہے۔ 75 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے چرچے پر نشی کانت دوبے نے کہا کہ مودی جی کو آج اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کو آج اس کی ضرورت ہے۔

‘اسے پیٹیں گے’ کے تبصرے پر، نشی کانت دوبے نے کہا کہ راج ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے کوئی بڑے باس نہیں ہیں۔ میں ایک ایم پی ہوں اور میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا۔ لیکن جب بھی وہ باہر جائیں گے، وہاں کی عوام، جس حالت میں بھی جائیں گے، انہیں بری طرح ماریں گے۔ جب آپریشن بلو سٹار ہوا تو برطانوی فوجی وہاں موجود تھے۔ اس ٹویٹ پر بی جے پی ایم پی نے کہا کہ جب آپریشن بلو اسٹار ہوا تو برطانوی دفاعی افسران امرتسر میں موجود تھے۔ ہم اپنے ملک کے شہریوں کو مارنے کے لیے غیر ملکیوں کی مدد لیں گے۔ پارلیمنٹ میں ایک قریبی دوست کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اسد الدین اویسی کا نام لیا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com