Connect with us
Saturday,04-October-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

سنجے ہیگڑے اور سادھنا نے شاہین باغ خاتون مظاہرین کے موقف کو سپریم کورٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی کرائی

Published

on

2020_2$largeimg21_Feb_2020_202448503

قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کے موقف کو سپریم کورٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے کہا کہ آپ کے درد کو سمجھتے ہیں، اور سپریم کورٹ کے سامنے آپ کا مسئلہ کو اٹھائیں گے۔
انہوں نے شاہین باغ مظاہرین سے دل کا راستہ کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آپ راستہ کھولئے پھر دیکھئے کہ آپ کے لئے کتنے راستے کھلتے ہیں۔ انہوں نے اتفاق رائے سے مسئلہ کو حل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ چاہتا ہے کہ آپ کا احتجاج بھی جاری رہے اور راستہ بھی کھل جائے۔ سپریم کورٹ نے آپ کے حق کو تسلیم کیا ہے اس لئے آئین نے آپ کو اس کا حق آئین نے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کار نے مظاہرین کے سیکورٹی کے خدشے پر دہلی پولیس نے تحریری یقین دہانی کرانے کو کہا۔
مظاہرین نے تحفظ کی بات کرتے ہوئے کہاکہ جب بریکیڈ ہٹاکردو بار گولی چلانے والے آسکتے ہیں تو راستہ کھل جانے پر کوئی بھی آسکتا ہے تو مظاہرین کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس پر مذاکرات کار نے کہاکہ آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سب پر ہے۔ آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ انہوں نے دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا جو درد ہے اس کا درد ہے اور جو اس کا درد ہے وہ ہمارا درد ہے۔ ہمیں کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہئے۔
آج بھی مظاہرین کو تین بجے سے مذاکرات کار کے آنے کا انتظار تھا لیکن سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندر ن چھ شام کے بعد پہنچے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کی بار بار سڑک کھولنے کی اپیل اور سپریم کورٹ نے مذاکرات مقرر کرنے اور راستہ کھولنے کی عرضی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے والی خواتین محترمہ ثمینہ اور ملکہ خاں نے کہاکہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف سپریم کورٹ میں 144 سے زائد عرضی داخل ہیں، جب کہ روڈ کھلوانے کے سلسلے میں محض چھ عرضی داخل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح سپریم کورٹ نے ان چھ عرضیوں پر جلدی کارروائی کی ہے اور مذاکرات کار مقرر کئے ہیں اسی طرح 144 عرضیوں پر جلد سماعت کرے گی اور مذاکرات کار مقرر کرے۔
آج زیادہ ٹریفک کی وجہ سے 45 منٹ کے لئے سریتا وہار کالندی کنج راستہ کھولا گیا تھا۔
قبل ازیں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے مذاکرات کے عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک مظاہرہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کار چاہتے ہیں کہ ہم گروپ میں بات کریں یا کمیٹی تشکیل دیکر بات کریں لیکن مظاہرین اس کے حق میں نہیں ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی بات چیت ہو اوپن فرنٹ پر ہو اور اسٹیج پر ہو تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا بات چیت ہورہی ہے۔ اسی لئے مظاہرین میڈیا کی موجودگی کے حق میں ہیں اور مظاہرین نے میڈیا کو آنے دیا تھا۔ جب کہ مذاکرات کار میڈیا کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے دونوں دن انہوں نے میڈیا کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ شاہین باغ مظاہرہ کی خاص بات یہی ہے کہ اس کا کوئی لیڈر نہیں ہیں اور خواتین ہی سب کچھ سنبھال رہی ہیں اور مرد حضرات تعاون کرتے ہیں۔ اسٹیج کا سارا کام کاج خواتین ہی سنبھالتی ہیں۔ اس لئے کسی گروپ یا کمیٹی کے طور پر بات کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ صرف سڑک نہیں ہے بلکہ سڑک پر بیٹھی خواتین کا ہے۔ مذاکرات کار کو ہماری تکلیفوں کو سمجھنا ہوگا اور وہ سمجھ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نے صرف 150 میٹر سڑک پربند کیا ہے جب کہ ساری سڑکوں کو پولیس نے بند کیا ہے۔
مذاکرات کار کے بار بار بند سڑک کا نام لئے جانے اور اس سے ہونے والی تکلیفوں کا ذکر کرنے پر مظاہرین کا احساس ہے کہ پہلے ہماری تکلیف ہے۔ سڑک بند ہونے سے ہونے والی تکلیف ایک دو گھنٹے کی ہے لیکن اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیاگیا تو ہماری پوری نسل تکلیف میں آجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ نے راستہ کھلوانے کے لئے مذاکرات تو بھیجے لیکن ہمارے مسئلے کے حل کے لئے انتظامیہ کو کوئی حکم نہیں دیا۔ مظاہرین نے کہاکہ مذاکرات کار نے ہمارے درد کا احساس کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کو ہماری تکلیفوں، پریشانیوں اور ہمارے احساسات سے آگاہ کریں گے۔
مظاہرین میں شامل خواتین میں سے سماجی کارکن محترمہ ملکہ خاں، محترمہ ثمینہ، محترمہ اپاسنا، محترمہ نصرت آراء نے کہا کہ مسئلہ کا حل کئے بغیر ہم لوگ روڈ خالی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ روڈ پر بیٹھی ہیں تو اب تک انتظامیہ میں سے کوئی بھی ہماری بات سننے کے لئے نہیں آیا ہے تو روڈ خالی کر دینے اور مظاہرہ کو منتقل کر دینے سے پھر ہماری بات کون سنے گا۔ انہوں نے کہاکہ انتظامیہ کا ارادہ ہمیں تھکا دینے کا ہے تاکہ ہم تھک کر یہاں سے بھاگ جائیں۔ انہوں نے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم تھکنے والے نہیں ہیں اور اس وقت تک مظاہرہ جاری رکھیں گے جب تک اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیا جاتا۔
اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24 گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے جس میں اظہار یکجہتی کیلئے اہم لوگ آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ دقومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا تھا۔
خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ مظاہرین یہاں پر امن طریقے سے خواتین کا احتجاج جاری ہے مظاہرہ میں تنوع اور حکومت کی توجہ مبذول کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ نیا کر رہے ہیں اور پچاس سے زائد میٹر سیاہ کپڑا پر نو سی اے اے، نو این آر سی، نو این پی آر لکھ کر احتجاج کیا اور اسی کے ساتھ 11 میٹر سیاہ کپڑے کا آنچل بناکر بھی احتجاج کیا۔ اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر‘ سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ، بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک، بیری والا باغ، نظام الدین، جامع مسجد سمیت دیگر جگہ پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ چننئی میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور’اودن پور اور دیگر مقامات پر، اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندور میں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹادیا جاتا ہے۔ وہاں 19 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا اب ہزاروں میں ہیں۔ خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ، سہارنپور، مبارک پور، اعظم گڑھ، اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور وہاں دلت، قبائلی سمیت ہندوؤں کی بڑی تعداد مظاہرے اور احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔ ارریہ فاربس گنج کے دربھنگیہ ٹولہ عالم ٹولہ، جوگبنی میں خواتین مسلسل دھرنا دے رہی ہیں ایک دن کے لئے جگہ جگہ خواتین جمع ہوکر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔ کبیر پور بھاگلپور۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اس طرح یہ ملک کا تیسرا شاہین باغ ہے، دوسرا شاہین باغ خوریجی ہے۔ سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کھکڑیا کے مشکی پور میں، نرکٹیا گنج، مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی میں ململ اور دیگر جگہ، ارریہ کے مولوی ٹولہ، سیوان، چھپرہ، کھگڑیا میں مشکی پور، بہار شریف، جہاں آباد، گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، مغربی چمپارن، بیتیا، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی اور متعدد جگہ، بیگو سرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیار پور سب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔
شاہین باغ، دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، آرام پارک خوریجی، حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ دہلی،۔جامع مسجد دہلی، ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، رانی باغ سمری بختیار پور ضلع سہرسہ بہار، سبزی باغ پٹنہ، ہارون نگر، پٹنہ، شانتی باغ گیا بہار، مظفرپور، ارریہ سیمانچل بہار، بیگو سرائے بہار، پکڑی برواں نوادہ بہار، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج بہار، مگلا کھار، انصار نگر نوادہ بہار، مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، سمستی پور، تاج پور، سیوان، گوپال گنج، کلکٹریٹ بتیا، ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور، رفیع گنج، مہارشٹر میں دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی، پرمانی، آکولہ، سلوڑ، پوسد، کونڈوا، پونہ، ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں، جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے، شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کلکتہ‘ مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔ علی پور دوار، اسلامیہ میدان الہ آباد یوپی، روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی، محمد علی پارک چمن گنج کانپور یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان، کوٹہ، اودے پور، جودھپور، راجستھان، اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد گراونڈ اندور، مانک باغ اندور، اجین، دیواس، کھنڈوہ، مندسور، گجرات کے بڑودہ، احمد آباد، جوہاپورہ، بنگلورمیں بلال باغ، منگلور، شاہ گارڈن، میسور، پیربنگالی گرؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا، ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ، کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد، عادل آباد، آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم، اننت پور، سریکا کولم، کیرالہ میں کالی کٹ، ایرنا کولم، اویڈوکی، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر فتح آباد، فریدآباد، جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو، لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔

(جنرل (عام

آر ایس ایس کے ارکان پر سرکاری اسکول میں بغیر پیشگی اجازت کے پوجا اور اسپیشل برانچ کی تربیت کا اہتمام کرنے کا الزام۔

Published

on

RSS

چنئی : تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں پولیس نے جمعرات کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے 39 کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ یہ واقعہ چنئی کے پورور علاقے میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ان کارکنوں پر سرکاری اسکول میں بغیر اجازت پوجا اور خصوصی ‘شاکھا’ ٹریننگ کا اہتمام کرنے کا الزام ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب آر ایس ایس نے 2 اکتوبر کو اپنے قیام کے 100 سال مکمل کر لیے ہیں۔ دریں اثناء بی جے پی لیڈر تملائی ساؤنڈرا راجن نے چنئی پولیس کے ذریعہ آر ایس ایس کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے کیونکہ یہ ایک مبارک دن ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق، 39 آر ایس ایس ارکان کو پورور، چنئی کے قریب، بغیر پیشگی اجازت کے ایاپنتھنگل گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں گرو پوجا اور اسپیشل برانچ کا تربیتی سیشن کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ یہ تقریب آر ایس ایس کی صد سالہ اور بھارتیہ جن سنگھ کے بانی دین دیال اپادھیائے کی یوم پیدائش کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ عہدیداروں نے الزام لگایا کہ سرکاری اسکول کے احاطے میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ کوئی سرکاری اجازت نہیں لی گئی تھی۔ شرکاء کو حراست میں لے کر سرکاری بسوں میں قریبی کمیونٹی ہال لے جایا گیا۔ کیڈٹس کے خلاف بنیادی الزام یہ تھا کہ وہ اسکول کے احاطے میں آر ایس ایس کی وردی پہنے ہوئے تھے۔

بی جے پی لیڈر تمل سائوندرراجن نے آر ایس ایس کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے آر ایس ایس کے کارکنوں کو وجے دشمی کے موقع پر گرفتار کیا، جو کہ آر ایس ایس کی صد سالہ یوم تاسیس ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہ ایک مبارک دن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تقریباً 50-60 کارکن ایک کھیت میں پوجا کر رہے تھے جب پولیس نے انہیں اچانک گرفتار کر لیا۔ دریں اثنا، مافیا سڑکوں پر آزاد گھوم رہے ہیں اور تمل ناڈو میں قتل ہو رہے ہیں، اس کے باوجود پولیس نے آر ایس ایس کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی۔

انہوں نے کہا کہ ڈی ایم کے حکومت تمل ناڈو میں سماج دشمن اور علیحدگی پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ انہیں ان عناصر پر سختی سے قابو پانا چاہیے۔ تاہم، جب آر ایس ایس کا مارچ ہوتا ہے تو پولیس فوراً حملہ کر کے انہیں گرفتار کر لیتی ہے۔ تملائی ساؤنڈرراجن نے اس کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شرکاء پرامن طریقے سے تربیت اور نماز میں مصروف تھے۔ اس نے دلیل دی کہ ریاستی حکومت زیادہ سنگین جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر منصفانہ طور پر آر ایس ایس کے ارکان کو نشانہ بنا رہی ہے۔

درحقیقت، 2 اکتوبر کو آر ایس ایس کے قیام کی 100 ویں سالگرہ منائی گئی۔ یہ مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش بھی تھا۔ مرکزی حکومت نے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریب کے موقع پر یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکے جاری کیے، یہ اقدام تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے۔ اسٹالن نے سخت تنقید کی۔ اسٹالن نے آر ایس ایس کی صد سالہ اور مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش کے درمیان تضاد کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی تحریک کی صد سالہ پر، جس نے ہمارے بابائے قوم کو قتل کرنے والے جنونی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا، ہمیں ہندوستان کو اس قابل رحم صورتحال سے بچانا چاہیے جہاں ملک کی قیادت یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکے جاری کرتی ہے! یہ ایک عہد ہے جو ملک کے تمام شہریوں کو گاندھی کے یوم پیدائش پر لینا چاہیے! انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ہندوستان، تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے ایک سیکولر ملک ہے، جس کی بنیاد عظیم گاندھی کے بتائے گئے بنیادی اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ جب بھی لوگوں میں نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں اور تفرقہ ڈالنے والی قوتیں ابھرتی ہیں، اس کی طاقت ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی رہتی ہے۔ سٹالن نے ملک کی سیکولر اقدار پر زور دیا۔

Continue Reading

جرم

کیرالہ ویلفیئر کارپوریشن کے چیئرمین کٹامانی رشوت خوری کے الزام میں گرفتار

Published

on

kerla

تھریسور، یکم اکتوبر : ویجیلنس اور انسداد بدعنوانی بیورو نے بدھ کو کے این کو گرفتار کیا۔ ریاست کے زیر انتظام کلے پاٹری مینوفیکچرنگ، مارکیٹنگ اور ویلفیئر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے چیئرمین کٹامانی پر پھولوں کے برتنوں کی فراہمی کے لیے سرکاری ٹینڈر کے سلسلے میں رشوت لینے کے الزام میں۔ حکام کے مطابق کٹامانی کو چٹیسری میں برتن بنانے والوں سے 10,000 روپے وصول کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا جو کہ پھولوں کے برتنوں کی فراہمی سے منسلک رشوت کے مطالبے کے تحت تھا۔ ویجیلنس ٹیم نے اسے نارتھ اسٹینڈ، تھریسور میں واقع ایک کافی ہاؤس میں اس وقت روکا جب رقم دی جارہی تھی۔ ویلنچری میں ایگریکلچر آفس کے ذریعے ہینڈل کیا گیا ٹینڈر 95 روپے فی برتن کے حساب سے دیا گیا تھا۔ تاہم، ابتدائی بات چیت کے باوجود، کارپوریشن مبینہ طور پر سپلائی کے طریقہ کار کے ساتھ آگے بڑھنے میں ناکام رہی۔

جب ایگریکلچر آفس میں انکوائری کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ 100 سے بھی کم گملے کسی دوسرے گروپ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے، جس سے اس عمل پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ان بے ضابطگیوں کے درمیان، چٹیسری میں مقیم کمہاروں کو اچانک برتنوں کی فراہمی کا آرڈر دیا گیا۔ کٹامانی نے مبینہ طور پر مزید احکامات کو یقینی بنانے کے عوض 3 روپے فی برتن کی رشوت طلب کی۔ ابتدائی طور پر، کہا جاتا ہے کہ اس نے پیشگی ادائیگی کے طور پر 25,000 روپے مانگے تھے، بعد میں اس نے مطالبہ کو کم کر کے 10,000 روپے کر دیا۔ مقامی کمہاروں سے یہ رقم وصول کرنے کے دوران ہی ویجیلنس افسران نے جھپٹ کر اسے گرفتار کر لیا۔ کمہاروں نے پہلے کٹمنی کے بار بار مطالبات کے بعد باضابطہ شکایت کے ساتھ ویجیلنس سے رجوع کیا تھا۔ شکایت کنندہ نے کہا، “اس نے ہر برتن کے لیے 3 روپے مانگے جیسا کہ دوسرے سپلائرز نے کیا تھا۔” یہ مقدمہ حکومت کی حمایت یافتہ ایک فلاحی کارپوریشن میں مبینہ بدعنوانی کو نمایاں کرتا ہے جسے مٹی کے برتنوں کے روایتی شعبے کو فروغ دینے کا کام سونپا گیا ہے۔ ویجیلنس بیورو نے اس سودے سے جڑے دیگر افراد کے کردار کے بارے میں مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ کٹامانی، جو سی آئی ٹی یو (سی پی آئی-ایم کی ٹریڈ یونین ونگ) میں ریاستی کمیٹی کے رکن کا عہدہ بھی رکھتے ہیں، کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

Continue Reading

سیاست

بریلی میں مسلم علما کا ایک منصوبہ بند دھرنا… ‘میں محمد سے پیار کرتا ہوں’ کے نعروں پر احتجاج کے بعد سخت سیکورٹی کے درمیان واپس آ گیا

Published

on

police2

بریلی، 27 ستمبر : اتر پردیش میں مسلم علما کی طرف سے ایک منصوبہ بند دھرنا کل نماز جمعہ کے بعد تشدد کی شکل اختیار کر گیا، لیکن ہفتہ کو شہر میں زیادہ پرامن ماحول دیکھنے میں آیا۔ بدامنی کے بعد، معمول کی بحالی کے لیے شہری اور حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ احتجاج پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ توہین آمیز کلمات کے جواب میں منعقد کیا گیا تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد، ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا، جس میں بہت سے پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا “میں محمد سے محبت کرتا ہوں”۔

کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب مظاہرین نے مبینہ طور پر پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ جواب میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے بھیڑ کو منتشر کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلامیہ گراؤنڈ کے قریب ایک ہزار سے زائد مظاہرین جمع ہوئے، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور پولیس لائنز پر حملہ کیا۔ تصادم کے نتیجے میں کم از کم 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور تقریباً 50 شرکاء کو حراست میں لے لیا گیا۔

“مجھے محمد سے پیار ہے” کا نعرہ پہلی بار 4 ستمبر کو کانپور میں ایک جلوس کے دوران نمودار ہوا، جس نے متعدد ریاستوں میں احتجاج کو جنم دیا۔ بریلی میں، عالم دین مولانا توقیر رضا نے اسلامیہ گراؤنڈ میں دھرنے کی کال دی تھی، جس سے حکام کو گڑبڑ کو روکنے کے لیے جمعہ سے پہلے فلیگ مارچ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ جمعہ کے تشدد کے برعکس بریلی میں آج کا ماحول کافی حد تک پرسکون رہا۔ میونسپل کارپوریشن نے سڑکوں سے ملبہ ہٹانے کے لیے صفائی مہم شروع کر دی ہے۔

احتجاج کے دوران ضائع کر دیے گئے اشیا، جیسے سینڈل اور دیگر سامان جو بدقماش عناصر نے پیچھے چھوڑ دیا تھا، کو اکٹھا کر کے ہٹا دیا گیا۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر مولانا توقیر کی رہائش گاہ کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس اہلکار تعینات ہیں، نگرانی سخت اور نقل و حرکت پر نظر رکھی گئی ہے۔

بریلی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی عوامی مقامات پر مذہبی اظہار پر وسیع تر کشیدگی کی عکاسی کرتی ہے۔ ہنگامہ کے درمیان اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے آزادی اظہار کو دبانے پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا، ”لوگوں کو پیغمبر اسلام سے محبت کا اظہار کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟” انہوں نے اس نعرے کا دفاع کیا کہ “صرف اظہار رائے کی آزادی ہے۔”

حکام نے پہلے ہی ضلع کو دفعہ 163 کے تحت لگا کر ممکنہ بدامنی کے لیے تیار کیا تھا، جو سرکاری اجازت کے بغیر احتجاج پر پابندی لگاتا ہے۔ اس کے باوجود، احتجاج آگے بڑھا، چند گھنٹوں میں ہی غیر مستحکم ہو گیا۔ بریلی کے عہدیداروں کو اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے ساتھ اظہار رائے کے حقوق میں توازن پیدا کرنے کے دوہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ تناؤ زیادہ ہونے اور جذبات کے خام ہونے کے ساتھ، آنے والے دنوں میں مزید بیانات یا جوابی احتجاج ہو سکتے ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com