Connect with us
Thursday,25-December-2025

جرم

شرجیل امام : میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں

Published

on

جنوری کی پانچ تاریخ کو جے این یو میں نقاب پوش بدمعاشوں کے ذریعہ تشدد اور دہلی پولس کی شرمناک خاموشی سے ناراض ممبئی اور مہاراشٹر کے نوجوانوں اور طلبہ نے اسی رات گیٹ وے پر جمع ہونے کی اپیل کی وہ جے این یو کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے۔ اسی احتجاج میں ایک لڑکی جس کا نام مہک پربھو تھا فری کشمیر کا پوسٹر اٹھائے ہوئے نظر آئی۔ یہ کسی کو نظر آئے یا نہیں آئے مگر بی جے پی کیلئے یہ موقعہ غنیمت تھا چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ اس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوئی اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور تفتیش شروع ہوگئی مگر اس سے پہلے ہی اس لڑکی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ اس کے پیچھے اس کا مقصد کشمیر میں عوام کو ہورہی دشواری پر احتجاج کرنا تھا جسے سب نے تسلیم کرلیا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ شرجیل امام پر ملک سے غداری کے مقدمہ کے بعد گرفتاری کا ہے۔ واضح ہو کہ اس نوجوان نے علی گڑھ میں احتجاج کے دوران یہ کہا تھا کہ احتجاج کو موثر بنانے کیلئے ہمیں پورے ملک میں چکہ جام جیسی صورتحال پیدا کرنی ہوگی جس میں اس نے شمال مشرق کی ریاست کو باقی ہندوستان سے کاٹ دینے یعنی رابطہ ایک لمبے عرصہ تک منقطع کرنے کی بات کی تھی تاکہ حکومت مجبور ہو کر مسلمانوں کی بات سنے۔ اس تقریر میں جو کاٹ دینے کی بات تھی اس کو علیحدگی پسندی سے تعبیر دی گئی اور اس کی یا اس کے والدین کی جانب سے دی گئی وضاحت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ وجہ بالکل صاف ہے کہ فری کشمیر کا پوسٹر اٹھانے والی ہندو لڑکی تھی اس لئے وہ قابل معافی ہے یا قابل گرفت نہیں ہے مگر شرجیل امام ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہے اس لئے اس کی جانب سے کسی وضاحت کو تسلیم نہیں کرنے کا رجحان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہے۔اس کے ثبوت کے طور پرکشمیر کے معاملہ میں جواہر لال نہرو کی حکومت میں ہی شیخ عبد اللہ کی گرفتاری کوپیش کیا جاسکتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ شرجیل امام کی حمایت میں آزاد میدان میں نعرہ لگانے والوں پر ایف آئی آر ہوجاتی ہے اور اس میں شامل ایک طالبہ کی گرفتاری کیخلاف پولس کوشاں ہوجاتی ہے مگر وہ نظروں سے بچ کر ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
کچھ دن قبل شرجیل امام کی حمایت میں کچھ نوجوانوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا جس میں شرجیل سے اظہار یکجہتی اور اس کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ اس میں ایک ٹوئٹر پر شرجیل کی ایک تصویر نظر آئی جس میں وہ ایک پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے جس پر ہاتھ سے انگریزی میں ایک تحریرہے جس کا اردوترجمہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘ہے۔ بہت مختصر جملہ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں جامع ہے۔ یہ آج کے ہر مسلم نوجوان کی آواز ہے۔ خواہ کسی سازش کے تحت اسے کچھ بھی سمجھ لیا جائے۔ شرجیل کا شمال مشرق کی ریاستوں کو بقیہ ہندوستان سے کاٹ دینے کا مطلب مہک پربھو کے فری کشمیر سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ شرجیل امام ایک آمادہ زوال قوم کا نوجوان ہے جو قوم کے حالات سے رنجیدہ ہے۔ وہ جسقدر ہندوانتہا پسندوں سے نالاں ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نام نہاد سیکولر لبرل طبقہ سے بے اعتمادی کا اظہار کرتاہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے اسی تقریر میں یہ کہا کہ یہ لوگ اپنی مارکیٹنگ کریں گے اور چلے جائیں گے ۔ ہمیں اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی۔ اجیت ساہی بھی نام نہاد سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں مسلمان، مسلمان بن کر ہی رہے گا یہی اس کی پہچان ہے‘۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کا زور اس بات پر ہے کہ مسلمان اس ملک کی تہذیب و ثقافت میں اپنی پہچان ختم کرلیں۔ اسی لئے ششی تھرور کو موجودہ احتجاج میں مسلم شناخت اور اسلامی نعرے شدت پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی نظر آتے ہیں۔
ہمیں شرجیل امام کے معاملہ میں سیکولر اور لبرل طبقہ سے شکایت ہے کہ اس نے شرجیل کو تنہا چھوڑ دیا۔ مگر ہم نے کون سا اس کا ساتھ دیا؟ ہم نے آخر کیوں اس کا ساتھ نہیں دیا؟ اس کے پیچھے محض خوف کی نفسیات اور مجرم ضمیری کے سوا کیا ہے کہ اگر ہم نے اس کی حمایت میں کچھ بولا تو ملک کے غدار ٹھہرائے جائیں گے اور مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آخر آپ کب تک خود کو مشکلات سے بچا پائیں گے؟ جب تک آپ پورے طور سے یہاں کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہو کر اپنی شناخت ختم نہ کرلیں۔ شرجیل امام کا مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا وہ بیدار مسلم نوجوان ہے جو اپنی شناخت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا اور چاہتا ہے کہ اس کی قوم بھی ایک غیور قوم کی طرح ہندوستان میں سر اٹھاکے رہے۔ شرجیل کے سامنے اس کے قوم کی شاندار روایتیں ہیں جسے قوم اور قوم کے جبہ و دستار سے سجی قیادت بھلا چکی ہے۔ شرجیل کے سامنے اسلام کی وہ اعلیٰ و ارفع تعلیمات ہیں جو حقوق انسانی کی پوری ضمانت دیتا ہے۔ وہ اس اسلام کو مانتا ہے جس نے موجودہ دنیا کو حقوق انسانی اور انسانی قدریں کیا ہوتی ہیں اس سے روسناش کرایا جبکہ شرجیل امام پر تنقید کرنے والے افراد کا یہ نظریہ کمزور ہو چکاہے۔
ہمیں سازشوں کی باتیں اتنی بتائی گئی ہیں کہ ہم زمینی حقائق اور فطری جذبہ کو بھی دشمن کی سازش قرار دینے لگے ہیں۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ شرجیل امام کا موجودہ تحریک کے دوران اس قسم کی تقریر کرنا دراصل ایک سازش ہے اور اسے دشمن نے ہمارے درمیان پلانٹ کیا ہے۔ یقین جانئے یہ صرف خوف کی انتہا ہے جس کا اظہار ہماری زبان سے اس انداز سے ہوتا ہے۔ شرجیل کا یہ جملہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘وضاحت کیلئے کافی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر کے سوا کیا کیا۔اس کے صبر کی انتہا تو سپریم کورٹ کے ذریعہ اس کی مسجد کو مندر کے حوالہ کرنے کے فیصلہ پر اشتعال میں نہیں آنا ہے ۔مگر جب اس کی شہریت کو ختم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو وہ بے چین ہوگیا۔ دنیا میں کون ہے جو بے زمین ہونے کی کیفیت کا احساس کرکے بے چین نہیں ہوگا۔ حکومت کے اس منصوبہ کیخلاف بھی مسلمانوں کو ہی میدان میں آنا پڑا اور پھر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کے گھر کی زینت اور صنف نازک کو بھی باہر آکر موسم کی سختی اور متعصب دنیا کی بدزبانی کو سہنا پڑا۔ اس سے ہمدردی اور بڑی بڑی باتیں تو بہت کی گئیں مگر میدان میں صرف مسلمانوں کو ہی نکلنا پڑا اور بیس سے زیادہ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ آج بھی حالات یہ ہے کہ میدان میں وہی نظر آرہا ہے۔ ٹھیک ہی کہا تھا شرجیل نے کہ مسلمانوں کو ان کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔شرجیل امام کے تعلق سے ابھی مزید کئی باتیں عرض کرنا باقی ہیں جو آئندہ کسی مضمون میں پیش کی جائے گی۔ یہاں سیکولر اور لبرل طبقہ کی ایک مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بہار کے سید شہاب الدین برسوں سے جیل میں ہیں تقریبا دو سال قبل انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو پرشانت بھوشن جو کہ ایک سیکولر شخص مانے جاتے ہیں نے سپریم کورٹ میں مداخلت کرکے سید شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کرواکر انہیں دوبارہ جیل بھجوادیا۔ مگر یہی پرشانت بھوشن اس وقت خاموش رہے جب دہشت گردی کے بدترین الزام کے باوجود سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت مل جاتی ہےاور وہ رہا بھی ہوجاتی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ سیکولر یا روادار طبقہ کو ساتھ نہ لیا جائے یا ان کے ساتھ نہ جایا جائے۔ صرف اتنا کیا جائے کہ ان پر پوری طرح سےتکیہ نہ کیا جائے، ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہے اور اسی تناظر میں لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور پالیسی بنائی جائے۔ ایک صدی قبل خلافت تحریک کو گاندھی جی کے کاندھوں پر ڈال کر جو نقصان ہم کو ہو چکا ہے اس کا اعادہ نہ ہو۔

(جنرل (عام

سرکاری ملازم نے جاب-لینڈ فراڈ کیس میں جموں و کشمیر کے آفیشل کے جعلی دستخط کیے : پولیس نے چارج شیٹ داخل کی

Published

on

سری نگر، جموں و کشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے جعلی ملازمت زمین فراڈ کیس میں ملزم کے خلاف چارج شیٹ دائر کی ہے جس میں ایک سرکاری ملازم نے اعلیٰ حکام کے جعلی دستخطوں کو شامل کیا تھا۔ کرائم برانچ کشمیر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دھوکہ دہی اور معاشی جرائم کے خلاف ایک اہم پیش رفت میں، کرائم برانچ کشمیر کے اقتصادی جرائم ونگ (ای او ڈبلیو) نے ایک ہائی پروفائل جعلی نوکریوں اور زمین کی الاٹمنٹ اسکینڈل میں ایک چارج شیٹ داخل کی ہے، جس میں اس بات کا پردہ فاش کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک سرکاری ملازم نے مبینہ طور پر بے روزگار نوجوانوں اور غریب خاندانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہے۔ مہریں اور دستخط۔ "کرائم برانچ کشمیر کے اقتصادی جرائم ونگ (ای او ڈبلیو) نے ایف آئی آر نمبر 54/2023 میں دفعہ 419، 420، 467، 468 اور 471 آئی پی سی کے تحت چوتھی ایڈیشنل منصف جج، سری نگر کی معزز عدالت کے سامنے ایک چارج شیٹ جمع کرائی ہے۔ رحمت اللہ کالونی، سیکٹر بی، فروٹ منڈی، پاریم پورہ، سری نگر کا رہائشی۔ یہ مقدمہ ایک شکایت سے شروع ہوا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ملزم، ڈپٹی کمشنر سری نگر کے دفتر میں تعینات درجہ چہارم کا ملازم ہے، جس نے دکانوں اور پلاٹوں کے جعلی الاٹمنٹ آرڈر جاری کرکے سنگین مجرمانہ بدکاری کی ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان جعلی احکامات پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سری نگر کے من گھڑت دستخط تھے اور اس پر ضلع مجسٹریٹ سری نگر کی جعلی مہر لگی ہوئی تھی۔ شکایت موصول ہونے پر ای او ڈبلیو کشمیر کی طرف سے تفصیلی جانچ شروع کی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزمان نے جہانگیر چوک میں دکانیں، بمنہ میں 5 مرلہ پلاٹ اور مختلف سرکاری محکموں میں جونیئر اسسٹنٹ کی آسامیوں پر تقرری کے احکامات کے جھوٹے بہانے کئی بے گناہ غریب افراد اور بے روزگار نوجوانوں سے لاکھوں روپے ہڑپ کئے۔ جعلی الاٹمنٹ آرڈرز اور جعلی دستخطوں والی دستاویزات متاثرین کو فراہم کی گئیں تاکہ فراڈ کو اصلی ظاہر کیا جا سکے۔ مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ ملزمہ نے دفتری اوقات کے بعد اپنی ذاتی حیثیت میں کام کیا، جس میں ڈپٹی کمشنر آفس، سری نگر میونسپل کارپوریشن، اور ڈویژنل کمشنر آفس، کشمیر سمیت مختلف محکموں کے اعلیٰ سرکاری افسران کی نقالی کی گئی۔ "تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ فوزیہ افضل ایک عادی مجرم ہے، جو ضلع سری نگر کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج متعدد ایف آئی آرز میں ملوث ہے، جس میں ای او ڈبلیو کرائم برانچ کشمیر میں کئی دیگر شکایات زیر تفتیش ہیں۔ اسے پہلے ہی معطل کیا جا چکا ہے، اور ایک محکمانہ انکوائری نے اس کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی سفارش کی ہے۔ 14، 2023۔ فوری کیس میں تحقیقات کو ‘ثابت’ کے طور پر انجام دیا گیا ہے، اور عدالت میں چارج شیٹ دائر کی گئی ہے، "بیان میں مزید کہا گیا۔ افضل کو جموں و کشمیر پولیس نے کیس میں گرفتار کیا تھا۔

Continue Reading

جرم

ممبئی : بریانی میں نمک کی زیادتی پر اہلیہ کا قتل، ملزم شوہر گرفتار

Published

on

crime

ممبئی : اہلیہ کے قتل کی سنسنی خیز واردات ممبئی میں پیش آئی ہے۔ ممبئی کے بیگن واڑی علاقے میں ایک شخص نے اپنی اہلیہ کا بے دردی سے قتل کر دیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس خونی تصادم کا محرک محض "بریانی میں بہت زیادہ نمک” قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے قاتل شوہر منظر امام حسین کو گرفتار کر لیا۔

پرانی دشمنی اور تشدد کی کہانی :
مقتولہ نازیہ پروین کے اہل خانہ نے پولیس کو بتایا کہ یہ صرف ایک شب کی بات یا موقف نہیں ہے۔ نازیہ اور منظر نے دو سال قبل اکتوبر 2023 میں محبت کی شادی کی تھی, لیکن شادی کے فوراً بعد منظر کا رویہ بدل گیا۔ وہ اکثر معمولی باتوں پر نازیہ کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ تقریباً تین ماہ قبل منظر نے اپنی درندگی کی انتہا کر دی، نازیہ کو اس بری طرح سے مارا کہ اس کا دانت ٹوٹ گیا۔ یومیہ گھریلو جھگڑا بالآخر ایک اندوہناک قتل کی صورت میں اختیار کر گیا۔

بریانی میں نمک نے جان لے لی :
پولیس کے مطابق واقعہ کی رات 20 دسمبر کو نازیہ نے گھر میں بریانی تیار کر رکھی تھی۔ منظر کھانے بیٹھا تو بریانی کے نمکین ہونے پر بحث کرنے لگے, جھگڑا اس حد تک بڑھ گیا کہ منظر طیش میں آگیا اور نازیہ کا سر دیوار سے ٹکرا دیا۔ نازیہ سر پر شدید چوٹیں اور زیادہ خون بہنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی۔

ملزم پولیس کی گرفت میں :
واقعہ کی اطلاع ملنے پر شیواجی نگر پولس جائے وقوعہ پر پہنچی، لاش کو قبضے میں لے لیا، اور ملزم شوہر کے خلاف بی این ایس کی دفعہ کے تحت قتل کا مقدمہ درج کیا۔ پولیس نے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے منظر امام حسین کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس فی الحال اس گھناؤنے جرم کی تمام پہلوؤں کو مربوط کرنے کے لیے ملزم سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

جموں و کشمیر کی کرائم برانچ نی آن لائن فراڈ کیس میں اروناچل پردیش میں کھٹون کے خلاف چارج شیٹ فائل کی…

Published

on

سری نگر، جموں و کشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے بدھ کو کہا کہ اس نے 26 لاکھ روپے کے بین الاقوامی نقالی فراڈ کیس سے متعلق عدالت میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔ کرائم برانچ کشمیر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، "اقتصادی جرائم ونگ (ای او ڈبلیو)، کرائم برانچ کشمیر نے بدھ کے روز معزز عدالت کے جج سمال کاز، سری نگر کے سامنے ایف آئی آر نمبر 17/2020 کے سلسلے میں ایک چارج شیٹ داخل کی، جو کہ سیکشن 419، 420، 420، 466-4 انفارمیشن پی سی اور ٹکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 419، 420 کے تحت درج کی گئی ہے۔” اروناچل پردیش کے ضلع لیپا راڈا کے گاؤں پاگی کے رہنے والے ملزم جمبوم ربا کے خلاف بین الاقوامی جہتوں پر مشتمل ایک جدید ترین آن لائن دھوکہ دہی اور نقالی ریکیٹ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں چارج شیٹ پیش کی گئی ہے۔ یہ کیس ایک تحریری شکایت سے شروع ہوا جس میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ اس سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک خاتون نے رابطہ کیا جس نے اپنی شناخت کرسٹیانا کے نام سے کی، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایبٹ فارماسیوٹیکل، یونائیٹڈ کنگڈم کی سیکرٹری ہے۔ "اگاسینا نٹ” نامی پروڈکٹ کے لیے ڈیلرشپ کے حقوق کی پیشکش کے بہانے، جو مبینہ طور پر اروناچل پردیش سے حاصل کی گئی تھی، شکایت کنندہ کو زیادہ منافع اور ایک بین الاقوامی خریداری کے معاہدے کے وعدوں سے آمادہ کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا، "ان یقین دہانیوں پر عمل کرتے ہوئے، شکایت کنندہ نے تقریباً 26.25 لاکھ روپے متعدد بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے۔ کرنسی کی تبدیلی کے اسٹیجڈ اور جعلی مظاہرے کے ذریعے فراڈ کو مزید سہولت فراہم کی گئی، جس سے کافی مالی نقصان ہوا،” بیان میں کہا گیا۔ تحقیقات کے دوران، ای او ڈبلیو کشمیر نے ثابت کیا کہ ملزمان نے جعلی اور غیر حقیقی شناختی دستاویزات کا استعمال کیا، بشمول جعلی ووٹر شناختی کارڈ، مختلف بینکوں میں تبو جولی اور عائشہ کھولی کے نام سے متعدد بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے۔ ان اکاؤنٹس کو ملزم خود چلاتا تھا اور ان کا استعمال رقوم کی منتقلی، ڈائیورژن اور نکالنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ لین دین کے تجزیے سے تیزی سے بین بینک منتقلی اور نقد رقم نکالنے کا انکشاف ہوا، جس میں کریڈٹ کا جواز پیش کرنے کے لیے آمدنی کا کوئی جائز ذریعہ نہیں ہے۔ "تحقیقات میں دھوکہ دہی، نقالی، جعل سازی، اور جعلی دستاویزات کے استعمال کے جرائم کو حقیقی طور پر ثابت کیا گیا، اس کے مطابق، ثابت ہونے پر تحقیقات مکمل کی گئی ہیں، اور عدالتی فیصلہ کے لیے دفعہ 512 سی آر پی سی کے تحت غیر حاضری میں چارج شیٹ پیش کی گئی ہے۔ آن لائن اور آف لائن فراڈ کرنے والے،”، بیان میں مزید کہا گیا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com