Connect with us
Sunday,12-October-2025

جرم

شرجیل امام : میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں

Published

on

جنوری کی پانچ تاریخ کو جے این یو میں نقاب پوش بدمعاشوں کے ذریعہ تشدد اور دہلی پولس کی شرمناک خاموشی سے ناراض ممبئی اور مہاراشٹر کے نوجوانوں اور طلبہ نے اسی رات گیٹ وے پر جمع ہونے کی اپیل کی وہ جے این یو کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے۔ اسی احتجاج میں ایک لڑکی جس کا نام مہک پربھو تھا فری کشمیر کا پوسٹر اٹھائے ہوئے نظر آئی۔ یہ کسی کو نظر آئے یا نہیں آئے مگر بی جے پی کیلئے یہ موقعہ غنیمت تھا چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ اس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوئی اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور تفتیش شروع ہوگئی مگر اس سے پہلے ہی اس لڑکی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ اس کے پیچھے اس کا مقصد کشمیر میں عوام کو ہورہی دشواری پر احتجاج کرنا تھا جسے سب نے تسلیم کرلیا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ شرجیل امام پر ملک سے غداری کے مقدمہ کے بعد گرفتاری کا ہے۔ واضح ہو کہ اس نوجوان نے علی گڑھ میں احتجاج کے دوران یہ کہا تھا کہ احتجاج کو موثر بنانے کیلئے ہمیں پورے ملک میں چکہ جام جیسی صورتحال پیدا کرنی ہوگی جس میں اس نے شمال مشرق کی ریاست کو باقی ہندوستان سے کاٹ دینے یعنی رابطہ ایک لمبے عرصہ تک منقطع کرنے کی بات کی تھی تاکہ حکومت مجبور ہو کر مسلمانوں کی بات سنے۔ اس تقریر میں جو کاٹ دینے کی بات تھی اس کو علیحدگی پسندی سے تعبیر دی گئی اور اس کی یا اس کے والدین کی جانب سے دی گئی وضاحت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ وجہ بالکل صاف ہے کہ فری کشمیر کا پوسٹر اٹھانے والی ہندو لڑکی تھی اس لئے وہ قابل معافی ہے یا قابل گرفت نہیں ہے مگر شرجیل امام ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہے اس لئے اس کی جانب سے کسی وضاحت کو تسلیم نہیں کرنے کا رجحان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہے۔اس کے ثبوت کے طور پرکشمیر کے معاملہ میں جواہر لال نہرو کی حکومت میں ہی شیخ عبد اللہ کی گرفتاری کوپیش کیا جاسکتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ شرجیل امام کی حمایت میں آزاد میدان میں نعرہ لگانے والوں پر ایف آئی آر ہوجاتی ہے اور اس میں شامل ایک طالبہ کی گرفتاری کیخلاف پولس کوشاں ہوجاتی ہے مگر وہ نظروں سے بچ کر ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
کچھ دن قبل شرجیل امام کی حمایت میں کچھ نوجوانوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا جس میں شرجیل سے اظہار یکجہتی اور اس کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ اس میں ایک ٹوئٹر پر شرجیل کی ایک تصویر نظر آئی جس میں وہ ایک پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے جس پر ہاتھ سے انگریزی میں ایک تحریرہے جس کا اردوترجمہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘ہے۔ بہت مختصر جملہ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں جامع ہے۔ یہ آج کے ہر مسلم نوجوان کی آواز ہے۔ خواہ کسی سازش کے تحت اسے کچھ بھی سمجھ لیا جائے۔ شرجیل کا شمال مشرق کی ریاستوں کو بقیہ ہندوستان سے کاٹ دینے کا مطلب مہک پربھو کے فری کشمیر سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ شرجیل امام ایک آمادہ زوال قوم کا نوجوان ہے جو قوم کے حالات سے رنجیدہ ہے۔ وہ جسقدر ہندوانتہا پسندوں سے نالاں ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نام نہاد سیکولر لبرل طبقہ سے بے اعتمادی کا اظہار کرتاہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے اسی تقریر میں یہ کہا کہ یہ لوگ اپنی مارکیٹنگ کریں گے اور چلے جائیں گے ۔ ہمیں اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی۔ اجیت ساہی بھی نام نہاد سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں مسلمان، مسلمان بن کر ہی رہے گا یہی اس کی پہچان ہے‘۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کا زور اس بات پر ہے کہ مسلمان اس ملک کی تہذیب و ثقافت میں اپنی پہچان ختم کرلیں۔ اسی لئے ششی تھرور کو موجودہ احتجاج میں مسلم شناخت اور اسلامی نعرے شدت پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی نظر آتے ہیں۔
ہمیں شرجیل امام کے معاملہ میں سیکولر اور لبرل طبقہ سے شکایت ہے کہ اس نے شرجیل کو تنہا چھوڑ دیا۔ مگر ہم نے کون سا اس کا ساتھ دیا؟ ہم نے آخر کیوں اس کا ساتھ نہیں دیا؟ اس کے پیچھے محض خوف کی نفسیات اور مجرم ضمیری کے سوا کیا ہے کہ اگر ہم نے اس کی حمایت میں کچھ بولا تو ملک کے غدار ٹھہرائے جائیں گے اور مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آخر آپ کب تک خود کو مشکلات سے بچا پائیں گے؟ جب تک آپ پورے طور سے یہاں کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہو کر اپنی شناخت ختم نہ کرلیں۔ شرجیل امام کا مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا وہ بیدار مسلم نوجوان ہے جو اپنی شناخت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا اور چاہتا ہے کہ اس کی قوم بھی ایک غیور قوم کی طرح ہندوستان میں سر اٹھاکے رہے۔ شرجیل کے سامنے اس کے قوم کی شاندار روایتیں ہیں جسے قوم اور قوم کے جبہ و دستار سے سجی قیادت بھلا چکی ہے۔ شرجیل کے سامنے اسلام کی وہ اعلیٰ و ارفع تعلیمات ہیں جو حقوق انسانی کی پوری ضمانت دیتا ہے۔ وہ اس اسلام کو مانتا ہے جس نے موجودہ دنیا کو حقوق انسانی اور انسانی قدریں کیا ہوتی ہیں اس سے روسناش کرایا جبکہ شرجیل امام پر تنقید کرنے والے افراد کا یہ نظریہ کمزور ہو چکاہے۔
ہمیں سازشوں کی باتیں اتنی بتائی گئی ہیں کہ ہم زمینی حقائق اور فطری جذبہ کو بھی دشمن کی سازش قرار دینے لگے ہیں۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ شرجیل امام کا موجودہ تحریک کے دوران اس قسم کی تقریر کرنا دراصل ایک سازش ہے اور اسے دشمن نے ہمارے درمیان پلانٹ کیا ہے۔ یقین جانئے یہ صرف خوف کی انتہا ہے جس کا اظہار ہماری زبان سے اس انداز سے ہوتا ہے۔ شرجیل کا یہ جملہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘وضاحت کیلئے کافی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر کے سوا کیا کیا۔اس کے صبر کی انتہا تو سپریم کورٹ کے ذریعہ اس کی مسجد کو مندر کے حوالہ کرنے کے فیصلہ پر اشتعال میں نہیں آنا ہے ۔مگر جب اس کی شہریت کو ختم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو وہ بے چین ہوگیا۔ دنیا میں کون ہے جو بے زمین ہونے کی کیفیت کا احساس کرکے بے چین نہیں ہوگا۔ حکومت کے اس منصوبہ کیخلاف بھی مسلمانوں کو ہی میدان میں آنا پڑا اور پھر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کے گھر کی زینت اور صنف نازک کو بھی باہر آکر موسم کی سختی اور متعصب دنیا کی بدزبانی کو سہنا پڑا۔ اس سے ہمدردی اور بڑی بڑی باتیں تو بہت کی گئیں مگر میدان میں صرف مسلمانوں کو ہی نکلنا پڑا اور بیس سے زیادہ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ آج بھی حالات یہ ہے کہ میدان میں وہی نظر آرہا ہے۔ ٹھیک ہی کہا تھا شرجیل نے کہ مسلمانوں کو ان کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔شرجیل امام کے تعلق سے ابھی مزید کئی باتیں عرض کرنا باقی ہیں جو آئندہ کسی مضمون میں پیش کی جائے گی۔ یہاں سیکولر اور لبرل طبقہ کی ایک مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بہار کے سید شہاب الدین برسوں سے جیل میں ہیں تقریبا دو سال قبل انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو پرشانت بھوشن جو کہ ایک سیکولر شخص مانے جاتے ہیں نے سپریم کورٹ میں مداخلت کرکے سید شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کرواکر انہیں دوبارہ جیل بھجوادیا۔ مگر یہی پرشانت بھوشن اس وقت خاموش رہے جب دہشت گردی کے بدترین الزام کے باوجود سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت مل جاتی ہےاور وہ رہا بھی ہوجاتی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ سیکولر یا روادار طبقہ کو ساتھ نہ لیا جائے یا ان کے ساتھ نہ جایا جائے۔ صرف اتنا کیا جائے کہ ان پر پوری طرح سےتکیہ نہ کیا جائے، ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہے اور اسی تناظر میں لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور پالیسی بنائی جائے۔ ایک صدی قبل خلافت تحریک کو گاندھی جی کے کاندھوں پر ڈال کر جو نقصان ہم کو ہو چکا ہے اس کا اعادہ نہ ہو۔

جرم

سرکاری نوکری کے نام پر کروڑوں روپے کی ٹھگی، ملزم دلی سے گرفتار… سینکڑوں بے روزگاروں سے ملزم نے پیسہ وصول کیا تھا

Published

on

Crime

ممبئی : مہاراشٹر کے متعدد اضلاع میں مرکزی سرکار اور ریاستی سرکار میں سرکاری نوکری دلانے کے نام پر دھوکہ دہی کے الزام میں ممبئی اقتصادی ونگ نے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے. نئی ممبئی کا تاجر سنتوش گنپت نے شکایت درج کروائی کہ سرکاری نوکری کے لئے اس سے ملزم نلیش کانشی رام راٹھور نے پانچ لاکھ روپے وصول کئے اور میڈیکل ٹیسٹ و اپوائمنٹ تقرر نامہ کے لئے پانچ سے ۱۵ لاکھ روپے وصول کئے. اس کے خلاف ای او ڈبلیو نے کیس درج کیا کیونکہ اس نے نوکری کا لالچ دے کر 2.88 کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کی ہے اور تفتیش میں یہ انکشاف ہوا کہ اس نے ۱۰ کروڑ کا دھوکہ کیا ہے, اقتصادی ونگ نے مفرور ملزم کو گرفتار کرنے کے لئے ٹیم تشکیل دی اور آکولہ سمیت دیگر علاقوں میں اس کی تلاشی لی گئی ملزم نے ۲۰۲۲ میں سینکڑوں نوجوانوں کو آر سی ایف میں تقرری کے لیے دھوکہ دیا اس کی شکایت ای او ڈبلیو میں کی گئی. ای او ڈبلیو کو اطلاع ملی کہ ملزم دلی سے فرار ہونے کی سعی کر رہا ہے اس پر پولس نے اسے دلی سے گرفتار کیا ملزم کے خلاف ممبئی ای او ڈبلیو اور پونہ ڈکن میں مجرمانہ معاملہ درج ہے اس کی مزید تفتیش جاری ہے. ای او ڈبلیو کے سربراہ نشت مشرا کی سربراہی میں یہ کارروائی انجام دی گئی ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی انڈرورلڈ ڈان ڈی کے راؤ ہفتہ وصولی کی پاداش میں گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : ممبئی انڈورلڈ ڈان چھوٹا راجن گینگ کا رکن گینگسٹر ڈی کے راؤ کو ممبئی کرائم برانچ نے ہفتہ وصولی کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے. اس کے ساتھ پولس نے اس کے دو ساتھیوں انیل سنگھ اور میمت بھوٹا کو بھی گرفتار کیا ہے گینگسٹر نے میمت بھوٹا کے ساتھ مل کر سرمایہ کار سے ایک کروڑ ۲۵ لاکھ روپے وصول کئے تھے اور انہیں برے نتائج کی دھمکی دی تھی, جس کے بعد اس کی شکایت شکایت کنندہ نے پولس میں درج کروائی. پولس نے کارروائی کرتے ہوئے ڈی کے راؤ کو گرفتار کر کے اس کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے. ممبئی کرائم برانچ نے اس سے بھی ڈی کے راؤ کو ایک ہوٹل مالک کو دھمکی دے کر ۲ کروڑ ۵۰ لاکھ روپے ہفتہ وصولی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اس کے ساتھ اس کے ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا


مضافاتی ساکی ناکہ علاقہ میں ہوٹل مالک کو دھمکی دی گئی تھی اور جبرا ہوٹل پر قبضہ کو بھی الزام ہے. اس معاملہ میں ایک کیس درج کیا گیا تھا اس میں ڈی کے راؤ ضمانت پر ہے. گزشتہ شب ڈی کے راؤ اپنے پرانے کیس کی سماعت کے سلسلے میں سیشن کورٹ میں حاضری کے غرض سے گیا تھا, اسی دوران پولس نے اسے گرفتار کر لیا. اس معاملہ میں پولس اس سے اور اس کے ساتھیوں سے باز پرس کر رہی ہے. بتایا جاتا ہے کہ ڈی کے راؤ کا دھاراوی علاقہ میں اب بھی دبدبہ اور دہشت ہے اور وہ ہفتہ وصولی سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے. اس پر کرائم برانچ نے اب اپنا شکنجہ کس دیا ہے. جس سے انڈرورلڈ میں دہشت پائی جارہی ہے. اس معاملہ میں کرائم برانچ ڈی کے راؤ کے ساتھیوں سے بھی باز پرس کرے گی, اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ ان متاثرین سے بھی باز پرس کرے گی جو ڈی کے راؤ کے عتاب کا شکار تھے

Continue Reading

(جنرل (عام

مغربی بنگال میڈیکل کالج کے باہر اوڈیشہ کی طالبہ کی اجتماعی عصمت دری، ملزم فرار

Published

on

کولکتہ، اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والی دوسرے سال کی طالبہ کے ساتھ جمعہ کی رات مغربی بردوان ضلع کے درگا پور میں ایک نجی میڈیکل کالج کے باہر مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی گئی، پولیس نے ہفتہ کو تصدیق کی۔ واقعے کے سلسلے میں متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ پولیس نے اطلاع دی کہ اوڈیشہ کے جلیشور کی رہنے والی طالبہ کالج کے احاطے سے ایک ہم جماعت کے ساتھ باہر کھانا کھانے کے لیے نکلی تھی “الزام ہے کہ اس وقت بدمعاشوں نے انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا، انہوں نے اپنے دوست کا بھی پیچھا کیا، جو ڈر کر بھاگ گیا۔ لڑکی کو اکیلے پا کر بدمعاش اسے گھسیٹتے ہوئے قریبی جنگل میں لے گئے جہاں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے ریاست کے ایک سینئر پولیس افسر یقین دہندہ-دگرتے” کالج انتظامیہ نے پہلے ہی پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق، طالب علم رات 8.30 بجے کے قریب کالج کے احاطے سے نکلا تھا۔ جمعہ کو رات کے کھانے کے لیے۔ اس وقت کئی نوجوانوں نے طالب علم کا راستہ روک دیا۔ اس کے بعد اسے پرائیویٹ میڈیکل کالج کیمپس کے پیچھے جنگل میں لے جا کر مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی گئی۔

اجتماعی زیادتی کے بعد طالبہ کا موبائل فون بھی مبینہ طور پر ملزمان چھین کر لے گئے۔ طالب علم فی الحال ہسپتال میں داخل ہے۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ اسے تعلیم کے لیے اس حالت میں نہیں رکھنا چاہتے۔ اس کے والدین نے میڈیا کو بتایا، “میری بیٹی یہاں محفوظ نہیں ہے۔ میں اسے مزید یہاں اپنی تعلیم جاری رکھنے نہیں دوں گا۔ میں اسے گھر لے جاؤں گا،” اس کے والدین نے میڈیا کو بتایا۔ اگرچہ درگاپور کے نیو ٹاؤن شپ پولیس اسٹیشن کے افسران نے تحقیقات شروع کردی ہیں، تاہم ملزمان کی شناخت ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ بی جے پی کی مقامی قیادت نے پہلے ہی اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ آر جی کار عصمت دری اور جونیئر ڈاکٹر کے قتل کیس سے متعلق کئی تفصیلات کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں ایسی کوئی پردہ پوشی نہیں ہونی چاہیے۔

قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) کی رکن ارچنا مجمدار نے بھی اس واقعہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ آر جی کار کیس کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، “جنسی زیادتی اور عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ مجرموں کو فوری طور پر پکڑ کر سزا نہیں دی جا رہی ہے، ہم نے مغربی بنگال میں کسی بھی عصمت دری یا قاتل کو حتمی سزا ہوتے نہیں دیکھا، کسی کو پھانسی نہیں دی گئی، مسلسل احتجاج کے باوجود انصاف میں تاخیر ہو رہی ہے، اور نہ ہی کسی مجرم کو سزا دی جا رہی ہے۔ غیر مرئی اثر و رسوخ۔” گزشتہ سال 9 اگست کو آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال کے سیمینار ہال میں پوسٹ گریجویٹ ٹرینی کی لاش ملی تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک اور اس سے باہر صدمے کی لہریں بھیج دیں، جس سے ڈاکٹروں، عام شہریوں اور گھرانوں کی خواتین کی طرف سے بڑے پیمانے پر اور مسلسل احتجاج کو جنم دیا۔ جب کہ واحد مجرم سنجوئے رائے کو پہلے ہی ایک ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے، مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے ایک سال گزرنے کے بعد بھی اس جرم کے پیچھے “بڑی سازش” کی تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں کی ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com