Connect with us
Tuesday,08-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مولانا ارشد مدنی کا ہندی ترجمہ ’قرآن شریف‘ قرآن فہمی کا بہترین ذریعہ

Published

on

Holy-Qur'an

قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی تشریح، توضیح اور تفسیر لکھی جاتی رہے گی، اور پھر بھی قرآن کریم کا حق کما حقہ ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبان میں قران کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرے۔ لیکن یہ نعمت غیر مترقبہ ہر کسی کی قسمت کا حصہ نہیں بنتی۔ اللہ تعالی خاص بندے کو اس کے لئے منتخب کرتا ہے۔ یہ افتخار مولانا سید ارشد مدنی کو حاصل ہوا ہے۔

قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قرآن ہر زمان اور مکان کے لئے دستور حیات ہے چنانچہ جیسے جیسے اسلام کا آفاقی پیغام غیر عرب دنیا میں پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس آفاقی پیغام کو ان کے مادری زبان میں بھی منتقل کیا جائے، لہذا پوری دنیا میں اسلام تعلیمات اور پیغام کے عام کرنے کے لئے ہر ملک کے صاحب علم و فضل اور علمائے کرام نے اپنی بساط کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ مقامی زبانوں میں کیا۔

ہندوستان میں بھی جب اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو علماء نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ لیکن جب فارسی کا چلن کم ہونے لگا، اور اردو کا فروغ ہونے لگا، تو شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادے اور دوسرے علماء کرام نے قرآن کا اردو ترجمہ کر کے اس کے پیغام کو ہندی مسلمانوں میں عام کیا۔ شیخ الہند اور مولانا تھانوی نے قرآن کااردو ترجمہ کر کے اس کو مزید آسان اور سہل الحصول بنایا۔آج جب کہ لوگ ارود سے بھی نابلد ہوتے جا رہے اور نئی نسل کا رجحان اردو کی طرف کم ہوتا جارہا ہے تو ضروت محسوس ہوئی کہ اس کا ترجمہ ہندی زبان میں بھی کیا جائے تاکہ اردو سے ناواقف لوگ بھی اسلام کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ چیز ان لوگوں کی طرف سے آئیں جو براہ راست قرآن سے استفادہ نہ کرسکتے تھے بلکہ دوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہوکر ان کے اندر غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ اس لئے ان کے لئے بھی قرآن کے ہندی ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔

چنانچہ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر اور امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے قرآن کریم کے پیغام کو عام مسلمان اور عام ہندوستانی تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کا ہندی میں ترجمہ تفسیر کے ساتھ کیا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو ’ہندوستانی زبان‘ میں ترجمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔

اس کی خوبی یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے، اس کے بعد اس کا ہندی میں آسان زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور پھر اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندی داں حضرات کو قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس کی تفسیر سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔ بہت سے غیر مسلم حضرات چاہتے ہیں کہ وہ ہندی میں قرآن پڑھیں اور اسے سمجھیں، لیکن اس کی تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں قرآن پاک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں خام اور غیر مصدقہ مواد کی بھر مار ہے قرآن کے بارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس ترجمہ اور توضیح و تشریح سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، اور عام لوگوں کی رسائی بھی قرآن کریم تک ہو جائے گی۔

مولانا سید ارشد مدنی اپنے ترجمے اور تفسیر کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”ہم نے پہلے ایڈیشن میں قرآن کے موضوعات کے سلسلے میں کوئی فہرست نہیں بنائی تھی، لوگوں کی خواہش تھی کہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح قرآن کی تفسیر کی بھی ایک فہرست آنی چاہیے، تاکہ دیکھنے والا اپنی خواہش کے مطابق جس موضوع کو دیکھنا چاہے دیکھ سکے۔ قرآن کی تفسیر کی ایک فہرست ”معارف القرآن“ جو مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی تفسیر ہے، میں ہر سورت کے آغاز میں دی گئی ہے۔ مولانا عثمانی کی تفسیر میں کوئی فہرست نہیں تھی، لیکن یہ فہرست مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے بیٹے جناب محمد ولی رازی صاحب نے بنائی ہے، ہم کو وہ کام پسند آیا اس لیے ہم نے اسی فہرست کو قرآن کریم کے دونوں حصوں کے آغاز میں رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس سورت اور کس آیت میں کون کون سے مضامین بیان کیے گئے ہے پڑھنے والا اس کو سمجھ سکے اور مستفید ہوسکے۔ اس وقت تک ہندی زبان میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ بہت سے لوگ کر چکے ہیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آ چکے ہیں، لیکن ہماری یہ کوشش قرآن کے ترجمہ سے آگے بڑھ کر اس کی مخصوص تفسیر پیش کرنا ہے، کیونکہ صحیح طریقے سے قرآن کا سمجھنا اس کی تفسیر کو پڑھے بنا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر سے متعلق کچھ اصول و ضوابط مختصر طور پر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ تو اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ علم کی مکمل اور حیرت انگیز کتاب کس مقام پر، کس ماحول میں اور کس شخص پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علم کے ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے ایسی مکمل کتاب تیار ہو سکے، جو اگلے پچھلے لوگوں کے علم کو جمع کرنے والی اور انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے ہر جہت کے تعلق سے بہتر رہنمائی پیش کر سکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام موجود ہو اور عائلی قوانین سے لے کر ملکی نظام کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہو۔“

اس کا ترجمہ نہایت آسان اور عام فہم زبان میں ہے۔ ہندی بہت سخت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ عام ہندوستانی زبان ہے اردو اور ہندی کی آمیزش ہے۔ اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام ہندی داں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ اور تفسیر غیر مسلم برادر سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو سامنے پر رکھ کر کی گئی ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے ناآشنا ہے۔ اس لئے ان کی رسائی قرآن تک نہیں ہے کیوں کہ قرآن ایک صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، راہ ہدایت ہے، لائحہ عمل ہے، زندگی گزارنے کے قوانین ہیں، حکمرانی کے طریقے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا میں اس لئے ذلیل خوار ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو صرف تلاوت یا اجر و ثواب کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ اس ترجمے اور توضیح قرآن کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور قرآن سے استفادہ کر کے وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو ترتیب دے سکتے ہیں۔

علمائے کرام نے قرآن مجید کی تفاسیر کو چار ادوار پر تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ قرآنِ مجید عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی عربی تھی، لیکن علم و فہم فراست کے لحاظ سب ایک جیسے نہ تھے، اس لئے جب بھی کسی لفظ یا کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں پریشانی ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضری دے دیتے تھے، اور پوری بات سمجھ میں آجاتی تھی۔ یہیں سے قرآن کریم کی تفسیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ پہلا دور ہے۔ دوسرا دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پردہ فرمانے کے بعد کا ہے۔ جب بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور انہوں نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ سے کسب فیض کیا تھا۔ اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معانی مفاہیم سمجھنے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے قران کے مطالب و مفاہیم سمجھے۔ صحابہ کرام کو پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھے۔ وہ قرانی اسلوب اور لغت سے واقف تھے اس لئے پورے قرآن کی تفسیر کو ان کو ضرورت نہیں تھی۔ تیسرے دور میں صحابہ کرام کے بعد تابعی اور تبع تابعین کا زمانہ آیا تھا۔اس دور میں اسلام اطراف کے ممالک میں اپنا دامن پھیلا چکا تھا۔ اس دور میں اگرچہ قرآن کا کریم کی تفسیر کا ایک ذخیرہ موجود تھا، لیکن پورے قرآن کی تفسیر نہ تھی۔ اسلام نے اپنے دامن عرب سے عجم کی طرف پھیلا چکا تھا، اب ضرورت تھی قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کوقرآنی علوم کو بہرہ ور کیا جاسکے۔ اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاوی کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی تفسیر قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علو الہ وسلم کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآن مجید کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیر قرآن سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے آثار نہیں ملے، وہاں انہوں نے اجتہاد و استنباط سے کام لیا، اور اسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا۔

چوتھا اہم دور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادے کا آتا ہے۔ یہاں عربی خاص کی زبان تھی اور عام لوگ عربی سے ناواقف تھے۔ بڑا عجمی خطہ جو جہاں بیشتر لوگ اسلام کا دامن تھام چکے تھے، جس میں برصغیر کے ہمسایہ ملک ترکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ ممالک شامل ہیں۔ یہاں کی زبان عربی نہیں تھی۔ اس وقت شاہ ولی اللہ رحم اللہ نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فارسی میں ’المقدّمہ فی قوانین الترجمۃ‘ لکھا۔ یہ رسالہ اصول ترجمہ پر تحریر کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے۔ اسے ہم دوسرے لفظوں میں اصول تفسیر، پر ایک جامع رسالہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ترجمہ کئی لحاظ سے تفسیر ہی کی ایک قسم ہے۔ شاہ صاحب خود اس رسالہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں: ”اللہ کرم والے کی رحمت کا فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم کہتا ہے کہ یہ رسالہ جس کا نام ترجمہ کے قوانین رکھا ہے، قواعدِ ترجمہ پر مشتمل ہے، کیونکہ درحقیقت قرآن کا ترجمہ اس وقت ضبطِ تحریر میں جاری ہے۔“ فتح الرحمن بترجمۃ القرآن (فارسی) محققین کے مطابق برصغیر کا پہلا فارسی ترجمہ باب الاسلام سندھ میں ہوا، اور مخدوم لطف اللہ بن مخدوم نعمت اللہ المعروف مخدوم نوح اللہ (م 998ھ/ 1589ء) ساکن ہالہ (حیدر آباد) نے یہ شرف حاصل کیا۔ (وکی پیڈیا) جو مقبولیت شاہ عبدالعزیز کے فارسی اور شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کو حاصل ہوئی، وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔

شاہ لی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں اور شاہ عبدالقادر رحم اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا، اور مغل بادشاہ محدود سے محدود تر ہوتے جارہے تھے۔ فارسی کے ساتھ اردو زبان میں رائج ہورہی تھی بلکہ عام لوگوں کی زبان اردو تھی۔ اس لئے قرآن کریم کی افہام تفہیم کے لئے اردو میں ترجمہ ضروری تھی۔ مولانا اسحاق بھٹیؒ لکھتے ہیں: ”اس (ترجمہ) کی اولیت کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سر ہی بندھے گا۔ وہ پہلے عالم ہیں، جن کے ترجمے نے بے پناہ قبولیت حاصل کی اور لوگوں کی وسیع تعداد نے اس سے استفادہ کیا۔ اب بھی حوالے کے لیے اس ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب ان تمام اوصاف سے متصف اور ان تمام خصوصیات سے (بدرجہ اتم) مالا مال تھے جن سے قرآن کے مترجم کو ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی مترجم میں وہ اوصاف جمع نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب میں جمع فرما دیے تھے۔“

اس دور کے حالات کو دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کیا بلکہ اصل کارنامہ تو یہ تھا کہ قرآن فہمی کے حوالہ سے عرصے سے چلے آتے جمود کو توڑا اور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کر کے انھیں براہ راست قرآن سے جوڑا۔ اگر آپ اس فکر کا رد نہ کرتے کہ قرآن کو کوئی بہت بڑا عالم ہی سمجھ سکتا ہے، تو شاید آپ کے ترجمہ قرآن کو اتنی قبولیت حاصل نہ ہو پاتی۔ دوسرے یہ کہ شرعی و لغوی علوم سے گہری واقفیت کی بناء پر آپ کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم خصوصیت علمی پختگی اور رسوخ تھا۔

مولانا سید ارشد مدنی کا قرآن کے سلسلے میں یہ کارنامہ قرآن فہمی تحریک کو مہمیز دے گا، اور قران کو عربی زبان کے نہ جاننے والے بھی سمجھ کر اپنی زندگی میں اتاریں گے۔ بلاشبہ مولانا مدنی کا یہ کارنامہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرے گا اور اس سے نہ صرف قرآن فہمی میں مدد ملے گی، بلکہ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور مفروضہ کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔

تفریح

ادے پور فائلز فلم پر پابندی عائد ہو، رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی کا پرزور مطالبہ

Published

on

Udaipur-Files

ممبئی ادے پور فائلز فلم پر پابندی کا مطالبہ آج مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فلم کا ٹریلر ریلیز ہو چکا ہے, جس کے سبب بے چینی اور بدامنی پھیلانے کا خطرہ لاحق ہے, یہ فلم قصدا تیار کی گئی ہے, اس سے نظم و نسق کا خطرہ بھی ہے, اسلئے فلم کی نمائش اور ٹریلر پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ فلم ایسے زیر سماعت کیس پر مبنی ہے جس کا فیصلہ بھی نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹیلر کا قتل ہوا تھا اور نپورشرما کے بیان کے بعد یہ قتل کی واردات ہوئی تھی, اس لئے بی جے پی نے بھی نپور شرما کو پارٹی کی رکنیت سے مستعفی کردیا تھا۔ نپور شرما کے بیان کے بعد تشدد برپا ہوا تھا حالات خراب ہوئے تھے۔ اس بات کو عدالت نے بھی تسلیم کیا تھا, اس کے ساتھ اعظمی نے توہین رسالت اور اہم اشخاص کی توہین کے خلاف پرائیوٹ بل منظور کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ابوعاصم اعظمی نے اس معاملہ میں پرائیوٹ بل پیش کیا ہے۔ اعظمی نے دعوی کیا کہ اگر یہ بل منظور ہوگا تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی۔ اہم اشخاص کی شان میں گستاخی کی, اس سے نظم و نسق بھی برقرار رہے گا کیونکہ بل میں سخت سزا کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ادے پور فائلر نظم و نسق خراب کرنے کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اگر سنسر بورڈ نے اسے منظوری بھی دی ہے, تو اسے منسوخ کیا جائے اس پر پابندی عائد ہو۔

Continue Reading

(Monsoon) مانسون

ممبئی میں مسلسل بارش کے پیش نظر مڈل ویترنا جھیل ۹۰ فیصد لبریز

Published

on

Veternah Lake

‎ممبئی میونسپل کارپوریشن کے علاقے کو پانی فراہم کرنے والے 7 آبی ذخائر میں سے، ‘ہندو ہردئے سمراٹ شیو سینا پرمکھ بالاصاحب ٹھاکرے مڈل ویترنا جھیل’ آج 7 جولائی 2025 کو تقریباً 90 فیصد لبریز ہو گئی ہے اور آج پانی کی سطح 282.13 میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ مسلسل بارش کے پیش نظر ڈیم کے 3 گیٹ (نمبر 1، نمبر 3 اور نمبر 5) کو دوپہر 1 بج کر 15 منٹ پر کھول دیا گیا ہے۔ اس وقت 3000 کیوسک کی رفتار سے پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے واٹر انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے مطابق، ہندو ہردئے سمراٹ شیو سینا پرمکھ بالاصاحب ٹھاکرے مڈل ویترنا ڈیم سے چھوڑے گئے پانی کو ‘مودک ساگر’ (لوئر ویترنا) آبی ذخائر میں ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

‎ میونسپل کارپوریشن نے 2014 میں پالگھر ضلع کے موکھڈا تعلقہ میں 102.4 میٹر اونچا اور 565 میٹر مڈل ویترنا کیا۔ میونسپل کارپوریشن نے اپنے خرچ پر ریکارڈ وقت میں اس ڈیم کو بنایا اور مکمل کیا۔ اس ڈیم کا نام ‘ہندو ہرودے سمراٹ شیو سینا پرمکھ بالا صاحب ٹھاکرے مڈل ویترنا جھیل’ رکھا گیا ہے۔ اس آبی ذخائر کی زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 19,353 کروڑ لیٹر (193,530 ملین لیٹر) ہے۔

‎آبی ذخائر میں گزشتہ چند دنوں سے ہونے والی مسلسل موسلا دھار بارش کی وجہ سے آبی ذخائر میں پانی کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہندو ہرودے سمراٹ شیو سینا پرمکھ بالاصاحب ٹھاکرے مڈل ویترنا آبی علاقہ میں (7 جولائی 2025) تک 1 ہزار 507 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے۔ اس طرح آج ڈیم تقریباً 90 فیصد بھر چکا ہے۔ ڈیم کا مکمل ذخیرہ کرنے کی سطح 285 میٹر ہے اور پانی کی سطح آج 282.13 میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر، ڈیم کے 3 دروازے (نمبر 1، نمبر 3 اور نمبر 5) کو آج (7 جولائی 2025) دوپہر 1.15 بجے سے 30 سینٹی میٹر تک کھول دیا گیا ہے۔ ان تینوں دروازوں سے 3000 کیوسک پانی چھوڑا جا رہا ہے۔

‎ممبئی کو پانی فراہم کرنے والے 7 ڈیموں کی کل زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1,44,736.3 کروڑ لیٹر (14,47,363 ملین لیٹر) ہے۔ آج صبح 6 بجے تک تمام 7 جھیلوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی مشترکہ صلاحیت تقریباً 67.88 فیصد ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

ووٹر لسٹوں پر نظرثانی کے فیصلے کے خلاف عرضی پر سپریم کورٹ 10 جولائی کو سماعت کرے گا، جانیں ایم پی منوج جھا نے کیا کہا

Published

on

Supreme-Court

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے پیر کو 10 جولائی کو بہار میں ووٹر فہرستوں کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جویمالیہ باغچی کی ایک جزوی ورکنگ ڈے بنچ نے کپل سبل کی قیادت میں کئی سینئر وکلاء کی دلیلیں سنیں جو کئی عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے اور جمعرات کو درخواستوں کی سماعت کرنے پر رضامند ہو گئے۔ سبل، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج جھا کی طرف سے پیش ہوئے، بنچ پر زور دیا کہ وہ ان درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک ناممکن کام ہے جو وقت کے اندر (نومبر میں مجوزہ انتخابات کے پیش نظر) کیا جائے۔

سینئر وکیل ابھیشیک سنگھوی نے ایک اور عرضی گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ریاست میں تقریباً 8 کروڑ ووٹر ہیں، جن میں سے تقریباً 4 کروڑ رائے دہندوں کو اس عمل کے تحت اپنے دستاویزات جمع کرانے ہوں گے۔ سنگھوی نے کہا کہ آخری تاریخ اتنی سخت ہے کہ اگر آپ 25 جولائی تک دستاویزات جمع نہیں کراتے ہیں تو آپ کو باہر پھینک دیا جائے گا۔ سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکر نارائنن، ایک اور درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے، کہا کہ الیکشن کمیشن کے اہلکار اس عمل کے لیے آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ قبول نہیں کر رہے ہیں۔ جسٹس دھولیا نے کہا کہ معاملہ جمعرات کو درج کیا جائے گا اور مزید کہا کہ جو وقت مقرر کیا گیا ہے وہ ابھی تک ہے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ ابھی تک انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

بنچ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی درخواستوں کی پیشگی اطلاع الیکشن کمیشن آف انڈیا کے وکیل کو دیں۔ آر جے ڈی ایم پی منوج جھا اور ترنمول کانگریس ایم پی مہوا موئترا سمیت کئی لیڈروں نے عدالت میں عرضیاں داخل کی ہیں۔ جس میں بہار میں ووٹر لسٹ کے ایس آئی آر کی ہدایت دینے والے الیکشن کمیشن کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جھا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 24 جون کا حکم آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 21 (زندگی اور ذاتی آزادی کا حق)، آرٹیکل 325 (ذات، مذہب اور جنس کی بنیاد پر ووٹر لسٹ سے کسی کو خارج نہیں کیا جا سکتا) اور آرٹیکل 326 (ہر ہندوستانی شہری جس نے ووٹ ڈالنے کے لیے 18 سال کی عمر کو پورا کیا ہے) کی خلاف ورزی کی ہے۔ آئین اور اسے منسوخ کیا جانا چاہیے۔

راجیہ سبھا کے رکن نے کہا کہ یہ حکم امتناعی کو ادارہ جاتی بنانے کا ایک ہتھیار ہے۔ اس کا استعمال ووٹر لسٹوں میں من مانی اور مبہم ترامیم کے جواز کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جس میں خاص طور پر مسلم، دلت اور غریب مہاجر برادریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ منصوبہ بند اخراج ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو آئندہ بہار اسمبلی انتخابات موجودہ ووٹر لسٹ کی بنیاد پر کرانے کی ہدایت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ جھا نے دلیل دی کہ اگلے بہار اسمبلی انتخابات نومبر 2025 میں تجویز کیے گئے ہیں اور اس پس منظر میں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں/ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بغیر ووٹر لسٹوں کے ایس آئی آر کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے اپنی عرضی میں یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ بہار میں مانسون کے موسم میں یہ عمل شروع کیا گیا ہے، جب ریاست کے کئی اضلاع سیلاب کی زد میں آ جاتے ہیں اور مقامی آبادی بے گھر ہو جاتی ہے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ ایسی صورتحال میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اس عمل میں بامعنی طور پر حصہ لینا انتہائی مشکل اور تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقوں میں مہاجر مزدور شامل ہیں، جن میں سے بہت سے، 2003 کی ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے باوجود، بہار واپس نہیں جا سکیں گے اور مقررہ 30 دن کی آخری تاریخ کے اندر اندراج فارم جمع نہیں کر سکیں گے، جس کے نتیجے میں ان کے نام خود بخود ووٹر لسٹ سے ہٹ جائیں گے۔ جھا نے اس عمل کے بہت کم وقت کے فریم پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ اس سے پورا عمل باطل ہو جاتا ہے۔ ترنمول کانگریس لیڈر اور ایم پی مہوا موئترا نے بھی بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی سے متعلق الیکشن کمیشن کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

موئترا نے عدالت سے الیکشن کمیشن کو ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی ووٹر لسٹ کے اس طرح کے خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کے احکامات جاری کرنے سے روکنے کی ہدایت کی درخواست کی۔ اسی طرح کی ایک درخواست غیر منافع بخش تنظیم ‘ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز’ نے بھی دائر کی ہے، جس میں بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

کئی دیگر سول سوسائٹی تنظیموں جیسے پی یو سی ایل اور یوگیندر یادو جیسے سماجی کارکنوں نے بھی کمیشن کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 24 جون کو بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جس کا مقصد نااہل ناموں کو ہٹانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ووٹر لسٹ میں صرف اہل (کردار) شہری ہی شامل ہوں۔ اس طرح کی آخری خصوصی نظر ثانی 2003 میں بہار میں کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، یہ عمل تیزی سے شہری ہونے، مسلسل نقل مکانی، نوجوان شہریوں کے ووٹ ڈالنے کے اہل ہونے، اموات کی اطلاع نہ دینے اور فہرست میں غیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کے نام شامل کرنے کی وجہ سے ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com