Connect with us
Thursday,27-November-2025

جرم

اترپردیش: تشدد سے زیادہ خطرناک تھا پولیس کا تشدد روکنے کا طریقہ

Published

on

اترپردیش کے مختلف اضلاع میں شہریت(ترمیمی)قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف گذشتہ 19/20 دسمبر کو کئے گئے احتجاجی مظاہروں کے درمیان مظاہرین پر پولیس ایکشن پر کاروان محبت کی ٹیم نے یوپی پریس کلب میں ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔
اترپردیش میں گذشتہ 19/20 دسمبر کو صوبہ کے مختلف مقامات میں سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔جس میں تقریبا 23 افراد جان بحق ہوئے تھے تو وہیں پولیس کی لاٹھی چارج کے ساتھ آگزنی اور پتھر بازی بھی ہوئی تھی۔بعد میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے بے تحاشہ افراد کو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا اور پبلک پراپرٹی کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر مبینہ مظاہرین کے نام ریکوری نوٹس جاری کیا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے متنازع بیان دیتے ہوئے مظاہرین سے بدلہ لینے کی بات کہی تھی۔
اس ضمن میں یوپی پریس کلب میں کاروان محبت اور یوپی کوآرڈینیش کمیٹی اگینسٹ سی اے اے ،این آر سی اینڈ این پی آر کے بینر تلے منعقد پروگرام میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس ومعروف سماجی کارکن ہرش مندر نے کہا کہ اترپردیش میں یوگی کی قیادت میں حکومت نے انسانیت کے خلاف سنگین جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ریاستی انتظامیہ نے تشدد کو قابو میں کرنے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا ہے وہ اس تشدد سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ’اشتعال انگیز‘زبان کا استعمال کرتے ہوئے پولیس دستے کی مدد سے اپنی ہی ریاست کے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دیا ہے۔وہ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہرآواز کو دبانا چاہتے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پرتشدد جھڑپوں میں پولیس نے اقلیتوں کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اترپردیش میں یہ پیٹرن پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ پولیس خود ہی فسادی بن گئی اور گھروں میں گھس کر بے سہارا خواتین، بچوں ،بوڑھوں اور بیماروں کو ہراساں کیا۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق مظفر نگر،میرٹھ،سنبھل اور فیروزآباد میں متأثرین سے ملاقات کے دوران جانچ ٹیم نے پایا کہ نفرت سے بھری وردی دھاری پولیس نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر مارا،ان کے اسکوٹر۔کاروں کو آگ کے حوالے کردیا۔ٹی وی،واشنگ مشین جیسے آلات کو پوری طرح سے تباہ کردیا۔پولیس کو روکنے کی کوشش کرنے پر گھر کے بزرگوں ،خواتین،اور یہاں تک معصوم بچوں پر بھی پولیس نے لاٹھیاں برسائیں،مسلمانوں کے خلاف پولیس نے بھدی اور قابل اعتراض تبصرے کئے۔پولیس نے فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔
رپورٹ کے مطابق مظفر نگر،میرٹھ ،سنبھل اور فیروزآباد میں کل 16 افراد کی موت سینے سے اوپر گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک اہل خانہ کو نہیں سونپی گئی ہے۔ 16 میں سے صرف ایک شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دی گئی ہے جس میں گولی کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ ٹیم کے پاس وافر ثبوت موجود ہیں کہ سبھی افراد کی اموات گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
زخمیوں کے ساتھ پولیس کی زیادتی اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جانبداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ان 16 افراد کی اموات ان کے گولی لگ کر زخمی ہونے کے دو ،تین دنوں بعد ہوئی ہے۔ان زخمیوں کو کئی کئی دنوں تک اسٹریچر سے نہیں اتارا گیا۔ کئی دن بعد ڈاکٹر آئے تو انہیں دوسرے اسپتال میں ریفر کردیا گیا۔زخمیوں کے کپڑے پوری طرح سے اتار دئیے گئے اور مخالفت کرنے پر ڈاکٹروں کی جانب سے کہا گیا کہ کپڑے جسم پر نہ ڈالو تاکہ ہر کوئی دیکھ سکے کہ کون مریض آیا ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے تشدد کے الزام میں گرفتار کئے گئے افراد کے خلاف تھانوں میں ٹارچر کئے جانے اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے زخمیوں کے ساتھ سلوک ایک طے شدہ پیٹرن کے مطابق کیا گیا ہے اور اس میں تمام حدود کو توڑ دیا گیا ہے۔ پولیس نے جہاں مکمل طور سے اپنی دشمنی وعناد کے مظاہرہ کیا ہے تو وہیں ڈاکٹروں نے ہر مریض کے علاج کرنے کے قسم کھانے کے دھرم کو نہیں نبھایا ہے۔
یوپی میں مظاہروں کے دوران پولیس کی جانبدارانہ کاروائی کا پردہ فاش کرنے اور حقیقی صورتحال کو آشکارا کرنے کے لئے دہلی میں 16 جنوری کوجسٹس سدھا شرن ریڈی کی قیادت میں منعقد پبلک ٹریبونل میں گواہوں کو سننے اور رپورٹوں کو دیکھنے بعد ٹریبونل نے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ جیوری کہ اگرچہ قانونی اہمیت کافی کم ہو لیکن اس کی اخلاقیت کافی طاقت ور ہے۔ریاستی حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے پورے عملے نے ایک مخصوص طبقے خاص کر مسلمانوں اور مظاہرین کی قیادت کررہے سماجی کارکنوں کے خلاف بدلے کے جذبات سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
پولیس نے نہ صرف عام لوگوں کے ساتھ تشدد کیا بلکہ بے گناہ مسلمانوں اور کارکنوں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔پولیس نے نابالغوں اور بچوں تک کو اپنی حراست میں لے کر ان کی بری طرح سے پٹائی کی ہے ۔میڈیکل ملازمین کو علاج کرنے سے روکا گیا ہے۔اور حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔پولیس کی ہراسانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
’’ریاستی منصوبہ بند تشدد سے ہلکان اترپردیش کی عوام‘‘ کے نام سے پیش کی گئی اس طویل تفصیل رپورٹ کو سابق آئی اے ایس وسماجی کارکن ہرش مندر اور نورشن سنگھ کی نگرانی میں تیار کیا گیا ہے۔

جرم

مہاراشٹر کی ایک خاتون کلپنا بھاگوت گرفتار… وہ دہلی دھماکے کے وقت وہاں موجود تھی، تفتیش کے دوران اس کے دہشت گردانہ روابط سامنے آ رہے ہیں۔

Published

on

Kalpana-Bhagwat

پونے : مہاراشٹر کے چھترپتی سمبھاجی نگر سے چونکا دینے والی خبر سامنے آئی ہے۔ ایک خاتون، جس کی شناخت کلپنا ترمبکراؤ بھاگوت (45) کے طور پر ہوئی ہے، فرضی آدھار کارڈ اور جعلی آئی اے ایس تقرری خط کا استعمال کرتے ہوئے چھ ماہ سے ایک لگژری ہوٹل میں رہ رہی تھی۔ کیس میں اب ایک نیا اہم موڑ سامنے آیا ہے۔ سی آئی ڈی سی او پولیس کے تفتیش کاروں کو اب پتہ چلا ہے کہ وہ ازبیکستان کی ایک خاتون کے لیے ہندوستانی ویزا حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نئی تحقیقات سے یہ شبہ مزید گہرا ہو گیا ہے کہ کلپنا بھاگوت غیر ملکی شہریوں کی سرحد پار نقل و حرکت اور اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جعلی شناختی کارڈ استعمال کر رہی تھیں۔ اسے دہلی بم دھماکوں سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ اسے اس لگژری ہوٹل سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ خاتون، جو اپنی شناخت کلپنا بھاگوت کے نام سے کرتی ہے، بم دھماکوں کے وقت دہلی میں تھی۔ پولیس نے اس کا ریمانڈ مانگتے ہوئے عدالت میں یہ بات کہی۔ پولیس نے اس کا ریمانڈ مانگتے ہوئے کہا کہ تفتیش اس بات پر مرکوز ہوگی کہ آیا وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور دہلی دھماکوں کے کیس سے اس کے ممکنہ روابط کی پوری طرح سے جانچ کی جائے گی۔

ہوٹل کی تلاشی کے دوران، پولیس کو 2017 کا فرضی آئی اے ایس تقرری خط اور اس کے آدھار کارڈ میں بے ضابطگیاں ملی۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ خاتون کے بینک اکاؤنٹ میں اس کے بوائے فرینڈ اشرف خلیل اور اس کے بھائی عوید خلیل کے اکاؤنٹس سے بڑی رقم منتقل کی گئی تھی۔ اشرف علی کا تعلق افغانستان سے ہے اور عوید خلیل کا تعلق پاکستان میں ہے۔ پولیس نے اطلاع دی کہ اس کے کمرے سے 19 کروڑ روپے کا ایک چیک اور 6 لاکھ روپے کا دوسرا چیک برآمد ہوا ہے۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کے پاس 11 بین الاقوامی نمبر تھے جن میں سے کچھ کا تعلق افغانستان اور پشاور سے تھا۔ تحقیقات میں شامل سینئر حکام نے انکشاف کیا کہ کلپنا بھاگوت کی سرگرمیاں صرف ازبک شہری تک محدود نہیں تھیں۔ وہ عوید خلیل اور اشرف علی کے ویزے حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔ اشرف کو افغانستان سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔

خاتون کے ضبط شدہ موبائل فون کی جاری فرانزک جانچ کے دوران، پولیس کو کئی جعلی تصاویر ملی ہیں جن میں کلپنا بھاگوت کو ملک بھر کے اہم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ موبائل فون میں پاکستانی فوجی حکام کے نمبر بھی تھے جن میں پشاور آرمی کنٹونمنٹ بورڈ اور افغان سفارتخانے کے دفتر بھی شامل تھے۔ ’’او ایس ڈی ٹو دی ہوم منسٹر‘‘ کے نام سے محفوظ کردہ ایک نمبر بھی برآمد ہوا۔

پولیس نے کہا کہ پاکستان میں کسی کے ساتھ واٹس ایپ چیٹس اس کے فون سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے دو افسران گزشتہ تین دنوں سے خاتون سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ برآمد شدہ دستاویزات میں اس کا نام کلپنا بھاگوت لکھا گیا ہے، تاہم اس کی اصل شناخت جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ کلپنا تریمبکراؤ بھاگوت (45) نامی خاتون کو ابتدائی طور پر جعلی آدھار کارڈ اور فرضی آئی اے ایس تقرری خط کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً چھ ماہ تک سڈکو کے ایک اسٹار ہوٹل میں قیام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ابتدائی تین دن کی حراست کے بعد اسے بدھ کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس کی تحویل میں توسیع کر دی گئی۔

Continue Reading

جرم

ممبئی جرم : ملاڈ میں کال سینٹر کے 24 سالہ ملازم کو چاقو مار کر قتل کر دیا گیا۔

Published

on

ممبئی : ایک 24 سالہ کال سینٹر ملازم کو بدھ 26 نومبر کو ملاڈ پولیس اسٹیشن کے دائرہ اختیار میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ممبئی پولیس کے مطابق نوجوان پر تیز دھار ہتھیار سے حملہ کیا گیا اور متعدد وار کیے گئے جس کے نتیجے میں اس کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور فی الحال اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے کیونکہ پولیس اس مہلک حملے کے پیچھے محرکات کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ ٹارگٹڈ حملہ لگتا ہے تاہم تمام زاویوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، ایک اور ہولناک قتل میں جو 20 نومبر کی رات کو گھاٹکوپر ویسٹ میں ہوا، ایک 65 سالہ ریٹائرڈ ریلوے لوکو پائلٹ، سریندر دھونڈیرام پچاڈکر، سی جی ایس کالونی علاقے میں، جسے عرف عام میں اولڈ فرنیچر گلی کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک مصروف عوامی سڑک پر بظاہر اچانک تشدد کی کارروائی میں مارا گیا۔

واقعہ کی رات تقریباً 9:30 بجے، پچھڈکر اپنی واک سے واپس آ رہے تھے اور اولڈ فرنیچر مارکیٹ سے گزر رہے تھے جب اس نے مبینہ طور پر 19 سالہ امن ورما کے ساتھ برش کر دیا۔ جو ایک معمولی حادثاتی رابطے کے طور پر شروع ہوا وہ تیزی سے جھگڑے اور پھر تشدد میں بدل گیا۔ پولیس نے بتایا کہ اچانک غصے میں آکر ورما نے پاس پڑی لوہے کی سلاخ کو پکڑ لیا اور پچڈکر کے سر پر مارا۔ دھچکا اتنا شدید تھا کہ پچڈکر موقع پر ہی گر گئے۔ ملزمان حملہ کے فوری بعد فرار ہو گئے۔ ایک راہگیر نے متاثرہ کو بے ہوش پڑا دیکھا اور اپنے گھر والوں کو آگاہ کرنے کے لیے پچادکر کے موبائل فون کا استعمال کیا۔ اس کے سوتیلے بیٹے اشوک ساٹھے اور بیوی شوبھانگی نے اسے زینوا اسپتال لے جایا، لیکن ڈاکٹروں نے علاج کے دوران اسے مردہ قرار دے دیا۔ اس کے فوراً بعد گھاٹ کوپر پولیس نے پنچنامہ کیا اور قتل کا مقدمہ درج کیا۔ ملزم امن ورما کا سراغ لگا کر حراست میں لے لیا گیا۔

Continue Reading

بالی ووڈ

252 کروڑ کا منشیات کیس : سوشل میڈیا پر اثر انداز کرنے والا اوری ممبئی کرائم برانچ کی اے این سی گھاٹ کوپر یونٹ کے سامنے پیش ہوا

Published

on

ممبئی : 252 کروڑ روپے کے منشیات کی اسمگلنگ کیس میں ایک اہم پیش رفت میں، سوشل میڈیا پر اثر انداز کرنے والے اوری آج ممبئی کرائم برانچ کے انسداد منشیات سیل (اے این سی) کے گھاٹ کوپر یونٹ کے سامنے پوچھ گچھ کے لیے پیش ہوئے۔ اے این سی نے اوری کو دوسرا سمن جاری کیا تھا، جس میں اسے تحقیقات میں شامل ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس سے قبل، انہیں 20 نومبر کو طلب کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ایجنسی کو مطلع کیا کہ وہ 25 نومبر تک دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد، دوسرا سمن جاری کیا گیا، جس میں انہیں 26 نومبر کو پیش ہونے کی ضرورت ہے۔ اے این سی سے توقع ہے کہ وہ ہائی پروفائل ڈرگز سنڈیکیٹ میں جاری تحقیقات کے حصے کے طور پر اوری کا بیان ریکارڈ کرے گی۔ مزید تفصیلات کا انتظار ہے کیونکہ تفتیش جاری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com