Connect with us
Thursday,17-April-2025
تازہ خبریں

خصوصی

اردو صحافت : دو سو سال کا تاریخی سفر

Published

on

Mufti Muhammad Sana Al-Huda Qasmi

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ،
با خبر ہونا اور رہنا انسان کی ضرورت ہے، اس سے انسان کے تجسس کی تسکین ہوتی ہے. اور ملکی اور تنظیمی کاموں کی انجام دہی اور فیصلے لینے میں سہولت بھی، قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام تک خبر پہونچا نے کے لیے ہُد ہُد کا ذکر ہے، بعد کے دور میں یہ کام کبوتر سے لیا جانے لگا، مغل بادشاہوں نے اس کے لیے منزل اور چوکیاں بنائیں، تاکہ تیز رفتاری کے ساتھ خبروں کے ارسال اور ترسیل کا کام کیا جاسکے،

یہ کام زیادہ منظم انداز میں ہو اور عوام تک بھی احوال وکوائف پہونچیں اس کے لیے مختلف ملکوں میں اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا، اور ہر ملک نے اپنی زبان میں اس کو رائج کیا، ہندوستان میں مغلیہ دور میں فارسی کا چلن تھا اس لیے اخبارات فارسی میں جاری کیے گیے، پھر دھیرے دھیرے اردو کا چلن ہوا، شاعری اردو میں ہونے لگی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اردو زبان کو فروغ ملا، اور یہ پلنے اور بڑھنے لگی، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اخبارات بھی اردو میں نکالے جائیں، اس طرح اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کے نام سے ۲۷؍ مارچ ۱۸۲۲ء کو نکلا، اور اب ۲۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو اردو صحافت نے دو سو سال کا کامیاب تاریخی سفر مکمل کر لیا۔

دو سو سال کی تاریخ کو مختصر مضمون میں سمیٹنا ایک دشوار تر عمل ہے، خصوصا اس لیے کہ اردو صحافت ان دو سو سالوں میں تناور درخت ہی نہیں، شاخ در شاخ ہو گئی ہے، اب صحافت صرف نامہ نگاری اور خبروں کی ترسیل ہی کا نام نہیں ہے، اس میں مضامین، تبصرے، تجزیے، کالم نگاری سب کا دخول ہو گیا ہے، پھر موضوعاتی اعتبار سے بھی اس میں خاصہ تنوع پیدا ہو گیا ہے، اب مذہبیات، معاشیات، فلمیات، کھیل کود وغیرہ کے لیے صفحات مختص ہیں، خواتین اور اطفال کے صفحات اس پر مستزاد، اسی طرح پہلے اخبارات روزنامے ہوا کرتے تھے، لیکن اب صحافت کے دائرے میں ہفتہ واری پرچے، ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی رسائل، جرنل اور خبر ناموں نے بھی اپنی جگہ بنا لیا ہے، عوامی ذرائع ابلاغ کا عصری منظر نامہ بھی کافی بدل گیا ہے، پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا، پھر الکٹرونک میڈیا آیا، اور اب سوشل میڈیا کی وسعت نے صحافت کو ایک نئے رنگ وآہنگ سے دو چار کر دیا ہے، اب صحافت انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے، بڑی تعداد میں برقی اخبارات ورسائل آن لائن نکل رہے ہیں، اور ان کے قاری کا حلقہ پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، بصیرت، ملت ٹائمس، قندیل، علماء بہار، ارباب دانش وبینش، امارت سوشل میڈیا ڈسک، اردو میڈیا فوم، اردو دنیا، اس آر میڈیا، العزیز میڈیا گروپ وغیرہ کے قاری کا پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، ان تمام قسم کے اخبارات ورسائل میں کسی حیثیت سے بھی جو جڑ گیا ہے، وہ صحافی کہلاتا ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ اخبارات کے مالکان جن میں کئی دو چار سطر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، وہ بھی بڑے صحافی کہلاتے ہیں۔ ایڈیٹر مالکان ہوتے ہیں، اور ان کی طرف سے دوسرے لوگ مضامین اداریے تبصرے لکھتے رہتے ہیں، اور مالک مدیر کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہوجاتا ہے، میں اسے استحصال سمجھتا ہوں ان حضرات کا جو واقعتا صحافی ہیں، لیکن ایسا ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے، اردو صحافت کے اس دو سو سال کے آخری پڑاؤ پر ہم لوگ جس دور میں جی رہے ہیں اردو صحافت یہاں تک پہونچ گئی ہے، اس کے بعد اور کون کون مراحل آئیں گے، اللہ جانے۔ اس معاملہ میں روزنامہ ہمارا سماج کی تعریف کرنی ہوگی کہ جو اداریہ لکھتا ہے اس کا نام اس کالم میں با ضابطہ درج ہوتا ہے۔

جہاں تک اخبارات کے مشمولات کا معاملہ ہے وہ ہر دور میں اپنی ضرورت کے اعتبار سے رہا ہے، شاہی دور حکومت میں تو نہیں، البتہ انگریزی عہد حکومت اور اس کے بعد بھی اردو اخبارات نظریاتی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم رہے، ایک حصہ حکومت موافق رہا اور دوسرا حکومت مخالف، آج بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں، البتہ پہلے جو رویہ اختیار کیا جاتا تھا، اس میں کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز بھی شامل ہوتی تھی، اب ایسا نہیں ہے، اب حکومت کی موافقت میں ہرنا جائز کو جائز کہنے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے، اور جو گودی میڈیا کا طرۂ امتیاز ہے، وہ ضمیر کی آواز پر نہیں حکمراں طبقے کی حصول رضا مندی اور قوت خرید پر موقوف ہے، اب کم صحافی ہیں، جو حق کی بات کہتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم غیر جانب دار نہیں، حق کے طرف دار ہیں، جن لوگوں نے اس انداز کی صحافت کی ان میں اردو کے اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر تھے، جن کے ہفت روزہ دہلی اردو اخبار نے انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا تھا، بعد کے دور میں مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال، مولانا محمد علی جوہر کے ہم درد، مولانا غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک کے ’’انقلاب‘‘ مولانا حسرت موہانی کے اردو معلیٰ اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندار کا شمار ایسے ہی اخبارات میں ہوتا ہے، جس نے حق کی آواز بن کر عوامی بیداری کا کام کیا اور ملک کی آزادی کے لیے راستے ہموار کیے، مذہبی اور مشرقی اقدار کا صحافت میں ذکر ہو تو مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے صدق اور سچ کو کس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے، مولانا عبد الماجد دریا آبادی صاحب طرز ادیب وصحافی تھے، وہ چھوٹے چھوٹے جملے میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے، کبھی کبھی ان کے ایک جملہ کا تبصرہ دوسروں کے بڑے بڑے مقالوں پر بھاری پڑجاتا تھا، جب جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات آئی تو انہوں نے مختصر ترین تبصرہ کیا اور لکھا کہ’’ننگی اور گندی کتاب ہے‘‘ صحافت کی دنیا میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے طرز کو تو کوئی برت نہیں سکا، لیکن مذہبی روایات اور سچی خبروں کی اشاعت کے اس سلسلہ کو مولانا عثمان فارقلیط نے الجمعیۃ کے ذریعہ اور مولانا عثمان غنی نے پہلے ’’امارت‘‘ اور پھر’’نقیب‘‘ کے ذریعہ تسلسل عطا کیا، مولانا عثمان غنی کے بے باک اداریوں نے انگریزوں کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’امارت‘‘ سے ضمانت طلب کی گئی، جرمانہ لگایا گیا، مدیر کو قید کی سزا سنائی گئی اور ضمانت کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ’’امارت‘‘ کو بند کر دینا پڑا، کم وبیش نوے سال سے جاری نقیب ترجمانِ امارت شرعیہ آج بھی اسی روش پر قائم ہے، اور ان دنوں اس کے اداریے ملک کے اخبارات و رسائل میں نقل کیے جاتے ہیں، اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہفت روزہ اخبار میں نئی دنیا دہلی بھی قارئین کو زمانۂ دراز تک اپنی گرفت میں رکھنے میں کامیاب رہا، اس کے جذباتی مضامین اور اداریے شاہد صدیقی کی ادارت میں انتہائی مقبول رہے، ’’عوام‘‘ نے بھی اس روش پر چلنا چاہا، لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔

دو سو سالہ اس سفر کے آخری ستر سالوں کو دیکھیں تو جمیل مہدی کے عزائم، پٹنہ سے نکلنے والے صدائے عام، سنگم، ساتھی، قومی تنظیم، پندار، فاروقی تنظیم وغیرہ نے قارئین کے بڑے حلقے کو اپنے فکر ونظر سے متاثر کیا، اردو صحافت کی بد نصیبی رہی کہ صدائے عام، ساتھی وغیرہ کو بند ہوجانا پڑا، سنگم نکل رہا ہے لیکن غلام سرور کا قلم موجود نہیں ہے، غلام سرور صحافت کی دنیا کا شیر تھا، اور بجا طور پر انہیں شیر بہار کہا جاتا تھا، جو بقول کلیم عاجز عمر کی آخری منزل میں سیاست کے پنجرے میں قید ہو گیا تھا، بڑی زیادتی ہوگی اگر ہم یہاں پر راشٹریہ سہارا کا ذکر نہ کریں، جو عزیز برنی کی ادارت کے دور میں مسلمانوں کا انتہائی پسندیدہ اخبار تھا. اور تاریخ کے حوالہ سے عزیز برنی کے مضامین و مقالات اور اداریے کو قارئین حق کی ترجمانی سمجھا کرتے تھے۔

اردو صحافت کی اصول سازی کی بات کریں تو اس میں ’’قومی آواز‘‘ کا کردار بڑا اہم رہا ہے، اسی طرح اردو صحافت پر جو نشیب وفراز آئے اور اسے جو ارتقاء کے مراحل نصیب ہوئے، ان میں بھوپال، کشمیر، بنگلور، پٹنہ، لکھنؤ، کولکاتہ وغیرہ کے اخبارات ورسائل کی جد وجہد اور تعمیری انداز میں کام آگے بڑھانے کے ذوق وجذبہ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اردو صحافت کو آگے بڑھانے میں جدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اردو نیوز ایجنسیوں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس طرح اردو صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور خبروں کو مصدق بنانے کے لیے پروگرام کی تصویروں کے استعمال نے اردو اخبارات کو قارئین کی پسند بنایا، ان اخبارات نے اردو کی ترویج واشاعت اور اسے گھر گھر پہونچانے کی مثالی خدمات بھی انجام دی، اس طرح ہم اردو کو مقبول بنانے میں اردو اخبارات کے اس اہم کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔

اخبارات سے آگے بڑھ کر تحقیقی، مذہبی، تعلیمی اور ادبی رسائل کا رخ کریں تو تہذیب الاخلاق علی گڈھ، معارف اعظم گڈھ، تحقیقات اسلامی علی گڈھ، مطالعات دہلی، بیسویں صدی، ہدیٰ، دربھنگہ ٹائمز، تمثیل نو ہما، پاکیزہ آنچل، شب خوں، تعمیر حیات اور برہان دہلی کی اپنی اہمیت رہی ہے، معارف آج بھی پرانی آب وتاب کے ساتھ نکل رہا ہے، برہان کے مرحوم ہونے کا غم تو آج بھی ستا رہا ہے، بیسویں صدی کا سالنامہ تو نکل جاتا ہے، لیکن خوش تر گرامی کے دور کے ماہنامہ بیسویں صدی کو اب مرحوم سمجھنا چاہیے. رحمن نیر کے وقت تک اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، لیکن اب وہ بات کہاں، اردو میں اکلوتا فلمی رسالہ’’شمع‘‘ بھی بجھ گیا ہے. ایک زمانہ میں اس کے معمے بڑے مقبول تھے. اور فلموں پر تبصرے پڑھنے تصویریں دیکھنے کے ساتھ معمے بھرنے کے لیے بھی لوگ اس کے خریدار بنتے تھے، مذہبی رسائل میں عامر عثمانی کی زندگی تک ’’تجلی‘‘ بر صغیر ہندو پاک کا مقبول ترین رسالہ تھا اس کے اداریے، تجلی کی ڈاک، کھرے کھوٹے اور ملا ابن العرب کا مزاحیہ کالم مسجد سے مئے خانے تک پڑھنے کے لیے لوگ بے تاب رہتے تھے، بعد میں ان کے داماد حسن صدیقی نے اسی انداز پر نکالنے کی کوشش کی لیکن چلا نہیں پائے اور رخ بدل کر ’’طلسماتی دنیا‘‘ نکالنے لگے، عامر عثمانی پوری زندگی جن اوہام ورسومات کے خلاف لکھتے رہے. ان کے بعد ان کے وارثوں نے اپنی معاشی مضبوطی کے لیے انہیں خطوط پر کام شروع کر دیا۔

ان دنوں جو مذہبی رسائل نکل رہے ہیں ان میں رسالہ دار العلوم، آئینہ دار العلوم، آئینہ مظاہر علوم، شارق، دین مبیں، ارمغان، راہ اعتدال، کنزالایمان، اشرفیہ، مخدوم، الرسالہ وغیرہ مذہبی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں،ان میں سے بیش تر مدارس اسلامیہ کے ترجمان ہیں. اور متعلقہ اداروں کا رنگ و آہنگ ان پر غالب رہتا ہے، ان میں سے بعضے اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی اپنے رسائل کا استعمال کر تے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اردو اخبارات قاری کے تقاضوں کی تکمیل اب بھی نہیں کر پا رہے، وجہ وسائل کی کمی ہے، یہ کمی کبھی تو اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ اردو اخبار کے مالکان رقم ضرورت کے مطابق نکالنا نہیں چاہتے یا واقعتہ چھوٹے اخبار ہونے کی وجہ سے وہ اخبارات کے لیے رقم فراہم نہیں کر پاتے، اردو اخبارات (کارپوریٹ گھرانے کے اخبار کو چھوڑ کر) مضامین، مقالات، مزاحیہ کالم اور تبصرہ وغیرہ لکھنے والوں پر ایک روپیہ بھی صرف نہیں کرتے، ان کے نزدیک اردو مضامین ومقالات کا اپنے اخبار میں چھاپ دینا ہی قلم کاروں پر احسان ہے، اس کی وجہ سے وہ لوگ جو قلم کی مزدوری کرتے ہیں، اردو اخبارات کو معیاری، تحقیقی مضامین دے نہیں پاتے، بلکہ کئی اردو کے ادیب جو ہندی انگریزی میں لکھنے پر قادر ہیں، اردو اخبارات کے بجائے ہندی انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں. کیوںکہ وہاں سے انہیں کچھ یافت ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں ماہانہ رسائل جو سرکاری اکیڈمیوں کی طرف سے نکلا کرتے ہیں، متثنیٰ ہیں. لیکن ان کے یہاں بھی مضامین کے انتخاب کا جو معیار ہے اس میں بھی بہت ساری ترجیحات ہیں، مضمون نگار اگر ان ترجیحات پر پورا نہیں اترتا تو وہاں بھی معاملہ خالی ہی خالی ہے.

خصوصی

سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

Published

on

kashmir

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔

عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

Published

on

Waqf-Meeting

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ​​ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔

اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟

جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔

Continue Reading

خصوصی

پونے میں گیلین بیری سنڈروم کے 101 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں 16 مریض وینٹی لیٹر پر اور دو کی موت ہوئی، نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے مفت علاج کا کیا اعلان۔

Published

on

GBS

پونے : گیلین بیری سنڈروم بیماری نے مہاراشٹر کے پونے میں تباہی مچا دی ہے۔ اب ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (سی اے) کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ اسہال میں مبتلا تھے جب سے وہ کچھ دن پہلے سولاپور ضلع میں اپنے گاؤں گئے تھے۔ جب کمزوری بڑھی تو میں سولاپور کے ایک پرائیویٹ اسپتال پہنچا اور جی بی ایس کا پتہ چلا۔ ہفتہ کو جب ان کی حالت مستحکم ہوئی تو سی اے کو آئی سی یو سے باہر لے جایا گیا لیکن کچھ دیر بعد سانس لینے میں دشواری کے باعث ان کی موت ہوگئی۔ اس سے قبل ایک خاتون مریضہ کی موت بھی ہوئی تھی۔ 64 سالہ خاتون کا پمپری پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے یشونت راؤ چوان میموریل ہسپتال میں علاج چل رہا تھا۔ پونے میں اب تک اس بیماری کے 101 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 16 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔ مرکز نے تحقیقات کے لیے ایک ٹیم پونے بھیجی ہے۔ ڈپٹی سی ایم اجیت پوار نے اتوار کو کہا کہ پونے میونسپل کارپوریشن کے کملا نہرو اسپتال میں جی بی ایس کے مریضوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔

جی بی ایس جیسی نایاب لیکن قابل علاج حالت میں مبتلا سولہ مریض اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں۔ علامات والے تقریباً 19 افراد کی عمر نو سال سے کم ہے، جب کہ 50-80 کی عمر کے گروپ میں 23 کیسز ہیں۔ 9 جنوری کو ہسپتال میں داخل ایک مریض پر شبہ ہے کہ پونے کلسٹر کے اندر جی بی ایس کا پہلا کیس ہے۔ ٹیسٹوں میں ہسپتال میں داخل مریضوں سے لیے گئے کچھ حیاتیاتی نمونوں میں کیمپائلوبیکٹر جیجونی بیکٹیریا کا پتہ چلا ہے۔ سی.جیجونی دنیا بھر میں تقریباً ایک تہائی جی بی ایس کیسز کا سبب بنتا ہے اور سب سے زیادہ شدید انفیکشن کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ اہلکار پونے میں پانی کے نمونے لے رہے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔

ٹیسٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پونے کے اہم آبی ذخائر، کھڈکواسلا ڈیم کے قریب ایک کنویں میں ای کولی نامی بیکٹیریا کی مقدار زیادہ تھی۔ لیکن حکام نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کنواں استعمال کیا جا رہا ہے۔ رہائشیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کھانے سے پہلے پانی ابالیں اور اپنا کھانا گرم کریں۔ محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اتوار تک 25,578 گھرانوں کا سروے کیا گیا تھا، جس کا مقصد کمیونٹی میں مزید مریضوں کو تلاش کرنا اور جی بی ایس کیسز میں اضافے کی وجوہات کا پتہ لگانا ہے، جو کہ مہینے میں دو سے زیادہ نہیں ہوتے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جی بی ایس سے متاثرہ 80 فیصد مریض ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے چھ ماہ کے اندر بغیر مدد کے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے اعضاء کا مکمل استعمال دوبارہ حاصل کرنے میں ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ جی بی ایس کا علاج بھی بہت مہنگا ہے۔ مریضوں کو عام طور پر امیونوگلوبلین (ایوگ) انجیکشن کے کورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مریض کو اس کی بیماری کے مطابق انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔ ایک 68 سالہ مریض کو 16 جنوری کو داخل کیا گیا تھا۔ اسے 13 انجیکشنز کے ایوگ کورس کی ضرورت تھی، ہر شاٹ کی قیمت تقریباً 20,000 روپے تھی۔

شہر کے تین بڑے ہسپتالوں نے اس ہفتے کے شروع میں مقامی صحت کے حکام کو ایک الرٹ بھیجا جب انہوں نے صورتحال کو تشویشناک پایا۔ ہسپتال میں نئے داخل ہونے والے مریضوں میں جی بی ایس کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ 10 جنوری کو 26 مریضوں کو داخل کیا گیا۔ جمعہ تک یہ تعداد بڑھ کر 73 ہو گئی۔ پونے میں بڑھتے ہوئے معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے اعلان کیا، ‘علاج مہنگا ہے۔ ضلع انتظامیہ اور میونسپل کارپوریشن کے افسران سے بات چیت کے بعد ہم نے مفت علاج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پمپری چنچواڑ کے لوگوں کا علاج وائی سی ایم اسپتال میں کیا جائے گا، جبکہ پونے میونسپل کارپوریشن کے علاقوں کے مریضوں کا علاج کملا نہرو اسپتال میں کیا جائے گا۔ دیہی علاقوں کے شہریوں کے لیے پونے کے ساسون اسپتال میں مفت علاج فراہم کیا جائے گا۔’

جب جی بی ایس ہوتا ہے، تو جسم کا مدافعتی نظام اپنے اعصاب پر حملہ کرتا ہے۔ یہ اچانک بے حسی، پٹھوں کی کمزوری یا فالج کا سبب بنتا ہے۔ پونے شہری ادارہ کے ایک ذریعہ کے مطابق، اس کی علامات میں اسہال، پیٹ میں درد، بخار، متلی اور الٹی شامل ہیں۔ یہ آلودہ پانی یا کھانے سے ہو سکتا ہے۔ محکمہ صحت نے لوگوں کو ابلا ہوا پانی پینے اور کھلا یا باسی کھانا کھانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایک سینئر میڈیکل آفیسر نے کہا کہ حالیہ ویکسینیشن، سرجری اور نیوروپتی اس سنڈروم کو متحرک کر سکتے ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com