Connect with us
Saturday,23-November-2024
تازہ خبریں

(جنرل (عام

حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم پرسنل لاء کا سخت ردعمل

Published

on

Maulana Mahmood Asad Madani

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے سلسلے میں جو فیصلہ دیا ہے، وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے مغائر ہے۔ اور جلد ہی بورڈ اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گا، اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کریگا۔ یہ بات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ دستور کی دفعہ 51 کے بھی خلاف ہے جو مذہب، نسل، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں، وہ لازم ہوتے ہیں۔ اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے، اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے، اگر کوئی اس حکم پر عمل نہ کرے، تو وہ اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا ہے، لیکن وہ گناہگار ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حکم نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکام میں تساہل سے کام لیتے ہیں، جیسے نماز نہیں پڑھتے ہیں، اور روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں، پھر یہ کہ اپنی پسند کا لباس پہننا، اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصے کو چھپانا، اور بعض حصوں کو کھلا رکھنا، ہر شہری کا دستوری حق ہے، اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی فرد کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہ موجود ہیں، اور بہت سے مواقع پر وہ اپنی مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے ہیں، خود حکومت بھی بعض مذہبی فرقوں کے لیے ان کی خصوصی علامتوں کو استعمال کی اجازت دیتی ہے، یہاں تک کے ان کے لیے ہوا بازی کے قانون میں ترمیم بھی کی گئی ہے، ایسی صورت حال میں مسلمان طالبات کو حجاب کے استعمال سے روکنا مذہب کی بنیاد پر تفریق کی شکل قرار پائے گی، پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہیکہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے۔ اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکولوں کا نہیں کالج کا تھا، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس فیصلے پر گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کرتا ہے اور وہ جلد ہی اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گا۔ اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کریگا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ حجاب سے متعلق فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، اس کو ملک اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔انہوں نے یہ ردعمل آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے مذہبی آزادی پر براہ راست اثر پڑے گا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی سماج صرف قانونی باریکیوں سے نہیں چلتا، بلکہ سماجی و روایتی طور پر اس کا قابل قبول ہونا بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوں گے، بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر اثر پڑے گا، اور وہ موجودہ پیدا کردہ صورت حال میں اپنی آزادی اور اعتماد کھو دیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی بہت ہی قدیم روایت اور تہذیب ہے، بالخصوص مسلم خواتین کے عقیدے و تصور میں صدیوں سے پردہ اور حیاء کی ضرورت و اہمیت ثبت ہے، اسے صرف عدالت کے فیصلے سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

مولانا مدنی نے اس امر پر زور دیا کہ فیصلہ جس مذہب کے بارے میں کیا جا رہا ہے، اس کے مسلمہ عقائد، اس مذہب کے مستند علماء و فقہا کے اعتبار سے ہونا چاہیے، عدالتوں کو اس میں اپنی طرف سے علیحدہ راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا مدنی نے ریاستی سرکاروں اور ملک کی مرکزی حکومت کو متوجہ کیا کہ وہ کسی قوم کی مسلمہ تہذیب و روایت (پرمپرا) اور عقیدے کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کریں، اور اگر مسئلہ عدالت سے حل نہ ہو تو جمہوریت میں پارلیامنٹ اور اسمبلیوں کو قانون بنانے کا پورا حق ہوتا ہے، اس لیے قومی مفاد (راشٹرہت) میں قانون ساز اداروں کو اقدام کرنا چاہیے۔مولانا محمود مدنی نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر احتجاج اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں، اور صبر وثبات کا مظاہرہ کریں۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے حجاب پر پابندی کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کو خارج کرنے کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا مسلم طالبات کی عرضی کو خارج کرنا، اور اس بات کو برقرار رکھنا کہ حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے، انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ فیصلہ بنیادی حقوق اور تکثیریت کے آئینی اقدار کی روح کے خلاف ہے۔ ملک کی مسلم خواتین جن کے لئے حجاب ان کے عقیدے اور شناخت کا لازمی جزو ہے، ان کے جذبات کے تئیں عدالت کی یہ بے حسی انتہائی حیران کن ہے۔ عدالت ایک ایسے عمل کے خلاف مذہبی مواد کی تشریح کر کے نیا اصول وضع کر رہی ہے، جسے مسلمانوں کی اکثریت اسلامی مواد کے فہم کے مطابق درست اور ضروری سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔ سوال بنیادی طور پر مسلم خواتین کے اپنی پسند کے کپڑے پہننے کے بنیادی حق کو لے کر تھا، اس کے متعلق نہیں کہ اسلام میں کیا ضروری ہے، اور کیا نہیں۔ ایک جمہوری ملک میں، اپنی مذہبی کتابوں کی تشریح کا حق اس مذہب کے ماننے والوں کو ہی دیا جانا چاہئے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ حجاب کا بھگوا شال سے موازنہ کر کے، ایسا لگتا ہے کہ عدالت سنگھ پریوار کی چال میں پھنس گئی ہے۔ یہ واقعی فکر مندی کی بات ہے کہ اس فیصلے کو دائیں بازو کی جماعتیں آگے بھی اپنی پسند کے کپڑے پہننے پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے لئے ایک جواز کی طرح استعمال کریں گی۔ پاپولر فرنٹ اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے، اور ملّی قائدین سے قانونی و جمہوری طریقے اپناتے ہوئے اسے متحدہ طور پر چیلنج کرنے کی اپیل کرتی ہے۔

(جنرل (عام

ممبئی میٹرو لائن 3 : ممبئی کے باندرہ کرلا کمپلیکس میٹرو اسٹیشن میں آگ لگ گئی، ٹرین سروس روک دی گئی، لوگ پریشان

Published

on

bkc metro station fire

ممبئی : ممبئی کے باندرہ-کرلا کمپلیکس (بی کے سی) میٹرو اسٹیشن کے تہہ خانے میں جمعہ کو آگ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے ٹرین سروس معطل کردی گئی۔ حکام کے مطابق آگ رات 1.10 بجے کے قریب لگی۔ آگ اسٹیشن کے اندر 40-50 فٹ کی گہرائی میں لکڑی کی چادروں، فرنیچر اور تعمیراتی سامان تک محدود تھی۔ جس کی وجہ سے علاقے میں دھوئیں کے بادل پھیل گئے۔ ایک شہری اہلکار نے بتایا کہ آگ میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فائر انجن اور دیگر آگ بجھانے والی گاڑیاں صورتحال پر قابو پانے کے لیے موقع پر موجود ہیں۔ تاہم، بی کے سی اسٹیشن پر ٹرین خدمات دوپہر 2:45 تک مکمل طور پر بحال کردی گئیں۔

بی کے سی میٹرو اسٹیشن ممبئی میٹرو ریل کارپوریشن کے تحت آرے جے وی ایل آر اور بی کے سی کے درمیان 12.69 کلومیٹر طویل (ممبئی میٹرو 3) یا ایکوا لائن کوریڈور کا حصہ ہے، جس کا افتتاح گزشتہ ماہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ ممبئی میٹرو 3 نے اپنے آفیشل ‘ایکس’ ہینڈل پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ بی کے سی اسٹیشن پر مسافروں کی خدمات کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے کیونکہ انٹری/ایگزٹ اے4 کے باہر آگ لگ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اسٹیشن دھویں سے بھر گیا۔ فائر ڈیپارٹمنٹ ڈیوٹی پر ہے۔ ہم نے مسافروں کی حفاظت کے لیے خدمات بند کر دی ہیں۔ ایم ایم آر سی اور ڈی ایم آر سی کے سینئر عہدیدار موقع پر موجود ہیں۔ متبادل میٹرو سروس کے لیے براہ کرم باندرہ کالونی اسٹیشن جائیں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔

ممبئی میٹرو 3 نے ایک پوسٹ میں کہا کہ بی کے سی میٹرو اسٹیشن پر ٹرین خدمات 14.45 پر مکمل طور پر بحال کردی گئیں۔ ہم ہونے والی زحمت کے لیے مخلصانہ معذرت خواہ ہیں اور تمام مسافروں کے صبر اور سمجھ بوجھ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ ممبئی میٹرو حکام کے مطابق آگ اے4 کے داخلی اور خارجی دروازوں کے قریب لگی، جس سے اسٹیشن کے داخلی دروازے پر دھواں پھیل گیا۔ اطلاع ملنے پر فائر بریگیڈ کے عملے کو فوری طور پر موقع پر بھیجا گیا اور آگ بجھانے کا کام کیا۔ شکر ہے کہ اس واقعے میں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

‘نفرت انگیز تقاریر اور غلط بیانی میں فرق ہوتا ہے،’ سپریم کورٹ کا پی آئی ایل پر سماعت سے انکار

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں کو اشتعال انگیز تقاریر کرنے سے روکنے کے لیے رہنما خطوط جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر کا موازنہ غلط بیانی یا جھوٹے دعوے کے کیس سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں فرق ہے۔ عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ نفرت انگیز تقریر کیا ہوتی ہے۔ آپ نے مسئلہ سے انحراف کیا۔ درخواست میں نفرت انگیز تقریر کے جرم کو غلط پیش کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شکایت ہے تو آپ قانون کے مطابق معاملہ اٹھا سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پی آئی ایل کو سننے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر اور غلط بیانی میں فرق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ، اس نے ‘ہندو سینا سمیتی’ کے وکیل سے کہا جس نے پی آئی ایل دائر کی تھی کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں نوٹس جاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت موجودہ رٹ پٹیشن پر غور کرنے کے لئے مائل نہیں ہیں، جو دراصل ‘مبینہ بیانات’ کا حوالہ دیتی ہے۔ مزید برآں، اشتعال انگیز تقریر اور غلط بیانی میں فرق ہے۔ اگر درخواست گزار کو کوئی شکایت ہے تو وہ قانون کے مطابق معاملہ اٹھا سکتے ہیں۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ کیس کی خوبیوں پر تبصرہ نہیں کر رہا ہے۔ پی آئی ایل نے عدالت سے اشتعال انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے اور امن عامہ اور قوم کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے والے بیانات دینے والے افراد کے خلاف تعزیری کارروائی کا حکم دینے کی درخواست کی تھی۔ درخواست گزار کے وکیل کنور آدتیہ سنگھ اور سواتنتر رائے نے کہا کہ لیڈروں کے تبصرے اکثر اشتعال انگیز ہوتے ہیں، جو ممکنہ طور پر عوامی بے چینی کا باعث بن سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے جمعرات کو اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں ڈاکٹروں کو ہدایت کی درخواست کی گئی تھی کہ وہ مریضوں کو ان کی تجویز کردہ دوا سے منسلک تمام ممکنہ خطرات اور مضر اثرات کے بارے میں آگاہ کریں۔ جب دہلی ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ عدالت نے کہا، ‘یہ عملی نہیں ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو، ایک ڈاکٹر 10-15 سے زیادہ مریضوں کا علاج نہیں کر سکے گا اور کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے دلیل دی کہ اس سے طبی لاپرواہی کے معاملات سے بچنے میں مدد ملے گی۔ بنچ نے کہا کہ ڈاکٹر سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں جس میں طبی پیشہ کو کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کے دائرے میں لایا گیا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

کرنی سینا کے قومی صدر راج سنگھ شیخاوت کا بڑا اعلان… لارنس گینگ کے گولڈی-انمول-روہت کو مارنے والوں کو ایک کروڑ روپے تک کا نقد انعام۔

Published

on

Karni-Sena-&-Lawrence

جے پور : کھشتریہ کرنی سینا کے قومی صدر راج سنگھ شیخاوت ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ انہوں نے بدنام زمانہ گینگسٹر لارنس بشنوئی کے بھائی انمول بشنوئی کو قتل کرنے والے شخص کے لیے ایک کروڑ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا ہے۔ یہی نہیں راج سنگھ شیخاوت نے لارنس گینگ کے حواریوں کو مارنے پر مختلف انعامات کا اعلان بھی کیا ہے۔ راج سنگھ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کرکے انعام کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل لارنس پر انعام کا اعلان کر چکے ہیں لیکن صرف لارنس ہی نہیں اس کے پورے گینگ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں گینگ کے کارندوں پر انعامی رقم کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

راج سنگھ شیخاوت کا کہنا ہے کہ دادا میرے گرو ہیں اور وہ ان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ سکھدیو سنگھ گوگامیڈی کو دادا کہہ کر مخاطب کر رہے تھے کیونکہ سماج کے بہت سے لوگ اور گوگامیڈی کے حامی انہیں دادا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ شیخاوت نے کہا کہ دادا کو گینگسٹر لارنس بشنوئی گینگ نے قتل کیا تھا۔ قتل کے بعد گینگ نے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ ایسے میں وہ صرف لارنس پر انعام کا اعلان کرنے کے بجائے اس گینگ کے تمام ارکان کو مارنے والوں کو نقد انعام دیں گے۔ انعام کی رقم کھشتریہ کرنی سینا خاندان کی طرف سے دی جائے گی۔

1… انمول بشنوئی (لارنس بشنوئی کا بھائی) – ایک کروڑ روپے
گولڈی برار پر 51 لاکھ روپے …2
3… روہت گودارا پر 51 لاکھ روپے
4… سمپت نہرا پر 21 لاکھ روپے
5… وریندر چرن پر 21 لاکھ روپے

کچھ دن پہلے بھی راج سنگھ شیخاوت نے گینگسٹر لارنس بشنوئی پر نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی پولیس والا لارنس کو مارتا ہے یا انکاونٹر کرتا ہے وہ جیل میں ہوتا ہے۔ وہ اس پولیس اہلکار کو ایک کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ روپے کا نقد انعام دیں گے۔ حال ہی میں جب راج سنگھ شیخاوت نے لارنس بشنوئی کے انکاؤنٹر پر پولیس والوں کے لیے نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔ ان دنوں سکھدیو سنگھ گوگامیڈی کی اہلیہ شیلا شیخاوت نے کہا کہ ان کے بیان کا شری راشٹریہ راجپوت کرنی سینا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک الگ تنظیم کے صدر ہیں اور ان کا گوگامیڈی کی طرف سے بنائی گئی شری راشٹریہ راجپوت کرنی سینا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی اعلان کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، ہماری تنظیم اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ شیلا شیخاوت نے یہ بھی کہا کہ گوگامیڈی سے محبت کرنے والے ہزاروں لوگ ہیں، یہ ان پر منحصر ہے کہ کون کب کیا اعلان کرتا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com