خصوصی
نئی نسل پر سوشل میڈیا کے سائیڈ ایفیکٹس

وفا ناہید خیال اثر :
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی آسمان سے باتین کرتی قیمتوں نے عوام کے دماغ کی چولیں ہلادی ہیں. دراصل مرکز میں بیٹھی برسر اقتدار مودی حکومت اچھے دنوں کی آس اور وکاس کا نعرہ لگا کر اقتدار پر تو قابض ہوگئی، مگر اپنے سیاسی ہتھکنڈوں سے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے. جہاں ایک طرف بے روزگاری سے پریشان حال نوجوان نسل ڈیجیٹل دنیا سے اس قدر منسلک ہوگئی ہے کہ وہاٹس، فیس بک جیسی سوشل میڈیا سائیٹس کو ہی حرف آخر سمجھ لیا. ڈیجیٹل انڈیا نے ان نوجوانوں کو پب جی اور فری فائٹر جیسے تخریب کار گیمز میں الجھا دیا ہے. مختلف ایپس پر ویڈیو اپلوڈ کر کمائی کے ذرائع نے ان نوجوانوں سے ان کی غیرت حمیت اور خودداری کا جنازہ نکال دیا ہے. رہا ضمیر بے چارہ تو وہ غیرت اور خودداری کی موت پر فاتحہ پڑھ کے دل کے قبرستان میں بے حمیتی کی چادر اوڑھ کر سوگیا ہے. اب تو جیسے یہ نسل کسی سرکش سانڈ کی طرح آزاد ہوکر بے لگام ہوگئی ہیں. اب ان کی واحد دنیا ان کا موبائل اور سوشل میڈیا کا اٹھاہ گہرا پلیٹ فارم ہے. قارئین
! ہمیں یہ تحریر کرتے ہوئے بالکل عار محسوس نہیں ہو رہی ہیں کہ اب ساری انسانیت آپ کو عملی طور پر نہیں بلکہ اس شیطانی جال یعنی سوشل میڈیا پر ملیں گی. دوسری اہم بات اس خرافات میں ہمارے مسلم نوجوان سرفہرست ہیں. قارئین! اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو محمد بن قاسم نے محض 16 سال کی کم سن عمر میں سندھ پر چڑھائی کی تھی، اور فاتح سندھ کہلائے تھے. اس عمر میں ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں سے بال بیٹ نہیں چھوٹتا تھا. اب تو نئی ٹیکنالوجی موبائل فون نے انہیں ناکارہ اور نا حلف بنا دیا ہے. آج سوشل میڈیا کی ہر سائیٹس پر آپ کو کچھ پوسٹ یا ویڈیو ایسے ملیں گے، جس میں امداد کی اپیل کی گئی ہے. ادائیگی آپ کو آن لائن فون پے اور گوگل پے سے کرنی ہے. نہ دینے والے کو پتہ ہے کہ اس پوسٹ میں کتنی سچائی ہے، کیونکہ رابطہ بھی اس سے کرنا ہے، یعنی پوسٹ میں موجود نمبر سے. آج نوجوان لڑکے سوشل میڈیا پر ویڈیو بناکر اپلوڈ کرتے ہیں. جس میں ایک ہٹا کٹا شخص 2 – 3 بچوں کو لے کر گھوم رہا ہے، بچے بھوکے ہیں. وہ ہر کسی کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے. اب بچے بھوک سے نڈھال ہے، ان ہر نقاہت طاری ہے، تب کوئی شخص آ کر کھانا پانی دے جاتا ہے، اور سب ٹھیک ہو جاتا ہے.
اس طرح جو اسلام ہمیں زکوۃ خیرات کر کے غریبوں کی مدد کرنا سکھاتا تھا. اب ان مستحق افراد کی جگہ یہ ذہنی بیمار اور بے غیرت افراد آپ کی محنت کی کمائی بڑی آسانی سے ہتھیا لیتے ہیں.
قارئین! اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور اقتدار میں غرباء اور مساکین ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے. ارے جاہلوں اسلام واحد وہ مذہب جو مکمل ضابطۂ حیات ہے. ہمارے انبیائے کرام بھی اپنے زور بازو پر یقین کر کے اپنے اہل و اعیال کی کفالت کیا کرتے تھے. خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی خلیفہ بننے کے بعد بھی اپںے کاروبار سے منسلک تھے. تب صحابۂ کرام نے ان کا وظیفہ بیت المال سے جاری کیا، تاکہ ان کے اہل خانہ کی کفالت ہوسکے. ہمارے خلفائے راشدین بیت المال سے ایک پائی بھی زیادہ لینا گناہ سمجھتے تھے. جبکہ آج کا دور تو یہ ہے کہ ذرا سی کرسی کیا مل جاتی ہے، خود کو ہفت اقلیم کا بادشاہ سمجھ کر سارے بیت المال کی 70 فی صد کمائی سے جیبیں بھری جاتی ہیں، اور عوام کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے. اپنے گھروں سامان تعیش سے بھر دیا جاتا ہے. جبکہ ہمارے پیارے آقا نبئ آخری الزماں حضرت محمد ﷺ نہایت سادہ لباس پہنتے تھے. جس میں جگہ جگہ پیوند لگا ہوتا. اکثر کئی کئی دن فاقے سے گزار دیتے. ہمارے پیارے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطعہ کریں تو پتہ چلے گا، دونوں عالم کے شہنشاہ کس طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر فاقہ کشی کے ایام گزار دیتے تھے. جبکہ ان کی ایک ابروئے جنبش سے دنیا کی آسائشیں ان کے قدموں میں ہوتی. کیا کچھ نہیں تھا ان کے بس میں، مگر ان کی غیرت اور خودداری ان کی حیات طیبہ کی وہ روشن مثال ہے، جسے آپ زر سے لکھا جائے تو اس کا حق ادا نہیں ہوگا. ہم اس پیغمبر ﷺ کی امت ہے. جو رب کے حضور گڑگڑا کر ہماری بھلائی اور بخشش کے لئے دعا مانگتے تھے. زکوۃ ادا کرنے سے جہاں مال پاک ہوتا ہے، اور صدقہ ہماری جان و مال کی حفاظت کرتا ہے. اور اس پر ان غرباء مساکین اور یتیموں کا حق ہے. جو دنیائے حوارث میں بے یار و مددگار ہے. جو ہم سے زکوۃ اور صدقہ لے کر ہماری بلاؤں کو اپنے سر لیتے ہیں. اب ایسے میں وہ لوگ جو اللہ کے فضل کرم سے تندرست ہیں، مگر معاشی تنگدستی میں کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے. بلکہ اب تو ایسے لوگوں کو سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا سہارا ہاتھ لگ گیا ہے. نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے. میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے اس ماہ مقدس میں ایک گزارش کرتی ہوں کہ باغیرت اور باضمیر بنئے انشاء اللہ تعالی دولت اور شہرت آپ کے گھر کی کنیز ہوگی. کیونکہ جس طرح ٹھونک پیٹ کر لوگ لڑکی پسند کرتے ہیں. امور خانہ داری میں طاق اور سگھڑ لڑکی کو ہی گھر کی بہو بناتے ہیں، تو بالکل اسی طرح لوگ داماد بھی باغیرت اور خوددار پسند کرتے ہیں. سسرال کے مال کے اوپر نظر رکھنے والا اور ہر وقت دوسرں پر انحصار کرنے والا مرد کبھی خوددار نہیں ہو سکتا.
(جنرل (عام
سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، "کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔
وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔
خصوصی
سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔
جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔
عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔
خصوصی
وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔
اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔
کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟
جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔
-
سیاست1 سال ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 سال ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست6 سال ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 سال ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 سال ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 سال ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 سال ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 سال ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا