Connect with us
Monday,11-August-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

شاہین باغ خاتون مظاہرین کے ترز پرپوری دنیا میں ان کی حمایت میں مظاہرہ کئے جارہے ہیں

Published

on

قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین کی خواتین نے گزشتہ 16 دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ مہاراشٹر کے مالیگاؤں، بہار میں گیا، پٹنہ، ارریہ، مدھوبنی اور دیگر علاقوں میں سمیت الہ آباد میں منصور علی پارک (روشن باغ) اور دہلی کے سلیم پور، ذاکر نگر ڈھلان پر خواتین مستقل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ راجستھان کے کوٹہ شہر میں بڑی تعداد میں خواتین نے جلوس نکال کر اس قانون کی مخالفت کی ہے۔ خواتین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جانے کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔
ایک مہینہ پورا ہونے والے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ایک 20 دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
شاہین باغ میں اتوار کو لاکھوں مرد وخواتین نے جمع ہوکر یہ دکھادیا کہ وہ لوگ کتنے متحد ہیں اور اسی کے ساتھ شاہین باغ مظاہرین اسکوائر پر پنڈتوں نے ہون، سکھوں نے کیرتن، بائبل اور قرآن کی تلاوت کرکے صلح کل کا پیغام دے رہے ہیں۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کردیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ’سیکولر‘ چائے ملتی ہے۔ جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔ کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے، بریانی کے 1800 پکیٹس تقسیم کرنے والے حسین احمد نے بتایا کہ میں اس کے ذریعہ مظاہرہ کرنے والی خواتین کو سلام کرتا ہوں اور اس کے ذریعہ ان کی حمایت کرنا مقصد ہے۔
یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے۔ کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ’نو کیش نو اکاؤنٹ‘،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں۔ باجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں کینڈل جلاکر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مظاہرہ میں شامل گیارہ سالہ فیضان احمد، گیارہ سالہ عاصیہ ندیم، رقیہ ندیم، چھ سالہ عدنان نے کہا کہ ہم ملک اور آئین کو بچانے اور سی اے اے، این سی آراور این پی آر کی مخالفت کرنے آئے ہیں۔ نویں کلاس کی جامعہ کی طالبہ نے بتایا کہ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا یہ قانون ہمیں منظور نہیں ہے۔ سماجی کارکن ملکہ نے بتایاکہ اس قانون سے غریب اور کمزور طبقہ کے سبھی مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے، اس کی مخالفت اس کی واپسی تک جاری رہے گی۔ مظفر پور کی رہنے والی خاتون نے اس مظاہرہ کے دوران کہا کہ ہم آزادی مانگنے آئے ہیں۔ایک خاتون مظاہرین نسیم بانو نے کہاکہ ہم سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے آئی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جب ملک ہی نہیں بچے گا، تو ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ایک مظاہرین شمیم بانوں نے کہاکہ میں یہاں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے آئی ہوں۔
اس کے علاوہ بچوں کا چھوٹا چھوٹا گروپ ہے جو مختلف طرح کے انقلابی نعرے لگارہے ہیں۔ یہاں جتنی خواتین آتی ہوئی نظر آتی ہیں اتنی ہی خواتین جاتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔ یہاں کی آس پاس کی دوکانیں گزشتہ ایک ماہ سے بند ہیں، جس کی وجہ سے دوکانداروں کوبھی نقصان اور پریشانی ہے۔ یہا ں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جو مختلف ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماری کا علاج اور طبیعت خراب کرنے والوں کو دوائی دیتے ہیں۔
اس مظاہرہ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں۔گرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے آہی جاتا ہے۔ ان میں سیاست داں سماجی کارکن، فلمی ہستیاں، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی، اور سماجی ہستی شامل ہیں۔
کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ مودی حکومت ملک کی مشترکہ ورثے اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ملک کے عوام ان کی اس منشا کو پورا ہونے نہیں دیں گے۔مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہاکہ شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اورکامیابی آپ کی قدم چومے گی اور آپ کی یہ لڑائی منزل کے بغیر ختم نہیں ہونی چاہئے۔
شاہین باغ سے جامعہ اسکوائر تک چلنے والے اس مظاہرہ میں شامل ہونے والی سماجی کارکن سیما اسلم نے کہاکہ ہم احتجاج میں اس لئے آئے ہیں ہمیں حراستی کیمپ میں نہیں جانا ہے۔ اس لئے خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں کیوں کہ جب کوئی بھی بات پیش آتی ہے تو سب سے زیادہ خواتین ہی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج اس وقت کرتے رہیں گے جب تک اس کو واپس نہیں لیا جاتا ہے۔
سیمانچل سے تعلق رکھنے والی خواتین مظاہرین نے کہاکہ آج اس کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کیوں کہ غریب لوگ شہریت کا ثبوت کہاں سے پیش کریں گے جب کہ اس کے پاس کوئی گھر، مکان یا جائداد نہیں ہے اور خاص طور پر ؎خواتین جب شادی ہوکر سسرال چلی جاتی ہیں زیادہ تر ان کے نام سے کوئی جائداد نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس پیسہ ہے ہم دستاویزات بنوالیں گے لیکن غریب خواتین کہاں سے دستاویزات لے کر آئیں گی۔
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کی حمایت کرتے سوراج ابھیان کے صدر یوگیندریادو نے کہا کہ میں یہاں ملک اور آئین کو بچانے کے لئے یہاں آیا ہوں۔انہوں نے خواتین کے جذبے کو سلام کرتے ہوئے کہاکہ خواتین آئین کی حفاظت کے لئے اس سخت سردی کے موسم میں آرام وآسائش کو چھوڑ کر دن رات کا دھرنا دے رہی ہیں۔
کل ہند مسلم یوتھ فورم کے سرپرست ٹی ایم ضیاء الحق نے مظاہرہ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ شاہین باغ کا خواتین مظاہرہ پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ یہاں کی خواتین کسی طرح بھی اپنے حقوق اور ملک کے آئین کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہندوؤں کے بھی خلاف ہے۔پیپلزآف ہوپ کے چیرمین رضوان احمد نے خواتین کے مظاہرے کو ظلم و جبر اور آئین کے حق میں جنگ کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہاکہ بغیر کسی رہنمائی اور بغیر کسی انتظام کے 18 دن سے مظاہرہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب وہ اپنی طاقت دکھانے پر آجائے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش نے کہاکہ آج ساری انسانی برادری کا متحد ہوکر ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنااور مظلوموں کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔انہوں نے کہاکہ انسانیت ہمارا سب سے بڑا مذہب ہے اور اسی کو لیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے تناظر میں کہا کہ کچھ لوگ ہمیں باٹنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں متحد رہنا ہے۔ قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف خواتین کے احتجاج دیکھ کر اور خود کو آپ لوگوں کے درمیان پاکر قابل فخر محسوس کر رہا ہوں اور یہاں 20 دن کی بچی سے لیکر 80 سال کی خاتون تک ہیں۔
اس مظاہرہ کے انتظام و انصرام سے وابستہ محمد رفیع اور صائمہ خاں نے بتایا کہ اس مظاہرہ کی خاص کی بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی تنظیم کے ہے اور نہ ہی اس مظاہرہ میں اب تک کسی کو بلایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا کوئی منتظم ہے بس ہم لوگ یہاں کا تھوڑا بہت انتظام دیکھ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ مظاہرہ کسی فرقہ کے حق کیلئے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ہم آئین کی حفاظت کے لئے سرد ی کی سخت ترین راتوں میں مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک آئین سے چلتا ہے اور جب آئین ہی نہیں بچے گاتو ملک کیسے بچے گا۔ یہ پوری دہلی بلکہ پورے ملک کی خواتین کو پیغام دے رہی ہیں کہ ظلم اور ناانصافی اوراس کا لا قانون کے خلاف احتجاج اور دھرنا میں کسی سے بھی وہ پیچھے نہیں ہیں اور وہ صرف زندگی میں ہی مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں، بلکہ ملکی حالات، مظالم کے خلاف اور پولیس کی بربریت کے خلاف اپنے آنچل کو پرچم بنانا بخوبی جانتی ہیں۔
دن رات کے مظاہرے میں حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفی دینے والے عبد الرحمان، فلمی ہستی ذیشان ایوب، مشہور سماجی کارکن، مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، فلمی اداکارہ سورا بھاسکر، کانگریس لیڈر سندیپ دکشت، بار کونسل کے ارکان، وکلاء، جے این یو کے پروفیسر، سیاست داں سریشٹھا سنگھ، الکالامبا، ایم ایل اے امانت اللہ خاں، سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں، بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید، گوہر رضا، پپو یادو، وغیرہ نے اب تک شرکت کرکے ہمارے کاز کی حمایت کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آگے بھی ملک کی اہم شخصیت کی شرکت کی توقع ہے۔
اس مظاہرہ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو 16 دسمبر سے مسلسل بھوک ہڑتال پر ہے مگر انتظامیہ کے کسی شخص نے اس کی سدھ لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہ شخص صرف سیال چیزوں پر ہے۔اس کے ایک خاتون مہر النسا بھی ہیں جو گزشتہ دو ہفتوں سے بھوک ہڑتال ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ بھوک ہڑتال کو اتنے دن ہوگئے لیکن نہ تو دہلی حکومت کا کوئی نمائندہ اور نہ ہی مرکزی حکومت کا کوئی نمائندہ ان سے ملنے آیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

سیاست

راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن پر حملہ کرتے ہوئے ووٹ چوری کے سنگین الزامات لگائے، ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے۔

Published

on

Rahul-G.

نئی دہلی : لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مہاراشٹر کے انتخابی اعداد و شمار دکھائے اور الزام لگایا کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور 40 لاکھ ووٹ پراسرار طریقے سے جوڑے گئے۔ کانگریس لیڈر نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں 5 مہینوں میں لاکھوں ووٹروں کے نام فہرست میں شامل کئے گئے جو کہ کافی تشویشناک ہے۔ نئے ووٹرز کے اضافے سے ہمارے شکوک میں اضافہ ہوا اور پھر شام 5 بجے کے بعد ووٹنگ میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔ ہمارے اتحاد نے لوک سبھا انتخابات میں شاندار جیت حاصل کی، لیکن ہمارے اتحاد کو اسمبلی انتخابات میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ بہت مشکوک ہے۔

راہول گاندھی نے کہا کہ ہم نے اپنی تحقیقات شروع کر دیں۔ بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ پر ہار کی جانچ کی گئی، خاص طور پر مہادیو پورہ اسمبلی میں۔ بی جے پی کو یہاں سے 1.14 لاکھ کی برتری حاصل ہوئی، جب کہ پورے لوک سبھا حلقے میں کانگریس کو صرف 32,000 ووٹوں سے شکست ہوئی۔ ووٹر لسٹوں کے 7 فٹ اونچے ڈھیر سے 1 لاکھ سے زائد ووٹوں کی چوری پکڑی گئی۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہمیں 5 طرح کے ووٹ چوری کا پتہ چلا۔

راہول گاندھی نے کہا کہ ‘انتخابی دھاندلی’ کے ثبوت جمع کرنے میں کل چھ ماہ لگے۔ راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں کا ‘مشین ریڈ ایبل’ ڈیٹا فراہم نہیں کر رہا ہے تاکہ یہ سب پکڑا نہ جا سکے۔ ان کی ٹیم نے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ کے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور پھر بے ضابطگیوں کا پتہ چلا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ کے سبھی سات اسمبلی حلقوں میں سے چھ میں پیچھے رہی، لیکن اسے مہادیو پورہ میں یک طرفہ ووٹ ملا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ میں 1,00,250 ووٹ چوری ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک پتے پر 50-50 ووٹر تھے۔ بہت سی جگہوں پر نام ایک جیسے تھے لیکن تصاویر مختلف تھیں۔

راہول گاندھی نے کہا کہ ہمارے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے درمیان ایک کروڑ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے یہ مسئلہ الیکشن کمیشن کے سامنے اٹھایا اور ایک مضمون لکھا جس میں ہماری اصل دلیل یہ تھی کہ مہاراشٹر کا الیکشن چوری ہوا تھا۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہر جمہوریت میں حکمراں پارٹی کو حکومت مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن بی جے پی واحد پارٹی ہے جو اس لہر سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔ راہل نے الزام لگایا کہ ووٹر لسٹ اس ملک کی ملکیت ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے اسے دینے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو تباہ کرنے کی بات کہی، جو چونکا دینے والی تھی۔ شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد مہاراشٹر میں بھاری ووٹنگ کی بات ہو رہی تھی، لیکن ہمارے لوگوں نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر اتنی بھاری ووٹنگ نہیں ہوئی۔ یہ دونوں چیزیں ہمیں یہ یقینی بناتی ہیں کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن چوری کر رہا ہے۔ راہل گاندھی نے کچھ اعداد و شمار کا ذکر کیا۔

ہریانہ اور مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ایگزٹ پول، رائے شماری اور کانگریس کا اندرونی سروے جو کہ بالکل درست ہے، کچھ اور ہی اشارہ دے رہے ہیں۔ تاہم، نتائج بالکل برعکس تھے. رائے شماری کچھ اور ہی دکھا رہی تھی لیکن نتائج بڑے فرق کے ساتھ بالکل الٹ آئے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر سوال اٹھاتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ ملک کے آئین کی بنیاد ‘ایک شخص، ایک ووٹ’ کے اصول پر ہے، لیکن حالیہ انتخابی نتائج اس اصول کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے اندرونی سروے اور باقاعدہ رائے شماری ایک خاص رجحان کو ظاہر کر رہے تھے، لیکن نتائج میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ آئین کے بنیادی اصولوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

ملک کے ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی سخت… دہشت گردی کے بڑے حملے کی وارننگ کے بعد خفیہ ایجنسی متحرک، فضائی پٹیوں اور ہیلی پیڈز پر نگرانی بڑھانے کی ہدایت

Published

on

mumbai-airport

نئی دہلی : ملک کے ہوائی اڈوں پر سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ یہ قدم بی سی اے ایس (بیورو آف سول ایوی ایشن سیکیورٹی) کی وارننگ کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ بی سی اے ایس کو خدشہ ہے کہ 22 ستمبر سے 2 اکتوبر 2025 کے درمیان دہشت گردانہ حملے ہو سکتے ہیں۔ اس خطرے کے پیش نظر تمام ہوائی اڈوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ سیکورٹی میں یہ اضافہ خفیہ اطلاع ملنے کے بعد کیا گیا ہے۔ محکمہ انٹیلی جنس کو اطلاع ملی ہے کہ کچھ ‘سماج دشمن عناصر’ فساد پھیلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے، شہری ہوا بازی کی وزارت نے 4 اگست کو ایک ایڈوائزری جاری کی تھی۔ اس ایڈوائزری میں تمام ہوائی اڈوں، ہوائی اڈوں، ہیلی پیڈز اور تربیتی اداروں پر نگرانی بڑھانے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ بی سی اے ایس ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ انہیں مرکزی سیکورٹی ایجنسی سے معلومات ملی ہیں۔ اس معلومات کے مطابق ‘سماج دشمن عناصر یا دہشت گرد گروہوں سے ممکنہ خطرہ’ ہے۔ اس لیے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ہوائی اڈوں پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کو چوبیس گھنٹے ہائی الرٹ رہنے کو کہا گیا ہے۔ وہ ایئرپورٹ کے ٹرمینل، پارکنگ ایریا اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مسلسل گشت کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ مقامی پولیس کے ساتھ مل کر شہر کے سکیورٹی نظام کو مضبوط کریں۔

اس ہدایت کا اطلاق نہ صرف گھریلو پروازوں پر ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی پروازوں پر بھی ہوتا ہے۔ تمام ایئر لائنز کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہوائی جہاز میں لوڈ کیے جانے سے پہلے تمام کارگو اور میل کو اچھی طرح سے چیک کیا جائے۔ ملکی اور بین الاقوامی ترسیل کے لیے آنے والے میل پارسلز کی چیکنگ بھی سخت کر دی گئی ہے۔ ایئرپورٹ اتھارٹی کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایئرپورٹ پر آنے والے تمام ملازمین، ٹھیکیداروں اور زائرین کی شناخت کی جانچ کی جائے۔ اگر کوئی شخص بغیر اجازت ایئرپورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اسے فوری طور پر روک دیا جائے گا اور متعلقہ حکام کو آگاہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ تمام سی سی ٹی وی کیمرے چل رہے ہیں اور ان کی مسلسل نگرانی کی جائے گی۔ اگر کوئی مشکوک رویہ یا غیر دعویدار چیز نظر آئے تو اس کا فوری طور پر خیال رکھا جائے۔

بی سی اے ایس نے تمام متعلقہ ایجنسیوں جیسے کہ مقامی پولیس، سی آئی ایس ایف (سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس)، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تال میل میں کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی خطرے سے متعلق معلومات کو فوری طور پر شیئر کیا جاسکے اور بروقت کارروائی کی جاسکے۔ مسافروں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ اگر وہ کوئی مشکوک سرگرمی دیکھیں یا کوئی لاوارث سامان دیکھیں تو فوری طور پر حکام کو مطلع کریں۔ ضرورت پڑنے پر ہوائی اڈوں پر مسافروں کو سیکیورٹی کی معلومات فراہم کرنے کے اعلانات بھی کیے جائیں گے۔ ایڈوائزری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی رسپانس ٹیموں اور پروٹوکول کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جہاں ممکن ہو، فوری مشقیں یا بریفنگ کروائی جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کی جا سکیں۔

Continue Reading

سیاست

آر ایس ایس اپنی صد سالہ تقریبات کے لیے تیار، تین ممالک سے فاصلہ برقرار رکھے گا… پاکستان اور اس کے یہ دو قریبی دوست مدعو کرنے والوں کی فہرست سے باہر ہیں

Published

on

RSS

نئی دہلی : اس سال وجے دشمی کے موقع پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو 100 سال ہونے جا رہے ہیں۔ آر ایس ایس اس صد سالہ تقریب کے لیے بڑی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس موقع پر کئی ممالک کے سفارت کاروں کو بھی مدعو کرنے جا رہا ہے اور اس کے لیے سفارت خانوں اور ہائی کمیشنز سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن، پاکستان، ترکی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک آر ایس ایس کے مہمانوں کی فہرست سے غائب ہیں۔ تاہم سنگھ کے اس پروگرام کے مدعو افراد کی فہرست میں اقلیتی برادریوں کے نمائندے، کھیل اور ثقافتی دنیا کی مشہور شخصیات، اسٹارٹ اپ اور تعلیم اور روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے رہنما اور کاروباری شخصیات بھی شامل ہوں گی۔

آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات سے متعلق پروگرام اسی ماہ 26 اگست سے شروع ہو رہے ہیں، جس کے تحت دہلی میں تین روزہ ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس کی قیادت سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کریں گے۔ اس ڈائیلاگ پروگرام میں آر ایس ایس کے 100 سالہ طویل سفر، قوم کی تعمیر میں اس کے کردار اور ‘نئے افق’ پر اس کے وژن پر بات کی جائے گی۔ وجے دشمی اس سال 2 اکتوبر کو ہے اور صد سالہ تقریبات اس کے بعد بھی جاری رہیں گی اور اس طرح کے چار بڑے پروگراموں کا ایک سلسلہ منعقد کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر، نومبر میں، اسی طرح کا ایک بہت بڑا ڈائیلاگ پروگرام بنگلورو میں منعقد ہوگا، پھر کلکتہ اور ممبئی باری باری ہوں گے۔ ہر ڈائیلاگ پروگرام میں بھاگوت پہلے دو دن خطاب کریں گے اور تیسرے دن سوال و جواب کے لیے رکھا جائے گا۔

دہلی میں منعقد ہونے والا یہ پروگرام ہر روز شام 5.30 بجے شروع ہوگا اور اس میں صد سالہ سال کے لیے ‘پنچ پریورتن’ کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ بھاگوت ممکنہ طور پر مقامی طاقتوں کے ذریعے ہندوستان کے مستقبل کی تشکیل، مختلف شعبوں میں اس کی صلاحیتوں اور ملک کے ابھرتے ہوئے عالمی کردار جیسے مسائل پر بات کریں گے۔ آر ایس ایس پرچار پرمکھ سنیل امبیکر کے مطابق مدعو کرنے والوں کی فہرست تقریباً 17 اہم زمروں اور 138 ذیلی زمروں میں ہوگی۔ اس میں سماجی، معاشی، مذہبی، روحانی، کھیل، فن، میڈیا اور دانشور رہنما شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ ہے کہ پورا ملک اپنی ترقی کے سفر میں متحد ہو کر آگے بڑھے۔ ہم سماج کے تمام طبقات کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔’ امبیکر نے بتایا کہ کچھ غیر ملکی مشنوں سے رابطہ کرنے کا عمل جاری ہے، کچھ ممالک کو اس سے باہر رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کئی ممالک سے رابطے میں ہیں، لیکن موجودہ حالات میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا جائے گا۔’ آر ایس ایس ذرائع کے مطابق بنگلہ دیش اور ترکی جیسے ممالک کو بھی مدعو نہیں کیا جا رہا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com