Connect with us
Saturday,15-November-2025

قومی خبریں

شاہین باغ خاتون مظاہرین کے ترز پرپوری دنیا میں ان کی حمایت میں مظاہرہ کئے جارہے ہیں

Published

on

قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین کی خواتین نے گزشتہ 16 دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ مہاراشٹر کے مالیگاؤں، بہار میں گیا، پٹنہ، ارریہ، مدھوبنی اور دیگر علاقوں میں سمیت الہ آباد میں منصور علی پارک (روشن باغ) اور دہلی کے سلیم پور، ذاکر نگر ڈھلان پر خواتین مستقل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ راجستھان کے کوٹہ شہر میں بڑی تعداد میں خواتین نے جلوس نکال کر اس قانون کی مخالفت کی ہے۔ خواتین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جانے کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔
ایک مہینہ پورا ہونے والے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ایک 20 دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
شاہین باغ میں اتوار کو لاکھوں مرد وخواتین نے جمع ہوکر یہ دکھادیا کہ وہ لوگ کتنے متحد ہیں اور اسی کے ساتھ شاہین باغ مظاہرین اسکوائر پر پنڈتوں نے ہون، سکھوں نے کیرتن، بائبل اور قرآن کی تلاوت کرکے صلح کل کا پیغام دے رہے ہیں۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کردیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ’سیکولر‘ چائے ملتی ہے۔ جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔ کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے، بریانی کے 1800 پکیٹس تقسیم کرنے والے حسین احمد نے بتایا کہ میں اس کے ذریعہ مظاہرہ کرنے والی خواتین کو سلام کرتا ہوں اور اس کے ذریعہ ان کی حمایت کرنا مقصد ہے۔
یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے۔ کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ’نو کیش نو اکاؤنٹ‘،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں۔ باجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں کینڈل جلاکر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مظاہرہ میں شامل گیارہ سالہ فیضان احمد، گیارہ سالہ عاصیہ ندیم، رقیہ ندیم، چھ سالہ عدنان نے کہا کہ ہم ملک اور آئین کو بچانے اور سی اے اے، این سی آراور این پی آر کی مخالفت کرنے آئے ہیں۔ نویں کلاس کی جامعہ کی طالبہ نے بتایا کہ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا یہ قانون ہمیں منظور نہیں ہے۔ سماجی کارکن ملکہ نے بتایاکہ اس قانون سے غریب اور کمزور طبقہ کے سبھی مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے، اس کی مخالفت اس کی واپسی تک جاری رہے گی۔ مظفر پور کی رہنے والی خاتون نے اس مظاہرہ کے دوران کہا کہ ہم آزادی مانگنے آئے ہیں۔ایک خاتون مظاہرین نسیم بانو نے کہاکہ ہم سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے آئی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جب ملک ہی نہیں بچے گا، تو ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ایک مظاہرین شمیم بانوں نے کہاکہ میں یہاں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے آئی ہوں۔
اس کے علاوہ بچوں کا چھوٹا چھوٹا گروپ ہے جو مختلف طرح کے انقلابی نعرے لگارہے ہیں۔ یہاں جتنی خواتین آتی ہوئی نظر آتی ہیں اتنی ہی خواتین جاتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔ یہاں کی آس پاس کی دوکانیں گزشتہ ایک ماہ سے بند ہیں، جس کی وجہ سے دوکانداروں کوبھی نقصان اور پریشانی ہے۔ یہا ں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جو مختلف ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماری کا علاج اور طبیعت خراب کرنے والوں کو دوائی دیتے ہیں۔
اس مظاہرہ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں۔گرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے آہی جاتا ہے۔ ان میں سیاست داں سماجی کارکن، فلمی ہستیاں، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی، اور سماجی ہستی شامل ہیں۔
کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ مودی حکومت ملک کی مشترکہ ورثے اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ملک کے عوام ان کی اس منشا کو پورا ہونے نہیں دیں گے۔مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہاکہ شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اورکامیابی آپ کی قدم چومے گی اور آپ کی یہ لڑائی منزل کے بغیر ختم نہیں ہونی چاہئے۔
شاہین باغ سے جامعہ اسکوائر تک چلنے والے اس مظاہرہ میں شامل ہونے والی سماجی کارکن سیما اسلم نے کہاکہ ہم احتجاج میں اس لئے آئے ہیں ہمیں حراستی کیمپ میں نہیں جانا ہے۔ اس لئے خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں کیوں کہ جب کوئی بھی بات پیش آتی ہے تو سب سے زیادہ خواتین ہی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج اس وقت کرتے رہیں گے جب تک اس کو واپس نہیں لیا جاتا ہے۔
سیمانچل سے تعلق رکھنے والی خواتین مظاہرین نے کہاکہ آج اس کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کیوں کہ غریب لوگ شہریت کا ثبوت کہاں سے پیش کریں گے جب کہ اس کے پاس کوئی گھر، مکان یا جائداد نہیں ہے اور خاص طور پر ؎خواتین جب شادی ہوکر سسرال چلی جاتی ہیں زیادہ تر ان کے نام سے کوئی جائداد نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس پیسہ ہے ہم دستاویزات بنوالیں گے لیکن غریب خواتین کہاں سے دستاویزات لے کر آئیں گی۔
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کی حمایت کرتے سوراج ابھیان کے صدر یوگیندریادو نے کہا کہ میں یہاں ملک اور آئین کو بچانے کے لئے یہاں آیا ہوں۔انہوں نے خواتین کے جذبے کو سلام کرتے ہوئے کہاکہ خواتین آئین کی حفاظت کے لئے اس سخت سردی کے موسم میں آرام وآسائش کو چھوڑ کر دن رات کا دھرنا دے رہی ہیں۔
کل ہند مسلم یوتھ فورم کے سرپرست ٹی ایم ضیاء الحق نے مظاہرہ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ شاہین باغ کا خواتین مظاہرہ پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ یہاں کی خواتین کسی طرح بھی اپنے حقوق اور ملک کے آئین کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہندوؤں کے بھی خلاف ہے۔پیپلزآف ہوپ کے چیرمین رضوان احمد نے خواتین کے مظاہرے کو ظلم و جبر اور آئین کے حق میں جنگ کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہاکہ بغیر کسی رہنمائی اور بغیر کسی انتظام کے 18 دن سے مظاہرہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب وہ اپنی طاقت دکھانے پر آجائے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش نے کہاکہ آج ساری انسانی برادری کا متحد ہوکر ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنااور مظلوموں کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔انہوں نے کہاکہ انسانیت ہمارا سب سے بڑا مذہب ہے اور اسی کو لیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے تناظر میں کہا کہ کچھ لوگ ہمیں باٹنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں متحد رہنا ہے۔ قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف خواتین کے احتجاج دیکھ کر اور خود کو آپ لوگوں کے درمیان پاکر قابل فخر محسوس کر رہا ہوں اور یہاں 20 دن کی بچی سے لیکر 80 سال کی خاتون تک ہیں۔
اس مظاہرہ کے انتظام و انصرام سے وابستہ محمد رفیع اور صائمہ خاں نے بتایا کہ اس مظاہرہ کی خاص کی بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی تنظیم کے ہے اور نہ ہی اس مظاہرہ میں اب تک کسی کو بلایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا کوئی منتظم ہے بس ہم لوگ یہاں کا تھوڑا بہت انتظام دیکھ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ مظاہرہ کسی فرقہ کے حق کیلئے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ہم آئین کی حفاظت کے لئے سرد ی کی سخت ترین راتوں میں مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک آئین سے چلتا ہے اور جب آئین ہی نہیں بچے گاتو ملک کیسے بچے گا۔ یہ پوری دہلی بلکہ پورے ملک کی خواتین کو پیغام دے رہی ہیں کہ ظلم اور ناانصافی اوراس کا لا قانون کے خلاف احتجاج اور دھرنا میں کسی سے بھی وہ پیچھے نہیں ہیں اور وہ صرف زندگی میں ہی مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں، بلکہ ملکی حالات، مظالم کے خلاف اور پولیس کی بربریت کے خلاف اپنے آنچل کو پرچم بنانا بخوبی جانتی ہیں۔
دن رات کے مظاہرے میں حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفی دینے والے عبد الرحمان، فلمی ہستی ذیشان ایوب، مشہور سماجی کارکن، مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، فلمی اداکارہ سورا بھاسکر، کانگریس لیڈر سندیپ دکشت، بار کونسل کے ارکان، وکلاء، جے این یو کے پروفیسر، سیاست داں سریشٹھا سنگھ، الکالامبا، ایم ایل اے امانت اللہ خاں، سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں، بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید، گوہر رضا، پپو یادو، وغیرہ نے اب تک شرکت کرکے ہمارے کاز کی حمایت کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آگے بھی ملک کی اہم شخصیت کی شرکت کی توقع ہے۔
اس مظاہرہ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو 16 دسمبر سے مسلسل بھوک ہڑتال پر ہے مگر انتظامیہ کے کسی شخص نے اس کی سدھ لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہ شخص صرف سیال چیزوں پر ہے۔اس کے ایک خاتون مہر النسا بھی ہیں جو گزشتہ دو ہفتوں سے بھوک ہڑتال ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ بھوک ہڑتال کو اتنے دن ہوگئے لیکن نہ تو دہلی حکومت کا کوئی نمائندہ اور نہ ہی مرکزی حکومت کا کوئی نمائندہ ان سے ملنے آیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

جرم

دہلی کے لال قلعے کے قریب زور دار دھماکہ… 8 افراد ہلاک، دھماکے کے بعد دہلی بھر میں ہائی الرٹ، فرانزک ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔

Published

on

Delhi Blast

نئی دہلی : پیر کی شام لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے گیٹ نمبر 1 کے قریب کار دھماکے سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیل گیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ گاڑی کا ایک حصہ لال قلعہ کے قریب واقع لال مندر پر جاگرا۔ مندر کے شیشے ٹوٹ گئے، اور کئی قریبی دکانوں کے دروازے اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچا۔ واقعے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

دھماکے کے فوری بعد قریبی دکانوں میں آگ لگنے کی اطلاع ملی۔ دھماکے کے جھٹکے چاندنی چوک کے بھاگیرتھ پیلس تک محسوس کیے گئے اور دکاندار ایک دوسرے کو فون کرکے صورتحال دریافت کرتے نظر آئے۔ کئی بسوں اور دیگر گاڑیوں میں بھی آگ لگنے کی اطلاع ہے۔

فائر ڈپارٹمنٹ کو شام کو کار میں دھماکے کی کال موصول ہوئی۔ اس کے بعد اس نے فوری طور پر چھ ایمبولینسز اور سات فائر ٹینڈرز کو جائے وقوعہ پر روانہ کیا۔ راحت اور بچاؤ کی کارروائیاں جاری ہیں، اور آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔

دھماکے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور تفتیشی ادارے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکہ ایک کار میں ہوا تاہم اس کی نوعیت اور وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے۔ واقعے کے بعد لال قلعہ اور چاندنی چوک کے علاقوں میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

Continue Reading

بزنس

کانگریس نے ایل آئی سی میں 33,000 کروڑ روپے کے بڑے گھپلے کا الزام لگایا، جے پی سی – پی اے سی تحقیقات کا مطالبہ کیا

Published

on

LIC

نئی دہلی : کانگریس نے ہفتہ کو الزام لگایا کہ ایل آئی سی نے اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے 30 کروڑ پالیسی ہولڈرز کے پیسے کا استعمال کیا۔ اڈانی گروپ کے بارے میں مودی حکومت کے خلاف اپنے الزامات کو تیز کرتے ہوئے، کانگریس نے دعوی کیا کہ ایل آئی سی نے پالیسی ہولڈرز کے تقریباً 33,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر کے اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچایا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری (کمیونیکیشن) جے رام رمیش نے اسے ایک ‘میگا اسکام’ قرار دیتے ہوئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا اور اس سے پہلے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

کانگریس ایم پی جے رام رمیش نے انسٹاگرام پر لکھا، "حال ہی میں میڈیا میں کچھ پریشان کن انکشافات ہوئے ہیں کہ کس طرح ‘موڈانی جوائنٹ وینچر’ نے لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) اور اس کے 300 ملین پالیسی ہولڈرز کی بچتوں کا منظم طریقے سے غلط استعمال کیا۔” انہوں نے مزید لکھا، "اندرونی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے، مئی 2025 میں، ہندوستانی حکام نے LIC فنڈز سے 33,000 کروڑ کا انتظام کیا تاکہ اڈانی گروپ کی مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جا سکے۔” اسے ’’میگا اسکام‘‘ قرار دیتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ صرف مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) ہی اس کی تحقیقات کر سکتی ہے۔ تاہم، اس سے پہلے پی اے سی (پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی) کو اس بات کی جانچ کرنی چاہیے کہ ایل آئی سی کو مبینہ طور پر اڈانی گروپ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کس طرح مجبور کیا گیا۔ انہوں نے اپنا مکمل تحریری بیان بھی شیئر کیا ہے اور اسے "موڈانی میگا اسکیم” قرار دیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق کانگریس کے ان الزامات پر اڈانی گروپ یا حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ رمیش نے اپنے بیان میں کہا، "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ کے عہدیداروں نے کس کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا کہ ان کا کام مجرمانہ الزامات کی وجہ سے فنڈنگ ​​کے مسائل کا سامنا کرنے والی ایک نجی کمپنی کو بچانا ہے؟ کیا یہ ‘موبائل فون بینکنگ’ کا کلاسک معاملہ نہیں ہے؟” جب سے امریکی شارٹ سیلنگ فرم ہندنبرگ ریسرچ نے اڈانی گروپ کے حصص کے بارے میں کئی سنگین الزامات لگائے ہیں تب سے کانگریس حکومت سے مسلسل سوال کر رہی ہے۔ اڈانی گروپ نے پہلے کانگریس اور دیگر کے تمام الزامات کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ تاہم، کانگریس نے ایک بار پھر ایک بڑا حملہ کیا ہے، موجودہ اور دیگر مسائل کو اٹھایا ہے اور کئی مرکزی ایجنسیوں پر اڈانی گروپ کے مفاد میں کام کرنے کا الزام لگایا ہے، پہلے جے پی سی اور پھر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کے معاملے کی تجدید کی ہے۔

Continue Reading

سیاست

‘کانگریس پاکستان کے حق میں اور افغانستان کے خلاف’، طالبان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس تنازعہ بھارت میں سیاسی ہنگامہ برپا

Published

on

Afgan,-pak-&-india

نئی دہلی : خواتین صحافیوں کو افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی دہلی میں پریس کانفرنس سے روکے جانے کا معاملہ گرما گرم ہوگیا، سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر شدید حملے شروع کردیئے۔ راشٹریہ لوک دل لیڈر ملوک ناگر نے افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے خاتون صحافیوں کو باہر کرنے پر سوال اٹھانے پر کانگریس لیڈر پی چدمبرم پر سخت حملہ کیا ہے۔ ناگر نے الزام لگایا کہ چدمبرم کے سوالات پاکستان کے حامی اور افغانستان اور بلوچستان کے خلاف تھے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کے سوالات ملک کو دہشت گردانہ حملوں کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔ چدمبرم کا یہ بیان افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد آیا ہے۔ ملوک ناگر نے پی چدمبرم کے سوالات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’وہ جس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں اس کے بارے میں انہیں سوچنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا اور کچھ درخواستیں کیں، جن پر ان کے مطالبات کے مطابق توجہ دی گئی۔ ناگر نے الزام لگایا کہ "انڈیا الائنس، پی چدمبرم، اور کانگریس کے سینئر لیڈر ایسے سوالات پوچھتے ہیں جو پاکستان کے حق میں اور افغانستان اور بلوچستان یا ہمارے ملک کے خلاف ہیں۔”

انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ کیا وہ ملک کو دہشت گردانہ حملوں کے شعلوں میں جھونکنا چاہتے ہیں جو پاکستان جاری رکھے ہوئے ہے۔ سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، آر ایل ڈی رہنما نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر، "پاکستان افغانستان اور بلوچستان کے درمیان دونوں طرف سے گوشہ میں رہے گا، اور ہمارا ملک ترقی کرتا رہے گا اور آگے بڑھے گا۔”

پی چدمبرم نے نئی دہلی میں افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی میزبانی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر کیے جانے پر گہرے صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مرد صحافیوں کو اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں، انہوں نے کہا، "میں حیران ہوں کہ افغانستان کے جناب امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر رکھا گیا، میری ذاتی رائے میں، مرد صحافیوں کو اس وقت واک آؤٹ کر دینا چاہیے تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی خواتین ساتھیوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔” نئی دہلی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ عامر خان متقی کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس پر تنازع کھڑا ہوگیا، جہاں ہندوستانی خواتین صحافیوں کو افغان سفارت خانے میں شرکت سے روک دیا گیا۔ طالبان وزیر 9 اکتوبر سے 16 اکتوبر تک بھارت کے ایک ہفتے کے دورے پر ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com