Connect with us
Friday,22-November-2024
تازہ خبریں

جرم

قینچی کی طرح زبان چلانے والی بیوی کا “قینچی” سے بہیمانہ قتل سے سنسنی!!!

Published

on

murder

خیال اثر مالیگانوی
کورونا نامی خطرناک وباء کے پھیلنے اور لاک ڈاؤں کی صعوبتوں نے ہر ہندوستانی کو بے دست و پا بنا کر رکھ دیا ہے. اس خطرناک بیماری اور لاک ڈاؤن نے ملکی معیشت کو سسک سسک کر دم توڑنے پر مجبور کردیا ہے. لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر کاروبار خسارے ہو سودا ہوتا جارہا ہے تو مزدور پیشہ افراد پر بے روزگاری اور بھکمری کے سائے منڈلا رہے ہیں اور اس کا راست اثر غریب اور مزدور پیشہ افراد پر اس شدت سے سر ابھار رہا ہے کہ ان کی ازدواجی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے. مرد اور خاتون خانہ سبھی حیران و پریشان ہیں. بے روزگاری کے بڑھتے سائے نے سب سے زیادہ اثر بچوں پر ڈالا ہے. بچوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہوتا دیکھ کر بے بس و لاچار مائیں اپنے روز گار شوہروں سے دست غریباں ہوتے جارہی ہیں. ایک تو بےروزگاری کا عذاب اور بچوں کا بھوک سے تڑپنا, بلبلانا, دیکھنا اور سہنا پھر اس کے بعد بیوی کے طعنے سن سن کر مجبور و بے کس شوہر کا خون کھول اٹھتا ہے اور جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کا خمیازہ خواتین اور بچوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے. جودھ پور کا ایسا ہی واقعہ خبروں کی زینت بنا ہوا ہے. تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز ایک 35 سالہ بےروزگار شخص نے مبینہ طور پر اپنی بیوی کا گلا کاٹ کر قتل کردیا۔ مہا مندر پولیس اسٹیشن کےاسٹیشن ہاؤس آفیسر(SHO)کیلاش دان نے بتایا کہ قریب ایک بجے بی جے ایس کالونی میں رہنے والے ملزم وکرم سنگھ نے پولیس کنٹرول روم کو اطلاع دی کہ اس نے کچھ تنازعہ پر اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے۔ جیسے ہی ہمیں اطلاع موصول ہوئی ہم جائے حادثہ پر پہنچے اور خاتون کی لاش دیکھی اس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ پولیس نے فورینسک ٹیم کو جائے حادثہ پر بلایا اور متاثرہ کے اہل خانہ کو حادثہ کی اطلاع دی۔ لاش کو مردہ خانہ میں روانہ کیا گیا اور ملزم کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
ایک مجبور و بےکس اور روزگار شخص جو بےروزگاری کے ستم سہنے کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کے طعنے سہہ سہہ کر اوب گیا تھا. روزگار سے محروم اس شخص کا ایک مکان کرائے پر دیا ہوا تھا جس کے کرائے سے ہی اس کا گھر خرچ عمل میں آ رہا تھا. کرایہ سے ملنے والی رقم بھی ان کی کفالت کے لئے انتہائی نا کافی ثابت ہونے لگی تھی اسی کے حوالے سے ایک دن دونوں میاں بیوی میں جب تکرار شروع ہوئی تو ختم ہونے کا نام ہی نہ لی. ان کے دو کم عمر بچے بھی حیران و پریشان ماں باپ کی اس جوتم پیراز کو حیرت سے دیکھ رہے تھے. جب بیوی کی زبان قینچی کی طرح چلتی گئی تو شوہر نے انتہائی طیش کے عالم میں قینچی سے بیوی کی گردن اور جسم کے دیگر اعضاء پر یکے بعد دیگرے وار کرتے ہوئے قینچی کی طرح چلنے والی زبان کو نہ صرف بند کردیا بلکہ ہمشیہ کے لئے اس کی سانس کی ڈور بھی قینچی سے کاٹ دی. اتنے پر ہی بس نہ کرتے ہوئے اس شوہر نامدار نے پولیس اسٹیشن فون کرتے ہوئے اپنے کارہائے نمایاں بیان کر دیئے جسے سن کر پولیس عملہ فورأ ہی جائے وقوع پر پہنچ گیا. پولیس نے بچشم خود اس دلدوز اور خونی مناظر کو دیکھا. شوہر کے ہاتھوں بیوی کی کٹی پھٹی لاش دیکھ کر پولیس کے بھی رونگھٹے کھڑے ہوگئے. پولیس نے جب قاتل شوہر سے باز پرس کی تو قاتل شوہر نے بتایا کہ بیوی کے روز روز طعنے اور گلے شکوے جب اس کی برداشت سے باہر ہوگئے تو اس نے انتہائی طیش کے عالم میں یہ قدم اٹھایا ہے.
۔پولیس کے مطابق ملزم اور مقتولہ کے دو بچے ہیں، ایک 8 سالہ بیٹی اور 5 سالہ بیٹا شامل ہیں۔جو فی الحال جودھپور میں اپنے دادا دادی کے پاس ہیں۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ شب و روز ساتھ ساتھ زندگی گزارنے والے ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک رہنے والے اور ساتھ جینے ساتھ مرنے کی قسمیں کھانے والے حالات حاضرہ کی لپیٹ میں آ کر حالات کی بے رحمی کا شکار ہو گئے. ایک ناری جو اپنے شوہر کو بھگوان سمان مان کر اس کے چرنوں کو روز چھوتے ہوئے اپنی مانگ میں سندور کی طرح سجاتی تھی اسی کے ہاتھوں اس بے رحمی سے قتل ہو گئی کہ دیکھنے اور سننے والے بھی دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور ہو گئے . اس خونی واقعہ کے بعد قاتل شوہر تو جیل کی سلاخوں کے پچھے پہنچ گیا اور بیوی قتل کے بعد انتم سنسکار کے لئے امر دھام پہنچ کر خاک ہوگئی اور رہے بچے تو وہ والدین سے محرومی کا کرب جھیلتے ہوئے اپنے دادا دادی کے پاس شب و روز روتے ہوئے گھٹ گھٹ کر اپنا بچپن گزارنے پر مجبور ہیں. شوہر کے ہاتھوں بیوی کے قتل کا یہ خونی واقعہ بے روزگاری کا ساخشانہ بتایا جارہا ہے جو کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لا تعداد ہندوستانیوں کا نصیب بنا دیا گیا ہے. قتل کا حالیہ واقعہ آج ہر عام ہندوستانی کو سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ کیا انھیں بے روزگاری یہ عذاب برسوں بھگتنا پڑے گا ؟کیا آنے والے وقتوں میں بھی روز بروز ایسے ہی خونی واقعات گھر گھر میں رونما ہوتے رہیں گے کیونکہ دم توڑتی ہوئی معیشت اور روزگاری کا عفریت ہر گھر پر دستک دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور ظاہر ہے کہ اس عفریت کا شکار صرف اور صرف خاتون خانہ اور معصوم بچے ہی ہوں گے. بے روزگاری کے اس عفریت اور خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر خاتون خانہ کو چاہیے کہ ایسے نا مسائد حالات میں اپنے بے روزگار شوہروں کو طعنہ نہ دیتے ہوئے ان کے شانہ بشانہ قدم در قدم چلتے ہوئے ان کا ساتھ دیں نہ کہ روز مرہ کے خرچ کے لئے باہم دست غریباں رہتے ہوئے ان کا جینا حرام کردیں. بلا وجہ انھیں طیش نہ دلائیں اور خود باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے گھریلو اخراجات پر قابو رکھتے ہوئے فضول خرچی سے پرہز کریں اسی میں ان کی آنے والی زندگی کے اسرار و رموز پوشیدہ ہیں.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com