Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولاناسید ارشد مدنی امیرالہند خامس اورمفتی محمد سلمان منصورپوری نائب امیرالہند منتخب، اسلام میں عمارت کا اہم مقام۔ مولانا سید ارشد مدنی

Published

on

Maulana Arshad Madani

امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد کے ایک روزہ نمائندہ اجتماع میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی امیر الہند خامس اور مفتی محمد سلمان منصور پوری نائب امیر الہند منتخب ہوئے۔ اس اجتماع کی صدارت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے کی۔

اجتماع میں حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری کی وفات کے بعد خالی ’امیر‘ کی جگہ پر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا محمود اسعد مدنی نے اس باوقار منصب کے لیے جامع کمالات شخصیت حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند وصد المدرسین دارالعلوم دیوبند کا نام پیش کیا، انھوں نے کہا کہ اس وقت ملی ضروریات میں جن اہم کاموں کو اولیت حاصل ہے اس میں امارت کا کام بھی شامل ہے، آج مسلم معاشرہ بالخصوص خانگی مسائل میں کافی بگاڑ پیدا ہو گیا ہے، اس کو حل کرنے کے لیے محکمہ شرعیہ کے نظام بڑھانے اور اصلاح معاشرہ کی تحریک کی ضرورت ہے، انھوں نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو آج کے اجلاس میں شریک ہوئے۔اجتماع میں مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے امیر الہند مرحوم مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒپر ایک تجویز تعزیت پیش کی، تجویز میں امیر الہند کے سانحہ ارتحال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کا وجود پوری ملت اسلامیہ کے لیے باعث خیر وبرکت تھا، اور ان کی ذات تقوی، دیانت اور حسن انتظام کے اعتبار سے قابل تقلید تھی۔

مولانا محمود مدنی کی تجویزکی تائید حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی امیر شریعت اترپردیش، حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری رکن شوری دارالعلوم دیوبند امیر شریعت جموں و کشمیر، حضرت مولانا سید اسجد مدنی، حضرت مفتی احمد دیولہ نائب صدر جمعیۃ علماء گجرات، حضرت مولانا سید اشہد رشیدی مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، حضرت مولانا بدراحمد مجیبی خانقاہ مجیبیہ پٹنہ بہار، حضرت مولانا یحییٰ باسکنڈی امیر شریعت آسام، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صدر جمعیۃ علماء آسام نے کی۔ اس کے بعد صدر اجتماع مفتی ابوالقاسم نعمانی نے مولانا سید ارشد صاحب مدنی کے نام کا اعلان کیا۔ حالاںکہ حضرت مولانا مدنی نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے معذرت ظاہر کی تاہم تمام مجمع کی تائید کے بعد وہ امیر الہند خامس منتخب ہوئے۔

امیر الہند خامس مولانا سید ارشد مدنی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ اسلام میں امارت کا بہت بڑا مقام ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ایک سال بعد ۰۲۹۱ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ مالٹا سے واپس تشریف لائے تو آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر منتخب کیا گیا، چنانچہ آپ کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس دوم منعقد ہوا، اس میں حضرت شیخ الہند ؒ نے قومی سطح پر امیر الہند کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔ بعد میں محض بارہ دن بعد حضرت ؒ کا انتقال ہو گیا، تو ان کے جانشین حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اس مشن کو آگے بڑھایا، لیکن بعض وجودہ سے اس وقت یہ کام آگے نہیں بڑھ پا یا، بعد میں اللہ تعالی نے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کو توفیق بخشی جن کی قیادت میں امارت شرعیہ ہند کا قیام عمل میں آیا، آج امارت شرعیہ ہند کے تحت سو سے زائد محاکم شرعیہ چل رہے ہیں، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملک کے کونے کونے میں محاکم شرعیہ قائم کیے جائیں اور امارت کے نظام کو صوبائی سطح پر مستحکم کیا جائے، اس موقع پر اہل مدارس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے مدرسوں میں دارالقضاء کا کورس شروع کریں اور پھر داخل طلباء کو تربیت دے کر محاکم شرعیہ میں مقرر کریں۔ امیر الہند خامس نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حضرت مفتی سید محمد سلمان منصورپوری استاذ حدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد و جنرل سکریٹری مرکزی دینی تعلیمی بورڈ جمعیۃ علماء ہند کو نائب امیر الہند بنائے جانے کا بھی اعلان کیا، جس کی اجتماع نے تائید کی۔

قبل ازیں امارت شرعیہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ دنیا کے نظام میں دو شعبوں کی بڑی اہمیت ہے، ایک تو حکومتی شعبہ ہے اور دوسرا عدلیہ کا شعبہ ہے۔ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون حق پر ہے، اور کون ناحق ہے۔ اب عدلیہ کے تحت بھی دو معاملات آتے ہیں، ایک فوجداری کے معاملات، دوسرے سول معاملات، فوجداری کے معاملات کے لیے قوت نافذہ کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک ہمارے ملک میں اسلامی حکومت قائم تھی، کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہو گیا تو ہمارے اکابر کی کوشش سے ملک کے بعض حصوں میں قاضی کو اختیارات دیے گئے، لیکن مرکزی طور پر اسے منظوری نہیں ملی، ایسی صورت میں ہمارے اکابر نے عائلی وشرعی مسائل میں کئی طرح کی کوششیں کیں، خاص طور سے خواتین کے ذریعہ اپنے ظالم شوہر سے نجات کے لیے حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ’الحیلۃ الناجزہ‘ کی روشنی میں محاکم شرعیہ کا نظام جاری کیا گیا۔ امیر الہند رابع حضرت اقدس مولانا قاری سید محمدعثمان منصورپوری ؒ نے بالخصوص اس کتاب کی تلخیص کی ہدایت دی، اور اسے امارت شرعیہ ہند کے تحت شائع کروایا، تلخیص کی وجہ سے مسائل کو سمجھنے میں کافی آسانی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ 1986 میں امارت شرعیہ ہند کا قیام عمل میں آیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ امارت کے انتخاب کی پہلی تجویز حضرت شیخ الہند ؒ نے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس دوم میں رکھی، حالاں کہ اس سے قبل حضرت شیخ الہندؒ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد بہاریؒ نے پٹنہ میں امارت شرعیہ بہار کو قائم کیا جو آج تک قائم و دائم ہے۔

سیاست

ممبئی راج اور ادھو ٹھاکرے اتحاد، مرد کون ہے عورت کون ہے : نتیش رانے کی تنقید

Published

on

Nitesh-Rane

ممبئی مہاراشٹر میں مراٹھی مانس کے لئے راج اور ادھو ٹھاکرے کے اتحاد پر بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے نے ادھو اور راج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ہمارے درمیان کے اختلافات ختم ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے انہیں اتحاد پر مجبور کیا, جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے وہ فڑنویس نے کیا ہے۔ اس پر نتیش رانے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی کے دور میں سپریہ سلے نہ کہا تھا کہ فڑنویس اکیلا تنہا کیا کرلیں گے, یہ اس بات کا جواب ہے انہوں نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کرسکے, وہ فڑنویس نے کیا۔ مزید طنز کرتے ہوئے رانے نے کہا کہ اختلافات ختم ہونے پر جو جملہ راج ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے مرد کون ہے, اور عورت کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے حال چال سے لگتا ہے کہ وہ کیا ہے, لیکن اس پر ادھو ٹھاکرے وضاحت کرے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف ایکٹ : مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ’ رولز کو مطلع کیا، جس کے تحت وقف املاک کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔

Published

on

indian-parliament

نئی دہلی : وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ رولز 2025’ کو نوٹیفائی کیا ہے۔ یہ قواعد وقف املاک کے پورٹل اور ڈیٹا بیس سے متعلق ہیں۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق تمام ریاستوں کی وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔ وزارت اقلیتی امور میں محکمہ وقف کے انچارج جوائنٹ سکریٹری اس کی نگرانی کریں گے۔

نئے قواعد کے مطابق وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے گا۔ اس پورٹل کی دیکھ بھال اقلیتی امور کی وزارت کا ایک جوائنٹ سکریٹری کرے گا۔ پورٹل ہر وقف اور اس کی جائیداد کو ایک منفرد نمبر دے گا۔ تمام ریاستوں کو جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو نوڈل افسر کے طور پر مقرر کرنا ہوگا۔ انہیں مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر ایک سپورٹ یونٹ بنانا ہوگا۔ اس سے وقف اور اس کی جائیدادوں کی رجسٹریشن، اکاؤنٹنگ، آڈٹ اور دیگر کام آسانی سے ہو سکیں گے۔ یہ قواعد 1995 کے ایکٹ کی دفعہ 108B کے تحت بنائے گئے ہیں۔ اس دفعہ کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے مطابق شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ 8 اپریل 2025 سے نافذ العمل ہے۔ قوانین میں بیواؤں، مطلقہ خواتین اور یتیموں کو کفالت الاؤنس فراہم کرنے کے بھی انتظامات ہیں۔

نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ متولی کو اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کے ساتھ پورٹل پر رجسٹر ہونا چاہیے۔ یہ رجسٹریشن ون ٹائم پاس ورڈ (او ٹی پی) کے ذریعے کی جائے گی۔ پورٹل پر رجسٹر ہونے کے بعد ہی متولی وقف کے لیے وقف اپنی جائیداد کی تفصیلات دے سکتا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ متولی کا مطلب ہے وہ شخص جسے وقف املاک کے انتظام کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ قواعد کے مطابق کسی جائیداد کو غلط طور پر وقف قرار دینے کی تحقیقات ضلع کلکٹر سے ریفرنس موصول ہونے کے ایک سال کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔ متولی کے لیے پورٹل پر رجسٹر ہونا لازمی ہے، اسے اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے او ٹی پی کے ذریعے تصدیق کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہی وہ وقف املاک کی تفصیلات دے سکتا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com