Connect with us
Thursday,17-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

اکثر میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مجرمانہ سازش میں ملوث اور سپریم کورٹ کی گائیڈلائن کی دھجیاں اڑار ہی ہے: گلزار احمد اعظمی

Published

on

(وفا ناہید)
نئی دہلی : ملک کے بے لگام ٹی وی چینلوں پر قانونی لگام لگانے کی پہل جمعیۃعلماء ہند نے کردی گزشتہ روز جمعیۃعلماء ہند کی امدادی قانونی کمیٹی کی طرف سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جسے سماعت کے لئے منظورکرلیا گیا ہے اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیا مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کو لیکر انتہائی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہا ہے اس کی متعصبانہ رپورٹنگ کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے اوراس کے کوریج پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں میڈیا اداروں کے ذریعہ مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو لے کر ہورہی رپورٹنگ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے۔ اپنی عرضی میں جمعیۃ علمائے ہند نے میڈیا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے خلاف ہورہے میڈیا ٹرائل پر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے پٹیشن دائر کی ہے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظام الدین مرکز کو میڈیا فرقہ وارانہ رخ دے رہا ہے، درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں کی توہین کی گئی اور ان کی دل آزاری کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو دستور آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیشتر اطلاعات میں “کورونا جہاد”، “کورونا دہشت گردی” یا “اسلامی بنیاد پرستی” جیسے جملے کا استعمال کرتے ہوئے غلط بیانی کی گئی ہے۔ اس پٹیشن میں متعدد سوشل میڈیا پوسٹس کو بھی درج کیا گیا ہے جس میں غلط طور پر کوویڈ 19 کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹی اور جعلی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ نظام الدین واقعے کی کوریج کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔جس نے مسلمانوں کے معاملے میں دستور ہند کی دفعہ آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے 31 مارچ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس میں میڈیا کو ہدایت دی گئی تھی کہ میڈیا ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کریں اور غیر تصدیق شدہ خبریں شائع اور نشر نہ کریں۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے حالیہ دنوں میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہورہی مسلسل منفی رپورٹنگ پر اپنے گہرے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تردرخواستوں اور مطالبوں کے باوجود ٹی وی چینلوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ بند نہیں کیا اس کو لیکر ہم حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نفرت بونے والے اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدارکرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، مگر افسوس ہمارے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہم اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں جو زہر بورہا ہے وہ کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں تبلیغی مرکز کو لیکر میڈیا نے تو اخلاق و قانون کی تمام حدیں توڑدی ہیں اب اس کی وجہ سے اکثریت کے ذہنوں میں یہ گرہ مضبوط ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی کوئی بیماری ہے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر لمحہ بھرکے لئے بھی یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ وائرس ملک میں جماعت کے لوگوں سے پھیلا تو کیا چین ، امریکہ ، اٹلی اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک میں بھی اس وباکو مسلمانوں نے ہی پھیلایا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ کس قدرمضحکہ خیز الزام ہے کہ مگر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لوگ اس طرح کی چیزوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں درحقیقت اس کرونولوجی یعنی کہ ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، یہ ٹی وی چینل ازخودایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے بعض مخصوص ذہن کے لوگوں کا دماغ کام کررہا ہے اور جن کی ہدایت پرہی یہ سب کچھ ہورہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 6سال سے میڈیا میں مسلم اقلیت کے بارے میں منفی رپورٹنگ کا مذموم سلسلہ جاری ہے مگر حکومت نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی جھوٹی خبروں اور فیک ویڈیوز کے سہارے مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے والوں کو انتباہ ہی کیا گیا ، تبلیغی مرکز کے معاملہ میں بھی یہ ہی ہوا جھوٹی خبریں چلائی گئیں فیک ویڈیوز دیکھائے گئے جن کی تردید بھی اب بعض چینل کررہے ہیں مگر اس کے بعد بھی کوئی ان ٹی وی چینلوں سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے ایساکیوں کیا ؟ حکومت اور وزیر نشرواطلاعات کے ذمہ داران کویہ کہنا چاہئے تھا کہ اس طرح کے معاملہ کو مذہبی رنگ نہیں دیا جائے اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں غلط کررہے ہیں لیکن افسوس ایسانہیں ہوا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر منظم لاک ڈاؤن سے سرکارکی خامیاں اورناکامیاں سامنے آنے لگی تھی جن پر پردہ ڈالنے کے لئے شاید اس وباکو مذہبی رنگ دیا جانا ضروری ہوگیا تھا یہ حربہ کامیاب رہا ہے اور مسلمان اس پورے معاملہ میں ویلن بن چکاہے ، انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے دوران انسانی ہمدردی کی جو فضاملک میں پید اہوئی تھی اور جس طرح لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر مجبوراورضرورت مندوں کی مددکررہے تھے اس طرح کے پروپیگنڈے سے اسے سخت دھچکہ لگاہے ، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تفریق کے واقعات میں اچانک تیزی آگئی ہے یہاں تک کہ ایک مسلم حاملہ خاتون کو اسپتال میں داخل کرنے سے ہی منع کردیا گیا اترپردیش جیسی ریاست میں مسلمانوں کے خلاف قانون کی آڑمیں امتیازی سلوک کا سلسلہ تو عرصہ سے جاری ہے مگر اب اس میں مزید شدت آگئی ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت سے جوڑکر ان پر این ایس کے تحت کاروائی ہورہی ہے، ایسے میں ان زہر اگلنے والے بے لگام ٹی وی چینلوں کے خلاف قانونی کارروائی ہمارے لئے ناگزیرہوگئی تھی،قانونی کارروائی کی یہ پہل جمعیۃعلماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی کی کوششوں سے عمل میں آئی ہمیں یقین ہے کہ اس پٹیشن میں اٹھائے گئے اہم سوالات اورنکتوںپر عدالت باریک بینی سے غورکرکے ان چینلوں کے خلاف رہنماہدایات جاری کرے گی ۔، پٹیشن داخل کرنے کے بعد گلزاراحمد اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی گائیڈلائن جس میں میڈیا ہاؤس کو متنبہ کیا تھا کہ وہ نیوز دیکھانے سے قبل اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں اورایسی کوئی بھی نیوز نہ دیکھائیں جس سے کسی ایک فرقہ کی بدنامی ہوتی ہواور دوفرقہ کے درمیان نفرت پیداہو۔ لیکن افسوس مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں رک رہا ہے۔

سیاست

جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ تیز، راہل گاندھی اور کھرگے نے پی ایم مودی کو لکھا خط

Published

on

Kharge-&-Rahul

نئی دہلی : کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پی ایم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل لانے پر زور دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے یہ مطالبہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات اور آئینی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پارلیمنٹ کے آئندہ بجٹ اجلاس میں اس بارے میں قانون بنائے۔ کانگریس کے اس مطالبے سے سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس سے قبل پہلگام حملے کے دوران بھی ایسا ہی مطالبہ اٹھایا گیا تھا۔ تب عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ خون پر سیاست نہیں کریں گے۔

پی ایم مودی کو لکھے خط میں ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ جائز ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پی ایم مودی اور ان کی حکومت نے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور میڈیا سمیت کئی پلیٹ فارمز پر ایسا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کانگریس لیڈروں نے خط میں لکھا ہے کہ ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے آئندہ مانسون اجلاس میں جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کے لیے بل لائے۔ جموں و کشمیر واحد ریاست ہے جسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہے۔

کانگریس ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ہم خیال جماعتوں تک پہنچنے کی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس دوران راہل گاندھی اور کھرگے نے وزیر اعظم سے یہ اپیل کی ہے۔ لداخ کے بارے میں کانگریس لیڈروں نے درخواست کی کہ حکومت لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے قانون لائے۔ یہ لداخ کے لوگوں کی ثقافتی، ترقیاتی اور سیاسی امنگوں کو پورا کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ اس سے ان کے حقوق، زمین اور شناخت کا بھی تحفظ ہوگا۔

کانگریس نے کہا کہ آئین کا چھٹا شیڈول کچھ قبائلی علاقوں کو خصوصی درجہ دیتا ہے۔ یہ انہیں اپنے معاملات کو سنبھالنے کے لیے زیادہ خود مختاری دیتا ہے۔ اس میں آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم کے قبائلی علاقے شامل ہیں۔ لداخ کو اس میں شامل کرنے سے وہاں کے لوگوں کو اپنی ثقافت اور روایات کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے تھے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں ہماری آواز اٹھائے۔ اس سے ہم پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں گے۔ یہ اچھی بات ہے، جموں و کشمیر کے لوگ طویل عرصے سے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

فی الحال کانگریس کے سینئر لیڈروں کا یہ قدم جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس ان کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور ان کے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس پر کیا ردعمل دیتی ہے۔ کیا وہ پارلیمنٹ میں بل لا کر ان علاقوں کے لوگوں کی امنگوں کو پورا کرے گی؟

Continue Reading

سیاست

ممبئی میں سیاسی ہلچل تیز… ایکناتھ شندے کی شیو سینا کا ماسٹر پلان, آنندراج امبیڈکر کی ریپبلکن سینا کے ساتھ اتحاد کیا

Published

on

Shinde

ممبئی : مہاراشٹر میں آنے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ممبئی میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ایک طرف ٹھاکرے بھائیوں کے درمیان اتحاد کی بات ہو رہی ہے۔ دوسری طرف نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی شیوسینا نے آنندراج امبیڈکر کی ریپبلکن سینا کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ ایکناتھ شندے اور آنندراج امبیڈکر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اتحاد کا اعلان کیا۔ دونوں قوتیں اکٹھی ہو رہی ہیں۔ اسی لیے شندے نے کہا کہ آج کا دن بہت خوشی کا دن ہے۔ دوسری طرف شندے کے اس اقدام سے ممبئی سمیت شہری مراکز میں دلت ووٹوں کو مضبوط کرنے کی امید ہے۔

دراصل سڑکوں پر ناانصافی کے خلاف لڑنے والی دو تنظیمیں آج اکٹھی ہو رہی ہیں۔ ایک بالاصاحب کی شیوسینا اور دوسری بھارت رتن باباصاحب امبیڈکر کی ریپبلکن آرمی۔ نائب وزیر اعلیٰ اور شیوسینا کے سینئر لیڈر ایکناتھ شندے نے اعتماد ظاہر کیا کہ چونکہ دونوں طاقتیں ہیں، اس لیے ہم مل کر کام کریں گے۔ ان کے پاس بیٹھے آنندراج امبیڈکر نے مضبوطی سے کہا کہ یہ کام کرے گا۔ شندے نے کہا کہ آنندراج امبیڈکر اور میں نے ہمیشہ کارکن کے طور پر کام کیا ہے۔ جب میں ڈھائی سال وزیر اعلیٰ تھا۔ تب بھی میں ایک عام آدمی تھا۔ ایکناتھ شندے نے کہا کہ اب میں عام آدمی کے لیے وقف ڈی سی ایم بن گیا ہوں۔ ہماری پہچان ایک عام آدمی، ایک عام کارکن کے طور پر ہے۔ ہمارا عزم عام آدمی سے ہے۔ ہمارا تعلق عام آدمی سے ہے۔

شندے نے کہا کہ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے لکھے ہوئے آئین نے عام آدمی، محروم اور استحصال زدہ لوگوں کے لیے ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔ مجھ جیسا عام آدمی وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے۔ یہ صرف بابا صاحب کے لکھے ہوئے آئین کی وجہ سے ممکن ہوا۔ نریندر مودی جیسا شخص وزیراعظم بن گیا۔ یہ اختیار آئین کے پاس ہے۔ باباصاحب نے دنیا کے کئی آئینوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنا آئین لکھا۔ شندے نے آنندراج امبیڈکر کے ساتھ اتحاد پر اپنی دلی خوشی کا اظہار کیا۔ جو بابا صاحب کا پوتا ہے۔

Continue Reading

سیاست

مہاراشٹر کے وزیر نتیش رانے نے زبان کے تنازع پر دیا بڑا بیان، مدارس میں اردو کی بجائے مراٹھی شروع کریں… ایم این ایس اور کانگریس پر کیا حملہ۔

Published

on

Raj-&-Nitish

ممبئی : مہاراشٹر میں ہندی-مراٹھی زبان کے تنازعہ کے درمیان فڑنویس حکومت میں وزیر نتیش رانے نے بڑا بیان دیا ہے۔ رانے نے کہا ہے کہ مدارس میں مراٹھی پڑھائی جانی چاہیے۔ رانے نے یہ بیان ایم این ایس کے ذریعہ مراٹھی نہ بولنے پر ہندوؤں کی پٹائی اور کانگریس کے ذریعہ مراٹھی اسکول کے مطالبے پر دیا ہے۔ رانے نے کہا ہے کہ مدارس میں اردو کے بجائے مراٹھی کو متعارف کرایا جانا چاہیے۔ یہی نہیں مسلمانوں کو مراٹھی میں اذان بھی دینی چاہیے۔ نتیش رانے نے دعویٰ کیا کہ وہاں بندوق بردار پائے جاتے ہیں۔ وہاں اردو کے بجائے مراٹھی پڑھائی جائے۔ اس سے پہلے نتیش رانے نے ایم این ایس کو چیلنج کیا تھا کہ وہ محمد علی روڈ پر جائیں اور ٹوپی پہننے والے لوگوں کو مراٹھی بولیں۔ نتیش رانے نے مراٹھی نہ بولنے پر ہندوؤں کی پٹائی کو ڈرامہ قرار دیا تھا۔

میرا روڈ پر ایک مارواڑی تاجر کی پٹائی کے بعد نتیش رانے نے خود کو ہندوؤں کا چوکیدار کہا تھا۔ تب رانے نے کہا تھا کہ ہندوؤں کو کوئی نہیں ڈرا سکتا۔ رانے نے یہ نیا مطالبہ ایسے وقت میں کیا ہے جب مہاراشٹر لیجسلیچر کا اجلاس جاری ہے۔ یہی نہیں، مہایوتی حکومت پہلے ہی سہ زبانی فارمولے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ راج ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے کے احتجاج کے بعد حکومت نے مہاراشٹر کے اسکولوں میں ہندی کو لازمی قرار دینے کا حکم واپس لے لیا تھا۔ نتیش رانے کے مطالبے پر مہاراشٹر میں ایک نیا ہنگامہ ہو سکتا ہے۔ میرا روڈ پر ایم این ایس کارکنوں نے مارواڑی تاجر کو مراٹھی نہ بولنے پر زدوکوب کیا۔ اس کے بعد پالگھر، وسائی اور ویرار میں بھی ایسے ہی واقعات سامنے آئے۔

نتیش رانے کا مدرسہ سے متعلق بیان اب سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ اس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ مدرسہ میں اردو کے بجائے مراٹھی پڑھائی جائے۔ الگ سکول کی ضرورت نہیں۔ میڈیا میں ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ رانے نے کہا کہ مہاراشٹر میں بہت سے مدرسے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ راج ٹھاکرے نے ورلی کے پروگرام میں کہا تھا کہ اگر کوئی ڈرامہ بناتا ہے اور مراٹھی نہیں بولتا ہے تو اس کے کان پر مارو، لیکن ایسا کرتے ہوئے ویڈیو نہ بنائیں۔ نتیش رانے کا بیان تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com