Connect with us
Friday,22-August-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

اب ایسا لگتا ہے ملک میں عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں؟ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون سے چھیڑچھاڑ انتہائی خطرناک، انتظامیہ کا مظاہرین کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک : مولانا ارشد مدنی

Published

on

Maulana Arshad Madani

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے ملک کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن وقانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ یہ تشویش کا اظہار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کا کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔

اجلاس میں دعوٰی کیا گیا کہ ملک کے امن و اتحاد اور یکجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، دعوٰی کیا گیا حکمرانوں کے ذریعہ آئین وقانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرسکتی ہے، اس موقع پر اجلاس میں اتفاق رائے سے جو تجاویز منظور ہوئیں ان میں سے دو اہم تجاویز میں کہا گیا کہ جناب نبی کریم ﷺ کی شان میں جن لوگوں نے گستاخی کی جرأت کی ہے، ان کی معطلی ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق ایسی سخت سزا دی جانی چاہئے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔

دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تجویز میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یا تبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہئے، جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“ سیکشن 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ اگر 15/ اگست 1947ء میں موجودکسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ، اپیل یا کوئی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیر التواء ہے، تو وہ منسوخ ہو جائے گی۔ اور اس طرح کے معاملہ میں کوئی مقدمہ، اپیل یا دیگر کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی، اسی لئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل ہے، جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار ہے۔

مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ عاملہ کا یہ اجلاس ایک ایسے نازک وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لا قانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ذریعہ کئے جانے والے پرامن احتجاج کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کر کے قانون کی آڑ میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی شان میں دانستہ گستاخی کی گئی، اور ان گستاخوں کی گرفتاری کے مطالبہ کو لیکر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی گئیں، گرفتاریاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کی پاداش میں بہت سے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا گیا، سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یعنی جو کام عدالتوں کا تھا اب وہ حکومتیں کر رہی ہیں۔ اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اور نہ جج درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے، لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دو پیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم؛ لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پراتر کر پرتشدد کاروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا، انتظامیہ کا مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی گئی ہیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔ اتر پردیش پولس کا ایک بڑا افسر ان واقعات پر یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے ہی بچے ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔

مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے کیا دشمن کے بچے تھے؟ انہوں نے کہاکہ اب اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے، ایک بھارت شریشٹھ بھارت اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والوں نے قانون کو بھی مذہبی رنگ دیدیا ہے، اکثریت کے لئے قانون الگ ہے، اور اقلیت کے لئے الگ، سوال یہ ہے کہ اب اگر ملک میں پر امن احتجاج کرنا جرم ہے تو جن لوگوں نے پرتشدد احتجاج کیا ان کے گھروں کو ابتک مسمار کیوں نہیں کیا گیا؟ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ گستاخی کرنے والے لیڈروں کی معطلی کا جو خط بی جے پی کے دفتر کی طرف سے لکھا گیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ پارٹی ملک کے آئین پر عمل کرتی ہے، اور تمام مذاہب کے تئیں احترام کا جذبہ رکھتی ہے، اگر ایسا ہے تو گستاخی کرنے والے لیڈر اب تک آزاد کیوں ہیں؟ جو لوگ گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کریں، انہیں سنگین دفعات لگا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، اور جن لوگوں کی دریدہ دہنی کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے وہ اب بھی آزاد ہیں، کیا قانون کے دوہرے استعمال کی اس سے بدترین کوئی دوسری مثال ہوسکتی ہے؟

مولاںا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا ملک بھر میں پرتشدد احتجاج حکومت کے لئے ایک انتباہ ہے، اگر ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچا گیا، روزگار کے وسائل نہیں پیدا کئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں، تو وہ دن دور نہیں جب ملک کے تمام نوجوان سڑکوں پر ہوں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ مذہب کا نشہ پلاکر عوام کو بہت دنوں تک بنیادی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا، روٹی کپڑا اور مکان انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جسکو نظر انداز کیا جانا ملک کی فلاح وبہبود کے لئے اچھی علامت نہیں، اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے مذہب اور نفرت کی سیاست ترک کر کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے ورنہ وہی سب کچھ یہاں بھی شروع ہو سکتا ہے، جس کا نظارہ پوری دنیا سری لنکا میں کر چکی ہے۔ مولانا مدنی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا حل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ملک میں نفرت اور مذہبی شدت پسندی کا جو طوفان برپا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو نفرت سے بھری شرانگیز بحثیں ہوتی ہیں، اس پر پابندی لگائی جائے اس سلسلہ میں حکومت کو بہت پہلے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہئے تھا، لیکن ہمارے تمام تر مطالبوں کے باوجود حکومت نے ایسا نہیں کیا؛ چنانچہ مجبور ہو کر جمعیۃ علماء ہند کو اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن داخل کرنی پڑی، اس پٹیشن پر اب تک 13/ سماعتیں ہو چکی ہیں؛ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ اس پر اب تک حتمی بحث نہیں ہوسکی ہے، انہوں نے کہاکہ ملک سے اس وقت تک نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک ان متعصب ٹی وی چینلوں پر ہونے والی یکطرفہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ اور بحثوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی انہوں نے آخر میں کہا کہ اب پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے، اگر اب بھی حکومت نے اس تعلق سے کچھ نہیں کیا تو ملک میں امن واتحاد خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند سیاسی جماعتوں، ملک کے دانشوروں، سماجی تنظیمیں اور مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ اپنے اثرات کا استعمال کر کے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کی کوشش کریں، جس نے ملک کی یکجہتی، آئین ودستور اور سلامتی کے شدید خطرات پیدا کر دیئے گے ہیں۔

اجلاس میں جاری ٹرم کے لئے مفتی سید معصوم ثاقب کو ناظم عمومی نامزد کیا گیا، شرکاء میں مولانا عبد العلیم فاروقی لکھنو، جناب گلزار احمد اعظمی سکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر، مفتی غیاث الدین احمدرحمانی، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق احمد عنفر، مولانا عبد الہادی پرتاپ گڑھی، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، فضل الرحمن قاسمی، مولانا عبدالرشید قاسمی، مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی، مولانا قاری شمس الدین، حاجی سلامت اللہ دہلی، مفتی اشفاق احمد سرائے، مولانا بدر احمد مجیبی، مفتی عبد القیوم منصوری، جناب فضیل احمد ایوبی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے علاوہ مولانا حلیم اللہ قاسمی، مولانا عبد القیوم قاسمی، مفتی محمد احمد، مفتی محمد راشد، مولانا محمد مسلم قاسمی، جناب شاہد ندیم ایڈوکیٹ، مفتی حبیب اللہ قاسمی راجستھان، مولانا محمد خالد قاسمی اور مولانا مکرم الحسینی بیگوسرائے بطور مدعو خصوصی شریک ہوئے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی ہند ۔ پاک کرکٹ میچ وزیر اعظم مودی کی باتوں میں تضاد : ابوعاصم اعظمی

Published

on

Abu-Asim-Azmi-

ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے ہند ۔ پاک کرکٹ میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ ۱۱ برس میں ایک بھی بات سچ نہیں ہوئی ہے۔ ان کی باتوں میں تضاد ہے وہ بولتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ہر خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہے کا بیان وزیر اعظم نے دیا تھا, اب پاکستان کے ساتھ دبئی میں کرکٹ کھیلا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ٹھوس بات ہونی چاہئے۔ پہلگام حملہ میں ہماری بہنوں کا سندور اجڑ گیا۔ جب تک پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا, اس سے کوئی بات نہیں ہونی چاہیے اور تعلقات سے متعلق بھی غور کرنا چاہئے, کیونکہ پاکستان مسلسل ہندوستان پر حملہ کرتا ہے اور ہم ان کے ساتھ میچ کھیلتے ہیں, یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں بند ہونا چاہئے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی بین الاقوامی گینگ بے نقاب، کرائم برانچ کی کارروائی 12 ملزمین گرفتار، بینک اکاؤنٹ خرید کر دھوکہ دہی کی گئی : ڈی سی پی

Published

on

Crime-Branch

ممبئی : ممبئی کرائم برانچ نے سائبر دھوکہ دہی کے بین الاقوامی ریکیٹ کو بے نقاب کرنے کا دعوی کرتے ہوئے 12 ملزمین کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ ملک بھر میں سائبر دھوکہ دہی میں ملوث تھے اور دوسروں کے بینک اکاؤنٹ خرید کر اس کا استعمال سائبر فراڈ سے حاصل رقومات کی منتقلی کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس لئے اس معاملہ میں کرائم برانچ نے باقاعدہ طو رپر پانچ ایسے افراد کو بھی ملزم بنایا ہے جنہوں نے اپنا بینک اکاؤنٹ فراڈ کیلئے فراہم کئے تھے۔ ان اکاؤنٹ کو 7 ہزار سے 5 ہزار روپے میں خریدا جاتا تھا۔

ممبئی پولیس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی پی ڈٹیکشن راج تلک روشن نے بتایا کہ 60 کروڑ روپے سے زائد دھوکہ دہی کے معاملہ میں ملوث سائبر فراڈ گینگ کو اس وقت بے نقاب کیا گیا جب کاندیولی میں پولیس نے چھاپہ مارا اور یہاں سے پانچ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس دفتر میں سم کارڈ, لیپ ٹاپ, 25 موبائل فون اور فرضی دستاویزات بھی برآمد ہوئے تھے اس کے علاوہ اے ٹی ایم کارڈ بھی ملا تھا۔ 943 بینک اکاؤنٹ میں سے 181 بینک اکاؤنٹ کا استعمال سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کیلئے کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں یہی اکاؤنٹ کا استعمال سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کیلئے کیا جاتا تھا۔

ان اکاؤنٹ کا استعمال ڈیجیٹل اریسٹ, شیئر ٹریڈنگ سمیت دیگر فراڈ کے پیسوں کیلئے کیا گیا تھا, اس کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ سائبر فراڈ سے متعلق 1930 پر شکایات موصول ہوئی تھی, جس میں کل 339 شکایت میں سے ممبئی کی 16 اور مہاراشٹر میں 46 شکایت کے بعد 16 جرم درج کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں 277 شکایات موصول ہوئی تھی۔ اس میں سے 33 جرم درج کئے گئے ہیں ملزمین پر مزید مقدمات درج ہونے کا امکان بھی ہے۔ یہ گروہ منظم طریقے سے لوگوں کو بے وقوف بنایا کرتا تھا۔ اس گینگ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ پہلے وہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا جو اپنے بینک اکاؤنٹ فروخت کرنے کے خواہاں ہے۔ اس کے بعد ان کے بینک اکاؤنٹ خرید کر سائبر فراڈ کے پیسوں کی اس میں منتقلی کی جاتی۔ اس کے ساتھ ہی ان بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور تمام پاس ورڈ بھی اپنے پاس ہی یہ لوگ رکھتے تھے, اس کے بعد اے ٹی ایم اور دیگر سینٹروں سے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکالا کرتے تھے۔ ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی آن لائن اور اے ٹی ایم سے پیسے نکالے گئے ہیں۔ جن لوگوں کا اکاؤنٹ سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کے لئے استعمال کیا گیا تھا انہیں اس کا علم تھا اس لئے اب ایسے افراد کو بھی ملزم بنایا گیا ہے, جنہوں نے اپنا اکاؤنٹ فراہم کیا ہے۔ یہ تمام بھی جرم میں شریک پائے گئے تھے, اس لئے ڈی سی پی راج تلک روشن نے بتایا ہے کہ لالچ میں کسی کو بھی اپنا اکاؤنٹ فروخت نہ کرے اور سائبر فراڈ سے محفوظ رہنے کیلئے آن لائن پر کسی بھی قسم کی دھمکی سے خوفزدہ نہ ہو, کیونکہ ڈیجیٹل اریسٹ وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں انہوں نے کہا کہ جس طرح سے سائبر فراڈ کے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح کرائم برانچ بھی فعال ہے, ایسے میں کرائم برانچ نے 60 کروڑ سے زائد کے فراڈ کے کیس کو حل کر لیا ہے۔ اور 10 کروڑ روپے ان اکاؤنٹ سے منجمد بھی کئے ہیں۔ جن ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ویبو پٹیل, سنیل کمار پاسوان، امن کمار گوتم، خاتون خوشباو سندر جول، رتیک بندیکر شامل ہے ان ملزمین کے قبضے سے دو لیپ ٹاپ، ایک پرنٹر, 25 موبائل فون متعدد بینکوں کی 25 پاس بک, 30 چیک بک, 46 اے ٹی ایم سوئپ مشین و دیگر کمپنی کے موبائل کے 104 سم کارڈ برآمد ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف سمتا نگر پولیس اسٹیشن میں سائبر فراڈ سمیت دیگر دفعات میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس معاملہ کی تفتیش میں پیش رفت ہونے کے بعد مزید ملزمین کی گرفتاری عمل لائی گئی ہے اور اب تک اس معاملہ میں 12 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس میں جس خاتون کو گرفتار کیا گیا ہے اس نے اپنا اکاؤنٹ فروخت کیا تھا۔ اسی لئے پولیس نے شہریوں سے الرٹ رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پیسوں کی لالچ میں ایسے گینگ کے دام میں نہ آئے

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی مہاراشٹر میں جلوس محمدی ۸ ستمبر کو نکالا جائے گا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنپتی وسرجن کے تناظر میں اہم فیصلہ, جلوس کمیٹیوں کی میٹنگ میں فیصلہ پر مہر ثبت

Published

on

Khilafat-House

ممبئی : مہاراشٹر اور ممبئی میں جلوس عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ۸ ستمبر بروز پیر کو تزک و احتشام کے ساتھ نکالاجائے گا ممبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی کی مشاورتی میٹنگ میں حضرت معین الدین اشرف المعروف معین میاں نے جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کی تصدیق کی ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور شر پسندی فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے مسلمانوں نے فرخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس محمدی مقررہ روز نہ نکالتے ہوئے پیر ۸ ستمبر کو نکالنے کا فیصلہ لیا ہے۔ یہ فیصلہ مسلمانوں نے اننت چتردسی یعنی گنپتی وسرجن کے پس منظر میں کیا ہے, تاکہ گنپتی اور جلوس محمدی میں کوئی تصادم یا تناؤ پیدا نہ ہو۔ مسلمانوں نے براداران وطن کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آقا نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام امن اور بھائی چارگی کو عام کیا ہے۔ اس سے قبل عید میلاد النبی کے تناظر میں ممبئی پولس کمشنر دیوین بھارتی سے مسلم نمائندہ وفد نے ملاقات کی تھی۔ جس میں پولس کمشنر نے جلوس کو دو دنوں کے لئے موخر یا پانچ ستمبر کو پولس نے نکالنے کی اجازت دیدی تھی۔ ایسے میں مسلمانوں نے افراتفری کے حالات اور ہندو مسلم اتحاد کے قیام کے لئے اب جلوس ۸ ستمبر کو نکالنے کا فیصلہ لیا ہے۔ مساجد گھروں اور عبادت گاہوں مسلم محلوں میں عید میلاد النبی کے روز ہی چراغاں فاتحہ اور قرآن کا مسلمان اہتمام کریں گے۔ صرف جلوس ۸ ستمبر کو منعقد ہوگا۔ جلوس کی شاہراہوں میں جلوس محمدی کے استقبال کے لئے گیٹ بھی سجائے جاتے ہیں اور گنپتی کا روٹ بھی یہی ہوتا ہے, ایسے میں تصادم کا بھی خطرہ لاحق تھا۔ ان تمام پس منظر پر غور وخوص کرنے کے بعد مسلمانوں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ اس اہم میٹنگ میں علما کرام، وعمائدین شہر رکن اسمبلی امین پٹیل، ذیشان صدیقی، کانگریس لیڈر محمد عارف نسیم خان، وارث پٹھان، حاجی علی اور ماہم درگاہ ٹرسٹی سہیل کھنڈوانی، خلافت کمیٹی سرفرارز آرزو، ایم اے خالد، مولانا خلیل الرحمن نوری، مولانا عبدالجبار ماہر القادری، سمیت دیگر شریک تھے۔ جلوس کمیٹیوں کی میٹنگ میں حضرت معین میاں نے مہر ثبت کر دی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com