Connect with us
Sunday,12-October-2025

تفریح

اداکار نواز الدین صدیقی کے ہاتھوں نندیتا داس کی کتاب ’’منٹو اور مَیں‘‘ کی رونمائی

Published

on

ممبئی: ’’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے سعادت حسن منٹو کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ بطور اداکار مَیں نے کئی کردار نبھانے اور اسٹیج ڈراموں کیلئے اردو اور ہندی ادب پڑھا ہے لیکن منٹو کو پڑھنے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ وہ عظیم لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ منٹو کا کردار میری زندگی پر اثر انداز ہوا ہے۔ منٹو کے ذریعہ مَیں نے اپنے دل کی بات کہی ہے۔‘‘ اِن خیالات کا اظہار بہ روز اتوار ۱۶/فروری کی شام ممبئی کے جی فائیو اے تھیٹر میں منعقدہ تقریب میں فلم ساز، اداکارہ نندیتا داس کی کتاب ’’منٹو اور مَیں‘‘ کی رسمِ رونمائی کے موقع پر مقبول و معروف اداکار نواز الدین صدیقی نے کیا۔ واضح رہے کہ ہند و پاک کے شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر مبنی نندیتا داس کی ہدایت میں بننے والی فلم ’منٹو‘ ستمبر ۲۰۱۸ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اِس فلم میں نواز الدین صدیقی کے ساتھ رشی کپور، جاوید اختر، رَسیکا دُگل، طاہر راج بھسین، پریش راول، رنویر شورے، راج شری اور دِویا دتہ اہم کردار میں نظر آئے تھے۔ چونکہ محض دو سے ڈھائی گھنٹے کی بائیوپک کے ذریعہ کسی کی پوری زندگی کو پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ نندیتا داس نے محسوس کیا کہ منٹو کی بہت ساری کہانیاں تھیں جن کو بتانا چاہئے تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے یہ کتاب تحریر کی ہے۔
گذشتہ برسوں میں متعدد کامیاب فلموں میں نظر آئے نواز الدین صدیقی نے اِس موقع پر اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا، ’’فلم ’منٹو‘ کی شوٹنگ کے دوران مَیں نے بارہا محسوس کیا کہ آپ کا خیال بھی عموماً وہی ہوتا ہے جو منٹو کا ہوتا ہے۔ عموماً بہت سارے لوگوں کا ہوتا ہے کیونکہ ہر آدمی زندگی میں سچ بولنا چاہتا ہے۔ اُس کو سننے والے بہت کم ہیں، ایسا مجھے کبھی کبھی لگتا ہے۔ یعنی کہ اگر واقعی سننے والے مل جائیں تو ہر آدمی پوری زندگی کا سچ اُنڈیل دے۔ مَیں نے بہت جگہوں پر دیکھا ہے لوگ سچ بولنا چاہتے ہیں۔ فلم ’منٹو‘ کی شوٹنگ کے دوران کئی بار ہوتا تھا کہ میرا خیال بالکل وہی ہے جو منٹو کا تھا۔ شوٹنگ کے وقت مَیں نے محسوس کیا کہ اگر کسی سین (منظر) کے ذریعہ مَیں نے خود کا سچ بول دیا تو لگتا تھا کہ ایمانداری آ گئی اِس سین میں اور یہ کہیں نہ کہیں آپ کو ناظرین سے جوڑتا ہے۔‘‘ نواز الدین صدیقی نے بتایا، ’’اُس وقت ’منٹو‘ کی شوٹنگ کے دوران یہ جدوجہد چل رہی تھی کہ مجھے یہاں ذرا بھی اداکاری نہیں کرنا ہے۔ جہاں اداکاری کا زور لگایا، اداکاری کرنے کی کوشش کی، وہاں کام کے ﺗﺌﻴﮟ آپ کی خود کی ایمانداری چلی جائے گی۔‘‘

فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ میں ایک پاکستانی رپورٹر سے متاثر ہو کر لکھا گیا کردار ہو، سعادت حسن منٹو اور شیوسینا سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے کا کردار ہو یا بیوی کی محبت میں پہاڑ کا سینہ چیر کر راستہ بنانے والے دشرتھ مانجھی کا کردار ہو نواز الدین صدیقی نے ہر طرح کے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔ مختلف کرداروں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اُنہوں نے جواب دیا، ’’جتنی ایمانداری سے مَیں نے منٹو کا کردار نبھانے کی کوشش کی بطور اداکار میرا فرض تھا کہ اُتنی ہی شدت سے مَیں ٹھاکرے کا کردار نبھاؤں۔ میرے لئے یہ کردار ہیں۔ ممکن ہے مَیں غلط ہوں پر یہ میرا خیال ہے کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ زندگی میں آپ صرف اُدھار کے خیالات پر چل رہے ہوتے ہیں۔ جب تک مَیں منٹو کرتا رہا، اُس وقت منٹو میرا خیال تھا۔ مَیں منٹو کی طرح منٹو کے نظریہ سے پوری دنیا کو دیکھتا تھا۔ اُس کے بعد فلم ’منٹو‘ پوری ہونے کے ساتھ وہ ختم ہوا۔ پھر دوسرے نظریہ سے دنیا کو دیکھنے لگا تو اِس طرح تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔‘‘
اُنہوں نے مزید کہا، ’’اداکار کی ایک زندگی نہیں ہوتی ہے۔ اُسے بہت سی زندگیوں کو جینا پڑتا ہے۔ بطور اداکار اگر مَیں کسی ایک کردار کے نظریہ سے زندگی کو دیکھوں تو بہت سارے کردار ہیں جو رہ جائیں گے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں نواز الدین صدیقی نے کہا، ’’کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جو آپ کہنا چاہتے ہیں اور نہیں کہہ پاتے وہ کردار کہہ دیتے ہیں۔ جیسے اپنی زندگی میں بہت ساری باتیں میں نہیں کہہ پاتا، مَیں نے منٹو کے ذریعہ وہ کہا ہے۔ مجھے ایک قسم کا سکون ملتا ہے۔ مَیں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اِس طرح کے کردار نبھانے کا موقع ملتا ہے جہاں پر مَیں ڈر کے کچھ نہ کہوں تو میرے کردار وہ کہہ دیتے ہیں۔‘‘ سامعین کے اصرار پر نواز الدین صدیقی نے اِسی فلم کا ایک اثر انگیز مکالمہ سنایا، ’’ہندوستان زندہ باد پاکستان زندہ باد۔ اِن چیختے چلاتے نعروں کے بیچ میں کئی سوال ہیں۔ مَیں کسے اپنا ملک کہوں، لوگ دھڑا دھڑ کیوں مر رہے تھے؟ اِن سب سوالات کے مختلف جواب تھے، ایک ہندوستانی جواب ایک پاکستانی جواب۔ ایک ہندو جواب ایک مسلم جواب۔ کوئی اِسے ۱۸۵۷ء کے کھنڈر میں تلاش کرتا ہے تو کوئی اِسے مغلیہ سلطنت کے ملبے میں۔ سب پیچھے دیکھ رہے ہیں لیکن آج کے قاتل لہو اور لوہے سے تاریخ بنا رہے ہیں۔‘‘
کتاب ’’منٹو اور مَیں‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے فلم ’منٹو‘ کی ڈائریکٹر اور معروف اداکارہ نندیتا داس نے کہا، ’’جب مَیں نے ۲۰۰۸ء میں اپنی ہدایتکاری کی پہلی فلم ’فراق‘ مکمل کی تو اُس پر ایک کتاب لکھنا چاہتی تھی۔ پردے کے پیچھے بہت ساری کہانیاں تھیں جو مَیں نے کبھی شیئر نہیں کیں۔ اب ایک دہائی کے بعد مَیں نے اِس بات کو یقینی بنانا چاہا کہ فلم ’منٹو‘ بنانے کا سفر اور منٹو سے میرا رشتہ ختم نہ ہو۔ اِس کتاب کی صورت میں وہ یادیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔ مجھے یقین ہے ایک ساتھ تصاویر اور الفاظ آپ کو ایک ایسی کہانی سنائیں گے جو آپ نے اسکرین پر نہیں دیکھی ہوگی۔‘‘ منٹو کے تعلق سے نندیتا کہتی ہیں، ’’وہ صرف ترغیب نہیں رونگٹے کھڑی کر دینے والی کہانیاں لکھتے تھے جو صرف وہی لکھ سکتے تھے۔ اُن کا لکھا موجودہ حالات پر اُتنا ہی درست ہے جتنا اُس وقت تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے آج ہی اُس آدمی نے یہ لکھا ہو۔‘‘ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نندیتا نے فلم ’منٹو‘ کی کاسٹ، کریو اور ناظرین کے علاوہ پاکستان کے سینئر صحافی، ڈرامہ نگار اور فلم ’منٹو‘ کے ریسرچ اسکالر سعید احمد کا بھی شکریہ ادا کیا۔ تقریب کی میزبانی جی فائیو اے کی بانی انورادھا پاریکھ نے کی جبکہ نظامت کے فرائض نَمیتا نے بحسن و خوبی ادا کئے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

(جنرل (عام

گوتم اڈانی نے وِسلنگ ووڈس انٹرنیشنل کے طلباء کو ’بھارت کے جواہرات‘ کے طور پر سراہا؛ راجکمار ہیرانی، کارتک آریان کی تعریف کی۔

Published

on

bolloywood

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے وِسلنگ ووڈس انٹرنیشنل کے طلباء کو “بھارت کے جواہرات” کے طور پر سراہا اور راجکمار ہیرانی، کارتک آریان، اور جیکی شراف کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں “آئیکون” قرار دیا۔ ارب پتی گوتم اڈانی انسٹاگرام پر گئے اور وِسلنگ ووڈس انٹرنیشنل کے طلباء سے اپنے خطاب کی تصاویر کا ایک موٹلی مجموعہ شیئر کیا۔ انہوں نے فلم ساز سبھاش گھئی، کارتک آریان اور دیگر کے ساتھ ایک تصویر بھی پوسٹ کی۔ گوتم اڈانی نے تصاویر کے کیپشن میں لکھا: “ہمیشہ ہماری قوم کے نوجوانوں میں شامل ہونے کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اور جب وہ نوجوان @سیٹی بجاتی جنگل سے آتا ہے، توانائی بجلی بن جاتی ہے۔ @سبھاش گھئی 1، ہمارے ملک کو تخلیقی صلاحیتوں اور جذبے کا پاور ہاؤس دینے کے لیے آپ کا شکریہ – آپ کے انسٹی ٹیوٹ کا ہر گوشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔” ” @بھیجیں۔، @اپنا بھیدو، @کارتیکارین اور مہاویر جین کے شبیہیں کے ساتھ اسٹیج کا اشتراک کرکے شام کو اور بھی خاص بنا دیا! طلباء کے لیے – آپ بھارت کے جواہرات ہیں۔ آپ کی بھارتیت کو ہندوستان کی عظمت کا راستہ روشن کرنے دیں۔” اڈانی گروپ کے چیئرمین نے جمعہ کو سنیما کی نرم طاقت، کہانی سنانے، اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عالمی بیانیے کو سنبھالنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

گوتم اڈانی نے کہا تھا: “اگر ہم یہ بیان نہیں کریں گے کہ ہم کون ہیں، تو دوسرے دوبارہ لکھیں گے کہ ہم کون تھے، اس لیے ہمیں اپنی کہانی تکبر کے ساتھ نہیں بلکہ صداقت کے ساتھ، پروپیگنڈے کے طور پر نہیں، بلکہ مقصد کے طور پر لکھنی چاہیے۔” راج کپور کی مشہور فلم ‘آوارہ’ کی مثال دیتے ہوئے، جس میں ایک عام آدمی کے کردار میں مشہور اداکار نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں سوویت سامعین کے ساتھ گہرا جذباتی رابطہ قائم کیا، انہوں نے کہا کہ کپور ہندوستان کے نرم طاقت کے بہترین وکیل تھے، ایک ثقافتی بندھن کی تعمیر جس نے ہند-سوویت نسلوں کے لیے ترقی کی۔ گوتم اڈانی نے ہندوستان کی کہانیوں کو مغربی نقطہ نظر سے سنانے کی اجازت دینے کے خلاف خبردار کیا، جیسا کہ ‘گاندھی’ اور ‘سلم ڈاگ ملینیئر’ جیسی فلموں کا معاملہ تھا۔ “ہم ہندوستانیوں کو ہمارے مہاتما کی کہانی سنانے کے لیے سمندر پار سے رچرڈ ایٹنبرو کو کیوں لے جانا چاہیے؟” اس نے پوچھا. انہوں نے کہا کہ بہت عرصے سے، “ہندوستان کی آواز ہماری اپنی سرحدوں کے اندر مضبوط ہے لیکن ان سے باہر بے ہوش ہے۔ اور اس خاموشی میں، دوسروں نے قلم اٹھایا ہے، تعصب سے رنگے ہوئے اور اپنی سہولت کے مطابق بنائے گئے لینز کے ذریعے بھارت کا خاکہ تیار کیا ہے۔” ارب پتی تاجر نے کہا، “اور اس تعصب کو برطانوی فلم ‘سلم ڈاگ ملینیئر’ سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرتا، جو ایک ایسا تماشا ہے جس نے دھاراوی کی غربت کو مغربی تالیوں کے لیے بیچا، اور ہمارے درد کو غیر ملکی ایوارڈ یافتہ تقریبات میں بدل دیا۔” انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس ہالی ووڈ کی فلم ‘ٹاپ گن’ “صرف سنیما نہیں بیچ رہی ہے؛ یہ پاور کو پیش کررہی ہے”۔ “ڈاگ فائٹ اور بہادری کے پیچھے ایک شاندار طریقے سے تیار کی گئی داستان چھپی ہوئی ہے، جو قومی فخر، امریکی فوج کی طاقت، اور برآمدات کو ظاہر کرتی ہے، دنیا کے ہر کونے میں امریکی جرات کی تصویر ہے۔ یہ فلمیں صرف کہانیاں نہیں ہیں، یہ سٹریٹجک آلات ہیں جو تصور کو تشکیل دینے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، یو ایس کی شناخت، اور ڈیف نے کہا۔”

Continue Reading

(Lifestyle) طرز زندگی

سمیر وانکھیڑے کو بدنام کرنے کی سازش… کورڈیلیا کروز کو منشیات کیس سے بچانے کا سنگین الزام، جج عرفان شیخ تادیبی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد برطرف

Published

on

bollywood-&-sameer

ممبئی : این سی بی کے سابق زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڈے کو ایک مرتبہ پھر بدنام کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے اب تازہ معاملہ جج عرفان شیخ کی برخاستگی کا ہے, جس میں سمیر وانکھیڈے پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے. کورڈیلیا کروز کیس میں انہوں نے جج عرفان شیخ کو گرفتار کر نے کے بجائے انکی ٹیم نے جج کو بچایا ہے ایڈیشنل میٹرو پولٹین مجسٹریٹ عرفان شیخ اس وقت اسپیلنڈ کورٹ کے جج کے عہدہ پر تعینات تھے. فی الوقت وہ پالگھر اور تھانہ ضلع کے جج کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے. عہدہ کا غلط استعمال، ضبط شدہ منشیات کا استعمال، نشہ کی حالت رفیع احمد قدوائی مارگ میں اپنی کار سے ٹیکسی کو ٹکر مارنے، غیر محسوب دولت رکھنے کے ساتھ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر نا، نائر اسپتال میں اپنی شناخت چھپانا اور غلط و گمراہ کن پتہ مندرج کروانا، کار کو بغیر جمع کئے ہی واپس حاصل کرنا جیسے سنگین الزامات کے ثابث ہونے کے بعد ہائیکورٹ نے جج کو ڈشپلنری ایکشن کے تحت ملازمت سے ہی برخاست کر دیا ہے۔

جب معاملہ میں جج سے متعلق تفتیش کی گئی تو الزامات درست پائے گئے اور عرفان شیخ کو ملازمت سے برخاست کیا گیا اس میں کہیں بھی کوڈیلیا کروز ڈرگس کیس کا تذکرہ تک نہیں ہے, لیکن سمیر وانکھیڈے پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے جج کی مدد کی تھی. اس سے سمیر وانکھیڈے نے صاف انکار کیا ہے اور کہا کہ پولیس رپورٹ سے لے کر عدالتی کمیٹی کی رپورٹ میں کورڈیلیا کروز ڈرگس کیس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

جب اس متعلق دستاویزات و نقول حاصل کی گئی تو اس میں بھی کورڈیلیا کروز ڈرگس کیس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے. سمیر وانکھیڈے بالی ووڈ کے مسلسل نشانے پر ہے اس لئے شاہ رخ خان کی کمپنی ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ نے ان کے خلاف ایک سریس بیڈ آف بالی ووڈ تیار کی تھی, جس کے خلاف سمیر وانکھیڈے نے دلی ہائیکورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ درج کروایا ہے اور اس کی سماعت جلد ہی ممکن ہے. سمیر وانکھیڈے اور ان کے کنبہ پر بہتان تراشی کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عرفان شیخ کے معاملہ میں بھی سمیر وانکھیڈے کو بدنام کرنے کی کوشش تیز ہوگئی ہے, لیکن اس معاملہ میں سمیر وانکھیڈے یا این سی بی کی ٹیم کا کوئی رول یا عمل دخل نہیں ہے

Continue Reading

بالی ووڈ

سانیا ملہوترا “کتھل” کو نیشنل ایوارڈ جیتنے پر : “پہچان حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے”

Published

on

sasa

ممبئی، بالی ووڈ اداکارہ سانیا ملہوترا نے حال ہی میں 71 ویں نیشنل فلم ایوارڈز میں اپنی فلم ’’کتھل‘‘ کو اعزاز سے نوازے جانے کے بعد پرجوش اور سنسنی کا اظہار کیا ہے۔آئی اے این ایس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، سانیا سے پوچھا گیا کہ نیشنل ایوارڈ یافتہ فلم ‘کتھل’ کا حصہ بن کر کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ سوال کے جواب میں اداکارہ نے کہا کہ میں بہت پرجوش ہوں، کتھل محبت کی محنت تھی اور ٹیم نے اس پر انتھک محنت کی۔ انہوں نے مزید کہا، “پہچان حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے، اور مجھے اس کا حصہ بننے پر واقعی فخر ہے۔ کہانی ایک مزاحیہ ہے، لیکن اس کے پیچھے کا پیغام میرے لیے بہت اہم ہے۔” سانیا نے مزید کہا، “رسپانس زبردست رہا ہے، اور یہ مجھے بہت شکر گزار محسوس کرتا ہے۔” یشوردھن مشرا کی ہدایت کاری میں بنائی گئی، “کتھل اے جیک فروٹ اسرار” مئی 2023 میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم، سماجی تبصرے کے ساتھ نرالا مزاح کو ملاتی ہے، ایک سیاستدان کے باغ سے لاپتہ جیک فروٹ کے ایک عجیب کیس کی پیروی کرتی ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سانیا کو مرکزی کردار میں دکھایا گیا ہے۔ اس فلم کو ایکتا کپور کی بالاجی موشن پکچرز نے پروڈیوس کیا تھا۔ اسے اپنی ہوشیار کہانی سنانے کے لیے تنقیدی پذیرائی ملی۔

71 ویں نیشنل ایوارڈز میں، “کتھل” نے بہترین ہندی فلم کیٹیگری کا ایوارڈ جیتا، جہاں پروڈیوسر ایکتا کپور نے ایوارڈ حاصل کیا۔ ایوارڈز کے 2025 ایڈیشن میں ہندی سنیما کے بڑے ناموں کو اعزاز سے نوازا گیا۔ شاہ رخ خان اور وکرانت میسی کو بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا۔ شاہ رخ خان کو ’جوان‘ کے لیے جبکہ وکرانت کو ’12ویں فیل‘ کے لیے ایوارڈ دیا گیا۔ دریں اثنا، رانی مکھرجی نے “مسز چٹرجی بمقابلہ ناروے” میں اپنی اداکاری کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ جیتا۔ آگے دیکھتے ہوئے، سانیا ملہوترا نے متنوع پروجیکٹس کو ترتیب دینا جاری رکھا ہوا ہے، جس میں مرکزی دھارے کے تفریح ​​کاروں کو مواد پر مبنی کہانیوں کے ساتھ متوازن کیا جا رہا ہے۔ “کتھل” کی کامیابی، “مسز” کی تعریف، اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی “سنی سنسکاری کی تلسی کماری” کے مثبت استقبال کے ساتھ، سانیا نے خود کو ایک ورسٹائل اداکارہ کے طور پر مضبوطی سے کھڑا کر دیا ہے۔ اداکارہ “سنی سنسکاری کی تلسی کماری” میں اداکار روہت صراف کے ساتھ جوڑی بنی ہیں۔ فلم میں جھانوی کپور اور ورون دھون بھی ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com