Connect with us
Tuesday,01-October-2024
تازہ خبریں

(جنرل (عام

ملک میں 24 گھنٹے میں 2.5 لاکھ سے زائد کووڈ مریض صحتیاب

Published

on

corona

ملک میں کورونا کیسز میں مسلسل کمی آنے کے درمیان گذشتہ 24 گھنٹوں میں دو لاکھ 59 ہزار 107 مریض صحتیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ اس دوران 1008 افراد کی موت ہوئی ہے۔

اس درمیان پورے ملک میں 55 لاکھ 10 ہزار 693 کووڈ ویکسین دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جمعرات کی صبح 7 بجے تک ایک ارب 68 کروڑ 87 لاکھ 93 ہزار 137 کووڈ ویکسین دی جا چکی ہیں۔

مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی طرف سے جمعرات کو جاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران ایک لاکھ 72 ہزار 433 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک میں کورونا کے فعال کیسز 87 ہزار 682 کم ہو کر 15 لاکھ 33 ہزار 921 پر آ گئے ہیں۔ فعال کیسز کی شرح فی الحال 3.67 فیصد ہے۔ اس دوران دو لاکھ 59 ہزار 107 مریضوں کے صحتیاب ہونے کے بعد ریکوری ریٹ 95.14 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ملک میں اب تک تین کروڑ 97 لاکھ 70 ہزار 414 افراد کورونا کو شکست دے چکے ہیں۔ دریں اثناء وباء کی وجہ سے 1008 افراد ہلاک ہوئے۔ شرح اموات 1.19 فیصد پر مستحکم ہے۔

گذشتہ 24 گھنٹوں میں ملک میں 15 لاکھ 69 ہزار 449 کووڈ ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ ملک میں اب تک کل 73.41 کووڈ ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

کیرالا میں پورے ملک میں سب سے زیادہ فعال کیسز ہیں۔ یہاں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 9984 فعال کیسز بڑھ کر 378564 ہو گئے۔ اسی کے ساتھ 41715 افراد کے صحتیاب ہونے کے بعد اس سے نجات پانے والوں کی تعداد 5695091 ہو گئی ہے، جبکہ 500 افراد کی موت کے بعد اموات کی تعداد 56100 ہو گئی ہے۔

دوسرے نمبر پر کرناٹک ہے، جہاں فعال کیسز کی تعداد 20479 سے کم ہو کر 177276 پر آ گئی ہے۔ اس دوران مزید 40903 مریضوں کے صحتیاب ہونے کے ساتھ ہی اس وباء کو شکست دینے والوں کی کل تعداد 3627925 ہو گئی ہے۔ وہیں مزید 81 مریضوں کی موت ہوئی ہے، جس سے ریاست میں ہلاکتوں کی تعداد 39137 ہو گئی ہے۔

(جنرل (عام

‘بلڈوزر جسٹس’ کے خلاف مختلف ریاستوں سے کیس سپریم کورٹ پہنچ چکے، عدالت نے یکم اکتوبر تک کسی بھی قسم کی مسماری پر پابندی لگا دی ہے۔

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : یہ 61 سالہ راشد خان کی زندگی کے طویل ترین دو گھنٹے تھے۔ راشد ایک آٹورکشہ ڈرائیور ہے۔ وہ روزانہ 1,000-1,500 روپے کماتا ہے۔ راشد نے 16.5 لاکھ روپے میں چار کمروں کا مکان خریدنے کے لیے کئی سالوں سے بچت کی اور قرض لیا تھا۔ 17 اگست کی صبح اس نے دیکھا کہ اس کی زندگی کی بچت کو بلڈوزر سے اینٹ سے اینٹ بجا دیا گیا ہے۔ دوپہر ایک بجے تک ملبے کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔

اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بچت کو تباہ ہوتے دیکھ کر راشد کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز پر بھروسہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس ہفتے امید کی کرن پیدا ہوئی جب سپریم کورٹ نے ریاستوں کو یکم اکتوبر تک انہدام روکنے کی ہدایت کی۔ کئی ریاستوں میں ملزمین کی جائیدادوں کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کا الزام لگانے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر غیر قانونی انہدام کا ایک بھی معاملہ ہے تو یہ ہمارے آئین کی اقدار کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ رہنما خطوط بنانے کی تجویز دی ہے، جنہیں پورے ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔

راشد کا گھر اس کی مثال ہے۔ ادے پور کے حکام کا دعویٰ ہے کہ عمارت نے جنگل کی زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا اس لیے اسے گرا دیا گیا۔ تاہم، بلڈوزر چلانے کی وجہ ایک جرم تھا جس کا راشد کا دعویٰ ہے کہ اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب اسکول میں دو 16 سالہ بچوں کے درمیان جھگڑا پرتشدد ہو گیا۔ ایک بچے نے (اقلیتی برادری سے) دوسرے کو چھرا گھونپ دیا۔ ہندو لڑکا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا اور تشدد کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔

اقلیتی برادری کی املاک پر حملہ کیا گیا، گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور گھنٹوں کے اندر ‘بلڈوزر جسٹس’ (اتر پردیش میں وضع کی گئی ایک اصطلاح جسے بعد میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بھی استعمال کیا گیا) یہ مطالبہ راجستھان جیسی ریاستوں میں بھی پھیل گیا۔ جہاں کانگریس کی حکومت تھی۔ ادے پور میں، ملزم کو گرفتار کر کے نابالغ حراستی مرکز بھیج دیا گیا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔

جب کشور کے والد اگلی صبح بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس مکان پر مسماری کا نوٹس چسپاں ہے جو اس نے راشد سے کرائے پر لیا تھا۔ چند گھنٹوں میں بلڈوزر آ گئے اور جائیداد کو مسمار کر دیا گیا۔ راشد کا کہنا ہے کہ اس نے خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہوئے چیخ کر کہا کہ وہ جائیداد کا مالک ہے۔ ان کا جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ناانصافی کے پہیے پہلے ہی گھوم چکے تھے۔

راشد کا کہنا ہے کہ جب مجھے نوٹس کا علم ہوا تو میں نے اپنی فائل کے ساتھ سیل ڈیڈ، ٹیکس کی رسیدیں، پانی اور بجلی کے کنکشن کے کاغذات دکھائے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ میں نے قانون پر عمل کیا ہے۔ لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ بلڈوزر انصاف کے دیگر متاثرین کے برعکس، راشد کیس کو عدالت لے گئے۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے وکیل، سپریم کورٹ میں راشد کی نمائندگی کرنے والے وکلاء میں سے ایک، ایم حذیفہ کا کہنا ہے کہ تعزیری مسماریاں سفاکانہ ریاستی طاقت کی ایک واضح علامت بن گئی ہیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا انتباہ کہ ایگزیکٹو جج کے طور پر کام نہیں کر سکتا، ایک طویل المیعاد طاقتور بیان ہے۔ انصاف کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے انکوائری اور معاوضے کے کمیشن کی ضرورت ہے۔

ایڈوکیٹ سید اشعر وارثی، جو مدھیہ پردیش کے کھرگون اور سدھی میں انہدام سے متاثرہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ تمام معاملات میں متاثرین اقلیتی برادری سے تھے، جن کے گھر 20-30 سال پہلے بنائے گئے تھے۔ ہماری اصل دلیل یہ ہے کہ مناسب عمل کے بغیر انہدام میں اتنی جلدی کیوں؟ یہ لوگوں کے زندگی اور پناہ کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ امجد، جس کی درخواست مدھیہ پردیش کی عدالتوں میں زیر التوا ہے، اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم خوف میں جی رہے ہیں لیکن آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

Continue Reading

قومی

مولانا عمران رضا انصاری کو جموں و کشمیر کے اسمبلی الیکشن میں مولانا راجانی حسن علی گجراتی اور جانی مانی شخصیت سید لیاقت منظور موسوی کی حمایت

Published

on

ودودرا / سرینگر، 28 ستمبر : جموں و کشمیر میں 2024 کے اسمبلی الیکشن میں مولانا عمران رضا انصاری کو گجرات سے مولانا راجانی حسن علی گجراتی اور سرینگر سے جموں و کشمیر کی جانی مانی شخصیت سید لیاقت منظور موسوی نے بھر پور حمایت کرتے ہوئے دونوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ایک فقط صحیح رہنما سے ہی ایک صوبہ ترقی کر سکتا ہے، اور اس کے شہری روشن مستقبل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں کیونکہ ترقی اور تعلیم کے لیے ایک واضح وژن اور پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے مضبوط قائدانہ صلاحیتوں والی شخصیت ہی احتساب کو یقینی بنانے کے لیے دیانتداری اور شفافیت ہی قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اور ایک رہنما جو تعلیم کو ترجیح دیتا ہے وہ فنڈنگ ​​میں اضافہ کرسکتا ہے، نئے اسکول بنا سکتا ہے، اور اسکالرشپ فراہم کر سکتا ہے، جس سے تعلیم کو سب کے لیے زیادہ قابل رسائی بنایا جا سکتا ہے۔ قابل اساتذہ کی بھرتی، اختراعی نصاب متعارف کروانے، اور ڈیجیٹل لرننگ کو فروغ دینے سے، تعلیمی معیار نمایاں طور پر بلند ہو سکتا ہے جو پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت کی ترقی کے پروگرام نوجوانوں کو افرادی قوت کے لیے تیار کر سکتے ہیں، اور جو بے روزگاری کو کم کر سکتے ہیں۔ اور ان فوائد کو حاصل کرنے کے لیے، اس کے ساتھ مولانا عمران رضا انصاری جیسے رہنما کا انتخاب کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے ہم نے ایک مضبوط رہنما مولانا عمران رضا انصاری کی حمایت کا عزم مصمم کیا جو سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے، ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے، اور سڑکوں، ہسپتالوں اور عوامی نقل و حمل جیسے ضروری بنیادی ڈھانچے کو ترقی دے سکتا ہے۔ کاروبار کے لیے دوستانہ پالیسیوں کو فروغ دے کر اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دے کر، ایک صوبہ معاشی ترقی، غربت میں کمی اور معیار زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ جو ایک ہمدرد رہنما صحت کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی اور رہائش جیسے سماجی مسائل کو حل کرنے کے پروگراموں کو نافذ کر سکتا ہے، جو زندگی کے بہتر معیار کو یقینی بنانے میں بہت ہی موثر ہے۔

سرینگر سے جموں و کشمیر کی جانی مانی شخصیت جناب لیاقت منظور موسوی صاحب نے کہا کہ مولانا عمران رضا انصاری صاحب ایک دیانت دار اور لوگوں کا غمخوار سیاست دان ہے, جو بنا مسلک کے لوگوں کے مشکلات کو حل کرنے میں ہمیشہ فکر مند رہتا ہے۔ لہذا پٹن بارہمولہ اسمبلی حلقہ سے مولانا عمران رضا انصاری صاحب کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ملت کے نوجوانوں کو سیاسی بیداری اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ایک ایک ووٹ مولانا موصوف کو پڑے جس سے ان کی جیت یقینی بن جائے اور اس سے مولانا صاحب کو قومی خدمات کا موقع فراہم ہو جائے گا اور وہی کشمیر کی خوشبختی کی دلیل ہے۔

جموں و کشمیر کو مولانا عمران رضا انصاری صاحب جیسے سرکردہ اور دوراندیش سیاست دان کی ضرورت دفعہ 370 ہٹانے کے بعد کچھ زیادہ ہی ضرورت بن گیی ہے۔ جن کا مسئلہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں ایک نمایاں کردار کی ضرورت ہے, جو بحیثیت ایک شیعہ لیڈر کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مولانا کلیم صدیقی تبدیلی مذہب معاملہ : خصوصی سیشن عدالت کا عمر قید کی سزا والا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج، ملزمین کی رہائی کے لئے کوشش شروع

Published

on

لکھنؤ27/ ستمبر : گذشتہ دنوں لکھنؤ کی خصوصی سیشن عدالت نے مبینہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی سمیت 16/ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا۔ نچلی عدالت نے 12/ ملزمین کو عمر قید اور 4/ ملزمین کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ نچلی عدالت فیصلے کو ملزم عرفان شیخ نے لکھنؤ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف داخل اپیل پر گذشتہ کل لکھنؤ ہائی کورٹ کی دور کنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عرفان خان کے دفاع میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سینئر ایڈوکیٹ اوپی تیواری اور ایڈوکیٹ فرقان پٹھان پیش ہوئے۔خصوصی سیشن عدالت سے سزا پانے والے ملزمین میں سے عرفان شیخ پہلا ملزم ہے جس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

دوران سماعت دو رکنی بینچ کے جسٹس عطاء الرحمن مسعودی اور جسٹس اجئے کمار سری واستو کو ایڈوکیٹ او پی تیواری نے بتایا کہ نچلی عدالت نے عرض گذار کو ناکافی ثبوت وشواہد موجود ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا سنائی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایڈوکیٹ اوپی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ جن دفعات کے تحت نچلی عدالت نے عرض گذار اور دیگر ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے اس کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ ایڈوکیٹ او پی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہی غیر آئینی ہے لہذا ملزمین کو سزا دینے والے نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کر دینا چاہئے۔

ایڈوکیٹ او پی تیواری کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے استغاثہ کو نوٹس جاری کیا اور پانچ ہفتے کے اندر اپنا اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا۔ ریاستی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت سے عرض گذار کی اپیل پر اعتراض داخل کرنے کے لئے آٹھ ہفتوں کا وقت طلب کیا تھا جس پر ایڈوکیٹ اوپی تیواری نے اعتراض کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرض گذار دوران ٹرائل ضمانت پر تھا, لیکن نچلی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اسے جیل واپس جانا پڑا, لہذا عرض گذار کی اپیل اور ضمانت کی عرضداشت پر جلد از جلد سماعت کی جائے۔ دو رکنی بینچ نے استغاثہ کو نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے, اور مقدمہ کی سماعت نومبر کے ماہ میں کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔

عرض گذار عرفان شیخ کی جانب سے لکھنؤ ہائی کورٹ میں داخل اپیل کو ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے تیار کیا ہے جس میں تحریر ہے کہ استغاثہ ملزم کے خلاف عدالت میں پختہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے, جس کی بنیاد پر ملزم کو اس مقدمہ میں قصور وار ٹہرایا جاسکے۔ اس مقدمہ میں استغاثہ نے ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لئے 24 / سرکاری گواہوں کو پیش کیا جس میں چیف تفتیشی افسر کی گواہی بھی شامل ہے, لیکن ان تمام گواہان کی گواہی قانوناً پختہ نہیں ہے, اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا دی جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

عرضداشت میں مزید تحریر ہے کہ ملزم عرفان اور دیگر ملزمین کے خلاف گواہی دینے والے گواہان کے بیانات میں کھلا تضاد ہے۔ گواہان نے عدالت میں پہلی مرتبہ ملزم عرفان کے دیگر ملزمین کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا تھا۔ ملزم عرفان کی گرفتاری ہی مشکوک ہے کیونکہ ملزم عرفان کا نام ایف آئی آر میں درج ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ بعد میں اسے دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا۔

عرضداشت میں مزید تحریر ہے کہ گواہ استغاثہ لکشمی گپتا اور ادتیہ گپتا نے 2020 میں اسلام قبول کیا تھا, جبکہ اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلیجن قانون 2021 میں بنا تھا, لہذا اس قانون کا اطلاق اس مقدمہ پر ہوتا ہی نہیں, نیز اس قانون کے مطابق متاثر یا اس کے رشتہ دار ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں, لیکن موجودہ مقدمہ میں ونود کمار (اے ٹی ایس افسر) نے شکایت درج کرائی ہے جس کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا جو غیر قانونی ہے, اس کے باوجود نچلی عدالت نے ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ہے۔


Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com