Connect with us
Saturday,11-October-2025

خصوصی

لاکھوں مزدور ان دنوں بھوک مری کا شکار ہیںنیز راشن کارڈ ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو اناج نہیں مل رہا ہے:سیاسی لیڈران کا اظہار خیال

Published

on

(محمد یوسف رانا)
ریاست میں بڑھتے کروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے آج وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے دوپہر دو بجے ریاست کی تمام سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داران سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ریاست میں کرونا کے جاری قہر اور بحران کو ختم کرنے کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی جائی؟اس کے لئے ریاست کی اٹھارہ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران اور اہم شخصیات سمیت اپوزیشن لیڈر و سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس کے علاوہ مہاراشٹر نونرمان کے راج ٹھاکرے بھی شریک شامل ہوئے۔ اس موقع پر وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے میٹنگ میں شریک تمام لوگوں سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست مہاراشٹر میں کرونا کے خاتمہ کے لئے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر آکر کام کرنا ہوگا۔جس کے لئے ہمیں آپ تمام لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے ۔ آج کرونا سے مقابلہ کرتے ہوئے دو ماہ سے زائد کاعرصہ گزر گیا لیکن اس وبا ئ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ آج کے حالات سے نہ صرف ریاست ،ملک بلکہ پوری دنیا پریشان ہے، ریاست کے مختلف مقامات پر بذریعہ فون ، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو معلومات مل رہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ وزیر اعظم ،مرکزی وزیر داخلہ سمیت مرکزی وزرائ کا تعاون اور مدد بھی ہمیں مل رہی ہیں۔انہوں نے کہاآپ اس موقع پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ہمارا مقصد خامیوں کی نشاندہی کرنا اور حکومت کو تجاویز دیناہونا چاہئے۔آپ لوگوں کو بتاتا چلوںاپریل میں سخت لاک آؤٹ کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ تاہم مئی کے آخر تک ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔ ممبئی میں مریضوں کی تعداد کے پیش نظر بی کے سی ، ورلی ، ریس کورس جیسے مقامات پر بڑی تعداد میں قرنطینہ کے مراکز قائم کیے ہیں۔ہم نے ٹیسٹوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ کیا ہے۔ وینٹیلیٹرکی بہ نسبت ہمیں آکسیجن کی ضرورت کے ساتھ غیر ملکی شہریوں کو بھی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ بھیج رہے ہیں۔ ریاست کے اندر لوگوں کو سفر کرنے کی اجازت دینے سے پہلے مناسب دیکھ بھال کی جائے گی تاکہ اورنج اور گرین زون میں خطرہ بڑھ نہ سکے۔ادھو ٹھاکرے نے مزید کہا کہ سنٹرل انسٹی ٹیوشن ، آرمی ، پورٹ ٹرسٹ سے آئی سی یو بیڈ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔دیگرریاستی کارکنوں کی آمدورفت کے لئے ممبئی سے ٹرینیں شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مالیگاؤں اور اورنگ آباد میں کنٹیمنٹ زون میں مزید استحکام کی ضرورت ہے وہاں کے عوامی نمائندوں کو تعاون کرنا چاہئے۔ ‘
اس موقع پر نائب وزر اعلی اجیت پوار نے کہا کہ جن کسانوں نے قرض معاف نہیں کیا وہ اب فصلوں کے قرضے حاصل کرنے کے لئے ریزرو بینک سے بات چیت کر رہے ہیں۔بیج اور خریف کا موسم اچھی طرح سے منصوبہ بند ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ جہاں دوائیں ، بیج کم نہیں ہوں گے ، ہم روئی کی خریداری کے سلسلے میں مرکز سے بات کر رہے ہیں۔ مرکز نے شربت اور مکئی کی خریداری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے کہا۲۵۰۰۰؍ میٹرک ٹن جواری اور ۱۵۰۰۰؍میٹرک ٹن مکئی کی خریداری کی جائے گی۔
اپوزیشن لیڈر دیوندر فڑنویس نے کہا کہ میٹنگ میں شریک ہونے پر وزیر اعلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ممبئی اور ریاست میں صحت کی حالت پر زیادہ توجہ دینے اور اسپتال کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔کرونا سےشدید طور پر متاثرہ مریضوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور طبی عملے کے لئے کچھ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔علاج ، مریض کے بیڈ ، اور دیگر معلومات کوشوں کے بغیر مریضوں کو ڈیش بورڈ کے ذریعہ دستیاب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کے دوسرے رابطوں کا بڑے پیمانے پر سراغ لگانا چاہئے اور انتظامیہ کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز سےزیادہ سے زیادہ ٹرینوں کا مطالبہ کریں ، پولیس کے حوصلے بڑہائیں اور انہیں مناسب سکیورٹی فراہم کرے۔
مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہکنٹیمنٹ زون والے علاقوں میں پولیس فورس کو بڑھانا ہوگا۔ پولیس تھک گئی ہے۔ لہذا ایس آر پی فورسز کی ضرورت ہے۔ لوگ پولیس کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔چھوٹے کلینک کئی جگہوں پر بند ہیں۔ مریض بیمار ہورہے ہیں۔ مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کے لئے انتظامات کئے جائیں،دیگر ریاستوں کے کارکنوں کی آج یا کل واپسی پر ان سے معائنہ کرنا ہوگا۔ٹھاکرے نے مزید کہا کہ ریاست میں واپس آنے والےدیگر ریاستوں کےکارکنوں کا مائیگریشن ایکٹ کے تحت اندراج ہونا چاہئے اور مزیدلاک ڈاون کرنے کی صورت میں پیشگی نوٹس دیا جانا چاہئے۔
بہوجن وکاس آگاڑی کے ایم ایل اے ہیتندر ٹھاکر نے کہا کہ پال گھر لال علاقے میں ہے۔مگریہاں ادیواسی پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کے روزگار نہیں ہے، تعمیراتی کام بند ہے اگر بارش شروع ہوگئی تو سیمنٹ کا ذخیرہخراب ہوجائے گا۔ صبح اور شام کی لوکل ٹرینوں کو کم از کم کسی حد تک شروع ہونا چاہئے۔ ریاستی حکومت کا کام ٹھیک چل رہا ہے۔
ونچت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر نے اس موقع پر کہا کہ کپاس کی خریداری بند نہ کی جائے ، کسان کے گھر میں ربیع کی فصل موجود ہے۔ اسے اے پی ایم سی کے ذریعہ خریدا جانا چاہئے۔ معیشت کی بحالی کے دوران زراعت پر توجہ دیں ،مزدوروںکی تنخواہ میں کمی نہ کریں۔ رکشہ ، گاڑیاں کے علاوہقرضوں کی قسطوں کو ختم کیا جائے۔ دکانیں کھلنے کا شیڈول منصوبہ بند طریقے سے ہو۔ پرکاش امبیڈکر نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کولاک ڈاون کے دوران کم سے کم اجرت تو دی جائے۔ حکومت اس بات کا بھی خلاصہ کرے کہ طالبان علموں کےامتحان ہوگے یا نہیں ؟، کمہار برادری سے مٹی کی رائلٹی نہ لیں، نائی سماج کو بھی راحت دی جائے۔
ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اور رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے کہا کہ غیر کرونا مریضوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اورنگ آباد کے تین سب سے بڑے نجی اسپتال بھاری بھرکم فیس وصول رہے ہیں۔ افسران میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔کارپوریشن کی جانب سے وہ اسپتال جو 4 کروڑ کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ماہر ڈاکٹر وہاں کام کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ تنخواہ ممبئی کی نسبت بہت کم ہے۔ گھاٹی اسپتال کے علاقے 14 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے اسپتال میں کام کرنے والوں کی کمی ہے۔مالیگاوں شہر کے تمام کارخانے، سائزنگیں مکمل طور پر بند ہیں ان میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور ان دنوں بھوک مری کا شکار ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں راشن کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اناج نہیں مل رہا ہے۔ امتیاز جلیل نے سرکار کی جانب سے شراب کی دکانیں کھولے جانے کے فیصلے کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ اس مشکل گھڑی میں میں اور میری پارٹی کے تمام لوگ ریاستی حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے آج کی اس میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور سربراہان شامل ہوئے۔ نائب وزیر اعلی،اپوزیشن لیڈر دیوندر فڑنویس،ودھان پریشد کے اپوزیشن لیڈر پروین دریکر، وزیر بالا صاحب تھورات، اشوک چوہان، جینت پاٹل، منسے کے صدر راج ٹھاکرے، وزیر ایکناتھ شندےسمیت دیگر پارٹیوں کے ذمہ داران مختلف اضلاع سے ویڈیو کانفرنسنگ میٹنگ میں شریک ہوئے۔

(جنرل (عام

سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

Published

on

Sonam-Wangchuck

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، “کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔

وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

Published

on

kashmir

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔

جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔

عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔

Continue Reading

خصوصی

وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

Published

on

Waqf-Meeting

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ​​ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔

اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟

جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com