Connect with us
Monday,07-April-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

مذہب سے اوپر اٹھ کر کام کرنا تو جمعیۃ علماء ہند کے خمیر میں شامل، وظائف جاری کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی کا اظہار خیال

Published

on

Maulana Arshad Madani..

مسلمانوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کیلئے تعلیم کو لازم قرار دیتے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر کام کرنا تو جمعیۃ علماء ہند کے خمیر میں شامل ہے۔ یہ بات انہوں نے تعلیمی سال 2021-22 کے لئے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے 670 طلباء کو وظائف جاری کرتے ہوئے کہی۔ وظائف یافتگان میں ہندو طلباء بھی شامل ہیں۔ مولانا مدنی نے آج یہاں جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر سے تعلیمی سال 2021-2022 کے لئے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے 670 طلباء کو وظائف جاری کر دیئے ہیں، اسی کے ساتھ ضرورت مند طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر پچھلے سال ہی وظائف کی مجموعی رقم پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کر دی گئی تھی، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان منتخب شدہ طلباء میں اس بار بھی ایک قابل قدر تعداد ہندو طلباء کی بھی شامل ہے۔ مالی طور پر کمزور مگر ذہین اور محنتی طلباء کے لئے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول میں مدد کرنے کے اہم مقصد کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے 2012 باضابطہ طور پر وظائف دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کیلئے حسین احمد مدنی چیری ٹیبل ٹرسٹ دیوبند اور مولانا ارشد مدنی پبلک ٹرسٹ کی جانب سے ایک تعلیمی امدادی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ اور ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے۔ جو میرٹ کی بنیاد پر ہر سال طلباء کو منتخب کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جمعیۃ علماء ہند جن کورسیز کے لئے وظائف دیتی ہے، ان میں میڈیکل، انجینئرنگ، بی ٹیک، ایم ٹیک، پالی ٹکنک، گریجویشن میں بی ایس سی، بی کام، بی اے، بی بی اے، ماس کمیونیکیشن، ایم کام، ایم ایس سی، ڈپلومہ آئی ٹی آئی جیسے کورسیز شامل ہیں۔ اور اس کے پیچھے صرف اور صرف یہی مقصد کار فرما ہے کہ غربت اور مالی پریشانی کے شکار ذہین بچے کسی روکاوٹ کے بغیر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ اور کورسیز مکمل کر کے جب باہر نکلیں تو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی میں شراکت دار بن سکیں، تعلیمی وظائف جاری کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اللہ کی نصرت و تائید سے ہم اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے۔

جمعیۃ علماء ہند کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، اور وسائل انتہائی محدود، اس کے باوجود اس بار بھی ہم گزشتہ برسوں کے مقابلہ کہیں زیادہ تعداد میں ضرورت مند طلباء کو اسکالر شپ تقسیم کر پائے۔ یہ ہمارے لئے انتہائی اطمینان اور سکون کا باعث ہے۔ اور آئندہ برسوں میں وظائف کے مجموعی فنڈ میں ہم مزید اضافہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہم ضرورت مند طلباء کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ اس اسکالر شپ کے لئے ضرورت مند غیر مسلم طلباء بھی درخواستیں دیتے ہیں۔ اس بار بھی ان کی طرف سے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں، ان میں سے جو بھی میرٹ پر پورا اترا اسے اسکالر شپ کے لئے ماہرین کی کمیٹی نے منتخب کر لیا۔

مولانا مدنی نے کہاکہ مذہب سے اوپر اٹھ کر اور بلاامتیاز مذہب و مسلک اپنی فلاحی وامدادی سرگرمیوں کو انجام دینا تو جمعیۃ علماء کے خمیر میں شامل ہیں اور جمعیۃ علماء نے ہر موقع پر اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے، انہوں نے آگے کہا کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر آئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی میں اب بھی کوئی قابل قدر بہتری نہیں آسکی ہے، اس کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ سچر کمیٹی نے بھی کھلے لفظوں میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں ذہین اور محنتی مسلم بچے درمیان میں ہی اپنی تعلیم چھوڑ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلم طبقہ کی سماجی واقتصادی پسماندگی ختم نہیں ہو پاتی۔ انہوں نے یہ وضاحت کی کہ اعلیٰ اور خاص طور پیشہ ورانہ تعلیم کے لئے تعلیمی وظائف شروع کرنے کے پس پشت جمعیۃ علماء ہند کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ قوم کے ذہین بچے محض مالی پریشانی کی وجہ سے اپنی تعلیم ترک کرنے پر مجبور نہ ہوسکیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوگا تو یہ قوم اور ملک دونوں کا مشترکہ نقصان ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کو لیکر کچھ لوگ دانستہ تنازعہ کھڑا کر رہے ہیں، اور جس طرح ملک کا جانب دار میڈیا اس طرح کے تنازعات کو ہوا دیکر پورے ملک میں ایک ہیجان سا برپا کر دیتا ہے اس کی کاٹ کے لئے یہ ضروری ہے کہ صاحب حیثیت مسلمان آگے آئیں، اور اپنے پیسوں سے اپنے بچے اور بچیوں کے لئے الگ الگ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کریں، تاکہ قوم کے بچے اور بچیاں اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جب ہم اس کے لئے اجتماعی کوشش کریں اور ایک کار گرر و ڈمیپ تیار کریں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہمارے تمام تر مسائل کا حل تعلیم ہے، اور ہم تعلیم کے ہتھیار سے ہی فرقہ پرستوں کے ہر حملہ کا نہ صرف جواب دے سکتے ہیں، بلکہ اپنے لئے کامیابی و کامرانی کی راہیں بھی کھول سکتے ہیں۔

(جنرل (عام

وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

Published

on

MLA-Amanatullah-Khan

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔

اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

Published

on

Ziauddin-Siddiqui

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔

Continue Reading

قومی

کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

Published

on

Waqf-Bill-2024

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔

تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔

پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:

  • ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
  • وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
  • وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
  • متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔

تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :

  • ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
  • مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
  • غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
  • انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
  • شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔

فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |

نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com