Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

جموں و کشمیر کی شناخت ختم کی گئی ہے، ریاستی درجے کی واپسی کے لئے لڑائی کی ضرورت : غلام نبی آزاد

Published

on

Gulam-Nabi-Azad

کانگریس کے سینیئر لیڈر و سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے کہا کہ ریاستی درجہ چھین کر صدیوں پرانی ریاست جموں و کشمیر کی شناخت ختم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ریاستی درجے کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور اس کے لئے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر لڑائی کی ضرورت ہے۔

پارلیمان کے ایوان بالا یا راجیہ سبھا سے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے آزاد نے یہ باتیں ہفتے کو یہاں گاندھی گلوبل فیملی کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

انہوں نے کہا: ‘کئی سینکڑوں برسوں کے بعد اب جموں و کشمیر ایک ریاست بھی نہیں رہی ہے۔ ہماری پہچان ختم ہو چکی ہے۔ ایسا کوئی نہیں تھا جو جموں و کشمیر کو نہیں جانتا تھا لیکن آج ہمارے پاس وہ شناخت نہیں ہے۔ ہمیں ایک ضلع جیسا درجہ دیا گیا ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر ہماری یہ لڑائی جاری رہے گی کہ ہمیں ہمارا ریاستی درجہ واپس دے دیا جائے۔ جموں و کشمیر کا ہر ایک لیڈر چاہے وہ کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، بی جے پی یا آر ایس ایس کا ہی کیوں نہ ہو، وہ ریاستی درجے کی واپسی چاہتا ہے۔ اگر کسی لیڈر میں جرات ہے کہ تو وہ کل بیان جاری کریں کہ ہمیں ریاستی درجہ نہیں چاہیے۔ ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ سب جماعتیں ریاستی درجے کی واپسی چاہتی ہیں۔’

آزاد نے کہا کہ ریاستی درجے کی واپسی کے لئے ایک لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے اور ایک اور لڑائی کانگریس کو مضبوط بنانے کے لئے لڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا: ‘یہ لڑائی ہم نے لڑنی ہے۔ جموں و کشمیر میں ہمارے ساتھی پارلیمنٹ میں لڑیں گے۔ ہمیں کانگریس کو مضبوط کرنے کے لئے دیش میں بھی لڑائی لڑنی ہے۔’

غلام نبی آزاد نے پانچ اگست 2019 کے اقدامات پر کہا: ‘ہم سب کو بکھیر دیا گیا ہے۔ ریاست کے حصے کئے گئے ہیں۔ کوئی ٹکڑا ادھر گرا تو کوئی اُدھر گرا۔ میں آج صبح اپنے ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ یہاں ہریانہ، پنجاب یا اترپردیش، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کی طرح زمین نہیں ہے۔ ہماری ریاست صرف پہاڑوں اور جنگلوں سے بنی ہوئی ہے۔ اب جو 15 سے 20 فیصد زمین بچی ہے اس میں ہمارے شہر اور دیہات آباد ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘جموں میں آر ایس پورہ میں کھیتی ہوتی ہے جموں میں اور کہیں کھیتی نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے پاس کارخانے نہیں ہیں۔ جو کارخانے جموں، کٹھوعہ اور سانبہ میں تھے، جن کی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنی روزی روٹی کماتے تھے، وہ بند ہو چکے ہیں۔’

آزاد نے جموں و کشمیر میں ٹول پلازوں کی مبینہ بھرپور پر کہا: ‘تیس سال سے دو وقت کی روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ایک ٹول پلازہ تھا لیکن آج پٹھانکوٹ سے لے کر کشمیر تک پانچ ٹول پلازے ہیں۔ کہاں سے لائیں گے وہ ٹول ٹیکس؟’

انہوں نے کہا: ‘ہمارے ہاں ہائوس ٹیکس نہیں تھا لیکن وہ ٹیکس بھی لگا دیا گیا۔ اب لوگوں کے پاس صرف کپڑے بچے ہیں لیکن ان کے شاید خریدار نہیں ملیں گے کیونکہ ہم الگ طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔’
بتادیں کہ سینیئر کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد ایک روز قبل یعنی جمعے کو جموں پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

غلام نبی آزاد ایوان بالا میں حزب اختلاف کے رہنما تھے۔ اگرچہ کانگریس پارٹی نے یہ نہیں کہا ہے کہ آزاد کو دوبارہ راجیہ سبھا کا رکن بننے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں لیکن جذباتی الوداعی تقریر سے اخذ کیا جا رہا ہے کہ اُن کو دوبارہ منتخب کیا جانا مشکل ہے۔

اڑتالیس برسوں سے کانگریس سے جڑے غلام نبی آزاد کم از کم چار دہائیوں تک گاندھی خاندان کے بہت قریب رہے۔ وہ پارٹی کا ایک ایسا ‘مسلمان’ چہرہ تھا جس کو وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرتی تھی۔

سیاست

ممبئی راج اور ادھو ٹھاکرے اتحاد، مرد کون ہے عورت کون ہے : نتیش رانے کی تنقید

Published

on

Nitesh-Rane

ممبئی مہاراشٹر میں مراٹھی مانس کے لئے راج اور ادھو ٹھاکرے کے اتحاد پر بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے نے ادھو اور راج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ہمارے درمیان کے اختلافات ختم ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے انہیں اتحاد پر مجبور کیا, جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے وہ فڑنویس نے کیا ہے۔ اس پر نتیش رانے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی کے دور میں سپریہ سلے نہ کہا تھا کہ فڑنویس اکیلا تنہا کیا کرلیں گے, یہ اس بات کا جواب ہے انہوں نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کرسکے, وہ فڑنویس نے کیا۔ مزید طنز کرتے ہوئے رانے نے کہا کہ اختلافات ختم ہونے پر جو جملہ راج ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے مرد کون ہے, اور عورت کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے حال چال سے لگتا ہے کہ وہ کیا ہے, لیکن اس پر ادھو ٹھاکرے وضاحت کرے۔

Continue Reading

جرم

دہلی کی ایک عدالت نے اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا، بھنڈاری پر واڈرا سے تعلق کا الزام، رابرٹ واڈرا کی بڑھے گی ٹینشن

Published

on

Sanjay-Bhandari-&-Robert

نئی دہلی : دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے ہفتہ کو اسلحہ ڈیلر سنجے بھنڈاری کو مفرور اقتصادی مجرم قرار دیا۔ یہ فیصلہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی درخواست کے بعد آیا۔ خصوصی عدالت نے یہ حکم مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ 2018 کے تحت جاری کیا ہے۔ اس فیصلے سے بھنڈاری کی برطانیہ سے حوالگی کی ہندوستان کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ بھنڈاری 2016 میں لندن فرار ہو گیا تھا جب متعدد تفتیشی ایجنسیوں نے اس کی سرگرمیوں کی جانچ شروع کی تھی۔

اس واقعہ سے رابرٹ واڈرا کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ واڈرا پر ہتھیاروں کے ڈیلروں سے روابط رکھنے کا الزام ہے اور وہ زیر تفتیش ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل واڈرا کو منی لانڈرنگ کیس میں تازہ سمن جاری کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی بھنڈاری کے ساتھ ان کے تعلقات کا الزام ہے۔ ای ڈی نے 2023 میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔ ای ڈی کا الزام ہے کہ بھنڈاری نے 2009 میں لندن میں ایک پراپرٹی خریدی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ الزام ہے کہ یہ رقم واڈرا نے دی تھی۔ واڈرا نے کسی بھی طرح کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے ان الزامات کو ‘سیاسی انتقام’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ واڈرا نے کہا، ‘سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔’

بھنڈاری کے خلاف یہ کارروائی ای ڈی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس سے واڈرا کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔ ای ڈی اب بھنڈاری کو ہندوستان لانے کی کوشش کرے گی۔ واڈرا کو حال ہی میں ای ڈی نے سمن بھیجا تھا۔ لیکن وہ کوویڈ علامات کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوا۔ ای ڈی اس معاملے میں واڈرا سے پوچھ گچھ کرنا چاہتا ہے۔ ای ڈی جاننا چاہتا ہے کہ واڈرا کا بھنڈاری سے کیا رشتہ ہے۔ یہ معاملہ 2009 کا ہے۔ الزام ہے کہ بھنڈاری نے لندن میں جائیداد خریدی تھی۔ ای ڈی کا کہنا ہے کہ یہ جائیداد واڈرا کے پیسے سے خریدی گئی تھی۔ واڈرا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی سازش ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا ای ڈی واڈرا کے خلاف کوئی ثبوت تلاش کر پائے گی؟ کیا بھنڈاری کو بھارت لایا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والے وقت میں مل جائیں گے۔

Continue Reading

سیاست

جو بالا صاحب نہ کر سکے، فڑنویس نے کر دکھایا… بھائی ادھو کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے پر راج ٹھاکرے کا بڑا بیان

Published

on

Raj-Thackeray

ممبئی : 20 سال کے طویل وقفے کے بعد مہاراشٹر کی سیاست میں ایک تاریخی لمحہ آیا جب راج ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے ایک اسٹیج پر ایک ساتھ نظر آئے۔ ‘مراٹھی وجے دیوس’ کے نام سے منعقد کی گئی اس بڑی عوامی میٹنگ میں دونوں لیڈروں نے مراٹھی زبان، مہاراشٹر کی شناخت اور ثقافتی شناخت کے حوالے سے واضح اور تیز پیغام دیا۔ اجلاس کا آغاز راج ٹھاکرے کے خطاب سے ہوا، جس میں انہوں نے نہ صرف تین زبانوں کی پالیسی پر حملہ کیا بلکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی۔

راج ٹھاکرے نے کہا کہ جب محاذ پر بات ہوئی تو بی جے پی حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ بارش کی وجہ سے یہ جلسہ گنبد میں ہونا پڑا۔ میں ان سے معذرت خواہ ہوں جو اندر نہیں آ سکے، جو بالا صاحب نہ کر سکے، وہ آج ہو گیا۔ دیویندر فڑنویس نے ہمیں اکٹھا کیا۔ ہم 20 سال بعد اکٹھے ہوئے ہیں۔ شام کو میڈیا میں بحث ہوگی کہ دونوں بھائی ایک ہوجائیں گے یا نہیں۔ ان دونوں کی باڈی لینگویج کیسی تھی؟ ہم اسے مراٹھی وجے دیوس کے طور پر منا رہے ہیں۔ ہمارا ایجنڈا مراٹھی شناخت ہے۔ مہاراشٹر کی طرف کوئی مشکوک نظر سے نہیں دیکھے گا۔ میں مہاراشٹر کے لیے جو بھی کر سکتا ہوں کروں گا۔ آپ کسی پر ہندی مسلط نہیں کر سکتے۔

ہندی کا مسئلہ بغیر کسی وجہ کے اٹھایا جانے والا موضوع تھا۔ راج ٹھاکرے نے ہندی کو مسلط کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ چھوٹے بچوں پر زبردستی کیا جائے گا؟ آپ کو تین زبانوں کا فارمولا کہاں سے ملا؟ ہندی بولنے والی ریاستیں خود ترقی نہیں کر سکتیں اور یہاں نوکریوں کے لیے آتی ہیں۔ کیا ہمیں ہندی بولنے والی ریاستوں کے لیے ہندی سیکھنی ہوگی؟ ممبئی کو الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ ممبئی میں قسمت آزمائے۔ اگر ہم خاموش بیٹھے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کمزور ہیں۔ دادا بھوسے نے مراٹھی میڈیم میں تعلیم حاصل کی اور وزیر تعلیم بنے۔ دیویندر فڑنویس انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ بنے۔

بالا صاحب ٹھاکرے اور شری کانت ٹھاکرے دونوں نے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کی لیکن کیا کوئی ان کے مراٹھی پر سوال کر سکتا ہے؟ ایل کے اڈوانی نے عیسائی اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن کوئی ان کے ہندوتوا پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ تمل تیلگو کے بارے میں، کوئی پوچھے کہ تم نے یہ کہاں سے سیکھی؟ اگر میں مراٹھی پر فخر کرتا ہوں تو اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جے للیتا، اسٹالن اور کونیموزی، چندرابابو نائیڈو، نارا لوکیش، اے آر رحمان سبھی نے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، لیکن کیا وہ ہندی بولنا شروع کر دیے۔ اے آر رحمان نے ہندی کے بارے میں سوال اٹھایا اور اسٹیج سے چلے گئے۔

بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں تو بھی مراٹھی کا غرور ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ریاستوں کے نام پر فوج کی مختلف رجمنٹیں ہیں لیکن دشمن پر ایک ہی طرح سے حملہ کرتی ہیں۔ وہاں زبان کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ آج تمام مراٹھی اکٹھے ہیں۔ بی جے پی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اب زبان کے بعد وہ ذات پات کی سیاست کریں گے۔ میرا بھائیندر واقعہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ہندی میڈیا نے کہا کہ ایک گجراتی تاجر مارا گیا ہے۔ لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر کوئی ڈرامہ رچاتا ہے تو اسے کانوں کے نیچے مارنا چاہیے۔ اگر آپ کبھی ایسا کرتے ہیں تو کبھی اس کی ویڈیو نہ بنائیں۔ اسے ‘مارا مارا’ کہنے دو۔ میرے بہت سے دوست گجراتی بھی ہیں اور بہت اچھی مراٹھی بولتے ہیں۔

شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان بات چیت ہوگی یا نہیں؟ پرکاش جاوڈیکر آئے اور کہا کہ وہ بال ٹھاکرے سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا وہ مجھ سے نہیں ملے گا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ جاوڈیکر نے کہا کہ سی ایم کے معاملے پر فیصلہ ہو چکا ہے، یہ انہیں بتانا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے بال ٹھاکرے کو جگایا اور بتایا کہ سریش دادا جین کا نام فائنل ہو گیا ہے۔ پھر بال ٹھاکرے نے کہا کہ جاوڈیکر سے کہو کہ وزیر اعلیٰ صرف مراٹھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر اور مراٹھی کے علاوہ کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ میں بال ٹھاکرے کا خواب پورا کروں گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com