Connect with us
Tuesday,02-September-2025
تازہ خبریں

بین الاقوامی خبریں

عالمی دباؤ اور فلسطینی مزاحمت کے سامنے اسرائیل نے گھٹنہ ٹیکا، جمعہ کی شب سے جنگ بندی کا اعلان

Published

on

Palestinian-resistance

عالمی برادری اور مسلم ممالک کے دباؤ اور فلسطین کے گھٹنے نہ ٹیکنے کے عزم کے سبب اسرائیل نے گزشتہ 11 روز سے جاری حملہ کو یک طرفہ طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل نے جمعرات کے آخر میں اس بات کی تصدیق کی کہ سلامتی کابینہ نے متفقہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کی منظوری دے دی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، غزہ کی پٹی میں مزید کارروائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے سلامتی کابینہ کا اجلاس آج شام ہوا۔ وزراء نے مصر کے غیر مشروط جنگ بندی کے اقدام کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے، اور ایک گھنٹہ کے بعد اس کا اطلاق ہوگا۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اعلی سطح کی سیکیورٹی کابینہ میں وزرا نے متفقہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ کی پٹی میں گذشتہ 11 روز سے جاری فوجی آپریشن کو یک طرفہ طور پر روکنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی کابینہ نے یہ فیصلہ امریکہ کے شدید دباؤ کے پیش نظر کیا ہے۔
العربیہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے ایک عہدہ دار نے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس جمعہ کو علی الصباح 2 بجے (جی ایم ٹی 2300 بجے جمعرات) سے باہمی طور پر اور بیک وقت جنگ بندی کریں گے۔

واضح رہے کہ مصر اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہا تھا۔ اس کے ایک عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیلی حکومت نے مصرکو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی ختم کرنے سے متعلق فیصلے سے مطلع کر دیا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد فیصلے کا باضابطہ اعلان متوقع ہے۔

اس سے پہلے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدرجو بائیڈن سے فون پر گفتگو کی تھی اور ان سے فلسطینی علاقوں میں تشدد کو روکنے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ادھر واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ”جنگ بندی کے لیے تحریک واضح طور پر حوصلہ افزا ہے۔امریکہ تنازع کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔“

غزہ میں اسرائیل کے گذشتہ 11 روز سے جاری فضائی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 230 ہوگئی ہے۔ اسرائیلی طیاروں کی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں غزہ شہر کا انفرااسٹرکچر، سڑکیں اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، اور وہاں انسانی صورت حال ابتر ہو چکی ہے۔ادھراسرائیل میں غزہ سے راکٹ حملوں میں 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

قبل ازیں فلسطین اور اسرائیل کے معاملے پر اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس ترکی، فلسطین، پاکستان اور دیگر ممالک کی درخواست پر طلب گیا تھا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے عوام کی آواز خاموش نہیں کرائی جاسکتی۔ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے خون ریزی کا سلسلہ جاری ہے، لوگوں کی ایک تعداد جاں بحق ہوچکی ہے، شہریوں کی کھانا، پانی اور صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘ابھی جب ہم بات کر رہے ہیں تو وہاں فلسطین میں لوگوں کو بلا تفریق مارا جا رہا ہے، غزہ کے ہر گھر میں موت کا غم ہے، جہاں اندھیرا ہے اور صرف اسرائیلی دھماکوں کا راج ہے۔’

شاہ محمود قریشی نے اسرائیلی بمباری سے الجزیرہ اور اے پی سمیت دیگر میڈیا اداروں کے دفاتر تباہ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے فلسطین جہاں اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے معصوم فلسطینیوں کونشانہ بناتا ہے، دہشت زدہ کرتا ہے، یہاں تک کہ میڈیا کو خاموش کرادیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ کہاجائے اب بہت ہوگیا، فلسطین کے عوام کی آواز کوخاموش کرایا جاسکتا ہے اور نہ کروایا جاسکے گا، ہم اسلامی دنیا کے نمائندے یہاں ان کی بات اور ان کے لیے بات کر نے آئے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ‘خوف ناک’ بات ہے سلامتی کونسل عالمی امن وسلامتی کے قیام کی اپنی بنیادی ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں اور یہاں تک کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ نہتے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان طاقت کے توازن کا شائبہ تک نہیں ہے، فلسطین کے پاس نہ کوئی بری فوج ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ ہی کوئی فضائیہ ہے، دوسری جانب اسرائیل ہے جو دنیا کی طاقت ور ترین فوجی قوت کا حامل ہے، یہ جنگ قابض فوج اورمقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔

وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نومبر 1970 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2649 میں اسی ایوان نے نو آبادیاتی اور غیر ملکی جبر و تسلط میں رہنے والے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور اس کی بحالی کی جدوجہد میں ہر قسم کے دستیاب ذرائع استعمال کرنے کو جائز تسلیم کیا گیا ہے۔

بین الاقوامی خبریں

مودی کے دورہ جاپان اور چین پر کانگریس نے سوال اٹھائے، جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ پی ایم چین کے دباؤ میں وہاں گئے، وہ ہندوستان سے فائدہ اٹھانا چاہتے۔

Published

on

Jairam-Ramesh

نئی دہلی : کانگریس پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی کے جاپان اور چین کے دورے پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا آپریشن سندور میں چین کے کردار کو بھلا دیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سب کچھ چین کی شرائط پر اور اس کے دباؤ پر کیا جا رہا ہے اور پڑوسی ملک بھارت امریکہ تعلقات میں بگاڑ کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری (کمیونیکیشن انچارج) جے رام رمیش نے ایک لمبی ایکس پوسٹ لکھی ہے اور پی ایم مودی کے جاپان-چین دورے پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے، ‘…ان کا (وزیراعظم) کا دورہ چین ہندوستان کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔ ہمیں چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر مجبور کیا جا رہا ہے – اور وہ بھی زیادہ تر اس کی شرائط پر۔ چین بھارت امریکہ تعلقات میں بگاڑ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے…

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘آپریشن سندور کے دوران پاکستان اور چین کی ملی بھگت کو ہماری اپنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بے نقاب کیا تھا… لیکن اب لگتا ہے اسے بھول گیا ہے۔’ انہوں نے مزید الزام لگایا، ‘وزیراعظم کا 19 جون 2020 کا انتہائی عجیب اور بزدلانہ بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ – “ہماری سرحد میں کوئی داخل نہیں ہوا، نہ ہی کوئی داخل ہوا ہے” – نے ہماری مذاکراتی صلاحیت کو بری طرح کمزور کر دیا۔ اس بیان کی وجہ سے اب بھارت کے پاس بہت کم گنجائش رہ گئی ہے۔ یہ دورہ اپریل 2020 کے جمود کو بحال کرنے میں ناکامی کے باوجود اسی بدنام اور بزدلانہ کلین چٹ کا براہ راست نتیجہ ہے۔’ جے رام نے پھر پی ایم پر منی پور کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔

پی ایم مودی کے جاپان دورے کا مقصد ہندوستان اور جاپان کے درمیان پرانے ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ اس دورے سے ہندوستان اور جاپان کے تعلقات مزید بہتر ہونے کا امکان ہے اور یہ ہندوستان کے لئے کئی طرح سے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں انہیں چین میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقات کا موقع ملے گا وہیں وہ چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بھی الگ الگ ملاقات کریں گے۔ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ 50% ٹیرف کے درمیان، عالمی سفارتی نقطہ نظر سے پی ایم مودی کے دونوں ممالک کے دورے پر بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

دبئی کی شہزادی جس نے گزشتہ سال اپنے شوہر کو انسٹاگرام پر طلاق دی تھی اب اس مشہور ریپر فرانسیسی مونٹانا سے منگنی کر لی ہے۔

Published

on

Mahara-&-Montana

دبئی : متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی بیٹی شیخہ مہرا ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ شیخا مہرا نے مشہور مراکشی نژاد امریکی ریپر فرانسیسی مونٹانا سے منگنی کر لی ہے۔ مونٹانا کے ایک نمائندے نے ٹی ایم زیڈ کو بتایا کہ جوڑے نے اس سال جون میں پیرس فیشن ویک کے دوران اپنے تعلقات کو باقاعدہ بنایا۔ ان کا رومانس پہلی بار اس سال کے شروع میں منظر عام پر آیا، جب یہ جوڑا پیرس میں ایک فیشن ایونٹ کے دوران ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے نظر آئے۔ شیخہ مہرا نے گزشتہ سال ایک انسٹاگرام پوسٹ میں اپنے شوہر محمد بن راشد بن منا المکتوم سے طلاق لے لی تھی۔ دونوں نے مئی 2023 میں شادی کی اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ شیخہ ماہرہ نے اپنی طلاق کا اعلان انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کے ذریعے کیا جس نے کافی سرخیاں بنائیں۔ اس نے اپنے سابق شوہر پر بے وفائی کا الزام لگایا۔

دبئی کی شہزادی نے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا، ‘پیارے شوہر چونکہ آپ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مصروف ہیں، میں اپنی طلاق کا اعلان کرتی ہوں۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں اور میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ آپ کی سابقہ ​​بیوی۔’ طلاق کے بعد، اس نے اپنے برانڈ مہرا ایم 1 کے تحت ‘طلاق’ کے نام سے ایک پرفیوم لائن بھی لانچ کی۔ 31 سالہ ماہرہ اور 40 سالہ ریپر کی ملاقات 2024 کے آخر میں ہوئی، جب شہزادی مونٹانا کو دبئی کے دورے پر لے گئی۔ اس نے اس کی تصاویر شیئر کیں۔ اس کے بعد انہیں اکثر دبئی اور مراکش میں ایک ساتھ دیکھا گیا ہے۔ وہ مہنگے ریستورانوں میں کھاتے ہیں، مساجد میں جاتے ہیں اور پیرس کے پونٹ ڈیس آرٹس پل پر ٹہلتے ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

یوکرین کے دارالحکومت کیف پر روس کا شدید حملہ، 629 فضائی حملے، ہائپر سونک کنزال میزائل بھی فائر، خوفناک تباہی

Published

on

ukrain

کیف : یوکرین کا دارالحکومت کیف منگل کی رات روس کے سب سے بڑے حملے سے لرز اٹھا۔ ڈرون اور میزائل حملوں میں چار بچوں سمیت کم از کم 15 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس حملے میں کم از کم 10 بچے زخمی ہوئے ہیں۔ یوکرین کی فضائیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے رات بھر 629 فضائی حملے کیے ہیں۔ جس میں 598 ڈرون حملے اور 31 میزائل حملے کیے گئے۔ روسی وزارت دفاع نے کہا کہ روس کا ہدف یوکرین کا ملٹری-انڈسٹریل کمپلیکس اور ایئربیس تھا جب کہ مقامی حکام کا الزام ہے کہ حملہ براہ راست رہائشی علاقوں پر کیا گیا۔ کیف شہر کے انتظامیہ کے سربراہ تیمور تاکاچینکو نے کہا کہ مرنے والوں میں دو، 14 اور 17 سال کی عمر کے تین نابالغ شامل ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ امدادی ٹیمیں ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حملے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ “روس مذاکرات کی میز کے بجائے بیلسٹک ہتھیاروں کا انتخاب کرتا ہے۔ ہم دنیا کے ان تمام لوگوں سے ردعمل کی توقع کرتے ہیں جنہوں نے امن کا مطالبہ کیا لیکن اب اصولی موقف اختیار کرنے کے بجائے اکثر خاموش رہتے ہیں۔” روس کی وزارت دفاع نے جمعرات کو کہا کہ اس نے راتوں رات 102 یوکرائنی ڈرون مار گرائے جن میں سے بیشتر ملک کے جنوب مغرب میں تھے۔

مقامی حکام نے بتایا کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے کراسنودار کے علاقے میں افپسکی آئل ریفائنری میں آگ لگ گئی، جبکہ سمارا کے علاقے میں نووکوئیبیشیوسک ریفائنری میں بھی آگ لگنے کی اطلاع ہے۔ روس کی جنگی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں حالیہ ہفتوں میں یوکرین کے ڈرونز نے ریفائنریوں اور تیل کی دیگر تنصیبات پر بار بار حملے کیے ہیں، جس کی وجہ سے روس کے کچھ علاقوں میں گیس اسٹیشنوں پر تیل ختم ہو گیا ہے اور قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ تاکاچینکو نے کہا کہ روس نے ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل فائر کیے جو فضائی دفاعی نظام سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیف کے سات اضلاع میں کم از کم 20 مقامات پر حملے کیے گئے۔ شہر کے مرکز میں ایک شاپنگ مال سمیت تقریباً 100 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

حملے سے کھڑکیوں کے ہزاروں شیشے ٹوٹ گئے۔ یوکرین کی فضائیہ نے کہا کہ اس نے ملک بھر میں 563 ڈرونز اور 26 میزائلوں کو مار گرایا یا ناکارہ کردیا۔ روسی حملوں میں کیف کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ مکینوں نے تباہ شدہ عمارتوں سے ٹوٹے شیشے اور ملبہ ہٹا دیا۔ روس کا یہ حملہ الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان ملاقات سے کچھ دیر قبل ہوا ہے۔ لیکن مغربی رہنماؤں نے پیوٹن پر امن کی کوششوں میں سست روی کا الزام عائد کیا ہے اور سنجیدہ مذاکرات سے گریز کیا ہے، جب کہ روسی فوجی یوکرین میں مزید گہرائی میں دھکیل رہے ہیں۔ اس ہفتے، یوکرین کے فوجی رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ روسی افواج یوکرین کے آٹھویں علاقے میں دھکیل رہی ہیں اور مزید زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com