Connect with us
Sunday,24-August-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

چین کے رخ ہندستان کی شفافیت اچھی حکمت عملی:عطا حسنین

Published

on

حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پرہند چین کشیدگی اور وادی گلوان میں پیش آنیوالے تازہ واقعات کے پیش نظرمرکزی حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں انہیں لیفٹیننٹ جنرل (آر) سید عطا حسنین نے انتہائی بروقت قرار دیا ہے۔
اپنے ایک تجزیہ میں انہوں نے چینی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کیلئے معلومات میں مکمل شفافیت کو ہندستان کی جانب سے ابلاغ کی ایک اچھی حکمت عملی گردانتے ہوئے کہ اس پس منظر میں مرکزی حکومت کا 20 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے 19 جون 2020 کو مٹنگ طلب کرنا ایک اہم فیصلہ تھا۔ اس کل جماعتی اجلاس میں وادی گلوان سے متعلق متعدد معاملات کی وضاحت کی گئی جہاں ہندستان اور چین دونوں جانب بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے کے پیچھے ایک تاریخ ہے اور سیاسی قیادت کی اعلی سطح کے فیصلے پ اس کا خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔ 1971 کے ہند- پاک تنازعہ سے قبل بھی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپوزیشن کی طرف سے کھلی حمایت ملی تھی۔ 1999 کے کرگل تنازعہ کے دوران سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو بھی یہ تائید حاصل تھی۔
اس استدلال کیساتھ کہ مختلف وجوہ کی بناء پر چین کے ساتھ موجودہ تنازع کا تعلق نہ جنگ سے ہے نہ امن سے، انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے جس سے نمٹنے کیلئے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
جنرل سید عطا حسنین کے مطابق مغربی سرحد پر لائن آف کنٹرول کے برعکس چین کے ساتھ شمالی بارڈر پر حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) کے تعلق سے ہندستان اور چین کی سوچ مختلف ہے۔ ان سرحدوں پر ایل اے سی کی تبدیلی کا فیصلہ ان پہلے مسائل میں شامل ہونا تھا جس کو۱۹۹۳ء کے امن معاہدے کے سرحدی پروٹوکول کے مطابق طے کیا جاتا۔ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ سرحد کی حتمی شکل کے حصول میں استحکام ہوگا اور تناؤ کے بغیر اس کے حل کو آسان بنایا جائے گا۔ تاہم ماضی میں مختلف دعوؤں پر مبنی نقشوں کے تبادلے کے باوجود چین اس طرح کے خاکے سے اتفاق کرنے سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے۔ ایک مبہم لائن اور مختلف دعوؤں کی لکیریں ہیں اور چین اپنی حکمت عملی کے مطابق اپنے دعویٰ کی لائنوں کو وقتا فوقتا بدلتا رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مئی ۲۰۲۰ء کے اوائل سے موجودہ تناؤکی وجہ بنیادی طور پر لداخ میں دعوی کی لکیروں کے عام علاقوں میں غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں چینی فوجی دستوں کی تعیناتی ہے۔ جب ایل اے سی خود مختلف دعوے کی لکیروں کے ساتھ اس طرح کی ایک دھندلی لائن کے ساتھ موجود ہے تو فوجی گشت کی حدیں بھی غیر واضح ہو جاتی ہیں اوراس پرگزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
اس سال مختلف عوامل کی وجہ سے چین نے زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ ان میں سے ایک واضح کوشش دوکلام میں ۲۰۱۷ء میں کی گئی۔ اس کے علاوہ ہندوستانی انفراسٹرکچر اور جنگی صلاحیتوں میں اضافے سے ہندوستان کو جہاں اسٹریٹجک خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے، وہیں یہ چین کے لئے پریشان کن ہے۔ چین ہندوستان کو ایک سے زیادہ خطرات سے لاحق کرنے کے لئے جوں کی توں صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ چین نے اس کے لئے ایک خاص فورس کو گہرائی کے ساتھ تربیت فراہم کر رکھی ہے اور اسے ایل اے سی کے مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ وہاں زور زبردستی اور دھمکی دے کر جہاں تک ممکن ہو سکے ایل اے سی کی لکیر کو اپنے فائدے کے مطابق تبدیل کرسکے۔
ہند و چین کے کور کمانڈروں کے مابین ۶ ؍جون ۲۰۲۰ ء کی میٹنگ کا مقصد چین کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے عدم استحکام پر قابو پانا تھا۔ اس میں بڑے پیمانے پر اتفاق کیا گیا تھا کہ متنازعہ پینگونگ تسوکے علاوہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کرکے صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کی جائیگی۔ پنگونگ تسو پر مزید بات چیت کے ذریعہ پہلے کی جیسی صورتحال بحال کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد اور توثیق ہی کا نتیجہ تھا کہ وادی گلوان میں ہنگامہ خیز صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان معاہدوں پر بروقت عمل درآمد کے اخلاقی طرز عمل پر یقین رکھتا ہے۔ چینیوں کی خصلت برعکس ہے جوضابطہ پر مبنی حکم کو اپنے طرز عمل میں جگہ نہیں دیتے۔ چین کی طرف سے گلوان میں واقع ایل اے سی کے مقام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ داروبک – ڈی بی او کی نئی رہگزر پر نگاہ رکھ کر کچھ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ ہماری جانب سے اس کی مخالفت ہوئی۔ چین کی مسلسل ضد کی وجہ سے ایل اے سی کیقریب اس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی ۔
اس طرح چین اور ہندوستانی فوجیوں کے مابین ۱۵؍اور ۱۶؍جون ۲۰۲۰ء کو ہونے والے تنازعہ میں دونوں جانب بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا لیکن دونوں طرف کی قیادتیں ابتدائی کوششوں کے ذریعہ صورتحال کو پرسکون بنانے میں کامیاب رہیں۔ جھڑپ اور ہلاکتوں کی وجہ سے ہندوستان کے عوام شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے اورعالمی سطح پر گلوان پر توجہ مرکوز ہوگئی۔ کل جماعتی اجلاس بلایا گیا تاکہ اس واقعے اور اس کے عمومی نتائج پر بنیادی تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ چینیوں نے دھمکی کے اقدام کے طور پر وادی گلوان میں اپنی فوج کی موجودگی میں اضافہ کیا ہے لیکن ہمارے پاس کافی تعداد میں ہندوستانی فوجی موجود ہیں جو کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ایک ایسی جھڑپ جس میں فریقوں نے آتشیں اسلحے کے استعمال نہیں کیا۔ اس سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ اس سے ایل اے سی کی حیثیت میں تبدیلی آئی ہوگی اور ممکنہ طور پر دونوں جانب سی چوکیوں پر قبضہ ہوا ہوگا۔ وزیر اعظم کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یقین دہانی کہ کسی بھی ہندوستانی چوکی کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے اور ایل اے سی کی حیثیت کسی دراندازی کے بغیر مکمل طور پر برقرار ہے ،در اصل اس واقعہ پر مرکوز تھا۔ زمینی حقیقت اس کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
مزید یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ایل اے سی کے ساتھ ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کو مکمل طور پر محفوظ کرنے کے لئے کافی حد تک ہندوستانی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اور یہ کہ ہمارے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور صلاحیت سازی بلا روک ٹوک جاری رہے گی۔ بعض دفعہ دھمکی آمیز اور معلومات کی جنگ کے اصول کے مطابق چین سے چند جرات مندانہ اور کئی بار غیر معقول بیانات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزمائش کے اس مرحلے میں قومی سلامتی کے امور کے بارے میں سیاسی حلقے میں قومی سلامتی کے تعلق سے تصوراتی اختلافات کو صلاح مشورے، اعتماد سازی اور اتفاق رائے سے حل کیا جانا چاہئے جو کہ قومی ابلاغ کی حکمت عملی کے اعتبار سے ایک اہم حصہ ہے۔ اس جذبے کے تحت ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

آدھار کو قبول کرنا ہوگا… الیکشن کمیشن کو 11 دیگر دستاویزات کے ساتھ حکومت کے جاری کردہ شناختی کارڈ کو قبول کرنے کی ہدایت۔

Published

on

Aadhar-&-Court

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے بہار میں ووٹر لسٹ کی جاری خصوصی گہری نظر ثانی میں جمعہ کو ایک اہم بیان دیا۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ بہار کے ووٹر جو اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ سے اپنے ناموں کو خارج کرنے کو چیلنج کر رہے ہیں، وہ آدھار کو رہائش کے ثبوت کے طور پر جمع کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ شناختی کارڈ کو 11 دیگر شناختی کارڈز کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ عدالت نے اندازہ لگایا کہ خارج کیے گئے ووٹرز کی تعداد تقریباً 35 لاکھ ہے۔ اس میں ڈیڈ اور ڈپلیکیٹ اندراجات کی تعداد کو کم کیا گیا ہے۔ عدالت نے کمیشن سے کہا ہے کہ وہ اس کام کو جلد مکمل کرے۔ جسٹس سوریا کانت نے ہدایت دی کہ تمام دستاویزات داخل کرنے کا کام یکم ستمبر تک مکمل کر لیا جائے۔

تاہم، یہ کام آن لائن بھی مکمل کیا جا سکتا ہے، جسٹس جویمالیہ باغچی کی بنچ نے کہا۔ یہ ووٹر لسٹ کی ‘خصوصی گہری نظرثانی’ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ووٹر لسٹ میں نام کو دوبارہ شامل کرنے کی درخواست ان 11 یا آدھار میں سے کسی ایک کے ساتھ جمع کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے بہار کی سیاسی جماعتوں پر بھی سخت ریمارک کیے۔ عدالت جاننا چاہتی تھی کہ اس نے فہرست میں واپس آنے کی کوشش کرنے والے لاکھوں لوگوں کی مدد کیوں نہیں کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس ترمیم کی اس بنیاد پر مخالفت کی ہے کہ یہ ان کمیونٹیز کو ‘حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے’ جو عام طور پر انہیں ووٹ دیتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنا کام نہیں کر رہیں۔ اس نے الیکشن کمیشن کے اس تبصرے کو بھی دہرایا کہ اعتراضات انفرادی سیاستدانوں، یعنی ایم پیز اور ایم ایل ایز نے دائر کیے تھے، نہ کہ سیاسی پارٹیوں نے۔ عدالت نے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ بہار میں سیاسی پارٹیاں کیا کر رہی ہیں۔ آپ کے بی ایل اے (بوتھ لیول ایجنٹ) کیا کر رہے ہیں؟ سیاسی جماعتیں ووٹرز کی مدد کریں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پارٹیوں کے 1.6 لاکھ سے زیادہ بی ایل اے کی طرف سے صرف دو اعتراضات (ووٹرز کو باہر رکھنے پر) آئے تھے۔

Continue Reading

سیاست

نیا بل ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے کا ایک ہتھیار ہے… کھرگے نے 130ویں آئینی ترمیم پر بی جے پی کو نشانہ بنایا

Published

on

kharge

نئی دہلی : این ڈی اے اور ہندوستان اتحاد کی جانب سے نائب صدارتی انتخاب کے امیدوار کے اعلان کے بعد ملک بھر میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ بدھ کو، انڈیا الائنس کے اراکین نے انڈیا الائنس کے نائب صدر کے امیدوار، سپریم کورٹ کے سابق جج بی سدرشن ریڈی کے ساتھ سمویدھان سدن کے سینٹرل ہال میں بات چیت کی۔ اس دوران ملکارجن کھرگے نے نئے بلوں کو لے کر حکمراں بی جے پی پر سخت نشانہ لگایا۔ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے بدھ کو بی جے پی پر انڈیا الائنس میٹنگ میں پارلیمانی اکثریت کا زبردست غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 سالوں میں ہم نے پارلیمانی اکثریت کا بہت زیادہ غلط استعمال دیکھا ہے۔ جس میں ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی جیسی خود مختار ایجنسیوں کو اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے سخت اختیارات سے لیس کیا گیا ہے۔

130ویں آئینی ترمیمی بل کے بارے میں کانگریس صدر نے کہا کہ اب یہ نئے بل ریاستوں میں جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو مزید کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لیے حکمراں جماعت کے ہاتھ میں ہتھیار بننے جا رہے ہیں۔ کھرگے نے الزام لگایا کہ پارلیمنٹ میں ہم نے اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا ہے۔ ہمیں ایوان میں مفاد عامہ کے اہم مسائل اٹھانے کا بار بار موقع نہیں دیا جاتا۔ انڈیا الائنس کے نائب صدر کے امیدوار بی سدرشن ریڈی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ملکارجن کھرگے نے کہا، پارلیمنٹ میں ان خلاف ورزیوں کی مخالفت کرنے اور ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے، ملک کو نائب صدر کے طور پر ایک مثالی شخص کی ضرورت ہے۔

کھرگے نے کہا، “ہم حزب اختلاف میں بی سدرشن ریڈی کی حمایت میں متحد ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی دانشمندی، دیانتداری اور لگن ہماری قوم کو انصاف اور اتحاد پر مبنی مستقبل کی طرف تحریک اور رہنمائی فراہم کرے گی۔ ہم پارلیمنٹ کے ہر رکن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان اقدار کے تحفظ اور تحفظ کے لیے اس تاریخی کوشش میں ہمارا ساتھ دیں جو ہماری جمہوریت کو متحرک اور مستحکم بناتی ہیں۔”

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com