Connect with us
Sunday,24-November-2024
تازہ خبریں

جرم

رتلام میں منہ زور جوانی نے اپنے ہی والدین کو ہوس کی بھینٹ چڑھا کر عاشق جوڑا پہنچا جیل

Published

on

jail

خیال اثر مالیگانوی

ماضی میں بے شمار واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن میں والدین کے شادی سے انکار کے بعد نوجوان لڑکیاں اپنے عاشقوں کے ہمراہ فرار ہو جایا کرتی تھیں. چند دنوں ہوس کی آگ ٹھنڈی ہونے پر دوبارہ مرجھائی اور مسلی ہوئی کلیوں کی طرح پھر سے والدین کی چوکھٹ پر آ کر تا زندگی سماج و معاشرہ سے منہ چھپائے اپنی نادانی پر پشیمانی کے عالم میں زندگی جینے کی ناکام کوشش کرتی تھیں لیکن بدلتے دور نے نسل نو کو نت نئے گر سے اس طرح آشنا کردیا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے انسان سے حیوان بن جاتے ہیں.

ان کے لئے کسی کا قتل کر دینا بھی انتہائی آسان اور سہل ہو جاتا ہے.برسوں سے ہم سنتے آئے ہیں کہ وجود زن سےہے تصویر کائنات میں رنگ ” لیکن فی زمانہ اس مصرعہ کا مفہوم بدل کر رہ گیا ہے اس لئے اسے یوں کہنا چاہیے کہ “وجود زن ہے قتل و خون کا سبب “ایسا ہی ایک خونی واقعہ گزشتہ دنوں ضلع رتلام میں پیش آیا. رتلام کے ایک پولیس کانسٹبل کی جوان بیٹی کے تعلقات اسی شہر کے ایک 22سالہ دھننجئے نامی نوجوان سے ہو گئے. پیار و محبت کی یہ کہانی طویل سے طویل ہوتی گئی اور جب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اس نوجوان لڑکی نے اپنے ہی عاشق سے بیاہ رچانے کا عندیہ ظاہر کیا. لڑکی کے والدین اس رشتے کے لئے کسی صورت راضی ہونے کا نام نہیں لیتے تھے.

لڑکی کے والد نے اپنی جوان بیٹی پر پابندیاں بھی عائد کی .ہر طرح کی سختیاں جھیلنے کے باوجود لڑکی کے پر جوش جذبات کسی بھی صورت قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہے تھے. پولیس کانسٹبل کی نوجوان دوشیزہ اپنی نفسانی خواہشیات کی تکیمل کے لئے ہر حد سے گزرنے کو تیار تھی. دھننجئے نے بھی اپنے پیار کی زنجیروں میں اس ہوس کی غلام دوشیزہ کو کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ اسے کسی بھی انجام کی پرواہ نہیں تھی. اپنے والدین کے پچھے قدم نہ ہٹانے کے اٹل فیصلے کو دیکھتے ہوئے منہ زور جوانی کے جذبات نے اپنے والدین کو راستے سے ہٹانے کا ارادہ کر لیا. والدین کو راستے سے ہٹانے کے لئے اس بے رحم عاشق و معشوق جوڑے نے اپنے مشفق والدین کو راستے کا پتھر جان کر ملن کی راہوں سے ہٹانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا اور پھر ایک رات چار بجے لڑکی اپنے کتے کو ساتھ لئے چہل قدمی کے لئے نکلی تاکہ پڑوسیوں کو اس واردات کا علم نہ ہوسکے.

تب اس کا عاشق نظریں بچا کر لڑکی کے مکان میں داخل ہوا اور انتہائی بے رحمی سے لڑکی کے والدین جو گہری نیند سورہے تھے کا قتل کر دیا. نوجوان دھننجئے نے لڑکی کے والدین کو اپنے راستے کا پتھر سمجھ کر لمحوں میں اس کے ہی خون سے اس طرح نہلا دیا کہ ان کی آتما پرلوک سدھار گئی. اس سفاکانہ قتل کے بعد قاتل دھننجئے نامی نوجوان راہ فرار اختیار کر لی تھی.اندور کے ڈی آئی جی ہری نارائن مشرا نے کہا کہ اپنے ہی والدین کو قتل کرنے والی نابالغ لڑکی اور اس کے 22 سالہ بوائے فرینڈ کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس کا نام دھنن جے ہے وہ رتلام کا رہنے والا ہے۔واضح رہے کہ پولیس اہکار اور ان کی بیوی جمعرات کی صبح رکمنی نگر میں واقع اپنے مکان میں مردہ پائے گئے، ان کے جسموں پر زخم کے متعدد نشان تھے۔مقتولین کے نابالغ بیٹے کو اس قتل کا سب سے پہلے علم ہوا جو پڑوس میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتا تھا۔اس کی ماں اس کے دادا کیلئے چائے لے کر جانے والی تھی لیکن کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی جب وہ نہیں آئی تو بچے کے دادا نے اسے دیکھنے کیلئے بھیجا۔جب بچہ گھر میں داخل ہوا تو اس نے اپنے والدین خو خون میں لت پت زمین پر پڑا ہوا پایا۔پولیس کے مطابق جب گھر والوں کو علم ہوا کہ ان کی بیٹی بھی گھر پر نہیں ہے تو انہیں یہ گمان ہوا کہ وہ اغوا ہوگئی ہے۔لیکن ایک خط برآمد ہونے کے بعد لڑکی کلیدی مجرم کے طور پر سامنے آئی.

لاش کے جسم پر جا بجا زخموں کے نشانات دیکھ کر معلوم ہوا کہ اسے انتہائی اذیت دیتے ہوئے بری طرح سے جان لیوا زخم پہنچائے گئے تھے. لاش کے چہار جانب خون ہی خون بکھرا ہوا تھا..حواس باختہ بیٹے نے قتل کی اطلاع پولیس کو دی . چونکہ مقتول پولیس ملازم تھا اس لئے محمکہ پولیس بھی اپنی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی جانفشانی سے تفتیش میں مصروف ہو گئی. مقتول کے گھرکی ساری قیمتیں چیزیں موجود رہنے کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی کا خدشہ خارج کرتے ہوئے پولیس نے اپنی تفیش کا رخ دوسری جانب موڑ دیا. گھر کی تلاشی لینے پر پولیس کو ایک محبت بھرا مکتوب دستیاب ہوا جو کہ دھننجئے نامی نوجوان نے اپنی محبوبہ کے لئے لکھا تھا. محمکہ پولیس تلاش بسیار کے بعد دھننجئے تک جا پہنچی. پولیس کی سختیاں نہ جھیل پائے دھننجئے نے سارا عقدہ لمحوں میں فاش کردیا تب پولیس پر یہ راز کھلا کہ ان عاشق و معشوق نے منظم سازش کے تحت اس قتل کو انجام دیا ہے.

نوجوان دوشیزہ اپنی نفسانی خواہشیات کی تکمیل کے لئے اپنےباپ کو قتل کرنے کے لئے کس طرح راضی ہو گئی. سگے باپ کے قتل کے باوجود اس لڑکی کی منہ زور جوانی اپنے معشوق کے سینے سے لپٹنے کے لئے بے قرار تھی. باپ کے قتل کے بعد بھی اس الہڑ نازنین کو کسی بھی قسم کی پشیمانی کا احساس نہیں تھا. اپنے ہی سگے باپ کو قتل کرنے کے بعد یہ دوشیزہ اپنے ہی باپ کے خون سے اپنے ہاتھوں میں مہندی سجائے آج پولیس کی گرفت میں آنسو بہا رہی ہے تو پولیس ذمہ داران بھی ساری کہانی سامنے آنے پر محو حیرت ہیں کہ کیا کوئی لڑکی ہوس میں اندھی ہو کر نازوں سے پرورش کرنے والے اپنے ہی سگے باپ کے قتل کی سازش میں معاون و مدگار بن کر اپنے ہی باپ کے قتل کا سبب بن سکتی ہے دوسری طرف اس کا دل پھینک عاشق بھی وصال کی تمنا لئے پھانسی کے پھندوں کا منتظر ہے. ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں قانونی منہ شگافیوں کے طفیل یہ قاتل نوجوان عاشق و پھانسی کے پھندوں سے بچ جائیں لیکن عمر بھر یہ قاتل رومیوں جولیٹ ایک دوسرے سے دور رہ کر جیل کی سلاخوں کی گنتی کرتے رہیں گے.

ان کے وصال کی تمنائیں تا عمر ہجر کے شب و روز میں دم توڑتی جائیں گی.
یہ ہے منہ زور جوانی کی خونیں کہانی جو ایسے ہی جوانی کے جذبات میں مبتلاہر نئے زمانوں کی لیلاؤں اور مجنوؤں کو درس عبرت دیتی ہے. ساتھ ہی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی یہ بتاتی ہے کہ والدین اپنے نوجوان بچوں پر یوں ہی بےجا پابندیاں نہیں کرتے ہیں. والدین ہمیشہ ہی اپنے بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے انتہائی سوچ سمجھ کر مناسب اور بروقت فیصلہ صادر کرتے ہیں اس لئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندھے جذبات کو ہوس کا شکار نہ بننے دیں اسی میں ان کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے کیونکہ آج گلیوں گلیوں ہوس کار گدھ منڈلا رہے ہیں جونوجوان اور نا سمجھ لڑکیوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے نہ صرف انکی عزت نفس سے کھیلنے کے بعد ان نوجوان لڑکیوں کو کسی قحبہ خانے کی زینت بننے کے لئے بے یار و مدگار چھوڑ جاتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد پھر کسی دوسری ناسمجھ فاختہ کی تلاش میں نکل کر انھیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں.

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com