Connect with us
Monday,14-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

کشمیر میں سحری کے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت برابر جاری

Published

on

Muhammad Shakur

عصر حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے موبائل فون، لائوڈ اسپیکر، ڈیجیٹل الارم وغیرہ جیسی سہولیات کے باوجود بھی وادی کشمیر میں لوگوں کو ماہ رمضان میں سحری کے لئے ڈھول بجا کر اٹھانے کی روایت نہ صرف برابر برقرار ہے، بلکہ مذکورہ تمام تر سہولیات سے بہر ور ہونے کے باوجود بھی مسجد کمیٹیاں یا محلہ کمیٹیاں ‘سحر خوانوں’ کا بندوبست کرتی ہیں۔ وادی کے شہر و دیہات میں ماہ رمضان کے دوران سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لئے ڈھول بجایا جاتا ہے، اور ڈھول بجانے والے کو ‘سحر خوان’ کہا جاتا ہے، جو رات کے سناٹے اور گھپ اندھیرے میں جان بکف اپنے مقررہ علاقے میں گلی گلی گھومتے ہوئے ڈھول بجا کر اور ‘وقت سحر’ کی آوازیں دے کر لوگوں کو جگاتا ہے۔

سرحدی ضلع کپوارہ کے کلاروس علاقے سے تعلق رکھنے والا 23 سالہ محمد شکور شہر سری نگر کے نور باغ، صفا کدل و ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے لئے سحری کے وقت ڈھول بجا کر جگانے کی خدمت گذشتہ چھ برسوں سے مسلسل انجام دے رہا ہے۔

موصوف سحر خوان نے گفتگو میں کہا کہ میں گذشتہ چھ برسوں سے یہاں یہ کام انجام دے رہا ہوں، اور مذکورہ علاقوں کی گلی کوچوں میں جا کر لوگوں کو سحری کے لئے بیدار کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا: ’میرے ساتھ میرا دوسرا ساتھی راجا امتیاز بھی ہوتا ہے جس کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتا ہے تاکہ وہ سڑکوں پر موجود آوارہ کتوں کے حملوں سے بچانے میں کام آئے‘۔

ان کا کہنا تھا: ’قبل ازیں میں ایک بجے رات کو ہی نکتا تھا اور لوگوں کو اٹھاتا تھا لیکن امسال چونکہ ماہ رمضان ماہ اپریل میں آیا جس کی وجہ سے وقت بدل گیا اور میں اب تین بجے رات کو نکل کر لوگوں کو سحری کے لئے اٹھاتا ہوں‘۔ محمد مشکور نے کہا کہ میں یہ کام صرف ثواب حاصل کرنے کے مقصد سے ہی انجام دیتا ہوں۔

انہوں نے کہا: ’لیکن لوگ ہدیہ بھی دیتے ہیں جس کا میں کوئی مطالبہ نہیں کرتا ہوں وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اور اس ہدیے سے میری گھریلو ضروریات پوری ہوجاتی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘لوگ مجھے دیکھ کرخوش ہو جاتے ہیں اور میری عزت بھی کرتے ہیں’۔ موصوف سحر خوان نے کہا کہ یہ کام انجام دینے سے مجھے کافی سکون ملتا ہے اور میں خود بھی وقت پر عبادات انجام دے پا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سال کے باقی گیارہ ماہ گھریلو کام کرتا ہوں لیکن میں نے یہ ایک ماہ اسی کار ثواب کی انجام دہی کے لئے مخصوص رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میرا بڑا بھائی یہ کام کرتا تھا اور میں اس کے ساتھ آیا کرتا تھا اور اب میں خود یہ کام کرتا ہوں۔

دریں اثنا محمد اشرف نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں سحر خوان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے اور وہ ان پر الارم رکھ کر آسانی سے سحری کے وقت اٹھ سکتے ہیں۔

تاہم وادی کے بزرگ لوگوں کا کہنا ہے کہ سحر خوان کا سحری کے وقت لوگوں کو اٹھانا اب ہماری شاندار ثقافت کا ایک حصہ بن گیا ہے جو ہر حال میں جاری رہنا چاہئے۔ خورشید احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ سحر خوانوں کی طرف سے ڈھول بجا کر جگانے میں کچھ الگ ہی لطف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ روایت اب ہمارے معاشرے کا ایک حصہ بن گئی ہے جس کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سحر کے وقت ڈھول بجنے کی آواز سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا سحری کے متبرک ترین وقت پر بیدار ہو رہی ہے۔

موصوف شہری نے کہا کہ اس سے میری بچپن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور آج بھی بچے سحری کے وقت ڈھول کی آوازیں سن کر خوش بھی ہو جاتے ہیں، اور تر تازہ بھی ہو جاتے ہیں۔

سیاست

مہاراشٹر اسمبلی میں چڈی بینان گینگ پر ہنگامہ، ادیتہ ٹھاکرے کے بیان پر نلیش رانے کا اعتراض، اسمبلی کے کام کاج سے گینگ حذف کا مطالبہ

Published

on

Nilesh-Rane

ممبئی : مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن اور حکمراں محاذ میں نوک جھونک کے بعد اب ایوان میں چڈی بنیان گینگ پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ مہاراشٹر اسمبلی میں اس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا, جب شیوسینا یو بی ٹی لیڈر ادیتہ ٹھاکرے نے ایوان اسمبلی میں چڈی بنیان گینگ کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا, جس کے بعد شندے سینا کے رکن اسمبلی نلیش رانے نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے چڈی بنیان لفظ اسمبلی کے کام کاج سے حذف کرنے کا مطالبہ کیا اور ادیتہ ٹھاکرے پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ آپ یہ واضح کرے کہ چڈی بنیان والا کون ہے۔ ادیتہ ٹھاکرے نے ایوان اسمبلی میں کہا کہ وزیر اعلیٰ اب تک خاموش تھے, لیکن اب وزیر اعلیٰ ممبئی کے سہولیات اور مطالبات کی جانب توجہ مرکوز کرے اور وہ چڈی بنیان گینگ پر سخت کارروائی کرے۔ اس پر نلیش رانے نے اعتراض کیا اور کام کاج سے چڈی بنیان گینگ حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ادیتہ ٹھاکرے کو چلینج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو یہ واضح کرے کہ انہوں نے چڈی بنیان کسے کہا ہے۔ اس سے ایوان اسمبلی میں غلغلہ شروع ہوگیا اور حالات کشیدہ ہوگئے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

گائے اور بیل کے گوشت کے نام پر قریشی برادری کی ہراسائی بند ہو، اسمبلی میں ابوعاصم اعظمی کا پرزور مطالبہ

Published

on

asim...2

ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے ایوان اسمبلی میں قریشی برادری کو ہراساں اور ٹارچر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے معرفت ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنانے کا سنگین الزام عائد کرتے ہوئے بھینس کا گوشت ضائع کرنے کے ساتھ بیوپاری پر کیس درج کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۱۱ جولائی کو تھانہ سے میرا بھائیندر ایک گاڑی گوشت لے کر گزر رہی تھی, اس دوران سرپسندوں نے اس گاڑی کو روک دیا اور پھر دو افراد کے خلاف مقدمہ قائم کیا اتنا ہی نہیں اس گوشت کو ممنوعہ جانور یعنی بیل اور گائے کا گوشت قرار دیا گیا اور پھر اس گوشت کی ضبطی ہوئی اور عدالت میں پولس نے کہا کہ ضبط شدہ گوشت سے بدبو آرہی ہے, جس کے بعد اس گوشت کو تباہ اور ضائع کرنے کا حکم دیا گیا۔ قریشی برادری گوشت فروخت کا کاروبار کرتی ہے اور وہ کسی ممنوعہ جانور کا گوشت نہیں تھا۔ قابل اجازت بھینس کا گوشت تھا انہوں نے سنگین الزام عائد لگاتے ہوئے کہا کہ جس گوشت کے سلاٹر اور ذبیحہ کی اجازت ہے, اس گوشت کی رسید اگر مسلم بیوپاری کے نام ہو تو اسے ہراساں کیا جاتا ہے, اگر کوئی مسلمان بیل یا گائے پرورش کے لئے لیجاتا ہے تو اس پر تشدد برپا کیا جاتا ہے۔ گائے اور بیل کے نام پر قریشی برادری اور مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے, جو گئو کشی پر پابندی عائد ہے اور اگر کوئی گئوکشی یا ممنوعہ جانور کا ذبیحہ کرتا ہے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ لیکن اس طرح سے قریشی برادری کو پریشان و ہراساں نہ کیا جائے اس پر وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کی توجہ مبذول کرائی, جس پر وزیر اعلی نے کہا کہ اس پر توجہ دی جائے گی۔ اعظمی نے بتایا کہ قریشی برادری کی ہراسائی کے سبب اب قریشی ہڑتال پر ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

تنازعہ کے بعد مہاراشٹر حکومت ہومیو پیتھی ڈاکٹروں کو جدید ادویات تجویز کرنے کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے سے ہٹی پیچھے۔

Published

on

D.-Fadnavis

ممبئی : مہاراشٹر حکومت نے بڑا فیصلہ لیا ہے۔ حکومت نے ہومیوپیتھی ڈاکٹروں کو جدید ادویات تجویز کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب حکومت اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ حکومت نے 7 رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔ یہ کمیٹی دو ماہ میں اس معاملے پر فیصلہ کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نہ تو ہومیوپیتھی ڈاکٹروں اور نہ ہی انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو وہ کمیٹی کے فیصلے کو قبول کریں گے۔ دونوں جماعتیں کمیٹی کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ اس کمیٹی میں محکمہ میڈیکل ایجوکیشن، ڈائریکٹوریٹ آف آیوش، مہاراشٹر ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کے افسران شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ماڈرن میڈیسن اور ہومیوپیتھی کونسلز کے رجسٹرار بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

آئی ایم اے (مہاراشٹر) کے سربراہ سنتوش کدم نے کہا کہ یہ مقدمہ مسئلہ کی جڑ کو چیلنج کرتا ہے۔ انہوں نے مہاراشٹر ہومیوپیتھک پریکٹیشنرز ایکٹ اور مہاراشٹر میڈیکل کونسل ایکٹ 1965 میں 2014 میں کی گئی ترمیم پر سوال اٹھایا۔ یہ ترامیم ابھی تک بمبئی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ کدم نے کہا کہ کمیٹی اس معاملے پر غور کر سکتی ہے، لیکن اگر ان کا فیصلہ مفاد عامہ کے خلاف ہے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ عدالت کا فیصلہ ہمارے لیے حتمی ہو گا۔ ہمیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔

مہاراشٹر ہومیوپیتھک کونسل کے ایڈمنسٹریٹر باہوبلی شاہ نے کہا کہ کمیٹی پر کوئی بھروسہ نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی ہومیوپیتھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اس نے کمیٹی میں ایک کلرک کو رکھا ہے۔ شاہ کہتے ہیں کہ کمیٹی میں ہومیوپیتھی کے ماہرین کو ہونا چاہیے تھا۔ گزشتہ 10 دنوں سے طبی برادری میں تشویش پائی جا رہی تھی کہ ہومیوپیتھی ڈاکٹروں کو ایک سالہ فارماکولوجی کورس کی بنیاد پر جدید ادویات تجویز کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے لوگوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ فارماکولوجی کورس ادویات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ جدید ادویات تجویز کرنے کے لیے زیادہ علم اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com