(جنرل (عام
محکمہ اقلیتی فلاح و بہود حکومت ہند نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کورول ماڈل کے طور پر تسلیم کیا ہے : عبدالقیوم انصاری

بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے طریقہ تعلیم اور اس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہود حکومت ہند نے رول ماڈل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہ بات بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین عبدالقیوم انصاری نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستان کیلئے ایک مثالی بورڈ مانا گیا ہے، جس کو پورے ہندوستان میں نافذ کئے جانے کی امید ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں 9 ستمبر کو مدرسہ بورڈ کی رپورٹ Best Practices Report of Bihar State Madrasa Education Board, Patna نئی دہلی میں پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ اقلیتی بہبود حکومت ہند نے تمام مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ماڈل کو اپنائیں، جو دینی اور عصری تعلیم کا سنگم ہے۔
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہار کے وزیر اعلی: نتیش کمار کی رہنمائی میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مایہ ناز ماہرین تعلیم کے ذریعہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کا جدید نصاب تعلیم تیار ہوا۔ جس میں وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی درجات کے نصاب تعلیم کو از سر نو مرتب کیا گیا۔
نصاب کمیٹی کی نشست یو این او (U.N.O) کی شاخ یونیسیف کے تعاون سے یونیسیف کے آفس پاٹلی پترا، پٹنہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں درجہ ایک سے 8 تک تحتانیہ درجہ۔1 اور وسطانیہ درجہ۔8 تک مذہبی کتاب کے ساتھ ایس سی ای آر ٹی کی کتابیں شامل کی گئی، اور درجہ 9-10 فوقانیہ درجہ 11-12 مولوی میں مذہبی کتاب کے ساتھ این سی ای آر ٹی کی کتابیں شامل کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی درجہ مولوی کے تین شعبہ مولوی آرٹس، مولوی سائنس، اور مولوی کامرس کے نصاب بھی تیار کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مولوی کے نصاب میں جدت پیدا کرتے ہوئے مولوی اسلامیات کا شعبہ قائم کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ سبھی درجات کے جملہ موضوعات کے ضمن میں حکومت بہار کے رہنماء اصول کے تحت (Guide Line) Learning Outcome بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس کی طباعت کرا کر پورے بہار تمام مدارس کو فراہم کرائی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی یونیسیف کے تعاون سے لرننگ آؤٹ کم کی ٹریننگ زوم کے ذریعہ تین ہزار مدارس کے اساتذہ کو کرائی گئی ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا کہ اساتذہ کرام کو کیا پڑھانا ہے، اور کیسے پڑھانا ہے، اس سے ان کی تلقین ہوگی۔
مسٹر عبدالقیوم انصاری نے بتایا کہ مدرسہ بورڈ کے جدید نصاب تعلیم میں مذہبی کتابوں کے ساتھ عصری علوم کی تدریس کیلئے درجہ1 سے لیکر 8 تک ایس سی ای آر ٹی (SCERT) اور درجہ 9 سے 12 تک کیلئے مذہبی کتابوں کے ساتھ عصری علوم کی تدریس کیلئے این سی ای آر ٹی (NCERT) کی کتابیں شامل نصاب کی گئی ہیں۔ ایس سی ای آر ٹی اور این سی ای آر ٹی کی کتابیں بہار ٹیکسٹ بک کارپوریشن لیمیٹیڈ سے شائع کرا کر مدارس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کیلئے فراہم کرادی گئی ہیں۔ مدارس ملحقہ کی لائبریری کیلئے دفتر مدرسہ بورڈ کے ذریعہ وسطانیہ تا مولوی پر مشتمل درسی کتابیں فراہم کرائی جا چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مدرسہ بورڈ کے جدید نصاب تعلیم میں درجہ تحتانیہ اولیٰ تا وسطانیہ (1to 8) ایس سی ای آر ٹی اور درجہ فوقانیہ اولیٰ سے مولوی (9to 12) تک عصری علوم کی کتابیں این سی ای آر ٹی (NCERT) کی عصری کتابیں شامل نصاب کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی مشرقی علوم (عربی و دینیات) کی کتابوں میں بھی جدت اختیار کی گئی ہے، اور یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ وسطانیہ تا مولوی کی درسی کتابیں آن لائن (Online) مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ویب سائٹ www.bsmeb.org پر اپلوڈ (Upload) کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی علوم کی کتابیں بھی اپلوڈ کر دی گئی ہیں۔ مدارس کے اساتذہ کرام و طلباء و طالبات آن۔لائن موضوع اور درسی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں، اور ضرورت محسوس کرنے پر اسے ڈاؤن لوڈ (Download) بھی کر سکتے ہیں۔ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات اور دیگر عوام کے لئے بھی یہ سہولت فراہم ہے۔
اسی کے ساتھ انہوں نے کہاکہ تحتانیہ،وسطانیہ تا مولوی درجات کی نصابی کتابوں کی فراہمی کے لئے ریاست بہار میں دو کاؤنٹر کھولے جا چکے ہیں۔ درسی کتابیں طباعتی قیمت (Print-rate) پر دفتر بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ، اپیکس ٹاور، ہارون نگر سیکٹر۔2 اور علاقائی دفتر مدرسہ بورڈ جو پورنیہ میں دستیاب ہے۔ مدارس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کے ذریعہ کتابوں کی خریداری متواتر جاری ہے۔
اس کے علاوہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ نے ’مکھ منتری مدرسہ پستک وترن بھان‘ کا انتظام کیا ہے، جس کے ذریعہ تحتانیہ، وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی کی درسی کتابیں ریاست بہار کے مدارس اور اس کے گردو نواح میں خواہش مند حضرات تک گھر گھر جا کر درسی کتابیں فراہم کرائی جا چکی ہیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مسٹر انصاری نے کہا کہ ریاست بہار میں 4000 ہزار منظور شدہ مدارس ہیں، جن میں سے تقریباً 2000 مدارس گرانٹ شدہ ہیں۔ ان سبھی مدارس میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کو وزیر اعلیٰ بہار کے ذریعہ سائیکل، اسٹائپن، مڈ ڈے میل، پوشاک منصوبہ کو لاگو کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعلیٰ حوصلہ افزائی منصوبہ کے تحت درجہ فوقانیہ (میٹرک) میں اول مقام حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو 10 ہزار روپئے درجہ مولوی (انٹر) میں اول مقام حاصل کرنے والی طالبات کو 15 ہزار روپئے دیئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین ہند کے دفعہ 28 (2) کے تحت جس ادارے میں دینی تعلیم کا نظام ہوگا، اور جو سرکاری مراعات حاصل کرتا ہے، اس ادارہ کو ٹرسٹ کے ذریعہ رجسٹرڈ (Registered) ہونا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ایڈیشنل چیف سکریٹری محکمہ تعلیم نے اپنے مکتوب نمبر۔10@ew&148@2019 1360 مورخہ30@11@2019 کے ذریعہ مدرسوں کی انتظامیہ کا رجسٹریشن (Registration) ٹرسٹ یا سوسائیٹی سے کرانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس لئے ریاست بہار کے جملہ مدارس کی انتظامیہ کو ٹرسٹ یا سوسائیٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت اپنی انتظامیہ کو رجسٹرڈ کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بہار کے زیادہ تر مدارس ملحقہ کی مجلس انتظامیہ رجسٹرڈ ہو چکی ہیں، اور جن مدارس نے اپنی کمیٹی کو رجسٹرڈ تا ہنوز نہیں کرایا ہے، اس کیلئے دفتر مدرسہ بورڈ سے اجتماعی فرمان جاری کر دیا گیا ہے۔
عنقریب کابینہ (Cabinete) سے اس کی منظوری مل جائے گی، جس سے مدرسہ بورڈ اور مدارس ملحقہ کا نظام مزید بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ مدرسہ بورڈ میں انفارمیشن ٹکنالوجی سیکشن کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے۔ وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی کا داخلہ آن لائن کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امتحان فارم بھی آن لائن بھرے جا رہے ہیں۔ واضح ہو کہ داخلہ کارڈ یعنی ایڈمٹ کارڈ و نتائج امتحانات بھی آن لائن جاری کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی طلباء و طالبات کو مارکشیٹ بھی آن لائن ڈاؤن لوڈ (Download) کرنے کی سہولت فراہم ہے۔ ریاست بہار کے مختلف اضلاع میں موجود مدرسوں کے مدرسین، کمیٹی کے ممبران کے ساتھ گاؤں کی عوام کے ذریعہ آن لائن درخواستیں دی جاتی ہیں، اور اس کا جواب بھی آن لائن دیا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں اپنا سرور (Server) نصب کر دیا گیا ہے۔ جس سے دفتر کو کسی دوسرے سرور کی مدد اب نہیں لینی پڑتی ہے۔ مدرسہ بورڈ کے ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق تمام کام اسی سرور کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ جس پر آئی ٹی سیکشن کے آئی ٹی انچارج کو مامور کیا گیا ہے۔
مدرسہ بورڈ کے چیرمین نے کہا کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور یونیسیف کے مشترکہ تعاون سے درجہ فوقانیہ و مولوی معیار کے طلباء و طالبات کے لئے Career Guidance Programme کی شروعات کی گئی ہے۔ اس پروگرام کے توسط سے طلباء و طالبات کو یہ سہولت فراہم کرائی گئی ہے۔ ساتھ ہی آگے کی تعلیم کیلئے طلباء و طالبات کو موضوع وار تعلیم گاہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس نہج پر کون کون سے نوکری پا سکتے ہیں، یہ بھی بتایا گیا ہے۔
(جنرل (عام
وقف بل پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اویسی اور کانگریس کے بعد آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کا دروازہ

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعہ اب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ خان نے درخواست میں درخواست کی کہ وقف (ترمیمی) بل کو “غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کی خلاف ورزی کرنے والا” قرار دیا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ بل آئین کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے حکومت کو من مانی کرنے کا اختیار ملتا ہے اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے جمعہ کو وقف ترمیمی بل 2025 کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ جاوید کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر “من مانی پابندیاں” فراہم کرتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔ ایڈوکیٹ انس تنویر کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے کیونکہ یہ پابندیاں عائد کرتا ہے جو دیگر مذہبی اوقاف میں موجود نہیں ہیں۔ بہار کے کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن جاوید اس بل کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن تھے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بل میں یہ شرط ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کی بنیاد پر ہی وقف کا اندراج کرا سکتا ہے۔
اس دوران اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس بل کے ذریعے وقف املاک کا تحفظ چھین لیا گیا ہے جبکہ ہندو، جین، سکھ مذہبی اور خیراتی اداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے۔ اویسی کی درخواست، جو ایڈوکیٹ لازفیر احمد کے ذریعہ دائر کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “دوسرے مذاہب کے مذہبی اور خیراتی اوقاف کے تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتی ہے۔” عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم وقفوں اور ان کے ریگولیٹری فریم ورک کو دیے گئے قانونی تحفظات کو “کمزور” کرتی ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز اور گروپوں کو ناجائز فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اویسی نے کہا، ’’مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نازک آئینی توازن کو بگاڑ دے گی۔‘‘ آپ کو بتاتے چلیں کہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔ لوک سبھا نے 3 اپریل کو بل کو منظوری دی تھی۔ لوک سبھا میں 288 ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ 232 نے اس کی مخالفت کی۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔
اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔
اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔
قومی
کیا نیا وقف بل مسلم کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے…؟

حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیا گیا نیا وقف بل ایک مرتبہ پھر مسلم کمیونٹی میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ملک بھر میں وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام، شفافیت، اور ان کے غلط استعمال کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس بل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی مسلم کمیونٹی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ نئے بل میں چند اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جیسے کہ وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ، وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل رجسٹری، اور غیر قانونی قبضوں کے خلاف سخت کارروائی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف اثاثوں کا تحفظ ممکن ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال تعلیم، صحت، اور فلاحی منصوبوں میں کیا جا سکے گا۔
تاہم، کچھ مذہبی و سماجی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں خالصتاً مذہبی امور سے منسلک ہیں، اور حکومت کی براہِ راست مداخلت مذہبی خودمختاری پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بعض افراد کا خدشہ ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرین قانون اور کچھ اصلاح پسند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر بل کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وقف اثاثے، جو اب تک بد انتظامی یا غیر قانونی قبضوں کی نظر ہوتے آئے ہیں، ان کے بہتر انتظام سے کمیونٹی کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔
پرانے اور نئے وقف بل میں کیا فرق ہے؟
پرانا وقف قانون :
پرانا وقف قانون 1995 میں “وقف ایکٹ 1995” کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں موجود لاکھوں وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام اور تحفظ تھا۔
اس قانون کے تحت:
- ریاستی وقف بورڈز قائم کیے گئے۔
- وقف جائیدادوں کے انتظام کی ذمہ داری وقف بورڈ کے سپرد کی گئی۔
- وقف کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
- متولی (منتظم) کی تقرری بورڈ کی منظوری سے ہوتی تھی۔
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں عمل درآمد کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، بدعنوانی، اور غیر مؤثر نگرانی جیسے مسائل بڑھتے چلے گئے۔
نیا وقف بل :
نئے وقف بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن کا مقصد وقف نظام کو زیادہ شفاف، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ ان میں شامل ہیں :
- ڈیجیٹل رجسٹری : تمام وقف جائیدادوں کی آن لائن رجسٹری اور ان کی نگرانی کا نظام۔
- مرکزی ڈیٹا بیس : ایک قومی سطح کا وقف پورٹل بنایا جائے گا جہاں تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
- غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی : قبضے کی صورت میں فوری انخلا کے لیے قانونی اختیار دیا گیا ہے۔
- انتظامی شفافیت : وقف بورڈ کی کارروائیوں کو شفاف بنانے اور آڈٹ سسٹم کو سخت بنانے کی تجویز۔
- شکایتی نظام : عوام کے لیے ایک فعال شکایت سیل کا قیام تاکہ وقف سے متعلق بدعنوانی یا زیادتیوں کی شکایت کی جا سکے۔
فرق کا خلاصہ:
| پہلو… | پرانا وقف قانون (1995) | نیا وقف بل (2025)
1995 رجسٹریشن | دستی رجسٹری |
2025 ڈیجیٹل رجسٹری و قومی پورٹل |
1995 نگرانی | ریاستی سطح پر |
2025 قومی سطح پر نگرانی و ڈیٹا بیس |
1995 شفافیت, محدود |
2025 بڑھتی ہوئی شفافیت و آڈٹ سسٹم |
1995 قبضہ ہٹانے کا نظام | پیچیدہ قانونی طریقہ کار |
2025 فوری قانونی کارروائی کا اختیار |
1995 عوامی شمولیت | کمزور شکایت نظام |
2025 فعال شکایتی نظام |
نئے وقف بل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفافیت میں اضافہ اور انتظامی اصلاحات جیسے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، کچھ ماہرین اور مذہبی حلقوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کہیں خودمختاری کو متاثر نہ کرے۔ بل کے اصل اثرات اس کے نفاذ اور عملدرآمد کے طریقہ کار پر منحصر ہوں گے۔ فی الحال، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہوگا یا نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بل کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، اور کمیونٹی کی رائے کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا